قادری کی ’فوج فوج‘ کی پکار

قادری کی ’فوج فوج‘ کی پکار
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری حکومت اور پولیس سے جھگڑے کےدوران بار بار فوج کو مدد کے لیےطلب کر رہے ہیں۔
ا
انھوں نے پیر کو بھی لاہور ایئر پورٹ پر جہاز سے اترنے کےلیے یہ شرط عائد کی تھی کہ فوج کا کوئی اعلیٰ افسر انھیں لینے کے لیے آئے۔ جب فوج کا کوئی افسر انھیں لینے نہیں آیا تو طاہر القادری نے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور سابق وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ایئر پورٹ سے باہر آنا ہی غنیمت جانا۔
طاہر القادری اور ان کے کارکن مدد کے لیے فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
منہاج القرآن سیکریٹریٹ کے باہر اجتماع میں موجود کارکنوں کی بیشتر تعداد فوج کی امداد کی خواہاں نظر آئی۔ایک کارکن احسن نوید نے بی بی سی سے کہا کہ وہ اسے لیے فوج کو پکار رہے ہیں کہ ‘حکومت اور پولیس دہشت گرد بن چکی ہے اور فوج انصاف کرے گی۔’
طاہر القادری فوج سے امداد کے لیے اپیلیں کینیڈا سے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ جب پولیس ان کے کارکنوں کی لاشیں گرا رہی تھی تو تب بھی وہ بار بار فوج کو پکار رہے تھے کہ وہ کردار ادا کرے اور ان کے سیکرٹریٹ کے تحفظ کے لیے پہنچ جائے لیکن آئین کے تحت حکومتی احکامات کی پابند فوج نے نہ آنا تھا نہ آئی۔
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ کچھ ہو ہی نہیں رہا۔
معروف کالم نویس تجزیہ نگار یاسر پیر زادہ"سیدھی بات ہے کہ طاہر القادری چاہتے ہیں کہ فوج حکومت کا تختہ الٹ دے اور ان کی خواہش ہے کہ فوجی آمریت میں انھیں ایک روحانی پیشوا کا درجہ حاصل ہوجائے اور ان کے جاری کردہ احکامات پر ملک بھر میں عملدرآمد ہو لیکن ایسا ہوگا نہیں۔"
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ کچھ نادیدہ قوتیں بظاہر متحرک نظر آتی ہیں اور وزیرا علی شہباز شریف کی اس بات کو بہت اہمیت دینے کی ضرورت ہے کہ گذشتہ ہفتے ان کے منع کرنے کے باوجود پولیس نے نہ صرف آپریشن نہیں روکا بلکہ الٹا براہ راست فائرنگ کی جس کے نتیجے میں دو خواتین سمیت درجن بھر افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔
اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ وزیراعلی سچے ہیں تو پھر یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ فائرنگ کس کے حکم پر اور کیوں کی گئی؟یہ کون سی نادیدہ قوت تھی جس کے حکم پر پولیس اہلکاراندھادھند اور براہ راست فائرنگ کے سینکڑوں راؤنڈ نکالتے ہی چلے گئے؟ اوراس تصادم سے وہ نادیدہ قوت کیا نتیجہ نکالنا چاہتی ہے؟
وزیراعلی اگر جھوٹے نکلے اور عدالتی انکوائری میں یہ ثابت ہوگیا کہ فائرنگ ان کے احکامات پر کی گئی تو نہ صرف ان کی حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے بلکہ ان کا سیاسی دھڑن تختہ بھی ہونے کا خطرہ ہے۔
حالات ہر دو صورتوں میں پیچدہ تر ہوتے چلے جارہے ہیں۔
جس روز ہلاکتیں ہوئیں اس روز پولیس اہلکاروں اور عوامی تحریک کے کارکنوں کو ایک نام کی بازگشت سنائی دے رہی تھی اور وہ نام ہے،’حمزہ شہباز’۔
اس نام کا بار بار لیا جانا ایک سازش بھی ہوسکتی ہے لیکن جس پولیس افسر نے اس روز فائرنگ کے احکامات دیئے تھے اور جو فائرنگ کرانے کے لیے براہ راست میدان میں موجود تھا اس کے موبائل فون کا ریکارڈ یہ واضح کردے گا کہ اس روز وہ مسلسل کس سے رابطے میں تھا اور وہ کون ہوسکتا ہےجس نے فائرنگ کے احکامات دیئے۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کو وہ نادیدہ قوت کہا جاتا ہے جو ہے بھی اور نھیں بھی۔
طاہر القادری کا ساتھ دینے کے لیے مسلم لیگ قاف کی لیڈر شپ یعنی چودھری پرویز الہی چودھری شجاعت حسین اور عوامی مسلم لیگ کے رہنماء شیخ رشید میدان عمل میں ہیں۔یہ وہ مسلم لیگی ہیں جو فوجی حکمرانی کے دور میں اقتدار میں آئے اور سٹیبلشمنٹ کے ساتھ کو قوی اور باعث تقویت قلب و روح سمجھتے ہیں۔
فوجی صدر پرویز مشرف کےدور میں چودھری شجاعت نگران وزیر اعظم،چودھری پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب اور شیخ رشید احمد وفاقی وزیر اطلاعات کے عہدوں کے پر ممتکن رہے ہیں لیکن بعد میں فوجی حکمران کی سرپرستی کے بغیر ہونے والے دو عام انتخابات کے نتائج نے ان کی انتخابی اہلیت کا پول کھول دیا ہے۔
یہ رہنما بمشکل اپنی اپنی نشستوں پر ہی کامیاب ہوپائے۔
بعض مبصرین کاکہنا ہے کہ انتخابی نتائج سے یہ نتیجہ تو اخذ کیا جاسکتا ہے کہ طاہر القادری ان مسلم لیگیوں کے ووٹوں کے ذریعے کوئی بھی انقلاب لانے سے قاصر ہیں۔
تو پھر حضرت صاحب چاہتے ہیں کیاہیں؟
معروف کالم نویس تجزیہ نگار یاسر پیر زادہ نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ‘سیدھی بات ہے کہ طاہر القادری چاہتے ہیں کہ فوج حکومت کا تختہ الٹ دے اور ان کی خواہش ہے کہ فوجی آمریت میں انھیں ایک روحانی پیشوا کا درجہ حاصل ہوجائے اور ان کے جاری کردہ احکامات پر ملک بھر میں عملدرآمد ہو لیکن ایسا ہوگا نہیں۔‘
ان کے بقول اگرایسا ہوا بھی تو طاہر القادری منظر میں نہیں ہوں گے کیونکہ آمر سب سے پہلے انہی لوگوں سے نجات حاصل کرتا ہے جن کے ذریعے حکومت الٹتا ہے۔
 
