محمد منظور فرید
محفلین
جمیلہ بہن {پشپا } سے ایک ملاقات
میں نے شہناز بہن کی دلی تمنا اور کوشش سے نو مسلم جمیلہ صاحبہ کو غریب خانہ پر آنے کی دعوت دی، اہلیہ مولانا ذوالفقار کی بہن افسانہ صاحبہ کے ہمراہ جمیلہ صاحبہ تشریف لائیں، سلام و دعا ء کے بعد چائے پانی کے دوران ہی شہناز بہن کاپی پین لے کر بیٹھ گئیں، تب میں نے کہا کہ ارمغان اور اللہ کی پکار جیسے شمارہ میں جو بھائی بہن اپنی اصل کی طرف یعنی ایمان کے اندر آتے ہیں تو لوگوں کی ترغیب کے لئے ان کے انٹرویو چھاپے جاتے ہیں اور اس کے بے حد اچھے نتائج سامنے آ رہے ہیں اور یہ بے حد مقبول ہیں، شہناز بہن بولیں کہ ہندوستان میں ہی نہیں، سعودی عرب، برطانیہ، افریقہ میں بھی یہ انٹرویو بے حد مقبول ہیں اور نفع دے رہے ہیں اور لوگ اپنے خرچ سے ان کی کاپیاں کر ا کر تقسیم کراتے ہیں، تب جمیلہ بہن تیار ہو گئیں ورنہ یہ نظر یہ رکھتی تھیں کہ میں جو کچھ ہوں خدا کے لئے ہوں اور خدا سے اجر کی طالب ہوں، دنیا کی شہرت بھی عزیز نہیں حسب معمول ہمارا پہلا سوال تھا :سوال : آپ کا پہلا نام کیا تھا ؟
جواب :جمیلہ بہن ! میرا پہلا نام پشپا تھا،
سوال : آپ کے والد کا نام ؟
جواب :میرے والد کا نام شیورام بھگت تھا والدہ کا نام سومی بائی تھا،
سوال : آپ کا تعلق کس خاندان سے اور کس جگہ سے تھا ؟
جواب :میرا تعلق پنجاب راجپور ہ ضلع پٹیالہ کے بھگت خاندان سے تھا، ہم لوگ تین بہنیں تھیں
سوال : آپ نے اسلام کیوں قبول کیا اور اپنے پرانے مذہب کو کیسے چھوڑا ؟
جواب : سیدھا سچا جواب تو یہ کہ میرے اللہ کو مجھ سے پیار تھا اور میرے رب نے پھر کرم کیا کہ ایمان کی دولت سے نوازا اور کفر کو مجھ سے دور کیا اور بظاہر ’’مسلم عورت کی ستر پوشی ‘‘ میرے اسلام لانے کا سبب بنی ( آگے بولیں ) میری بہن !میری ایک لمبی داستان ہے شہناز بہن افسانہ بہن اور میں ، تینوں بر جستہ بولے۔
سوال : ہاں ہاں، وہی تو آپ سب بتایئے اور بلا جھجھک بتایئے ؟
جواب : (تب انہوں نے اپنی حیات کو پرت در پرت کھولنا شروع کیا )ہمارا گھرانہ غریب تھا، میری والدہ کی بہن کی شادی ایک بڑے گھرانے میں ہوئی، جب میری شادی ہوئی اس وقت میری عمر ۲۰/سال تھی میری خالہ نے سوچا کہ میری بھانجی بھی بڑے گھرانے میں آ جائے، اس لئے انہوں نے اپنے دیور کے بیٹے سے جو کہ سی بی آئی آفیسر تھے میری شادی کرا دی، میری والدہ امیر غریب کے خوف کی وجہ سے شادی پر آمادہ نہ تھیں، ایک طرح سے زبردستی یہ شادی کرائی گئی شادی کے بعد معلوم ہوا کہ جن سے میرا بندھن بندھا ہے وہ بے حد لا پرواہ اور شرابی ہیں، سسرال میں میرا حال تو نوکر سے بھی بدتر تھا اور میں کٹھ پتلی کی طرح سسرال مائکہ میں گھمائی جاتی رہی ۱۹۸۰ء میں میری شادی ہوئی اور ۱۹۸۳ء میں میرا بیٹا پیدا ہوا اس وقت میں بے حدستم رسیدہ حالت میں اسپتال میں تھی، میری ماں نے بھی میری پرواہ چھوڑ دی بیچاری کیا کرتی حالات ہی ایسے تھے میں نے لوگوں کے جھاڑو برتن تک کئے اور ایسے حالات میں دو بیٹے اور ایک بیٹی