قبائلی طرزِ سیاست کا تدارک

گروہ بندی کی جبلت حیاتیاتی ارتقائی عمل کا ایک جزو رہا ہے، اور کسی نہ کسی طور پہ ہر معاشرہ کا حصہ۔ فرد کو اپنی بقا کیلئے گروہ کی طاقت پہ انحصار کرنا پڑتا رہا ہے۔ ہماری سیاست میں بھی علاقائی، لسانی، مذہبی اور دیگر گروہ بندیوں کا واضح اثر ہے۔ اس عنصر کو کم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ادارے مضبوط ہوں تا کہ فرد کو اپنے جائز مفاد کی حفاظت کیلئے گروہ کی طاقت پہ انحصار کی ضرورت نہ ہو۔ میری ناقص رائے میں اگر آج عوام ایسی جماعتوں کو ووٹ دیتے ہیں جن کی بد دیانتی اظہر من الشمس ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں ایسی جماعت ان کے مفاد کا بہتر تحفظ کر سکتی ہے بجائے اس کے جو کسی اور گروہ سے تعلق رکھتی ہو۔
 
پنجابی کا ایک محاورہ ہے 'مجهاں مجهاں دیاں بهیناں ہوندیاں' ۔۔ یہ جتنے بهی گروہ ہمیں سیاسی منظر نامے پر اوپر بیٹهے نظر آتے ہیں یہ اندر خانہ سب ایک ہیں۔ ہماری یعنی عوام کی تفریح اور مصروف رکهنے کو ٹی وی اور جلسوں وغیرہ میں شغل وغیرہ لگا لیتے ہیں۔

اس اندازاً پانچ سے سات ہزار کی تعداد کے طاقتور اور اثرورسوخ رکهنے والے گروہ کا قلع قمع کیے بغیر کوئی بهی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اس وقت تک بددیانتوں، چوروں، ڈاکوؤں، مردہ پرستوں، پیر پرستوں، لسان پرستوں وغیرہ وغیرہ کے ساتھ رلے رہیں ورنہ ایان علی کو پکڑنے والے کسٹم انسپکٹر کو یاد رکهیے۔
 
پنجابی کا ایک محاورہ ہے 'مجهاں مجهاں دیاں بهیناں ہوندیاں' ۔۔ یہ جتنے بهی گروہ ہمیں سیاسی منظر نامے پر اوپر بیٹهے نظر آتے ہیں یہ اندر خانہ سب ایک ہیں۔ ہماری یعنی عوام کی تفریح اور مصروف رکهنے کو ٹی وی اور جلسوں وغیرہ میں شغل وغیرہ لگا لیتے ہیں۔

اس اندازاً پانچ سے سات ہزار کی تعداد کے طاقتور اور اثرورسوخ رکهنے والے گروہ کا قلع قمع کیے بغیر کوئی بهی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اس وقت تک بددیانتوں، چوروں، ڈاکوؤں، مردہ پرستوں، پیر پرستوں، لسان پرستوں وغیرہ وغیرہ کے ساتھ رلے رہیں ورنہ ایان علی کو پکڑنے والے کسٹم انسپکٹر کو یاد رکهیے۔
گروہ بندی کی بھی مختلف اشکال ہوتی ہیں، جن میں سے ایک طبقاتی بھی ہے۔ بادشاہ ایک دوسرے سے جنگیں بھی لڑتے تھے، مگر شادی بیاہ کیلئے بھی اپنی اولاد کیلئے دوسرے بادشاہوں کی اولاد کو منتخب کرتے تھے۔ ان کو جہاں اپنا مفاد نظر آتا ہے، اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
 
