x boy
محفلین
ھم تو بڑے بامروت واقع ھوئے ھیں ! کوئی صحبت کر کے تو دیکھے !
بخدا مسجد کے مین گیٹ پہ کھڑے ھو کر ایک کرم فرما کو اپنا نیا جوتا پہن کر جاتے دیکھا ، ان کی شکل کی طرف دیکھا ، سنت رسول ﷺ کے ادب نے زباں نہیں کھولنے دی کہ پبلک بہت تھی تماشہ لگ جائے گا ! ایک مسلمان کو اگرچہ وہ گنہگار ھو چند ٹکوں کی خاطر رسوا کرنا ھمیں اچھا نہیں لگا !
حج پہ ھمارا نیا خریدا ھوا " سرخ پرنا " یا غترہ ھمارے قافلے کے ھی ایک ساتھی نے اٹھا لیا ! اور مزے سے سارا رستہ اسے استعمال کرتے دیکھتے رھے مگر زباں نہ کھولی کہ مسلمان چند درھم کے عوض بے آبرو نہ ھو جائے !
مجھے معلوم ھے میری تحریروں سے جتنی تکلیف ، بے چینی ، اور افراتفری جناب محترم مفتی محمد الکوھستانی صاحب کو ھو رھی ھے ،، اتنی ھی میرے محترم کرم فرما جناب فقیر اعجاز القادری صاحب کو بھی ھو رھی ھے ! یہ دونوں الگ الگ مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود تصوف کا " مشترکہ درد " رکھتے ھیں !
میں دونوں کو یہ یقین دلانا چاھتا ھوں کہ مجھے ایسی تحریروں کبھی بھی کسی کی دل آزاری مقصود نہیں رھی اور نہ ھی میں یہ تفننِ طبع کے طور پر لکھتا ھوں یا اس سے حظ لیتا ھوں ! مگر جب بات حق کو واضح کرنے کی ھو تو ایک ڈاکٹر کو بے رحم ھو کر آپریشن کرنا ھی پڑتا ھے !
نہ تو میں جدی پشتی دیوبندی ھوں ،جس کی رگ رگ میں بریلویت کئے خلاف زھر بھرا گیا ھو ! اوردیوبندیت کے تعصب میں اس زھر کو اگل رھا ھوں ! بلکہ میں نہ صرف جدی پشتی بریلوی ھوں بلکہ بریلویت کو اسی طرح انجوائے کیا ھے،، کہ سر سے پاؤں تک اس کے شِیرے میں لتھڑا رھا ھوں ، میرے تایا دیوبندی بنے تھے تو سوچا تھا کہ ان کا جنازہ نہیں پڑھوں گا اور ساری برادری ان کو بدمذھب سمجھتی تھی ،، میرے بلڈ گروپ کی خصوصیت ھے کہ یہ چیز کو چھکتا نہیں ھے بلکہ پیٹ بھر کر کھاتا ھے ،، پیر پرستی میں مجھ سے بڑھ کر کوئی نہ تھا ! چلہ کشی اور عرس پر ننگے پاؤں حاضری کا شرف بھی بچپن سے حاصل رھا ،، پھر چودہ پندرہ سال کی عمر میں عرب کی سرزمین آ پہنچے یوں قرآن کی زبان سمجھتے ھی ھدایت کے چراغ جل اٹھے ! توحید کی تلاش میں دیوبند کو گلے لگایا ،، اور علم کے سمندر میں چھلانگ لگا دی !
گویا " جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ھیں " والا معاملہ بن گیا ! علمائے دیوبند کی بڑی بڑی عظیم ھستیوں کی خدمت کا موقع ملا اور حسب توفیق ان سے استفادہ بھی کیا ! مگر مولانا سلیم اللہ خاں صاحب مدظلہ العالی ، مولنا خان محمد کندھیاں شریف والے اور شہید مولانا یوسف لدھیانوی ،، صاحبان سمیت سب کے ساتھ علمی بحث مباحثہ بھی ھوا ،، مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں ان میں سے کوئی بھی مجھے دو باتوں کے بارے میں مطمئن نہیں کر پایا !
اول غوثوں اور قطبوں کا شجرہ اختیارات ،،کہ وہ بستیوں کے ارزاق کا بندوبست کرتے ھیں اور ان کی بلائیں دور کرتے ھیں،،اگر کسی بستی میں کوئی مسلمان نہ ھوں تو انہی غیر مسلموں میں سے کوئی قطب ھوتا ھے ،، اس کی پہچان یہ ھے کہ اھل نظر کو جس کافر کا احترام کرتے پاؤ ،تم بھی اس کا احترام کرو ،،ان اختیارات کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں ھے ، البتہ ھندو دیو مالا میں موجود ھے !