کی خدا نے مجھے ماں بنا دیا، اللہ نے مجھے دماغ بہت تیز دیا، میں نے ۱۹۸۰ء میں سلائی کڑھائی کے کارخانہ میں ۲۵۰/روپئے ماہانہ تنخواہ پر کام شروع کیا، وہیں سے میرا اسلام سے تعلق جڑا، وہ کارخانہ کسی ہندو کا تھا لیکن اس میں نوکر مسلمان تھے اور مسلمان بریلوی تھے میں ساڑی پہن کر کارخانہ جاتی اور میرا بلاؤز بغیر آستین کا ہو تا تھا، مسلم نوکر لڑکے بولے بہن جی آپ ہمارا ایمان خراب کرتی ہیں، میں بولی ایمان کیا ؟ وہ بولے ہم لوگ مسلمان ہیں اور ہمارے یہاں مسلم عورت سترپوش یعنی ڈھکی چھپی رہتی ہے اور اس لئے مردوں کا ایمان بھی سلامت رہتا ہے اور عورتوں کا بھی۔
میں نے کہا کہ ایمان کیا ہے ؟ بولے کہ ایک کلمہ ہے جو پڑھا لیا جاتا ہے، میں بولی کہ وہ تو مسلمان عورتیں ہیں اپنے دھرم کی وجہ سے کرتی ہیں، مسلم ورکر بہت دردمندی سے بولے کہ بہن جی آپ چاہے جو بھی ہوں ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ بھی ہماری ماں بہنوں کی طرح کپڑے پہنو میرے دل میں ان کے ایمان کی اور ستر پوشی کی بات گھر کر گئی اور میں سوچنے لگی کہ کیسا اچھا ایمان ہے ان کا اور ان کے یہاں کس قدر عورت کی عزت کی جاتی ہے میرا دل بیقرار ہو اٹھا ان ورکر کے ایمان کے اندر آنے کے لئے، اگلے دن میں نے کہا کہ بھائی میں تمہارے ایمان میں آنا چاہتی ہوں مجھے کیا کرنا ہو گا ؟ ایک کلمہ ہے وہ پڑھنا ہو گا، میں نے کہا جلدی مجھے پڑھاؤ بولے کہ ہم نہیں پڑھا سکتے ہمارے بابا پڑھائیں گے اور وہ فلاں دن آتے ہیں اب مجھے اس فلاں دن کا بے قراری سے انتظار رہنے لگا، خدا خدا کر کے وہ دن آ گیا، ایک لمبا سا چوغا اور طرح طرح کی گلے میں مالائیں پہنے اور ہری ٹوپی پہنے بابا کارخانہ میں تشریف لائے اور انہوں نے رومال پکڑوا کر کہلوایا ’’صلی علی کا یا محمد، یا اللہ یا محمد یا علی المدد کر مدد (جمیلہ بہن نے جب یہ کلمہ سنایا ہمیں ہنسی بھی آئی اور تعجب بھی ہوا )ہم لوگ بیچ میں بولے یہ کلمہ نہیں ہے وہ بولیں کہ ہاں ہاں یہ اس زمانہ کا میرا ایمان تھا بھئی جیسے کہا، جو بتایا میں نے کہا اور پڑھا اور بہت زمانہ تک ہر وقت یہ ورد زباں رکھتی تھی اور پھر بتایا گیا کہ قبروں پر جانا ہے میں ان بابا کی مرید بن گئی اور میں نے ہندوستان کے بڑے بڑے مزاروں پر حاضری دی اور جیسا وہاں ہوتے دیکھتی، کرتی۔
ادھر میں ساڑی کی جگہ سوٹ پہننا شروع کیا اور خود کپڑے ڈیزائن کرنا شرو ع کیا اور میری ڈیزائن ڈریس کی بہت قیمت لگی، میں نے الگ سے مشین خریدی اور خود ڈیزائن کر کے ڈریس تیار کی اور بازار میں فروخت کی میرا کاروبار چل نکلا، ۱۹۸۲ء میں اوکھلا، فیس، 2میں میں نے اپنے کارخانہ کی بنیاد ڈالی اور الگ سے مسلم ورکر رکھے، مجھے کمانے کی دھن لگ گئی اور اللہ نے بھی اس قابل بنا دیا کہ میں نے نہرونگر میں ۳/منزلہ ایک پورا کیمپس خریدا، ہاں ایک بات اور یاد آئی جب میں کارخانہ میں کام کرتی تھی، بابا کو خانقاہ کی ضرورت تھی مری ماں نے میرے نام ایک دوکان کر دی تھی وہی ان کی کل جائیداد