قتل ہو جانا، بظاہر مری تقدیر نہ تھی(فقیر عارف امام)

محمد فائق

محفلین
قتل ہو جانا، بظاہر مری تقدیر نہ تھی
میرے ہاتھوں میں قلم تھا، کوئی شمشیر نہ تھی

یہ الگ بات کہ آتے تھے نظر میرے نقوش
ورنہ دھبہ تھا لہو کا مری تصویر نہ تھی

میری پہچان وہی صفحۂِ سادہ ٹھہرا
جس پہ کوئی بھی نشانی مری تحریر نہ تھی

تم خطابت کا مزا ڈھونڈ رہے تھے جس میں
مرثیہ تھا وہ مری جاں، کوئی تقریر نہ تھی

اشکِ جاری نے ملائم کئے الفاظ مرے
آنکھ بے گریہ تھی جب تک تو یہ تاثیر نہ تھی

یہ بھی اچھا ہوا، منسوخ ہوئی آیتِ عشق
یہ وہ آیت تھی کہ جس کی کوئی تفسیر نہ تھی

وہ گرفتار، حقیقت میں گرفتار نہ تھا
وہ جو زنجیر نظر آتی تھی، زنجیر نہ تھی

وہ تو ایک وار سوئے سینۂِ کوثر تھا میاں
گردنِ طفلکِ تشنہ ہدفِ تیر نہ تھی

مجھ کو غالب نہ سمجھیو کہ مری طبعِ رواں
تھی مقلد بھی، فقط معتقدِ میر نہ تھی

یہ زمینِ سخنِ سبز، عطائے رب ہے
مجھ کو صدقے میں ملی ہے، مری جاگیر نہ تھی
فقیرعارف امام
 
Top