دوسری بات صرف دو صحابہ سے تصوف کا سلسلہ نسب چلانا ! اور باقی سارے صحابہ بشمول عشرہ مبشرہ کو اس سے محروم رکھنا ،حالانکہ دیوبندی علماء کا دعوی ھے کہ تصوف دین کی روح ھے ،مگر یہ روح صرف دو صحابہ یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ میں تھی ،، باقی کو نبی ﷺ نے اس روح سے محروم رکھا تھا ! اسکی کوئی دلیل نہ پیش کی جا سکی ھے اور قیامت تک پیش کی جا سکے گی ،کیونکہ یہ شرک کے بعد کائنات کا سب سے بڑا مقدس جھوٹ ھے جو مقدسوں کے منہ سے نکلتا ھے !
ان دو باتوں کو الگ کر لیجئے تو تصوف یا یوگا کو فزیکل فِٹ نیس کے لئے اختیار کیا جا سکتا ھے !
قرآن و سنت کو چھوڑ کر جن مکاشفوں اور تجربات کی بنیاد پر تصوف کو ثابت کیا جاتا ھے ،،وہ ھم پر بھی گزرے ھیں،، جب میں سلسلہ چشتیہ میں سالک تھا تو خواجہ معین الدین چشتی ذکر کرایا کرتے تھے ،، جب میں نے اپنے مرشد کو ان صاحب کا حلیہ بتایا جو ذکر کراتے تھے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ خواجہ معین الدین ھیں ،، اسی طرح جنت کی سیر بھی کرائی گئ ،، یہانتک کہ وھاں کے میوؤں سے بھی کچھ چکھایا گیا ،، مگر اللہ کا شکر ھے کہ ھوش آتے ھی قرآن وائرس کو الگ کر دیتا تھا اور انگلی رکھ کر بتاتا تھا کہ !
خواب ھے جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا !
کرامات سے بھی نوازا گیا مگر قران نے اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا ،، بچے کو اغوا کرنے کے لئے ھمیشہ کچھ نہ کچھ کھلایا جاتا ھے ،،بخدا آپ قرآن کا ھاتھ پکڑ لیں اسے امام بنا لیں اور اس کی مانیں تو آپ کبھی بھٹک نہیں سکتے !
یہ ایک وضاحت تھی ،،
بخدا مسجد کے مین گیٹ پہ کھڑے ھو کر ایک کرم فرما کو اپنا نیا جوتا پہن کر جاتے دیکھا ، ان کی شکل کی طرف دیکھا ، سنت رسول ﷺ کے ادب نے زباں نہیں کھولنے دی کہ پبلک بہت تھی تماشہ لگ جائے گا ! ایک مسلمان کو اگرچہ وہ گنہگار ھو چند ٹکوں کی خاطر رسوا کرنا ھمیں اچھا نہیں لگا !
حج پہ ھمارا نیا خریدا ھوا " سرخ پرنا " یا غترہ ھمارے قافلے کے ھی ایک ساتھی نے اٹھا لیا ! اور مزے سے سارا رستہ اسے استعمال کرتے دیکھتے رھے مگر زباں نہ کھولی کہ مسلمان چند درھم کے عوض بے آبرو نہ ھو جائے !
مجھے معلوم ھے میری تحریروں سے جتنی تکلیف ، بے چینی ، اور افراتفری جناب محترم مفتی محمد الکوھستانی صاحب کو ھو رھی ھے ،، اتنی ھی میرے محترم کرم فرما جناب فقیر اعجاز القادری صاحب کو بھی ھو رھی ھے ! یہ دونوں الگ الگ مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے کے باوجود تصوف کا " مشترکہ درد " رکھتے ھیں !
میں دونوں کو یہ یقین دلانا چاھتا ھوں کہ مجھے ایسی تحریروں کبھی بھی کسی کی دل آزاری مقصود نہیں رھی اور نہ ھی میں یہ تفننِ طبع کے طور پر لکھتا ھوں یا اس سے حظ لیتا ھوں ! مگر جب بات حق کو واضح کرنے کی ھو تو ایک ڈاکٹر کو بے رحم ھو کر آپریشن کرنا ھی پڑتا ھے !