تھی، بابا کو خانقاہ کے لئے زمین کی ضرورت تھی سلطان پور غوث آباد میں میں نے اپنی ماں سے کہا وہ دوکان کے کاغذات دے دو اور مجھے ایک مکان خرید نا ہے، میں نے ماں سے جھوٹ بولا ورنہ ماں کبھی کاغذات نہ دیتی، میں نے کاغذات لے کر وہ دوکان اس زمانہ میں ۱۲/ ہزار کی فروخت کر دی ۱۱/ہزار ان بابا کو خانقاہ کے لئے دے دیئے ایک ہزار خود رکھی اس وقت سروس کر تی تھی ۲۵۰/ روپیہ تنخواہ ۳/ بچے اور خود اور مکان کرائے کا، ایک ہزار کرایہ جمع کیا اور دلی کورٹ پٹیالہ ہاوس میں جا کر باقی پیسہ سے اسلام قبول کرنے کی کاروائی پوری کی بس پھر خدا کے نام پر دینے کی دھن سوار تھی میں چاہتی تھی کہ کماؤں اور خدا کے لئے لٹاؤں مجھے کمانے کی دھن لگ گئی، نہرو نگر میں خدا نے جائیداد دلوا دی، وہاں جو ورکر کام کرتے تھے وہ ورکر نماز پڑھتے تھے وہ نماز پڑھنے جاتے اور باہر جا کر نماز کے بہانے پکچر دیکھنے چلے جاتے اور میں نمازیوں کو ہی کام دیتی تھی مگر ورکر چالاکی کرتے، میں نے سوچا مجھے ایسی جگہ کارخانہ کی تلاش کرنی چاہیئے، جہاں مسجد کارخانہ سے ملی ہوئی ہو تب میں نے حاجی کالونی، غفور نگر میں زمین خریدی اور کارخانہ ادھر شفٹ کیا لیکن ادھر چونکہ میں اکیلی کام کرتی تھی اور مسلم ایریا میں مسجد کی وجہ سے میں شفٹ ہوئی تھی تا کہ ورکر نماز ضرور پڑھیں اور دیر تک غائب بھی نہ ہوں کہ کارخانہ میں کام کا نقصان نہ ہو لیکن ادھر کے مسلمانوں نے مجھے بہت تنگ کیا کہ یہ کیسی مسلمان بنی ہے لڑکوں سے کام کراتی ہے طرح طرح کی باتیں۔۔۔۔۔۔میرا ذہن پریشان ہو گیا حتیٰ کہ میرا کارخانہ ٹھپ ہونے لگا اور میں بچوں کے پاس نہرو نگر چلی گئی کام بالکل بند کر دیا کہ اسلام میں ورکر سے کام کروانا جائز نہیں اور میں غریبی میں چلی گئی، فاقے ہونے لگے میں نے کترن بیچنا شروع کی اور پھر کچھ سہارا شروع ہوا ادھر کچھ اور اچھی مسلمان بہنیں ملیں، انہوں نے کہا آپ کو غلط بتایا گیا ہے آپ اپنا کاروبار شروع کیجئے اور یہ افسانہ ہے اس کے شوہر مولوی ذوالفقار نے میری بڑی رہنمائی کی اس نے مجھے اپنی ماں بنا لیا اور حقیقی ماں کی طرح میرا خیال رکھنے لگا میں نے حاجی کالونی میں کارخانہ شروع کیا اور نائٹی، ٹاپ اور پٹیالہ شلوار کی ڈیزائننگ کر کے مارکیٹ میں فروخت شروع کر دی اور یہاں بھی میں نے عمارت بنا لی اور خود بھی ادھر ہی شفٹ ہو گئی اور تب میں نے جانا کہ جس اسلام پر میں چلتی ہوں قبرپرستی، وہ صحیح نہیں، کلمہ صحیح طرح پر یہیں پڑھا، نماز یہاں آ کر سیکھی، قرآن کریم پڑھا، تبلیغی جماعت کی بہنوں سے میل جول پیدا ہوا میں نے جب نماز سیکھی اور اس کو ادا کیا تو سمجھ میں آیا کہ حدیث نبویﷺ ’’نماز مومن کی معراج ہے ‘‘واقعی معراج ہے، (یہ سب کہتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو گئیں ہمیں ان کی کیفیت دیکھ کر ان پر بڑا رشک آیا ہم نے کہا کہ آپ تو بڑی ولی صفت اور اونچی ہستی ہیں ) جمیلہ بہن بولیں کہ میں کچھ بھی نہیں اور پھر بڑی تڑپ سے بولیں کہ کسی طرح کاش میری وہ نماز کی کیفیت لوٹ آئے اور مجھ سے کہنے لگیں کہ کوئی عمل بتاؤ کہ مجھے نماز میں پہلے کی طرح معاملہ ہو، ہم نے کہا کہ اللہ بے حد رحیم و کریم ہے اس سے گڑ گڑ ا کر جو مانگو ملتا ہے جمیلہ بہن برجستہ بولیں کہ میرے ساتھ تو ہمیشہ ہی جب جب مانگا سب کچھ ملا بندہ بڑا ناشکرا ہے، بے وفا ہے اسے مانگنا ہی نہیں آتا، مانگتا ہی نہیں ہم نے کہا۔