فوج نے طاہر القادری کے سیاسی کھیل کا حصہ بننے سے انکار کردیا
اسلام آباد (انصار عباسی) لاہور کی جانب موڑے جانے والے ایمریٹس کے طیارے میں بیٹھے ڈاکٹر طاہر القادری نے بہت ہی مایوس کن انداز میں کور کمانڈر لاہور کو فون کرنے کی کوشش کی کہ وہ ان سے اس طیارے میں آکر ملاقات اور مذاکرات کریں جس پر سے انہوں نے کئی گھنٹوں تک لاہور ایئرپورٹ پر اترنے سے انکار کردیا، لیکن فوج کی جانب سے کوئی بھی حتیٰ کہ ایک صوبیدار بھی ان سے ملنے نہ آیا۔ اس کی بجائے انہیں کسی اور نے نہیں بلکہ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد نے خبردار کیا کہ ان کا طیارے میں بیٹھ کر دھرنا دینا ’’ہائی جیکنگ‘‘ کا کیس بن سکتا ہے جس سے عالمی سطح پر صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ کینیڈین شہریت کے حامل قادری کیلئے بھی معاملات پیچیدہ ہوجائیں گے۔ جیو نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے گورنر سندھ نے انکشاف کیا کہ جیسے ہی انہیں معلوم ہوا کہ ایمریٹس ایئرلائنز کی انتظامیہ طیارے میں ڈاکٹر قادری کے دھرنے کے معاملے کو ہائی جیکنگ کا کیس بنانے پر غور کر رہی ہے تو انہوں نے پرامن انداز سے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کوشش شروع کی۔ حال ہی میں کینیڈا میں کی جانے والی پریس کانفرنس میں ڈاکٹر قادری نے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں فوج کی سیکورٹی فراہم کی جائے اور یہی بات انہوں نے طیارے میں دیئے گئے منفرد دھرنے کے دوران بھی دہرائی۔ لیکن انہیں ڈاکٹر عشرت العباد نے واضح طور پر بتا دیا کہ اس بات کے امکانات بہت ہی کم ہیں کہ انہیں فوج کی سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔ میڈیا کے مختلف حلقوں پر قادری کی جانب سے کیے جانے والے مطالبے پر آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک بھی لفظ نہیں کہا گیا۔ میڈیا کے اندر سے یہ رائے سامنے آ رہی تھی کہ آئی ایس پی آر کو چاہئے کہ وہ ڈاکٹر قادری کے مطالبات کو مسترد کردے لیکن فوج نے خود کو اس پورے تنازع سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا۔ طاہر القادری کے متعلق کئی لوگ کہتے ہیں کہ وہ ’’اسٹیبلشمنٹ کا بندہ‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو تنگ کرنے کیلئے انہیں اسلئے چھوٹ دی گئی کیونکہ اول الذکر پرویز مشرف کو جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ تاہم، پیر کو طاہر القادری کی جانب سے متعدد فون کالز کے باوجود فوج کی جانب سے دکھائی جانے والی سرد مہری اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسے کسی بھی اقدام میں فوج ملوث نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق یہ ملک کی ایک سرکردہ انٹیلی جنس ایجنسی کے کچھ ناراض عناصر کے اشارے پر ہونے والی سازشی حرکت تھی جس سکی وجہ سے طاہر القادری اور ق لیگ کے چوہدریوں کے درمیان جلدبازی میں لندن میں ملاقات ہوئی تاکہ حکومت مخالف تحریک چلائی جا سکے۔ نواز لیگ کے اس اہم عہدیدار رہنما نے بتایا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف انتہائی کھرے آدمی اور پیشہ ور فوجی ہیں اور وہ جمہوریت، آئین پسندی اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔ ذریعے نے بتایا کہ وزیراعظم نواز شریف نے مشورہ دیا ہے کہ معاملات کو ٹھنڈے طریقے سے چلائیں اور کسی کو بھی ان کے آرمی چیف کے درمیان غلط فہمی یا بد اعتمادی پیدا کرنے نہ دیں۔ گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران مسلم لیگ (ن) کی حکومت شدید دبائو کا شکار ہے کہ پرویز مشرف کو باہر جانے دیا جائے۔ تاہم، پالیسی کے معاملے میں حکومت اپنی جگہ ڈٹی رہی کہ قانون کے مطابق پرویز مشرف کے معاملے کو عدالتوں پر چھوڑ دیا جانا چاہئے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقوں کے دبائو کی وجہ سے نواز لیگ کے کئی رہنما بشمول وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور چوہدری نثار نے سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد مشورہ دیا کہ پرویز مشرف کو باہر جانے دیا جائے۔ تاہم، وزیراعظم نواز شریف نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنیکا فیصلہ کیا۔ پیر کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل نے نکالنے کیلئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو معطل قرار دیدیا۔
 
