ناصر علی مرزا
معطل
قاتل موسم کے انتظار میں تھے...منصور آفاق
میں نے حامد میر کے بارے میں چند ماہ پہلے لکھا تھا
’’حامد میر کو سچ لکھنے کے جرم میں طالبان نے موت کی دھمکی دی ہے اور اس نے دھمکی کے جواب میں کہا ہے ’’تم پرویز مشرف سے زیادہ طاقتور نہیں ۔تم مجھے قتل کر سکتے ہو، میری آواز نہیں دبا سکتے‘‘اللہ تعالیٰ حامد میر کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔میں اسلئے بہت فکر مند ہوں کیونکہ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘۔
حامد میر جب پیدا ہوئے ایوب خان نے مارشل لا لگا رکھا تھاپھر یحییٰ خان نے لگا دیاپھر ذراساجمہوریت کا دور دیکھاتو ایک اور مارشل لا پاکستان کی تاریخ میں مدو جزر پیدا کرنے لگا پھر ایک اور...یا وہ کہہ سکتے ہیں کہ تیغوں یعنی سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں مگر سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے قلم کار کی سائیکی جیسی ہونے چاہئے، حامد میر کی سائیکی ویسی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی علامتوں اور استعاروں کی مدد سے روشنی اور خوشبو کی گفتگو نہیں کی۔ کبھی آدھے سچ کا شور نہیں مچایا وہ پورے سچ کے ساتھ چار پانچ وردی پوشوں اور دس لاکھ کالی نیلی پگڑیوں کے سامنے اپنی کمان میں قلم کا تیر کھینچ کر اکیلے کھڑے ہیں اور آج کے پاکستانی سماج میں یہ کام کسی صحیح الدماغ آدمی کا نہیں سمجھا جاسکتاجہاں بڑے بڑے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں
مرا گھر ہے مری بیوی ہے مرے بچے ہیں
ساغرِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں
میں حامد میر سے چار سال پہلے پیدا ہوا اس وقت بھی پاکستان میں مارشل لا ہوا کرتا تھا ۔میں نے جب ذرا سا ہوش سنبھالا تو اپنے بابا کو پاکستان کے غم میں روتے ہوئے دیکھا مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں ایک’’ کانی چارپائی ہوتی تھی۔اس کا ایک پایہ بٹھانے کی کوشش کرتے تھے تو دوسرا خراب ہو جاتا تھا دوسرا بٹھاتے تھے تو تیسرا کونا خراب ہوجاتا تھا۔تیسرے کو ٹھیک کیا جاتا تھا تو چوتھا خراب ہو جاتا تھا۔ میرے بابانے اس کا نام پاکستان رکھا ہوا تھا۔وہ حامد میر کے بابا وارث میر کے مداح تھے اور میں حامد میر کا مداح ہوں۔ حامد میر کے والد گرامی بھی ایک عظیم مجاہد تھے۔ زندگی بھر پاکستان کی خاطر مارشل لاؤں سے جنگ لڑتے رہے اور قلم کے وہ مجاہد اسی جنگ میں دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ میرے بابا کا خیال تھا کہ حامد میر کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ وارث میر کے بیٹے ہیں اور میرے خیال میں وارث میر کیلئے بھی سب سے بڑا اعزاز یہی ہے کہ وہ حامد میر کے بابا تھے۔ سچ پوچھئے تو یہ حیرت انگیز واقعہ بھی صرف اسی گھر میں رونما ہوا ہے کہ برگد کے سائے میں ایک اور برگد نے جنم لے لیا ہے ۔تاریخ ایسے لوگ بہت کم دکھائی دیتے ہیں کہ بڑے باپ کا بیٹا بھی باپ کی طرح بڑا آدمی ہو۔ زیادہ تر علامہ اقبال کے گھر جاوید اقبال ہی پیدا ہوتے ہیں۔