سوال : اپنے کوئی خاص لمحات بتایئے ؟
جواب : رمضان المبارک کا مہینہ تھا میں روزے برابر رکھتی رہی، نمازیں بھی اد ا کرتی، لیکن نماز کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکتی، مجھے شوگر ہو گئی اور گھٹنوں نے کام کرنا بند کر دیا، جہاں میں رہتی ہوں وہاں میرے ایسے پورشن ہیں کہ بہ آسانی کرایہ دار بھی رکھتی ہوں لیلۃ القدر آ گئی سب لوگ کھڑے ہو کر نوافل میں مصروف تھے میں بھی اسی رات جاگ رہی تھی، پیروں کے درد کی وجہ سے اٹھ نہ سکتی تھی کسی مسلم بہن نے بھی مجھے اس رات کے بارے میں کچھ خاص نہ بتایا اور میرا دل پھٹا جا رہا تھا کہ کوئی آئے مجھے تسلی دے اس رات کی عظمت کے بارے میں بتائے میں ایسے میں کیسے عبادت کروں، میری مدد کرے، پھر بے بسی کی کیفیت طاری ہوئی میں بیٹھے بیٹھے سجدہ میں جا گری اور اسی طرح مالک کے سامنے آہ و فغاں کی تڑپ تڑپ کر روئی، روتے روتے زور زور سے میری چیخیں لگ گئی مجھے کچھ ہوش نہ رہا بس خدا اور میں فریادی اور بے بسی ایسی کہ عبادت اور نماز بھی کھڑے ہو کر نہ پڑ ھ سکوں اس کا احساس ہوا کہ یکا یک مجھے لگا میں کھڑی ہو سکتی ہوں اور میں سیدھی کھڑی ہو گئی اور اس رات میں نے کھڑے ہو کر خوب نماز ادا کی اور میں چلنے پھرنے سے معذور چلنے پھرنے لگی اور کئی سال تک میں ایسی رہی کہ مجھے کوئی بیماری نہیں تھی شوگر بھی ختم ہو گئی آگے بولیں کہ بس بہن ہم بہت نکمے ہیں، پھر دنیا داری میں پھنس گئی اور پھر وہی بیماری۔
میں نے فضائل اعمال پڑھنا شروع کی، جب میں نے یہ پڑھا کہ جس کا بیٹا حافظ قرآن ہو گا اس کو آخرت میں اس بیٹے کی ماں کو جنت میں تاج پہنایا جائے گا میں تڑپ گئی کہ اللہ اب میں کیا کروں میرے دو بیٹے ہیں ان کی شادی ہو چکی، بچے بھی ہو گئے اور کیونکہ میں بس صلی علی کا یا محمد، المدد کر مدد اور قبروں پر جانے کو مسلمان سمجھتی تھی بس خود ہی مسلمان بنی رہی مجھے خاندانی حالت پر رہے ان کی شادی میں نے ہندو لڑکی سے کی اور بچے پھر اس نعمت سے محرومی نے دکھی کر دیا، میں زار و قطار روئی کہ سب حافظوں کی ماؤں کو تاج پہنایا جائے گا، میرے لیئے کو ئی تاج نہ ہو گا میرا کوئی بیٹا حافظ نہیں ایک پڑوسن دیندار تھی میرے ہر وقت کے رونے کو دیکھ کر کہنے لگیں کہ تم میرے بیٹے کو پڑھا لو حافظ بنا لو، دوسروں نے کہا کہ کوئی غریب بچہ پڑھا لو، میں نے غریب بچہ کی تلاش شروع کر دی، ایک بچہ جس کا نام احتشام تھا اس کو پڑھانے کے لئے سہارنپور مدرسہ سوکڑی میں چھوڑا اور وہ الحمد للہ حفظ کر رہا ہے، پھر مجھے لوگوں نے کہا، ایسے تاج نہیں پہنایا جائے گا آپ بن ماں