فوج نے 2013میں طاہر القادری کی جانب سے مدد کی درخواست مسترد کردی تھی

اسلام آباد(رپورٹ: عثمان منظور) پاکستان آرمی نے2013میں ڈاکٹر طاہر القادری کی مدد کیلئے درخواست مسترد کردی تھی اور ان سے کہا تھا کہ وہ متعلقہ وزارت سے رابطہ کریں۔ جس کی آئی ایس پی آر نے بھی تصدیق کی ہے۔ گذشتہ سال کی طرح اس بار بھی انہوں نے فوج سے سیکورٹی فراہم کرنے درخواست کی جب پیر کی صبح ان کا طیارہ لاہور میں اترا لیکن ایک بار پھر سے فوج نے سردہری دکھائی۔ گذشتہ سال جب انہوں نے انقلاب لانے کیلئے لاہور سے اسلام آباد لانگ مارچ کیا تھا، اس وقت جی ایچ کیو کو سیکورٹی کی فراہمی کیلئے درخواست دی گئی جو مسترد کردی گئی تھی۔ 7جنوری2013کو اس وقت ادارہ منہاج القرآن کے سیکریٹری اطلاعات غلام علی خان نے فوج کو سیکورٹی فراہمی کیلئے دی جانے والی درخواست کی تردید کی تھی لیکن آئی ایس پی آر نے استفسار پر بتایا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے ان کے سیکریٹری کی دستخط شدہ درخواست ملی تھی جو مسترد کردی گئی۔ تحریری جواب میں انہیں سیکورٹی کی مد میں متعلقہ وزارت سے رابطے کا مشورہ دیا گیا تھا۔
 
Top