ماروا ضیا
محفلین
اسلام ُ علیکم!
میں نے قتیل شفائی صاحب کی کتاب جو کے اردو ویب نے یونی کوڈ میں تبدیل کی ہے سے ایک غزل پوسٹ کی تو ایک دوست نے اُس غزل کے بارے میں نشاندہی کی کہ یہ غزل قتیل صاحب کی نہیں بلکہ خواجہ نصیرالدین شاہ صاحب (رح)کی ہے اور یہ غزل پیر کامل ناول میں بھی ہے۔ یہ غزل ورڈ فائل کے صفحہ نمبر 27 پر موجود ہے
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تری انجمن میں اگر نہیں، تری انجمن کا قریں سہی
ترا در تو ہم کو نہ مل سکا، تری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
اعجاز عبید صاحب نے کتاب کی تدوین کی ہے کیا آپ قتیل صاحب کی کتاب کا ریفرنس جہاں سے یہ لی گئی ہے دے سکتے ہیں۔
میں نے قتیل شفائی صاحب کی کتاب جو کے اردو ویب نے یونی کوڈ میں تبدیل کی ہے سے ایک غزل پوسٹ کی تو ایک دوست نے اُس غزل کے بارے میں نشاندہی کی کہ یہ غزل قتیل صاحب کی نہیں بلکہ خواجہ نصیرالدین شاہ صاحب (رح)کی ہے اور یہ غزل پیر کامل ناول میں بھی ہے۔ یہ غزل ورڈ فائل کے صفحہ نمبر 27 پر موجود ہے
میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی
وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی
ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی
ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی
سرِ طور سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
نہ ہو ان پہ میرا بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں
میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی
مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے
تری انجمن میں اگر نہیں، تری انجمن کا قریں سہی
ترا در تو ہم کو نہ مل سکا، تری رہگزر کی زمیں سہی
ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی
میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے
مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی
جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے
جو کریں آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی
اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تو قتیل دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی
اعجاز عبید صاحب نے کتاب کی تدوین کی ہے کیا آپ قتیل صاحب کی کتاب کا ریفرنس جہاں سے یہ لی گئی ہے دے سکتے ہیں۔