باپ کا بچہ تلاش کرو اس کو حفظ کراؤ، اب میں اور رونے لگی اور لگتا تھا کہ روتے روتے جان چلی جائے گی کہ ہائے محرومی مجھے تاج نہ پہنایا جائے گا، اب میں نے کسی ہندو غریب کی جھگی جھونپڑی میں تلاش شروع کر دی ایک بچہ خدا نے مجھے ملوایا، جو بن ماں باپ کاہے عبداللہ اس کا نام رکھا اسے رائے پور سہارن پور کی طرف لے کر گئی اور اسے پڑھا رہی ہوں، ما شاء اللہ اس کا ۱۲/واں پارہ ہے رائے پور میں پڑ رہا ہے دونوں بچوں کے لئے کپڑا خرچ وغیرہ لے جاتی ہوں میرا پوتا میرے پاس رہتا ہے، ۱۳/سال کاہے، اسے حوض والی مسجد میں بھیجا ہوا ہے امن نام ہے دعا کرو وہ بھی حافظ ہو جائے، آمین، یہ سب سنتے ہوئے ہم سناٹے میں گنگ بیٹھے ہوئے تھے کہ یا اللہ فضائل اعمال کی حدیث پڑھی اور کس طرح عمل پیرا ہوئی ؟ اور ہمارا کیا حال ہے کہ ہم پیدائشی مسلمان حفظ تو حفظ ناظرہ پڑھنا بھی کِسر شان اور سب سے پہلے انگلش میڈیم اسکول کی دوڑ۔ رواں رواں خوف خدا سے کھڑا ہو گیا کہ ہمارے اس سلوک کی وجہ سے خدا ہمارے ساتھ کیسا معاملہ فرمائے گا میں نے کہا جمیلہ بہن آپ قابل مبارک باد ہیں دعاء کریں اللہ ہمیں بھی آپ کی طرح بنا دے، آمین ثم آمین
ہم حالانکہ کافی وقت لے چکے تھے مگر دل چاہتا تھا کہ اپنی روداد سنائی جائیں اور ہم سنتے جائیں ہم نے کہا اور کچھ خاص بتایئے بولیں فضائل اعمال میں پڑھا کہ سود خور کے ساتھ یہ معاملہ ہو گا کہ اس کے پیٹ میں سانپ بچھو ہوں گے۔
ہمارے یہاں ہفتہ میں اجتماع ہوتا ہے اور میں پنجاب وغیرہ بھی جاتی ہوں وہاں ہندو بہنیں میرا وعظ سنتی ہیں جالندھر میں میں نے جب یہ سود والی حدیث سنائی تو سب نے یقین کر کے وہاں سود لینا دینا چھوڑ دیا ہندو ہو کر اور وہ بے چین رہتی ہیں کہ اپنے دھرم کی اور بات بتاؤ تب میں نے کہا آپ پروگرام بنائیں انشاء اللہ ہم لوگ بھی چلیں گے، دعوت کے اوپر بات کریں گے بولیں کہ جی لوگ پیاسے ہیں مجھے تو کچھ زیادہ معلومات نہیں بس فضائل اعمال اور قرآن ہندی ترجمہ سے پڑھا ہے آپ لوگ اگر آگے آئیں تو لوگ پیاسے کھڑے ہیں ذراسے اشارے کی دیر ہے دامن اسلام میں آ جائیں گے، (تب اور اپنے اوپر شرمندگی ہوئی اور اپنے ساتھ تمام مسلم لوگوں سے شکوہ ہوا کہ واقعی ہم اپنے ہی دائرہ میں رہتے ہیں کھانا پینا اور اپنے کو بچوں کو کھلانا پلانا اور انجینئر، ڈاکٹر وغیرہ وغیرہ کی آرزو رکھنا یہ ہی مقصد حیات سمجھے ہوئے ہیں اللہ سے ہم نے توبہ کی اور کچھ کرنے کا عزم کیا) آگے سلسلہ کلام کو جاری رکھنے کے لئے ہم نے پوچھا کہ :
سوال : شہناز بہن بتا رہی تھیں کہ آپ شوہر سے ۲۵/سال بعد ملی ہیں اور آپ کے شوہر بھی مسلمان ہو گئے ہیں اور آپ کا دوبارہ نکاح ہوا ہے یہ سب کیا قصہ ہے ؟