معاشیات کے کچھ اسباق کے دھندلے سے نقوش ذہن پر مرتسم ہیں۔ افادۂِ مختتم کا کوئی اصول تھا جس کے مطابق ہر ذی ہوش گاہک محدود وسائل میں زیادہ سے زیادہ فائدہ چاہتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ اصول انسانی فطرت کا ہے، محض معاشیات کا نہیں۔
جب یہ طے ہو گیا کہ ہر شخص خواہ وہ نیک ہو یا بد، خواندہ ہو یا ناخواندہ، امیر ہو یا غریب، فطرتاً اپنی زیادہ سے زیادہ فلاح کا طالب ہوتا ہے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس جستجو کے مانع کیا شے آتی ہے۔ میری ناقص فہم کے مطابق محض جہالت ہی ایک ایسی شے ہے جو انسان کے ہمہ قسم منافع کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط سے لے کر شارعِ اسلامﷺ تک تاریخ کی برگزیدہ ترین ہستیوں نے علم کی اساسی اہمیت پر زور دیا ہے۔ برے بھلے کی تمیز رکھنے والا شخص کبھی برے پر مائل نہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے اپنی پیاس کو پہچاننے والا پیاسا پانی کی بجائے آگ سے رجوع نہیں کر سکتا۔
معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے یہ اصول یوں لاگو ہوتا ہے کہ گو سماج کی آخری درجے کی فلاح غیرجانبدارانہ سیاست میں ہے مگر عوام کی اکثریت جاہلِ مطلق ہے۔ وہ اپنی جہالت کے باعث فوری فائدہ تو دیکھ سکتے ہیں مگر وسیع تر مفاد تک ان کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔ فوری فائدہ گروہی سیاست میں ہے اور وہی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا۔ اب دو ہی راستے ہیں۔ ایک آپ نے تجویز فرمایا کہ ادارے کسی طرح مضبوط ہو جائیں۔ دوسرے کو شاید میری خواہش کہنا چاہیے کہ کوئی جرنیل ڈنڈے کے زور پر پورے ملک کو بالکل ویسے ہی چلانے کی ٹھان لے جیسے فوج کو چلایا جاتا ہے۔ کم از کم سو ڈیڑھ سو سال کے بعد کسی میگنا کارٹا کے ذریعے سیاستدان انسان کے بچوں کی طرح نظام میں داخل ہوں تو ہوں ورنہ نہیں۔
بصورتِ دیگر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ذہنیت مجبوراً وہی ہوتی جائے گی جس کا ذکر چوہدری صاحب کر رہے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے اب تک تمام ادارے باستثنائے فوج رو بہ زوال رہے ہیں۔ فوج بھی یوں بچ گئی کہ وہ جمہوریت سے متاثر نہیں ہوئی!
 
بدقسمتی سے اکثریت پنجاب سے ہے۔

پاکستان میں آکر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے اور اپنے سوا ہر دوسرے کو کرپٹ جانتا ہے۔ لوگ جس طرح گاڑی چلاتے ہیں وہ ان کی غیر ذمہ دار رویے کا ثبوت ہے۔ ہر شخص خود ظالم ہے ۔ صرف سیاست دان پر ملبہ ڈالنا درست نہیں۔ معاشرے میں ظلم کا پنپنا اس وجہ سے ہے کہ عوام نے یہی مشاہدہ کیا ہے کہ ظالم فائدے میں ہی رہتا ہے۔ ڈنڈہ ہو تو دودھ مکھن بھی ملتا ہے اور اچھی شہرت بھی
 
پنجابی کا ایک محاورہ ہے 'مجهاں مجهاں دیاں بهیناں ہوندیاں' ۔۔ یہ جتنے بهی گروہ ہمیں سیاسی منظر نامے پر اوپر بیٹهے نظر آتے ہیں یہ اندر خانہ سب ایک ہیں۔ ہماری یعنی عوام کی تفریح اور مصروف رکهنے کو ٹی وی اور جلسوں وغیرہ میں شغل وغیرہ لگا لیتے ہیں۔

