ڈاکٹر مشاہد رضوی
لائبریرین
قاصد سے کہہ رہے تھے سُنا ماجرا سُنا
" استاذ زمن شہنشاہ سخن علامہ حسن رضا بریلوی
قاصد سے کہہ رہے تھے سُنا ماجرا سُنا
ہم سے توکہیے حضرتِ دل تم نے کیا سنا
کس نے سنایا اور سنایا تو کیا سنا
سنتا ہوں آج تم نے مرا ماجرا سنا
تم کیا سنو گے اور کہے تم سے کوئی کیا
اس دل سے پوچھو جس نے مرا ماجرا سنا
مرنے کا میرے رنج نہیں ان کو ضد یہ ہے
روئے مجھے نہ بخشے جو میرا کہا سنا
ایسے سے دل کا حال کہیں بھی تو کیا کہیں
جو بے کہے کہے کہ چلو بس سنا سنا
وصل عدو کا حال سنانے سے فائدہ
للہ رحم کیجیے بس بس سنا سنا
قاصد ترے سکوت سے دل بے قرار ہے
کیا اُس جفا شعار نے تجھ سے کہا سنا
آخر یہ آج کیا ہے کہ صبح شبِ وصال
قتم ہم سے بخشواتے ہو اپنا کہا سنا
تم نے ہمیں عتاب میں جو کچھ کہا کہا
ہم نے ہجومِ شوق میں جو کچھ سنا سنا
کانوں میں باتیں غیرسے پھر مجھ سے یوں سوال
کیوں جی تمہیں ہماری قسم تم نے کیا سنا
آخر حسنؔ وہ روٹھ گئے اُٹھ کے چل دیے
کم بخت اور حالِ دلِ مبتلا سنا