جواب :جمیلہ بہن بولیں کہ میرے شوہر نے ۲۵/سال سے میرا اور میرے بچوں کا کو ئی خرچ نہیں اٹھایا اب وہ پچھلے دنوں ریٹائر ہوئے اور انہوں نے فنڈ کے پیسے سے ایک فلیٹ خریدا اور حالات کچھ ایسے بنے کہ وہ فلیٹ انہیں گروی رکھنا پڑا، ناچار میرے نہرو نگر والے فلیٹ میں جہاں میرے دونوں لڑکے اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں ان کو وہاں آنا پڑا میں برابر سب رشتہ داروں سے ملتی ہوں، جب کچھ دن باپ کو بیٹے اور بہو کے پاس رہتے ہو گئے تو بڑی بہو نے انہیں باہر کر دیا اب یہ دوسرے بیٹے کے گھر میں گئے، دیکھتی کیا ہوں ایک دن میری بڑی بہو ان کو کھانا دیتی ہے ایسے جیسے کسی کتے کو ڈالتے ہیں میں نے کہا تم اس طرح کرتی ہو، اس طرح تو کسی کتے کو بھی نہ دیتے ہوں، خیر میں حسب معمول خرچ دینے کے لئے رائے پور حافظ بچے کے پاس گئی وہاں ایک دہلی جامعہ ملیہ کا بچہ سروس چھوڑ کر گیا ہے اب حفظ کرتا ہے رائے پور میں رہتا ہے خدا نے اسے دین پر لگا دیا ہے وہ بولا اماں جی ! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے، اس نے میری سب کہانی کا حال اس نو مسلم بچے نے بتا دیا ہو گا، بولا آپ کے شوہر ہندو ہیں، آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنے شوہر کو دین کی دعوت دیں مجھے ان کے سلوک کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی تعلق محسوس نہ ہوتا تھا، میں نے کہا کہ بیٹے وہ تو بہت بڑے شرابی ہیں شراب کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے، وہ بچہ بولا کہ اماں !اگر آپ کو شراب کا گلاس بھر کر بھی دین کی دعوت دینی پڑے، آپ دین کی دعوت دیں یہ دعوت دینا اتنا ضروری ہے مجھے امید ہے انشاء اللہ وہ ضرور ایمان لے آئیں گے، آپ ایسے جذبہ والی ہیں، آپ یہ کام ہر حال میں کریں، اب میں گھر آ گئی میں نے فون اٹھایا ادھر سے فون انھوں نے اٹھایا مگر میں کچھ ہمت نہ کر سکی عجیب شرم محسوس ہو ئی مگر دل میں اللہ سے گڑ گڑاؤں، اے اللہ ایمان کی دعوت دے دوں ایسی ہمت عطا کر، میری بہن ہندو ہے مگر سب کلمہ درود جانتی وہ بھی بہنوئی کی ایسی درگت سے دکھی تھی، وہ روز کہتی کہ تو مسلمان بن جا تیری زندگی بن جائے گی دیکھ میری بہن کی مسلمان بننے سے کیسی زندگی بنی ہوئی ہوئی ہے روز روز کہتی رہی ایک دن دیکھتی کیا ہوں کہ زبردستی میرے شوہر کو میرے گھر لے آئی ہے، میں ناراض ہوئی کہ تو اس ہندو شرابی کو کیوں لے کر آئی ہے ؟وہ بولی یہ مسلمان بننے کو تیار ہے غفار منزل کی مسجد میں صبح ۱۰/بجے کسی مولانا کا بیان ہوا، ان کو وہاں لے کر گئے اور وہاں پر مولانا نے ان کا نکاح پڑھایا کلمہ پڑھا یا، انہیں کا بیان تھا، وہ کلمہ پڑھا کر جانے لگے میں روٹھی روٹھی تھی، میرے بیٹے ذوالفقار نے ان سے کہا میری جمیلہ ماں کو سمجھایئے پردہ کئے بیٹھی ہیں، پردہ چھوڑیں اور ناراضگی بھی ختم کریں، مولانا نے مجھے سمجھایا میری سمجھ میں بات آ گئی، مگر ۲۵سال سے الگ رہتی ہوں عجیب سا حجاب آتا ہے، ویسے جتنا کچھ ہو رہا ہے خدمت کر رہی ہوں، آج ۲۲/ دن ہو گئے شراب کو ہاتھ تک نہیں لگا یا ہے۔
سوال : آپ ان کی نماز وغیرہ کے بارے میں اور تمام ارکان اسلام کے بارے میں کیا فکر کرتی ہیں ؟