اس اندازاً پانچ سے سات ہزار کی تعداد کے طاقتور اور اثرورسوخ رکهنے والے گروہ کا قلع قمع کیے بغیر کوئی بهی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اس وقت تک بددیانتوں، چوروں، ڈاکوؤں، مردہ پرستوں، پیر پرستوں، لسان پرستوں وغیرہ وغیرہ کے ساتھ رلے رہیں ورنہ ایان علی کو پکڑنے والے کسٹم انسپکٹر کو یاد رکهیے۔
اگر پانچ یا دس ہزار کا قلع قمع کر بھی دیا جائے تو ان کی جگہ کوئی دوسرے پانچ یا دس ہزار لوگ لے لیں گے۔
اصل خرابی ریاستی نظام میں ہے جسے آزادی کے بعد عوامی فلاح کے نکتہ نظر سے تبدیل نہیں کیا گیا، اور عوام آج تک آزاد نہیں ہوئے۔ جب تک ریاستی نظام کو تبدیل نہیں کیا جائے گا معاملات ٹھیک نہیں ہونگے۔
 
معاشیات کے کچھ اسباق کے دھندلے سے نقوش ذہن پر مرتسم ہیں۔ افادۂِ مختتم کا کوئی اصول تھا جس کے مطابق ہر ذی ہوش گاہک محدود وسائل میں زیادہ سے زیادہ فائدہ چاہتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ اصول انسانی فطرت کا ہے، محض معاشیات کا نہیں۔
جب یہ طے ہو گیا کہ ہر شخص خواہ وہ نیک ہو یا بد، خواندہ ہو یا ناخواندہ، امیر ہو یا غریب، فطرتاً اپنی زیادہ سے زیادہ فلاح کا طالب ہوتا ہے تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس جستجو کے مانع کیا شے آتی ہے۔ میری ناقص فہم کے مطابق محض جہالت ہی ایک ایسی شے ہے جو انسان کے ہمہ قسم منافع کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سقراط سے لے کر شارعِ اسلامﷺ تک تاریخ کی برگزیدہ ترین ہستیوں نے علم کی اساسی اہمیت پر زور دیا ہے۔ برے بھلے کی تمیز رکھنے والا شخص کبھی برے پر مائل نہیں ہو سکتا۔ بالکل اسی طرح جیسے اپنی پیاس کو پہچاننے والا پیاسا پانی کی بجائے آگ سے رجوع نہیں کر سکتا۔
معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے یہ اصول یوں لاگو ہوتا ہے کہ گو سماج کی آخری درجے کی فلاح غیرجانبدارانہ سیاست میں ہے مگر عوام کی اکثریت جاہلِ مطلق ہے۔ وہ اپنی جہالت کے باعث فوری فائدہ تو دیکھ سکتے ہیں مگر وسیع تر مفاد تک ان کی نگاہ نہیں پہنچ سکتی۔ فوری فائدہ گروہی سیاست میں ہے اور وہی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا۔ اب دو ہی راستے ہیں۔ ایک آپ نے تجویز فرمایا کہ ادارے کسی طرح مضبوط ہو جائیں۔ دوسرے کو شاید میری خواہش کہنا چاہیے کہ کوئی جرنیل ڈنڈے کے زور پر پورے ملک کو بالکل ویسے ہی چلانے کی ٹھان لے جیسے فوج کو چلایا جاتا ہے۔ کم از کم سو ڈیڑھ سو سال کے بعد کسی میگنا کارٹا کے ذریعے سیاستدان انسان کے بچوں کی طرح نظام میں داخل ہوں تو ہوں ورنہ نہیں۔
بصورتِ دیگر زیادہ سے زیادہ لوگوں کی ذہنیت مجبوراً وہی ہوتی جائے گی جس کا ذکر چوہدری صاحب کر رہے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے اب تک تمام ادارے باستثنائے فوج رو بہ زوال رہے ہیں۔ فوج بھی یوں بچ گئی کہ وہ جمہوریت سے متاثر نہیں ہوئی!
فوجی حکومت کے تجربات ہم کر چکے ہیں، مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ عموماً ابتدائی دور فوجی حکومت کا بہتر ہوتا ہے، کیونکہ حکومت کا حجم چھوٹا ہوتا ہے، مگر وقت کے ساتھ وہ بھی حکومت کے حجم میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ فوج بذاتِ خود ایک قبائلی رویہ اپنا لیتی ہے، اور کچھ اس قسم کی سوچ سرایت کر جاتی ہے جیسے ایچ خان میاں کی مہاجر قو میت اور اسلام کے بارے میں ہے۔ فوج اور ملک کو مترادف سمجھ لیا جاتا ہے۔ اختیارات کا ارتکاز ایک شخص کے ہاتھ میں ہونے سے حکومتی مشینری سست ہو جاتی ہے۔
اگر آپ کی خیال میں مفید طاقت کا استعمال حالات درست کرنے کیلئے ضروری ہے، تو میرے رائے میں آئین میں اتنے قوانین موجود ہیں کہ جمہوری حکومت بھی نفاذ کر سکتی ہے بشرطیکہ ایماندار ہو۔
 

