ام اویس

محفلین
قبلہ کدھر ہے؟
”سعود یہ آپ کس طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہے ہیں ؟“ دادی جان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا:
پھر آگے بڑھ کر جائے نماز کا رخ ترچھا کیا اور بولیں، قبلہ بالکل سیدھا نہیں بلکہ ٹیڑھا یعنی اس طرف ہے۔
چار سالہ سعد جو قالین پر بیٹھا اپنے کھلونوں سے کھیل رہا تھا چونک کر بولا: لیکن قبلہ تو ادھر ہے الماری کی طرف۔
دادی جان نے حیران ہو کر کہا: الماری تو مشرق کی طرف پڑی ہے، آپ کو کس نے بتایا کہ قبلہ اُدھر ہے؟
”نانی جان کے گھر تو قبلہ الماری کی طرف ہی ہے۔ جب میں نماز پڑھنے لگا تھا تو نانی جان نے خود بتایا تھا۔“ سعد جھٹ سے بولا:
”اور اگر کسی کمرے میں الماری نہ ہو تو آپ کس طرف منہ کرکے نماز پڑھیں گے؟“ دادی جان نے بھی اس سے سوال کیا:
سعد سوچ میں پڑ گیا، پھر اس نے پوچھا: ”دادی جان! کیا ہر گھر کا قبلہ الگ الگ ہوتا ہے؟
”نانی جان کے گھر تو سب لوگ اُس طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں۔“ مؤمنہ، جو عصر کی نماز پڑھ کر ابھی اندر آئی تھی، شمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئی بولی:
”نہیں بچو! ایسا نہیں ہے، ایک علاقے میں قبلے کی سمت ایک ہی ہوتی ہے۔دادی جان نے نرمی سے کہا: درحقیقت گھر الگ الگ رُخ پر بنے ہوتے ہیں، اس لیے آپ کو ایسا لگتا ہے۔“
”دادی جان! مسجد میں بھی ہم دوسری طرف منہ کرتے ہیں۔“اتنے میں دس سالہ سعود بھی نماز مکمل کرکے پاس آ گیا اور الجھن بھرے لہجے میں بولا:
”اچھا آپ یہ بتائیں کہ مسجد ہمارے گھر کی طرف ہے یا گلی کی دوسری طرف ؟“ دادی جان نے سوال پوچھا:
”دوسری طرف۔“ سعود نے جواب دیا :
”وہاں کس طرف منہ کر کے نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں؟“ دادی جان نے دوسرا سوال کیا:
”اس طرف ۔“ سعود کو بات سمجھ آگئی اور اس نے جھٹ سے قبلے کی سمت اشارہ کیا:
کیا نماز کسی اور طرف منہ کرکے نہیں پڑھی جا سکتی؟“ سعد نے اگلا سوال کیا:
”نہیں بیٹا! قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا نماز کی شرطوں میں سے ہے۔ اگر ہم قبلے کی طرف منہ نہیں کریں گے تو ہماری نماز ادا نہیں ہوگی۔“
”قبلہ کسے کہتے ہیں اور یہ کہاں پر ہے؟“ سعد نے جھٹ سے سوال کر دیا:
”خانہ کعبہ کو قبلہ کہتے ہیں“۔ دادی جان نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا:
”سعودی عرب کے شہر مکہ میں الله کا گھر ہے۔“ دادی جان نے ابھی بتانا شروع ہی کیا تھا کہ سعد بولا:” یہ الله کا گھر کس نے بنایا ہے، کیا خود الله تعالی نے بنایا ہے؟“
” ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ زمین پر عبادت کے لیے سب سے پہلا گھر خانہ کعبہ یعنی بیت الله بنایا گیا تھا۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ وہ باقی نہ رہا ۔ کئی سوسال گزرنے کے بعد الله کے حکم سے حضرت ابراھیم اور ان کے بیٹے اسماعیل علیھما السلام نے اسے بنایا تھا۔ دوبارہ اسی جگہ پر اور انہیں بنیادوں پر بنایا گیا۔“
خانہ کعبہ کو قبلہ کس نے بنایا اور کیوں بنایا؟
” ہر امت کا ایک قبلہ ہوتا ہے، جس طرف منہ کرکے وہ عبادت کرتے ہیں ۔مسلمانوں کے لیے الله تعالی نے اپنے گھر کو قبلہ مقرر کر دیا۔امت کی وحدت کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلمان ایک طرف منہ کرکے نماز ادا کریں۔“
دادی جان نے ایک لمبا سانس لیا اور کہنے لگیں:
