کسی ملک کے وجود کیلئے نظریہ کی ضرورت کیا ہے؟
ہر ملک کے وجود کے لئے نظریہ ضروری نہیں ہے۔انڈو پاک کی طرح یورپ بھی کسی زمانہ میں مختلف اقوام کا مجموعہ ہوا کرتا تھا۔ جو چار و ناچار "اکٹھے" رہتے تھے۔ اور آپس میں ہروقت لڑتے جھگڑتے رہتے۔ بالآخر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوش کے ناخن لئے اور پورے بر اعظم کو نیشنل ازم یعنی قومیت کی بنیاد پر کافی حد تک صحیح تقسیم کر دیا۔ جس کے بعد سے اب تک یورپ امن کی زندہ تصویر ہے۔ جہاں ہر دوسرے سال خونریزی ہوتی۔ وہ امن و سلامتی و ترقی کا گہوارہ بن چکا ہے۔
ان کی تاریخ سے یہ سبق ملتا ہےکہ قومیت سے ہٹ کر ممالک کا پر امن وجود ناگزیر ہے۔ پاکستان کی بنیاد بطور نظریاتی ملک "مسلم نیشنل ازم" کے نام پر پڑی۔ جو کہ اپنی پیدائش کے وقت مختلف مسلم اقوام کا مجموعہ تھا۔ اس کا انجام یورپ کی طرح ہی ہوا اور 1971 میں بنگالی مسلم قوم پاکستانی فیڈریشن سے الگ ہو گئی۔ اس کے بعد سے مسلم بلوچ اور پختون اپنی اپنی آزادی کی تحریکیں چلا چکے ہیں۔ یا چلا رہے ہیں۔
بھارت کا نظریہ وجود گو کہ سیکولر تھا۔ آئین بھی سیکولر ہے۔ مگر مقامی ریاستوں کے قوانین جا بجا مذہبی آمیزش سے بھرے پڑے ہیں۔ بھارت میں بھی پاکستان کی طرح حریت پسند تحریکیں جگہ جگہ سر اٹھا چکی ہیں یا اٹھا رہی ہیں۔ کشمیر، آسام ، پنجاب وغیرہ کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
پاکستان کی طرح اسرائیل بھی ایک نظریاتی سیاست ہے۔ جہاں بھانت بھانت اقوام کے یہود یکجا ہو کر ایک ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی کسی صورت فلسطینی ریاست کا مطالبہ پورا نہیں کر سکتے۔ کیونکہ پاکستانی سیکولرازم کی طرح فلسطینیوں کو حقوق دینے پڑیں گے۔ جوکہ یہودی ریاست کی اساس اور اس کے نظریہ وجود کے خلاف ہے۔