زیک

مسافر
فوجی حکومت کے تجربات ہم کر چکے ہیں، مگر خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ عموماً ابتدائی دور فوجی حکومت کا بہتر ہوتا ہے، کیونکہ حکومت کا حجم چھوٹا ہوتا ہے، مگر وقت کے ساتھ وہ بھی حکومت کے حجم میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ فوج بذاتِ خود ایک قبائلی رویہ اپنا لیتی ہے، اور کچھ اس قسم کی سوچ سرایت کر جاتی ہے جیسے ایچ خان میاں کی مہاجر قو میت اور اسلام کے بارے میں ہے۔ فوج اور ملک کو مترادف سمجھ لیا جاتا ہے۔ اختیارات کا ارتکاز ایک شخص کے ہاتھ میں ہونے سے حکومتی مشینری سست ہو جاتی ہے۔
اگر آپ کی خیال میں مفید طاقت کا استعمال حالات درست کرنے کیلئے ضروری ہے، تو میرے رائے میں آئین میں اتنے قوانین موجود ہیں کہ جمہوری حکومت بھی نفاذ کر سکتی ہے بشرطیکہ ایماندار ہو۔
فوج کی حکومت میں ہی آدھا پاکستان دبانے کی کوشش کی اور کھو دیا۔ اسی فوج نے جنگیں شروع کیں اور ہاریں۔ مگر توقع پھر اسی فوج ہی سے ہے
 

سید رافع

محفلین
اس اندازاً پانچ سے سات ہزار کی تعداد کے طاقتور اور اثرورسوخ رکهنے والے گروہ کا قلع قمع کیے بغیر کوئی بهی بڑی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
چوہدری صاحب، پاکستانیوں کی دین سے گہری وابستگی کسی جرح کے بغیر ہلاکتوں کی قائل نہیں۔ اور ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کہ عدالت کے ذریعے ہی سزا ہو۔ اصل بات یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے۔ انڈیا و امریکہ تو فقہ حنفی کی بنیاد پر بننے والی عدالتوں کے پاسدار بننے سے رہے۔ دیوبندی و بریلوی علماء علم اور صبر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی کو جب 70 سال میں ووٹ نہ ملے تو اب کیوں ملیں؟ رہے گی حزب التحریر وہ فوج سے نصرہ کی تلاش میں ہے اور تنظیم اسلامی کم از کم ڈھائی لاکھ مسلمانوں کے دھرنے کے انتظار میں۔ پاکستان عوامی تحریک نے دھرنے کے بعد کہہ دیا کہ عوام نہیں ہمارے کارکن نکلے تھے اور بیرون ملک کی طاقتوں نے "انقلاب" لانے نہیں دیا۔ رہ گئیں سیکیولر جماعتیں جب وہ ماڈرن انصاف اور آزادی کی بات کرتیں ہیں تو بے شک پاکستانی مسلمانوں کا ایمان آڑے آ جاتا ہے۔ اصل میں مسلمانوں کو مسلک للہیت اختیار کر کے عام مسلمانوں کو انصاف پسندی اور سچ کی طرف کھیچنا ہو گا۔ ان سے محبت کے علاوہ مولفۃ القلوب کے ذریعے سہارا بننا ہو گا۔ حکومت بنانی ہو گی جو اس انصاف اور محبت کو عام کر دے۔

