قاتل تھا جو، وہ مقتول ہُوا ( ماجد صدیقی )

غدیر زھرا

لائبریرین
قاتل تھا جو، وہ مقتول ہُوا
مردُود، بہت مقبول ہُوا
ہر طُول کو عرض کیا اُس نے
اور عرض تھا جو وہ طُول ہُوا
پھولوں پہ تصّرف تھا جس کا
وہ دشت و جبل کی دھُول ہُوا
اِک بھول پہ ڈٹنے پر اُس نے
جو کام کیا، وہ اصول ہُوا
گنگا بھی بہم جس کو نہ ہُوا
جلنے پہ وہ ایسا پھول ہُوا
ہو کیسے سپھل پیوندوں سے
ماجد جو پیڑ، ببول ہُوا

( ماجد صدیقی )
 

تلمیذ

لائبریرین
بہت عمدہ کلام۔
اس مصرعے میں 'گنگا' مؤنث نہیں ہونی چاہئے تھی؟
گنگا بھی بہم جس کو نہ ہُوا

محترم الف عین اور جناب @محمدیعقوب آسی سے توجہ کی گذارش ہے۔
 
Top