بہت دنوں تو رہا اپنا نکتہ چین بھی میں
پھر اپنے آپ پہ کرنے لگا یقین بھی میں
مری طرف ہی دواں ہے مری کمندِ ہوس
یہاں غزال بھی میں ہوں سبکتگین بھی میں
عذاب مجھ سے مجھی پر اترتے رہتے ہیں
فرازِ عرش بھی میں‘ پستیِ زمین بھی میں
اب اپنے آپ کو کس طرح بے بہا کہیے
نگیں شناس بھی میں‘ دانۂ نگین بھی میں
گدا و شاہ سے میرا تپاک ایک سا ہے
کہ کج کلاہ بھی میں‘ بوریا نشیں بھی میں
مجھے وہ آنکھ نہ دیکھے تو میں ہی سب سے خراب
وہ انتخاب جو کر لے تو بہترین بھی میں
عرفان صدیقی
لہو رکاب پہ ہے اور شکار زمین میں ہے
مگر کمند ابھی دستِ سبکتگین میں ہے
اُسے بھی فکر ہے اسٹیج تک، پہنچنے کی
جو شخص اَبھی صفِ آخر کے حاضرین میں ہے
جو دیکھ لے وہ برہنہ دِکھائی دینے لگے
عجیب طرح کی تصویر میگزین میں ہے
فقط یہ بڑھتا ہوا دستِ دوستی ہی نہیں
ہمیں قبول ہے وہ بھی جو آستین میں ہے
مٹھائیوں میں ملی کرکراہٹیں جیسے
گماں کی طرح کوئی شے مرے یقین میں ہے
نمو پذیر ہوں میں اَپنی فکر کی مانند
مرا وجود مرے ذہن کی زمین میں ہے
عرفان صدیقی