ارشد صاحب،
شریعت کا ایک اصول ہے:
"جب تک کوئی چیز نام لے کر، یا پھر شریعت ہی کے کسی اصول کے تحت حرام نہ ٹہرائی گئی ہو، تو ایسی چیز "مباح" کے زمرے میں آتی ہے یعنی Allowed "
مثال کے طور پر لاہور میں جہاں میرے نانا کا گھر ہے، اس سڑک پر ایک جامع مسجد ہے۔ مسجد کے صدر دروازے پر ایک بورڈ لگوا رکھا ہے جس پر اللہ، رسول، خلفائے راشدین کا نام ہے اور بیچ میں قرانی آیات ہیں۔ صدر دروازے کے بعد چھوٹا سا لان ہے اور پھر مسجد کی عمارت ہے، جسکی دیواروں پر قرانی آیات کندہ ہیں۔
اب چاہے یہ چیز رسول ص کے زمانے میں نہیں تھی کہ ایسے بورڈز بنائے جائیں یا مسجد کی دیواروں پر قرانی آیات کندہ کروائی جائیں، مگر چونکہ شریعت اس معاملے میں خاموش ہے کہ یہ عمل حرام ہے یا نہیں، تو ایسے تمام افعال خود بخود شریعت کے ہی دوسرے اصول کے مطابق "مباح" کے زمرے میں آ جاتے ہیں۔
قبروں پر قرانی آیات نصب کرنے کا بھی یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے کہ شریعت کے اعتبار سے یہ چیز منع نہیں کی گئی اور بذاتِ خود مباح کے زمرے میں آتا ہے۔ چانچہ اگر اس چیز کو مطلقا حرام کہہ دیا جائے تو یہ چیز "خود ساختہ شریعت سازی" میں آ جائے گی کہ ہم نے اُس چیز کو کیسے حرام قرار دے دیا کہ جس کو اللہ نے ہمارے لیے حرام نہیں قرار دیا تھا۔
///////////////////
اب دوسرے مسئلے پر آتے ہیں اور وہ ہے "ادب" و "تعظیم" کا مسئلہ۔
1) پہلے ایک سائیڈ نوٹ یہ کہ (شریعت کے قوانین کے مطابق) بارش کا پانی پاک ہے اور وہ جس جس چیز کو لگے گا اُس کو پاک کرتا چلا جائے گا۔ چنانچہ برساتی نالے جو نالیوں کا پانی لے جاتے ہیں، وہ اسلامی شریعت کے مطابق پاک پانی ہی رہتا ہے۔ آپ کو یقینا علم ہو گا کہ تالاب یا کنویں کے پانی میں کئی حشرات الارض مرتے رہتے ہیں اور اسی میں بول و براز کرتے رہتے ہیں، مگر کنویں کا پانی پاک رہتا ہے کیونکہ جب پاک پانی کی مقدار بہت زیادہ ہو اور اس میں غلاظت کی مقدار کم ہو تو مجموعی طور پر ایسے پانی پر پاک پانی کا حکم ہے۔ اس مسئلے پر آپ فقہ کے کتابوں کا مزید مطالعہ کیجئیے کیونکہ وہاں آپ کو مکمل تفصیلات مل جائیں گی۔
2) اور جہاں تک قبرستان میں جانوروں کی بات ہے تو بذاتِ خود مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے قبرستانوں میں جانوروں کا داخلہ ختم کریں کیونکہ یہ چیز خود قبر کے احترام کے خلاف ہے۔ مثلا قبر کا احترام یہ ہے کہ اس پر نہ بیٹھا جائے:
Book 004, Number 2121:
Abu Marthad al-Ghanawi reported Allah's Messenger (may peace be upon him) as saying: Do not sit on the graves and do not pray facing towards them.
چنانچہ رسول اللہ ص کا حکم ہے کہ قبروں پر نہ بیٹھا جائے، جبکہ جانور قبرستانوں میں عام قبروں کے اوپر چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔
///////////////////////
مجموعی طور پر (میری کم عقل سوجھ بوجھ کے مطابق) چونکہ مسلمان اپنے قبرستانوں کو جانوروں سے محفوظ نہیں رکھ پاتے ہیں، چنانچہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ قبروں کے کتبوں پر قرانی آیات نصب نہ کی جائیں۔
یا پھر اگر کی جائیں، تو کتبے کی اونچائی اتنی زیادہ رکھی جائے کہ جانور (جس میں صرف کتے ہی قابل ذکر ہیں) وہ ان قرانی آیات تک نہ پہنچ سکیں۔
(مجھے جامع مسجد کی صدر دروازے پر لگے بورڈ کا ذکر ایک دفعہ پھر کرنے دیں جہاں بے تحاشہ کبوتر بیٹھتے تھے بمع کچھ دیگر پرندوں کے اور "بٹھیں" کر کر کے انہوں نے اس قرانی آیات والے بورڈ کو غلاظت سے بھر رکھا ہوتا تھا۔ ویسے پاکستان بدل رہا ہے اور اس دفعہ مجھے وہاں صرف اکا دکا ہی کبوتر بیٹھے نظر آّئے)
تو مسئلہ واقعی یہ ہے کہ قرانی آیات کو بے ادبی سے کیسے بچایا جائے۔ نہ جانے پاکستان میں مجھے کتنے ہی بینرز (دکانوں کے سائن بورڈز)، پوسٹرز ہر ہر جگہ اللہ و رسول ص کے نام نظر آئے اور ان تمام جگہوں پر پرندوں کی پہنچ تھی۔
خانہ کعبہ کے دیوار پر قرانی آیات کا ایک منظر