میری ناقص فہم کے مطابق محض جہالت ہی ایک ایسی شے ہے جو انسان کے ہمہ قسم منافع کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔
بالکل صحیح فرمایا آپ نے۔ مولا علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ہے کہ علم زندگی ہے اور جہالت موت۔ لیکن جہان علم کی کاریز نہیں پہنچ سکتی ہو وہاں عام محبت اور مولفۃ القلوب کے سکوں سے کام چلایا جائے۔

گو سماج کی آخری درجے کی فلاح غیرجانبدارانہ سیاست میں ہے مگر عوام کی اکثریت جاہلِ مطلق ہے۔
حضور صحیح فرمایا آپ نے۔ آپ کا انصاف سے عشق لوگوں کو عام محبت فراہم کرے گا۔

اصل خرابی ریاستی نظام میں ہے
اصل خرابی نطام کو چلانے والے غیر عاشق لوگ ہیں جن کو انصاف سے عشق نہیں۔

اختیارات کا ارتکاز ایک شخص کے ہاتھ میں ہونے سے حکومتی مشینری سست ہو جاتی ہے۔
اس ایک آدمی میں اگر للہیت ہے تو وہ پاکستان میں انصاف پسند اور لوگوں سے محبت کرنے والوں کا ایک گروہ بنا سکتا ہے۔ پاکستان کے لوگ للہیت کے علاوہ ہر شئے کو ٹھکرا چکے ہیں۔

مگر توقع پھر اسی فوج ہی سے ہے
فوج سے توقع محض وقتی خون خرابہ سے بچنے کے لیے ہے۔ ہم سب ہی جانتے ہیں بہرحال ایک بھائی چارے کا ماحول بننا چاہیے جہاں لوگوں کی بات سنی جائے، فسادی کی گردن پکڑی جائے اور امن پسند کے بیوی بچے چین و اطمینان سے اس ملک میں پھلے پھولیں اور دنیا سے علم میں مسابقت کریں۔
 
صل خرابی نطام کو چلانے والے غیر عاشق لوگ ہیں جن کو انصاف سے عشق نہیں۔
سچے عاشق بھی ، سڑے ہوئے نظام سے عوام کی بھلائی نہیں کر سکتے۔ اسلام نے ۔کفار مکہ کے ساتھ کیا کیا؟ کیا سب کو بلاتخصیص قتل کر دیا گیا؟ یا انہیں اسلام نظام حیات کے سانچے میں ڈھال کر اپنے اور ساری دنیا کے لئے بھلائی کا سبب بنا دیا؟ نظام اچھا لے آئیں سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ
 

انتہا

محفلین
سچے عاشق بھی ، سڑے ہوئے نظام سے عوام کی بھلائی نہیں کر سکتے۔ اسلام نے ۔کفار مکہ کے ساتھ کیا کیا؟ کیا سب کو بلاتخصیص قتل کر دیا گیا؟ یا انہیں اسلام نظام حیات کے سانچے میں ڈھال کر اپنے اور ساری دنیا کے لئے بھلائی کا سبب بنا دیا؟ نظام اچھا لے آئیں سب کچھ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ

سیاست میں اسلام کو داخل کرنے کی کوشش کریں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن اگر اسلام میں سیاست داخل ہو جائے گی تو مسائل بڑھ جائیں گے۔
 

سید عمران

محفلین
سیاست میں اسلام کو داخل کرنے کی کوشش کریں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن اگر اسلام میں سیاست داخل ہو جائے گی تو مسائل بڑھ جائیں گے۔
بقول وکی پیڈیا سیاست کی تعریف:
’’اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فسادسے دور ہوجائیں۔ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔‘‘
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اللہ تعالیٰ نے سیاست کے بنیادی اصول بھی بتائے ہیں۔۔۔
بے شمار انبیاء کرام نے بے مثال حکومتیں چلا کر دکھائیں۔۔۔
اور خلفاء راشدین کا عہد تو سب کے سامنے ہے۔۔۔
اس لیے یہ کہنا کہ اسلام میں سیاست نہیں۔۔۔
یا سیاست اور اسلام کو الگ الگ رکھیں درست نہیں!!!
 