جواب :ماشاء اللہ پانچوں وقت مسجد جا رہے ہیں کسی نے کہا کہ پھلت میں ایک بہت بڑے حضرت جی ہیں ان سے ضرور ملوایئے، وہ ۳/دن کے لئے پھلت گئے مگر حضرت جی نہیں مل سکے، ہم نے کہا کہ آپ ان کو دہلی بٹلہ ہاوس دار ارقم میں بھیجئے وہاں ان کو فائدہ ہو گا اور حضرت جی سے ملاقات بھی ہو جائے گی جمیلہ بہن کہنے لگی، آپ کی بڑی مہربانی ہو گی، اگر آپ ان کی تربیت کا انتظام فرما دیں میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ کاش جگہ جگہ پر تربیتی سینٹر قائم ہو جائیں اور خداسے دل ہی دل میں دعاء کی رب العالمین مجھے اس قابل بنا دے کہ نو مسلم بھائی بہنوں کو آشیا نہ فراہم کر سکوں اور تربیت کے لئے درد مند، پر خلوص اسکالر جمع کر دوں کہ ان لوگوں کو لگے ’’ہم اسلام میں آ کر امن میں آ گئے جنت میں آ گئے محبت کی چھاؤں میں آ گئے، حالانکہ کافی دیر ہو چکی تھی مگر سب سے اہم سوال ان کی اولاد کے بارے میں پوچھنا باقی تھا میں نے کہا کہ :
سوال : جمیلہ بہن جب آپ شروع سے علیحدہ اور اپنے بل بوتے پر اپنے بچوں کے ساتھ ہیں تو پھر آپ نے اپنے بچوں کو ہندو کیسے رہنے دیا ؟
جواب :وہ بولیں کہ کسی مسلمان نے مجھے کچھ بتایا نہیں سچ پوچھئے تو ادھر حاجی کالونی میں صحیح مسلمان میں خود بنی ہوں ویسے میرے دونوں لڑکے بسم اللہ، الحمد للہ سب پڑھتے ہیں بڑی بہو تو کٹر ہے لیکن چھوٹی بہو نرم دل ہے چھوٹا بیٹا میرے ساتھ کام کرتا ہے بلکہ اب فیکٹری دوکان سب کچھ وہی سنبھالتا ہے بس بہو سے ڈرتا ہے۔
ہم نے کہا، ایسا کرتے ہیں کہ آپ کے بیٹے کی بیوی کو دعوت کھانے پر بلا تے ہیں اور ہم کچھ کوشش کر کے دیکھتے ہیں وہ بہت خوش ہو گئیں بولیں نہیں پہلے میں آپ کی دعوت کروں گی اور اپنی بہو کو بلا لوں گی، سویرے شام سے بلا لوں گی آپ اس سے مل لیجئے اور پھر اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے دیجئے ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیئے کچھ دیر خاموشی طاری رہی اور سب سر جھکائے بیٹھے تھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم کسی اور دیس کی باتیں سن رہے ہیں میں نے کہا افسانہ آپ بھی بہت خوش قسمت ہیں اور قابل مبارک باد بھی کہ بیچ میں ہی جمیلہ بہن بولیں : میرا یہ منھ بولا بیٹا ذوالفقار اور بہوافسانہ مثالی بہو بیٹے ہیں، میں ان کے ساتھ حج بھی کر چکی ہوں اور ان دونوں کے لئے بے حد تعریفی کلمات بولتی گئیں اور دعاؤں کا دریا بہاتی رہیں اور میں سوچ ہی رہی تھی کہ شہناز بہن کی وجہ سے جاوید اشرف صاحب کی وجہ سے اللہ کتنے اچھے اچھے مثالی لوگوں سے ہمارا تعلق جوڑ رہا ہے، جمیلہ بہن نے جس طرح سے ان بیٹے بہو کی قربانی ایثار، خلوص و محبت کا تذکرہ کیا، اگر لکھنا شروع کر دوں تو انٹرویو اور لمبا ہو جائے گا اور ڈر ہے چھپنے سے رہ جائے میں تو شہناز، افسانہ جمیلہ صاحبہ کی گرویدہ ہو گئی اور اپنے حال پر ندامت اور شرمندگی کہ اللہ دنیا میں اب بھی دور نبیﷺ کی نقل کرنے والے لوگ موجود ہیں اور ہمارا کیا ہو گا اپنے میں مست رہتے ہیں سچ لکھ رہی ہوں میرا رونگٹا رونگٹا خوف خدا سے کانپ رہا تھا اور کانپتا ہے آپ سب لوگوں سے دعاؤں کی درخواست ہے کہ اللہ ہمیں دین کی خدمت کے لئے چن لے۔ آمین ثم آمین
