محب علوی
مدیر
13 دسمبر پاکستان کی عدالتی تاریخ کا افسوسناک ترین دن تھا جب چھ میں سے پانچ سپریم کورٹ کے جج فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل چلنے کے حق میں نظر ائے اور جسٹس طارق مسعود کی سربراہی میں ڈھٹائی کے ساتھ چھڑی بردار کے ٹ اؤٹ کا کردار نبھاتے ہوئے انتہائی ڈٹائی سے پانچ سپریم کورٹ کے ججوں کے پچھلے فیصلے کو معطل کر دیا جس میں فوجی ٹرائل کو ائین کی روشنی میں غیر ائینی قرار دے کر 102 کے فوجی ٹرائل کو ختم کر کے سویلین ٹرائل شروع کرنے کا حکم دیا تھا۔
صرف ایک چرچ نے اختلاف کیا بینچ کی تشکیل قاضی فائز عیسی نے من پسند طریقے سے ایسے کی کہ جو جونیئر ججوں پر مشتمل بینچ بنایا جس پر اجاز الحسن نے کل خط میں اس تمام عمل کی قلعی کھولی کہ کیسے طے ہوا تھا کہ سینیئر ججوں پر مشتمل بینچ بنایا جائے گا مگر فائز عیسی نے کیا وہی جو حکم حاکم تھا۔ مسرت لالی نے اختلافی نوٹ لکھ کر تاریخ میں سنہری حروف پہ اپنا نام لکھوایا جبکہ باقی ججوں نے بھی تاریخ میں نام لکھوایا البتہ ان کے اعمال کی سیاہی نے حروف کا رنگ کالا کر دیا۔
صرف ایک چرچ نے اختلاف کیا بینچ کی تشکیل قاضی فائز عیسی نے من پسند طریقے سے ایسے کی کہ جو جونیئر ججوں پر مشتمل بینچ بنایا جس پر اجاز الحسن نے کل خط میں اس تمام عمل کی قلعی کھولی کہ کیسے طے ہوا تھا کہ سینیئر ججوں پر مشتمل بینچ بنایا جائے گا مگر فائز عیسی نے کیا وہی جو حکم حاکم تھا۔ مسرت لالی نے اختلافی نوٹ لکھ کر تاریخ میں سنہری حروف پہ اپنا نام لکھوایا جبکہ باقی ججوں نے بھی تاریخ میں نام لکھوایا البتہ ان کے اعمال کی سیاہی نے حروف کا رنگ کالا کر دیا۔