انتہا

محفلین
بقول وکی پیڈیا سیاست کی تعریف:
’’اسلام میں سیاست اس فعل کو کہتے ہیں جس کے انجام دینے سے لوگ اصلاح سے قریب اور فسادسے دور ہوجائیں۔ اہل مغرب فن حکومت کو سیاست کہتے ہیں۔‘‘
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح اللہ تعالیٰ نے سیاست کے بنیادی اصول بھی بتائے ہیں۔۔۔
بے شمار انبیاء کرام نے بے مثال حکومتیں چلا کر دکھائیں۔۔۔
اور خلفاء راشدین کا عہد تو سب کے سامنے ہے۔۔۔
آپ کی بات بالکل بجا ہے، میں شاید اپنی بات صحیح طرح نہیں کہہ پایا۔
اس لیے یہ کہنا کہ اسلام میں سیاست نہیں۔۔۔
یا سیاست اور اسلام کو الگ الگ رکھیں درست نہیں!!!
یہ باتیں میں نے ہرگز نہیں کہیں۔
 

انتہا

محفلین
میری سوچ یہ ہے کہ سیاست بھی دیگر شعبہ ہائے جات زندگی کی طرح ایک شعبہ ہے۔ جس طرح تجارت ایک شعبہ زندگی ہے، اس میں اسلام داخل ہو جائے تو اس تجارت سے سب کو فائدہ پہنچے۔
 

سید عمران

محفلین
اسلام اور سیاست پر ایک تفصیلی بحث اردو محفل میں یہاں ہوچکی ہے۔۔۔
چوں کہ شریک مباحثہ عام لوگ تھے۔۔۔
سرسری علم تھا۔۔۔
اس لیے افراط و تفریط کا شکار ہوگئے۔۔۔
اکثر نے باتیں صحیح کہیں لیکن یا تو ادھوری تھیں یا نفرت آمیز جذبات پر مشتمل۔۔۔
اس لیے نفع رساں نہیں بن سکیں۔۔۔
موضوع ملّا حکومت نہیں چلاسکتے بن گیا۔۔۔
ایک طرح سے تو بات صحیح ہے۔۔۔
علماء کرام کا یہ کام نہیں کہ حکومت یا سونے کی دوکانیں چلائیں۔۔۔
یہ کام تو ماہرینِ فن ہی کریں۔۔۔
البتہ اگر اسلامی احکام پر چلنا ہے تو علماء کرام سے اپنے اپنے شعبے کے مسائل پوچھ لیں۔۔۔
یہ تو ہوئی ایک بات۔۔۔
دوسری بات یہ کہ۔۔۔
علماء کرام میں مختلف درجات ہوں جو اسٹاک ایکسچینج، بینکنگ، فنانس اور اسی طرح حکومت چلانے میں پیش آنے والے مسائل کی ٹریننگ لیں تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو۔۔۔
آج کل اس کی مثال جسٹس (ر)مفتی تقی عثمانی صاحب کی دی جاسکتی ہے۔۔۔
انہوں نے تیس چالیس سالہ محنت اور ریسرچ کے بعد غیر سودی بینکنگ اور تکافل (انشورنس )پر مبنی نظام پیش کیا۔۔۔
جسے صرف پاکستان کے متعدد بینکوں ہی نے نہیں اپنایا بلکہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے ادارے اس نظام کو سمجھنے کے لیے انہیں مدعو کرتے ہیں۔۔۔
ساری بات ہے عمل کرنے کی۔۔۔
جب انسان کچھ کرنے کی ٹھان لے تو پورا کرکے ہی دم لیتا ہے!!!
 