اب ایک اور سوال میرے دل میں مچل رہا تھا کہ میں ایسی عبادت گزار اور خوش اخلاق ملنسار اور صدقہ خیرات کرنے والی اور تبلیغ کے لئے ہر وقت چلت پھرت کرنے والی کے اللہ سے معاملات سرگوشیاں بھی عجیب طرح کی ہوتی ہیں حالانکہ یہ ضروری نہیں، نیکی کی شرط ہے مگر گمان ایسا قدرتی ہوتا ہے، میں نے کہا :
سوال : کچھ خاص اللہ کے کرم فرمائیاں سنایئے ؟
جواب : بولیں کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میرا ایک کمرہ ہے جو بے حد حسین ہرے طوطیا رنگ کاہے کہ رنگ کا حسن بیان سے باہر ہے وہاں میں اور ایک آدمی مسجد میں پڑے ہوئے ہیں بے حد حسین ناقابل بیان عورتیں، ہیرے جواہرات، زمرد، موتیوں کے تھال لیے بیٹھی ہوئی ہیں، دوسرا خواب کہ میں لا انتہا اونچائی پر کھڑی ہوں بے حد سفید لباس میں اور میرے چاروں طرف بے حد شفاف پانی، میری آنکھ کھل گئی تعبیر تو اللہ جانتا ہے کیا ہے مگر بے حد سکون محسوس ہوتا ہے، ایک بار دیکھا کہ چٹیل میدان ہے میں اور میرا پوتا امن میرے ساتھ ہے کہ زبردست زلزلہ آتا ہے بڑا خوفناک، میں الحمد شریف پڑھنے لگتی ہوں کہ ایک دم زلزلہ الحمد پڑھنے سے رک جاتا ہے، اب کافی دیر ہو چکی تھی اور ان کو گھر جانے کی جلدی بھی تھی کیونکہ ان کے شوہر جو کہ پہلے کیلاش اور اب جمیل احمد ہیں اکیلے تھے ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور آخری سوال کیا۔
سوال : ارمغان پڑھنے والوں کے لئے کوئی پیغام ؟
جواب : بولیں میرا پیغام ہے کہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں ہندوؤں سے میل جول رکھیں یہ سرحدیں دور یاں گرائیں، ہندو قوم، مسلم دھرم کے بارے میں جاننے کو بے چین، متجسس رہتی ہے قریب آئیں لوگ جوق در جوق اسلام میں کھنچے چلے آئیں گے، سلام دعاء اور آئندہ مستقل ملاقات کے وعدوں کے ساتھ وہ ہمارے گھر سے رخصت ہوئیں، اور اب میں سوچ رہی ہوں کہ جب صرف ایک جاہل ان پڑھ ورکر کے ستر پوشی کے خیال سے ایک بہن ایمان میں آ گئی اور ان کے ذریعہ حفاظ اور خاندان کا اسلام میں آنا اور تبلیغ غیر مسلموں میں اور مسلمانوں میں کرنا خانقاہیں بنوانا، مسجدوں اور مدارس میں دینا دلانا اور جانے کتنے خیر خواہی کے کارنامے ہیں اور اگر جو عالم لوگ ہیں ہمارے ہندوستان کے اور بیرونی ہندوستان کے اٹھ کھڑے ہوں اور ایک جملہ ہی خیر خواہی کا کسی ہندو بھائی بہن سے بول دیں تو بیس کروڑ تو مسلمان ہندوستان میں ہیں اور باقی دنیا میں کتنے ہوں گے، دنیا امن کا گہوارہ بن جائے گی کاش مسلمان اپنا منصب پہچانیں اور اگر کچھ بھی نہ کر سکیں تو اتنی تو میری التجاء ہے ضرور کریں کہ اپنے ان خونی رشتوں کے بھائی بہن کے لئے رات کو تنہائی میں آنکھوں سے دو آنسو گرا لیا کریں کہ اللہ ان کے لئے ایمان کی ہدایت مقدر فرما دے۔آمین
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ٗ
مستفاد از ماہ نامہ ارمغان، جولائی ۲۰۰۸ء