نہ تو میں جدی پشتی دیوبندی ھوں ،جس کی رگ رگ میں بریلویت کئے خلاف زھر بھرا گیا ھو ! اوردیوبندیت کے تعصب میں اس زھر کو اگل رھا ھوں ! بلکہ میں نہ صرف جدی پشتی بریلوی ھوں بلکہ بریلویت کو اسی طرح انجوائے کیا ھے،، کہ سر سے پاؤں تک اس کے شِیرے میں لتھڑا رھا ھوں ، میرے تایا دیوبندی بنے تھے تو سوچا تھا کہ ان کا جنازہ نہیں پڑھوں گا اور ساری برادری ان کو بدمذھب سمجھتی تھی ،، میرے بلڈ گروپ کی خصوصیت ھے کہ یہ چیز کو چھکتا نہیں ھے بلکہ پیٹ بھر کر کھاتا ھے ،، پیر پرستی میں مجھ سے بڑھ کر کوئی نہ تھا ! چلہ کشی اور عرس پر ننگے پاؤں حاضری کا شرف بھی بچپن سے حاصل رھا ،، پھر چودہ پندرہ سال کی عمر میں عرب کی سرزمین آ پہنچے یوں قرآن کی زبان سمجھتے ھی ھدایت کے چراغ جل اٹھے ! توحید کی تلاش میں دیوبند کو گلے لگایا ،، اور علم کے سمندر میں چھلانگ لگا دی !
گویا " جو بچا تھا وہ لٹانے کے لئے آئے ھیں " والا معاملہ بن گیا ! علمائے دیوبند کی بڑی بڑی عظیم ھستیوں کی خدمت کا موقع ملا اور حسب توفیق ان سے استفادہ بھی کیا ! مگر مولانا سلیم اللہ خاں صاحب مدظلہ العالی ، مولنا خان محمد کندھیاں شریف والے اور شہید مولانا یوسف لدھیانوی ،، صاحبان سمیت سب کے ساتھ علمی بحث مباحثہ بھی ھوا ،، مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باق نہیں ان میں سے کوئی بھی مجھے دو باتوں کے بارے میں مطمئن نہیں کر پایا !
اول غوثوں اور قطبوں کا شجرہ اختیارات ،،کہ وہ بستیوں کے ارزاق کا بندوبست کرتے ھیں اور ان کی بلائیں دور کرتے ھیں،،اگر کسی بستی میں کوئی مسلمان نہ ھوں تو انہی غیر مسلموں میں سے کوئی قطب ھوتا ھے ،، اس کی پہچان یہ ھے کہ اھل نظر کو جس کافر کا احترام کرتے پاؤ ،تم بھی اس کا احترام کرو ،،ان اختیارات کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں ھے ، البتہ ھندو دیو مالا میں موجود ھے !
دوسری بات صرف دو صحابہ سے تصوف کا سلسلہ نسب چلانا ! اور باقی سارے صحابہ بشمول عشرہ مبشرہ کو اس سے محروم رکھنا ،حالانکہ دیوبندی علماء کا دعوی ھے کہ تصوف دین کی روح ھے ،مگر یہ روح صرف دو صحابہ یعنی حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ میں تھی ،، باقی کو نبی ﷺ نے اس روح سے محروم رکھا تھا ! اسکی کوئی دلیل نہ پیش کی جا سکی ھے اور قیامت تک پیش کی جا سکے گی ،کیونکہ یہ شرک کے بعد کائنات کا سب سے بڑا مقدس جھوٹ ھے جو مقدسوں کے منہ سے نکلتا ھے !
ان دو باتوں کو الگ کر لیجئے تو تصوف یا یوگا کو فزیکل فِٹ نیس کے لئے اختیار کیا جا سکتا ھے !
قرآن و سنت کو چھوڑ کر جن مکاشفوں اور تجربات کی بنیاد پر تصوف کو ثابت کیا جاتا ھے ،،وہ ھم پر بھی گزرے ھیں،، جب میں سلسلہ چشتیہ میں سالک تھا تو خواجہ معین الدین چشتی ذکر کرایا کرتے تھے ،، جب میں نے اپنے مرشد کو ان صاحب کا حلیہ بتایا جو ذکر کراتے تھے تو انہوں نے فرمایا تھا کہ یہ خواجہ معین الدین ھیں ،، اسی طرح جنت کی سیر بھی کرائی گئ ،، یہانتک کہ وھاں کے میوؤں سے بھی کچھ چکھایا گیا ،، مگر اللہ کا شکر ھے کہ ھوش آتے ھی قرآن وائرس کو الگ کر دیتا تھا اور انگلی رکھ کر بتاتا تھا کہ !
خواب ھے جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا !
کرامات سے بھی نوازا گیا مگر قران نے اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا ،، بچے کو اغوا کرنے کے لئے ھمیشہ کچھ نہ کچھ کھلایا جاتا ھے ،،بخدا آپ قرآن کا ھاتھ پکڑ لیں اسے امام بنا لیں اور اس کی مانیں تو آپ کبھی بھٹک نہیں سکتے !
یہ ایک وضاحت تھی ،،