سید رافع

محفلین
سچے عاشق بھی ، سڑے ہوئے نظام سے عوام کی بھلائی نہیں کر سکتے۔
قبلہ لئیق احمد بھائی، کیا آپ نشان دہی کر سکتے ہیں کہ نظام میں سڑا ہو کیا ہے؟ مجھے قوی امید ہے آپ مال کے لین دین کی طرف اشارہ فرمائیں گے۔

اسلام نے ۔کفار مکہ کے ساتھ کیا کیا؟ کیا سب کو بلاتخصیص قتل کر دیا گیا؟ یا انہیں اسلام نظام حیات کے سانچے میں ڈھال کر اپنے اور ساری دنیا کے لئے بھلائی کا سبب بنا دیا؟
لئیق احمد بھیا، یہ فرمائیں کہ کیا کفار مکہ سے نیک سلوک جیسا ملتا جلتا واقعہ سر انجام دینے والے عاشقان انصاف پاکستان میں میسر ہیں؟ اگر ہیں تو کون اصحاب ہیں اور اگر نہیں تو اس ضمن میں کیا کیا جائے؟

سیاست میں اسلام کو داخل کرنے کی کوشش کریں تو مسائل حل ہو سکتے ہیں، لیکن اگر اسلام میں سیاست داخل ہو جائے گی تو مسائل بڑھ جائیں گے۔
اسلام ہدایت کا نام ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہادی تھے اور معلم تھے۔ آپ ﷺ تزکیہ کرتے تھے۔ اپ یہ پھول اور کرنیں لے کر آپ جس سمت بھی جائیں خوشبو ہی ہو گی، روشنی ہی بڑھے گی۔

بے شمار انبیاء کرام نے بے مثال حکومتیں چلا کر دکھائیں۔۔۔
سید عمران بھیا آپ کی بات تو صحیح ہے لیکن مراد صحیح نہیں۔ انبیا کا مقصد ہدایت تھا، حکومت نہ تھا۔

اور خلفاء راشدین کا عہد تو سب کے سامنے ہے۔۔۔
سرور کونین ﷺکے تمام وارثین کا مقصد علوم اور تزکیہ نبوت لوگوں تک پہچانا تھا۔ جس دور کا آپ نے تذکرہ کیا اس میں یہ کام پوری حد و کمال تک پہنچا۔ ضروری کام تمام خلفاء راشدین کے نزدیک بہرحال علم و تزکیہ پر تھی جس کا ثمرہ حکومت و حدود کا نفاذ تھا۔

اس لیے یہ کہنا کہ اسلام میں سیاست نہیں۔۔۔
یا سیاست اور اسلام کو الگ الگ رکھیں درست نہیں!!!
بھیا یہاں بھی آپ کی توجہ اصل سے ہٹ چکی ہے۔ آپ ایک دور وادی میں ہیں۔

میری سوچ یہ ہے کہ سیاست بھی دیگر شعبہ ہائے جات زندگی کی طرح ایک شعبہ ہے۔ جس طرح تجارت ایک شعبہ زندگی ہے، اس میں اسلام داخل ہو جائے تو اس تجارت سے سب کو فائدہ پہنچے۔
آپ ماڈرن دور کی تقسیم سے نہ گھبرائیں۔ نہ ہی لیبل سے مرعوب ہوں۔ آخر کار ہر عمل کا مقصد معرفت الہیٰ کا نوراور چمکانا ہے۔ یا تو آپکا عمل سلامتی والا ہے یا نہیں۔ اور اس کا دارومدار بھی ظاہر پر نہیں نیت پر ہے۔

انہوں نے تیس چالیس سالہ محنت اور ریسرچ کے بعد غیر سودی بینکنگ اور تکافل (انشورنس )پر مبنی نظام پیش کیا۔۔۔
بھیا امید ہے آپ کائے بور کے سود سے خوب واقف ہوں گے جو اسلامی بینکاری کی جڑوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ اور کیا اے بی این، کیا ایم سی بی اور کیا یو بی ایل اب ہر ہی سودی بینک خوب اسلامی بینکاری کر رہا ہے۔ پھر کیا کریں گے آپ اسلام کے عمومی مزاج کا جو صدقے پر زور دیتا ہے اور کہتا ہے کہ "اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے"۔ میں جناب والا مفتی عثمانی صاحب کی کوششوں سے انکار نہیں کر رہا بلکہ یہ کہہ رہا ہوں کہ اس سے مذید پاکیزگی کے لیے مسلمانوں کو تیار ہونا ہو گا۔
 
Top