قبل اس کے کہ اصلیّت اغیار کی کچھ جانے - منیر الہ آبادی

کاشفی

محفلین
تجلیاتِ منیر
( منیر الہ آبادی)

قبل اس کے کہ اصلیّت اغیار کی کچھ جانے
لازم ہے یہ انساں کو آپ اپنے کو پہچانے

روشن ہے خداخانہ جس نور کے پرتو سے
لاریب اسی جلوہ سے معمور ہیں بتخانے

یہ عقدہء لایخل ، حل کر نہ سکا کوئی
کیوں شمع ہوئی ٹھنڈی کیوں جل گئے پروانے

ہوش آیا تو کب آیا، عقل آئی تو کب آئی
جب جیت لیں سب شرطیں ناداں سے دانا نے

آبادیاں رونق پر ہیں حسن کےجلوؤں سے
اے عشق ترے دم سے آباد ہیں ویرانے

آنکھیں ہیں کسی کی ، یا رکھے ہیں چھلکنے کو
صہبائے محبت سے لبریز دوپیمانے

اے وہ کہ تری الفت ہے باعثِ رسوائی
حسرت ہے کہ کہلائیں ہم بھی ترے دیوانے

ہر درد بھرے دل کی ہمدردی و شرکت پر
مجبو رکیا مجھ کو دل درد شناسا نے

اک شرح مکمل ہے دیباچہء ہستی کی
کچھ قصے مصیبت کے کچھ درد کے افسانے

دل لوٹ ہوا دل پر آنکھوں سے ملیں آنکھیں
شیشے سے ملا شیشہ پیمانوں سے پیمانے

جب وقت مصیبت کا انساں پہ منیر آیا
احباب و عزیز اپنے سب ہوگئے بیگانے
 
Top