یہ جو کچھ حامد میر کیلئے لکھا ہے میرے خیال میں یہ بہت کم ہے اور اس وقت اس لئے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ میں نے لکھا تھا ’’میں جانتا ہوں کسی رائفل کی اندھی گولی حامد میر کے تعاقب میں ہے۔دوستو حامد میرمانیں یا نہ مانیں ان کی زندگی خطرے میں ہے۔قاتل موسم کے انتظار میں ہیں۔خدا نہ کرے وہ موسم کبھی حامد میر کی گلیوں میں آئے ۔میرا وہم وہم ہی رہے میں اتنا جانتا ہوں کہ طالبان حامد کو نہیں مار سکتے مگر ....‘‘۔
بے شک فوج کے ساتھ حامد میر کے اختلافات خاصے تھے مگر میرے خیال میں حامد میر پر قاتلانہ حملے میں فوج کے ملوث ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن اس وقت چونکہ فوج پر الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ وہ اپنے تمام تروسائل بروکار لاکر مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرے۔ اس موسم میں حامد میر پر قاتلانہ حملے کی وجوہات کچھ اور بھی ہو سکتی ہیں، ممکن ہے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی ملک دشمن قوت اس کے پس منظر میں ہو۔وہ لو گ بھی ہوسکتے ہیں جن کے حوالے سے میں نے مہینوں پہلے لکھا تھا کہ حامد میر کی زندگی خطرے میں ہے ۔فوج اگر اس سلسلے میں واقعی بے گناہ ہے تو پھر عدالت کے دروازے پہ دستک دینی چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں وگرنہ فوج کی خاموشی ہمیں فراز کا یہ مصرع دہرانے پر مجبور کردے گی۔ پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں۔اللہ نہ کرے کہ احمد فراز کا یہ مصرعہ سچ ثابت ہو۔
میں نے حامد میر کے بارے میں چند ماہ پہلے لکھا تھا
’’حامد میر کو سچ لکھنے کے جرم میں طالبان نے موت کی دھمکی دی ہے اور اس نے دھمکی کے جواب میں کہا ہے ’’تم پرویز مشرف سے زیادہ طاقتور نہیں ۔تم مجھے قتل کر سکتے ہو، میری آواز نہیں دبا سکتے‘‘اللہ تعالیٰ حامد میر کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔میں اسلئے بہت فکر مند ہوں کیونکہ’’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘۔
حامد میر جب پیدا ہوئے ایوب خان نے مارشل لا لگا رکھا تھاپھر یحییٰ خان نے لگا دیاپھر ذراساجمہوریت کا دور دیکھاتو ایک اور مارشل لا پاکستان کی تاریخ میں مدو جزر پیدا کرنے لگا پھر ایک اور...یا وہ کہہ سکتے ہیں کہ تیغوں یعنی سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہوئے ہیں مگر سنگینوں کے سائے میں پل کر جوان ہونے والے قلم کار کی سائیکی جیسی ہونے چاہئے، حامد میر کی سائیکی ویسی نہیں ہے۔ انہوں نے کبھی علامتوں اور استعاروں کی مدد سے روشنی اور خوشبو کی گفتگو نہیں کی۔ کبھی آدھے سچ کا شور نہیں مچایا وہ پورے سچ کے ساتھ چار پانچ وردی پوشوں اور دس لاکھ کالی نیلی پگڑیوں کے سامنے اپنی کمان میں قلم کا تیر کھینچ کر اکیلے کھڑے ہیں اور آج کے پاکستانی سماج میں یہ کام کسی صحیح الدماغ آدمی کا نہیں سمجھا جاسکتاجہاں بڑے بڑے یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں
