قاضی تنویر السلام

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جب میں فوٹو سٹیٹ مشین مکینک کا کام سیکھنے کے لیے چاندنی چوک پر واقع ٹیک مین ورکشاپ پر گیا تو وہاں میری ملاقات قاضی تنویر صاحب سے ہوئی جن کو سب لوگ قاضی صاحب کہتے تھے۔ قاضی صاحب تقریباََ 5 فٹ 9 یا 10 اینچ کے صحت مند انسان تھے تھوڑے سے موٹے ، چہرا صاف، کلین شیو، اور سر پر ہر وقت ٹوپی پہنتے تھے۔ کچھ ہی دیر کے بعد مجھے پتہ چل گیا کہ یہی میرے استاد ہونگے میرے ساتھ میرے چچا آئے ہوئے تھے اور قاضی صاحب ان کے دوست ہیں۔ چچا جان نے میرے بارے میں بتایا اور کہا اس کو یہ کام سیکھانا ہے تو قاضی صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا یہ تو بہت کمزور ہے یہاں تو بہت بڑی ، بڑی اور وزنی مشینیں ہوتی ہے وہ اٹھانی پڑتی ہیں یہ تو رہ جائے گا مشکل ہے کام کر سکے ۔ اس گفتگو کے ساتھ ہی مجھ سے مخاطب ہوئے ۔“ کیوں بھائی کام کرنا ہے کہ بھاگ جانا ہے” میں نے سر کو اٹھایا اور بولا کام “سیکھوں گا بھاگوں گا نہیں“ کہنے لگے ” وزن کتنا اٹھا لیتے ہو ۔ میں کچھ نا بولا اور اندازہ لگانے لگا کہ میں کتنا وزن اٹھا لیتا ہوں اسی دوران ٹیبل پر رکھی مشین کی طرف اشارہ کر کے بولے” اس مشین کو تو ایک طرف سے اٹھاو“ میں نے مشین کا ہنڈل پکڑا اور زور لگایا پہلی کوشش میں تو ناکام ہو گیا لیکن دوسری کوشش میں ایک طرف سے اٹھا لی۔ لیکن قاضی صاحب بولے نہیں ، نہیں یہ تو کام نہیں‌کر سکتا اس سے یہ مشین نہیں اٹھانے ہو رہی تو یہ کام کیسے کرے گا خیر چچا کے کہنے پڑ انھوں نے مجھے رکھ لیا۔
(جاری ہے)
 

محمد نعمان

محفلین
بھیا یہ آپ بیتی ہے یا کوئی افسانہ۔۔۔۔۔
مضمون کے عنوان سے کچھ واضح نہیں ہو رہا۔۔۔۔۔
آپ اس کی تھوڑی تفصیل تو بتائیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ ان کی آپ بیتی ہی ہے۔ اس سے پہلے یہ فوٹو کاپی مشینوں کے ٹیکنیشن تھے۔ آج کل ان پر لکھنے لکھانے کا اثر ہوا ہوا ہے۔ اچھا ہے اسی بہانے اردو محفل پر کچھ تحریر کرتے رہیں گے۔