”ذرا تصور تو کرو کہ مسجد میں جماعت کھڑی ہو اور جس شخص کا جدھر دل چاہے منہ کرکے کھڑا ہو جائے، بھلا کیسا لگے گا؟“
”بہت عجیب! سعود نے سوچتے ہوئے جواب دیا: سعد اور مؤمنہ بھی سر ہلانے لگے۔
پھر اس نے پوچھا: ”دادی جان! سعودی عرب تو یہاں سے بہت دور ہے۔ پھر کیسے پتہ چلتا ہے کہ قبلہ یعنی خانہ کعبہ کہاں ہے؟“
”اس سوال کا جواب بہت لمبا ہے۔ہجرت کے دوسرے سال خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا گیا۔ قبلے کی تبدیلی کا حکم مسجد نبوی میں نازل ہوا اور نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنا رُخ قبلے کی طرف پھیر لیا۔ یقینا قبلے کے رُخ کی نشاندہی الله تعالی کی طرف سے کی گئی۔ بعض کتب میں اسے ایک معجزہ کہا گیا ہے۔ “
”واقعی یہ بات کافی عجیب ہے اور اسے معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے“ امی جان جو ان کی گفتگو سن کر وہیں بیٹھ گئی تھیں ایک دم بول اٹھیں۔
”بچو ! آپ جانتے ہیں کہ فرشتوں پر انسان کی فضیلت اس کے علم کی وجہ سے ہے۔“ دادی جان نے سلسلہ کلام کو آگے بڑھایا: ”انسان نے زمانہ قدیم سے ہی محسوس کرلیا کہ ستارے انسان کی صحراؤں اور سمندروں میں رہنمائی کر رہے ہیں ۔ پھر ظہور اسلام کے بعد قرآن کریم نے یہ کہہ کر ان کی اہمیت اور بڑھادی کہ چاند ، سورج اورستاروں کا تعلق نماز ، روزے اور حج کی عبادات سے بھی ہے ۔ کیو نکہ ان کی مختلف حالتوں سے ہی وقت کا تعین ہوتا ہے اور قبلہ کا صحیح رخ معلوم ہوتا ہے ۔ اسی لئے مسلمانوں نے سب سے زیادہ توجہ علم ریاضیات اور علم فلکیات پردی ۔مسلمان علماء علم جغرافیہ میں بھی بہت ماہر تھے۔ انہوں نے ان علوم میں بہت تحقیق کی۔ زمین کی پیمائش، شہروں کا حدود اربعہ، سمت اور فاصلے کا تعین مساجد کے لیے قبلے کا رُخ معلوم کرنے کے لیے بہت ضروری تھا۔ مسلمانوں سائنسدانوں اور علماء نے اس پر بہت کام کیا۔“
”کیونکہ اس کا تعلق ان کے دین سے تھا اس لیے ان معاملات میں ان کی دلچسپی زیادہ تھی۔“دادی جان کے خاموش ہوتے ہی، امی جان نے کہا:
”جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اکثر علوم کی ابتدا قرآن مجید میں بیان کردہ آیات پر غور و فکر سے ہوئی۔“ دادی جان نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا:
”شروع شروع میں تو مساجد کا رُخ پہلے تعمیر کی گئی مسجدوں کے رُخ کو دیکھ کر متعین کیا جاتا تھا۔ جیسے جیسے فتوحات بڑھتی گئیں اور اسلام دنیا میں پھیلنے لگا، مسلمان ریاضی دانوں نے تحقیق کرکے نقشے بنائے اور سمت معلوم کرنے والے آلات کی مدد سے دور دراز شہروں میں قبلہ رخ کو متعین کیا۔ اب تو قبلہ معلوم کرنے کے بہت سے نت نئے طریقے دریافت ہو چکے ہیں۔“
جی ہاں ! دادی جان اب تو موبائل سے بھی علم ہوجاتا ہے کہ قبلہ کس طرف ہے۔
دادی جان میں نے اپنی ایک دوست کے گھر ایک جائے نماز دیکھی تھی جس پر قبلہ رخ معلوم کرنے کا آلہ لگا تھا۔ مؤمنہ نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا:
اتنے میں باہر سے ہارن کی آواز آئی۔ ابا جان آگئے ۔ سعود یہ کہتا ہوا باہر چلا گیا۔
تھوڑی دیر گزری کہ مغرب کی آذان سنائی دینے لگی۔ اباجان وضو کرکے باہر آئے اور سعد اور سعود کو آواز لگائی:” آؤ بچو! نماز کے لیے چلیں“
سعد نے کہا: آج معلوم ہوا کہ مسجد میں سب سیدھے لائن بنا کر کیوں کھڑے ہوتے ہیں میں تو اسے ایک معمول کی بات سمجھتا تھا۔ شکر ہے آج سعد نے دادی جان سے سوال کر لیا جس کی وجہ سے مجھے اتنی معلومات مل گئیں۔