مرا گھر ہے مری بیوی ہے مرے بچے ہیں
ساغرِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں
میں حامد میر سے چار سال پہلے پیدا ہوا اس وقت بھی پاکستان میں مارشل لا ہوا کرتا تھا ۔میں نے جب ذرا سا ہوش سنبھالا تو اپنے بابا کو پاکستان کے غم میں روتے ہوئے دیکھا مجھے یاد ہے ہمارے گھر میں ایک’’ کانی چارپائی ہوتی تھی۔اس کا ایک پایہ بٹھانے کی کوشش کرتے تھے تو دوسرا خراب ہو جاتا تھا دوسرا بٹھاتے تھے تو تیسرا کونا خراب ہوجاتا تھا۔تیسرے کو ٹھیک کیا جاتا تھا تو چوتھا خراب ہو جاتا تھا۔ میرے بابانے اس کا نام پاکستان رکھا ہوا تھا۔وہ حامد میر کے بابا وارث میر کے مداح تھے اور میں حامد میر کا مداح ہوں۔ حامد میر کے والد گرامی بھی ایک عظیم مجاہد تھے۔ زندگی بھر پاکستان کی خاطر مارشل لاؤں سے جنگ لڑتے رہے اور قلم کے وہ مجاہد اسی جنگ میں دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔ میرے بابا کا خیال تھا کہ حامد میر کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ وہ وارث میر کے بیٹے ہیں اور میرے خیال میں وارث میر کیلئے بھی سب سے بڑا اعزاز یہی ہے کہ وہ حامد میر کے بابا تھے۔ سچ پوچھئے تو یہ حیرت انگیز واقعہ بھی صرف اسی گھر میں رونما ہوا ہے کہ برگد کے سائے میں ایک اور برگد نے جنم لے لیا ہے ۔تاریخ ایسے لوگ بہت کم دکھائی دیتے ہیں کہ بڑے باپ کا بیٹا بھی باپ کی طرح بڑا آدمی ہو۔ زیادہ تر علامہ اقبال کے گھر جاوید اقبال ہی پیدا ہوتے ہیں۔
یہ جو کچھ حامد میر کیلئے لکھا ہے میرے خیال میں یہ بہت کم ہے اور اس وقت اس لئے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ میں نے لکھا تھا ’’میں جانتا ہوں کسی رائفل کی اندھی گولی حامد میر کے تعاقب میں ہے۔دوستو حامد میرمانیں یا نہ مانیں ان کی زندگی خطرے میں ہے۔قاتل موسم کے انتظار میں ہیں۔خدا نہ کرے وہ موسم کبھی حامد میر کی گلیوں میں آئے ۔میرا وہم وہم ہی رہے میں اتنا جانتا ہوں کہ طالبان حامد کو نہیں مار سکتے مگر ....‘‘۔
بے شک فوج کے ساتھ حامد میر کے اختلافات خاصے تھے مگر میرے خیال میں حامد میر پر قاتلانہ حملے میں فوج کے ملوث ہونے کے امکانات کم ہیں لیکن اس وقت چونکہ فوج پر الزام عائد کر دیا گیا ہے۔ اس لئے اسے چاہئے کہ وہ اپنے تمام تروسائل بروکار لاکر مجرموں کو فوری طور پر گرفتار کرے۔ اس موسم میں حامد میر پر قاتلانہ حملے کی وجوہات کچھ اور بھی ہو سکتی ہیں، ممکن ہے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی ملک دشمن قوت اس کے پس منظر میں ہو۔وہ لو گ بھی ہوسکتے ہیں جن کے حوالے سے میں نے مہینوں پہلے لکھا تھا کہ حامد میر کی زندگی خطرے میں ہے ۔فوج اگر اس سلسلے میں واقعی بے گناہ ہے تو پھر عدالت کے دروازے پہ دستک دینی چاہئے اور ثابت کرنا چاہئے کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں وگرنہ فوج کی خاموشی ہمیں فراز کا یہ مصرع دہرانے پر مجبور کردے گی۔ پیشہ ور قاتلو! تم سپاہی نہیں۔اللہ نہ کرے کہ احمد فراز کا یہ مصرعہ سچ ثابت ہو۔