ہاں تو خرم بھائی پھر کیا ہوا؟
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
قاضی صاحب نے مجھے رکھ تو لیا لیکن انھوں نے کچھ باتیں مجھے بتائی جو بہت مشکل تھی لیکن میں نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ انھوں نے کہا ایک سال تک میں میری طرف سے تمہیں ایک روپیہ بھی نہیں ملے گا ، کھانا تم اپنے ساتھ لایا کرو گے، تمہارا کوئی دوست ورکشاپ پر تمہیں ملنے نہیں‌ آئے گا آس پاس جتنے بھی لوگ ہیں ان کے ساتھ تم فری نہیں ہو گے، یہاں سے فون کرنے پر پابندی ہو گی صبح جلدی آو گے اور شام کو جانے کا کوئی وقت نہیں۔ کام غلط کرو گے تو اس کی سزا ملے گی، لیکن اچھے کام کی شاباش نہیں ملے گی۔ یہ سب باتیں مجھے اچھی تو نا لگی لیکن مرتا کیا نا کرتا ایک فیصلہ کر لیا تھا اس لے انکار نا کر سکا اور ہاں میں ہاں ملاتا گیا۔اس وقت شام ہو رہی تھی اور ویسے بھی ورکشاپ میں بجلی نہیں تھی اس لے جلدی جانا پڑا۔
اگلے دن میں ورکشاپ کے وقت سے پہلے ہی آ گیا 9 بجے ورکشاپ کا وقت تھا لیکن میں 8 بجے وہاں پونچ چکا تھا جس ورکشاپ پر مجھے رکھا گیا تھا وہاں قاضی صاحب خود آیا کرتے تھے اور ان کے علاوہ ایک اور لڑکا تھا جو مجھ سے 6 ماہ سینئر تھا (میں یہاں قاضی تنویر السلام صاحب کے بارے میں ہی گفتگو کروں گا باقی باتوں کو حذف کر دوں گا ) قاضی صاحب بظاہر تو بہت غصے والے ، سنجیدہ ، اور سخت استاد تھے ۔ لیکن میں نے اپنے پانچ سالوں میں ایسے ایسے واقعات دیکھے ہیں جن سے قاصی صاحب کے بارے میں یہ کہنا کے وہ بہت سخت اور غصے والے ہیں بہت غلط ہو گا ۔ ان تمام باتوں سے ہٹ کر ویسے قاضی صاحب یا تو بہت کنجوس تھے ،یا بہت اختیات سے خرچ کرتے تھے ۔ ایک دن میں نے یہ سوچا کے اس بات کا کیسے پتہ چلے کے قاضی صاحب اتنے کنجوس کیوں ہیں لیکن کچھ پتہ نا چلا ۔ آہستہ آہستہ میری قاضی صاحب کے ساتھ طبیعت ملنے لگی مجھے پتہ چل گیا قاضی صاحب اس وقت کیا چاہتے ہیں وہ کس طرح کا کام چاہتے ہیں، میں نے اپنی طرف سے بہت کوشش کی کے میں‌قاضی صاحب سے کسی بھی کام پر شاباش حاصل کروں لیکن اس میں کامیاب نا ہو سکا۔ ایک دن قاضی صاحب کے ایک دوست آئے ان کا نام آصف تھا وہ بہت دلچسپ انسان تھے ہر کسی کے ساتھ فری ہو جاتے تھے ۔ اسی طرح وہ میرے ساتھ بھی فری ہو گے۔ ان کی ایک بات مجھے بہت اچھی لگتی تھی ۔ وہ جب بھی جس وقت بھی ہماری ورکشاپ پر آئے تو میں ان سے پوچھتا سر آپ کہاں گے ہوئے تھے کافی دنوں سے نظر نہیں‌آئے تو وہ کہتے تھے یار خرم میں پاکستان گیا ہوا تھا ۔ تو پھر میں ان سے پوچھتا تھا اس وقت آپ کہاں ہے تو پھر کہتے تھے پاکستان میں ہوں ۔ وہ کبھی یہ نہیں‌کہتے تھے کہ میں اپنے گھر جارہا ہوں ، میں کسی شہر میں جا رہا ہوں بس وہ کہتے تھے میں پاکستان جا رہا ہوں۔ ان سے میری بہت دوستی ہو گی ایک دن میں نے ان سے پوچھا سر آپ سے ایک سوال کروں لیکن پہلے آپ مجھ سے وعدہ کریں آپ قاضی صاحب کو نہیں بتائیں گے۔ یہ بات سن کر وہ بہت ہنسے اور کہنے لگے یار خرم ہم پاکستانی ہیں اپنی بات ، اپنے دکھ ، اپنی پرشانیاں کسی کو نہیں بتاتے خود ہی حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کامیاب ہو جائے تو بھی پاکستانی اور اگر ناکام ہو جائے تو بھی پاکستانی۔ خیر تم بات کرو۔
میں نے کہا سر یہ تو بتائے قاضی صاحب اتنے کنجوس کیوں ہیں۔ بہت خیرت کے ساتھ میری طرف دیکھتے ہوئے ۔ تمہیں کیسے لگا کہ وہ کنجوس ہیں یار وہ کنجوس تو نہیں ہے بس وہ اپنے اوپر خرچ نہیں کرتے۔ میں نے پوچھا وہ کیوں۔ تو کہنے لگے بہت لمبی داستان ہیں پھر کبھی سناؤں گا میں نے کہا نہیں نہیں آج ہی سنائے وہ کہنے لگے ابھی کچھ دیر میں قاضی صاحب آ جائے گے تو بات وہی رہ جائے گی اتوار کو وہ نہیں آئے گے تو پھر میں تمہیں ساری بات بتا دوں گا ۔ قاضی صاحب اتوار کو نہیں آتے تھے ویسے ہم جمعہ کی چھٹی کرتے تھے اور قاضی صاحب اتوار کو دوسرے شہروں میں جاتے ہیں اس لے ہماری دو چھٹیاں ہو جاتی تھی اتوار کو بھی فری ہی ہوتے تھے اب میں اتوار کا انتظار کرنے لگا ۔۔
 
Top