فاروقی
معطل
قادیانیوں کو مسلمانوں کا مسلک یا مکتبِ فکر قرار دینا قرآن و سنّت کیخلاف ہے
کراچی (پ ر) ممتاز علماء کرام مفتی منیب الرحمن، علامہ جمیل احمد نعیمی، علامہ غلام رسول سعیدی، مفتی محمد اطہر نعیمی، علامہ عبدالمصطفیٰ ہزاروی، مفتی محمد رفیق حسنی، علامہ غلام محمد سیالوی، صاحبزادہ ریحان امجدنعمانی، علامہ غلام دستگیر افغانی، مفتی محمد الیاس رضوی، مفتی محمد جان نعیمی، مفتی عبدالحلیم ہزاروی، علامہ غلام جیلانی، علامہ لیاقت حسین اظہری، علامہ سید مظفر شاہ، علامہ حافظ محمد اسحاق ظفر، مفتی عبدالرزاق نقشبندی، مولانا سید نذیراحمد شاہ، علامہ احمد علی سعیدی، مولانا سید ناصر علی قادری، مولانا قاضی احمد نورانی، مولانا محمد شعیب قادری، مفتی محمد اسماعیل نورانی اور مولانا صابر نورانی نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کا ایک مسلک یا مکتبہ فکر قر ار دینا نہ صرف قرآن و سنت کے خلاف ہے بلکہ دستور پاکستان کے بھی خلاف ہے کیونکہ ساتویں ا ٓئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا جاچکا ہے اور انہیں سنی، دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ کے ساتھ شامل کرکے احمدی کہہ کر مسلمانوں کا ایک مسلک و مکتبہ فکر قرار دینا اسلام کی رو سے باطل ہے ،بلکہ قادیانیوں کا تذکرہ ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی، پارسی اور دیگر غیر مسلم مذاہب کے ساتھ کرنا چاہئے۔ قادیانیوں کے غیر مسلم ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے کیونکہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت پر ایمان اس امر کے ساتھ مشروط ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا آخری نبی اور رسول تسلیم کیا جائے اور عقیدہ ختم نبوت کا اقرا ر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کے عہدوں کے حلف نامے میں بھی شامل ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے تمام مسلم اور قادیانیوں سمیت غیر مسلم شہریوں کی جان و مال اور آبرو کا تحفظ حکومت پاکستان کی اسلامی، آئینی، قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، حکومتی عمائدین صرف واعظانہ بیان دے کر اپنی اس ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے وہ جواب دہ ہیں، تمام آئینی اور قانونی اختیارات ان کے پاس موجود ہیں، ملک کے سیکورٹی کے ادارے بھی ان کے تابع فرمان ہیں اور اب کسی فوجی آمر پر بھی ذمہ داری ڈال کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے تاہم پاکستان کے تمام مسلمانوں پر بھی لازم ہے کہ اپنے شہروں، محلوں اور آبادیوں میں اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کو ہر ممکن تحفظ فراہم کریں، کیونکہ اسلام امن و سلامتی کا دین ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم جہاد کے نام پر فساد کے قائل نہیں ہیں اور اس وقت ملک کے مختلف حصوں میں جو قتل و غارت کا بازار گرم ہے اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی جان و مال اور آبرو کی حرمت پامال ہورہی ہے یہ ایک المیہ ہے ممکن ہے کہ اس المئے میں مبتلا لوگ اخلاص سے یہ سمجھ رہے ہوں کہ ہم امریکا اور اہل مغرب کو نقصان پہنچارہے ہیں لیکن معمولی عقل رکھنے والے ہر انسان کو صاف نظر آرہا ہے کہ ہم اپنے ہی وجود کو تار تار کررہے ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ امر بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ملک و قوم کو اس مقام تک پہنچانے کا سبب اپنے نفع و نقصان کا تخمینہ لگائے بغیر اور حدود و قیود کے بغیر غیر مشروط طور پر دہشت گردی کے خلاف امریکا کی عالمی جنگ کا حلیف بننے کی وہ پالیسی تھی جو جنرل پرویز مشرف نے 2001ء میں اختیار کی تھی، وہ تو اقتدار سے بے آبرو ہو کر معزول ہوئے لیکن ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ پالیسی اب بھی جاری ہے۔[/CENTER]
سورس