نزہت وسیم
 

سیما علی

لائبریرین
جزاک اللہ خیرا کثیرا
اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین وتابعین کا اختلاف ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں جب نماز فرض ہوئی اس وقت قبلہ بیت اللہ تھا یا بیت المقدس؟ حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ عنہ) کا قول یہ ہے کہ اول ہی سے قبلہ بیت المقدس تھا جو ہجرت کے بعد بھی سولہ سترہ مہینہ تک باقی رہا، اس کے بعد بیت اللہ کو قبلہ بنانے کے احکام نازل ہوگئے، البتہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا عمل مکہ مکرمہ میں یہ رہا کہ آپ حجرِ اسود اور رکن یمانی کے درمیان نماز پڑہتے تھے؛ تاکہ بیت اللہ بھی سامنے رہے اور بیت المقدس کا بھی استقبال ہوجائے۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد یہ ممکن نہ رہا اس لیے تحویلِ قبلہ کا اشتیاق پیدا ہوا۔ (ابن کثیر)
اور دوسرے حضرات نے فرمایا کہ جب نماز فرض ہوئی تو مکہ مکرمہ میں بھی مسلمانوں کا ابتدائی قبلہ بیت اللہ ہی تھا؛ کیوں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واسماعیل (علیہ السلام) کا قبلہ بھی بیت اللہ ہی رہا تھا اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تک مکہ مکرمہ میں مقیم رہے بیت اللہ ہی کی طرف نماز پڑھتے رہے، پھر ہجرت کے بعد آپ کا قبلہ بیت المقدس قرار دے دیا گیا اور مدینہ منورہ میں سترہ مہینے آپ نے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی، اس کے بعد پھر آپ کا جو پہلا قبلہ تھا یعنی بیت اللہ اسی کی طرف نماز میں توجہ کرنے کا حکم آگیا، تفسیر قرطبی میں بحوالہ ابو عمرو اسی کو اصح القولین قرار دیا ہے اور حکمت اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ مدینہ منورہ میں تشریف لانے کے بعد چوں کہ قبائلِ یہود سے سابقہ پڑا تو آں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو مانوس کرنے کے لیے ان ہی کا قبلہ باذنِ خداوندی اختیار کرلیا، مگر پھر تجربہ سے ثابت ہوا کہ یہ لوگ اپنی ہٹ دھرمی سے باز آنے والے نہیں تو پھر آپ کو اپنے اصلی قبلہ یعنی بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم مل گیا، جو آپ کو اپنے آباء ابراہیم واسماعیل کا قبلہ ہونے کی وجہ سے طبعاً محبوب تھا۔

اور جن حضرات نے پہلا قول اختیار کیا ہے ان کے نزدیک حکمت یہ تھی کہ مکہ مکرمہ میں تو مشرکین سے امتیاز اور ان سے مخالفت کا اظہار کرنا تھا، اس لیے ان کا قبلہ چھوڑ کر بیت المقدس کو قبلہ بنادیا گیا، پھر ہجرت کے بعد مدینہ طیبہ میں یہود و نصاریٰ سے امتیاز اور ان کی مخالفت کا اظہار مقصود ہوا تو ان کا قبلہ بدل کر بیت اللہ کو قبلہ بنادیا گیا . (از معارف القرآن، سورۃ بقرۃ ، آیت : 143)فقط واللہ اعلم
 
Top