شاہد بھائی
محفلین
قدرت کا انصاف
مصنف:۔ شاہد بھائی
مکمل کہانی
شفیق اپنے والد کے کمرے میں داخل ہوا تو وہ کرسی پر بیٹھے اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے۔ شفیق ان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ تبھی شفیق کے والد کی زہریلی کھنکاراہٹ گونج اُٹھی۔مکمل کہانی
غریبوں کے لئے مکان اور نوکری کا بندوست کیا جارہا ہے ۔۔۔ اب یہ دن بھی آنے تھے" شفیق کے والد کا لہجہ حقارت انگیز تھا۔
کیوں اباجان؟ ۔۔۔ کیا غریبوں کو یہ سہولیات نہیں دینی چاہیں " شفیق نے معصومانہ انداز میں سوال کیا۔ اس کی عمر لگ بھگ بارہ سال تھی۔ اس چھوٹی عمر میں اپنے والد کی زبان سے یہ الفاظ سن کر وہ حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
نہیں!۔۔۔ میں کہتا ہوں جب قدرت نے ان سے یہ سہولیات چھین رکھی ہیں تو پھر یہ حکومت کون ہوتی ہے انہیں سہولیات دینی والی ۔۔۔ گذشتہ حکومت کا میں ہامی اسی وجہ سے تھا کہ وہ غریبوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے تھے ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اگر غریبوں کو یہ چیزیں ملنی لگیں تو وہ ہمیں جھک کر سلام کرنے کی بجائے ہم سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے ۔۔۔ اور یہ بات میں کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا " شفیق کے والد سرد آہ بھر کر کہتے چلے گئے۔ شفیق جب اپنے والد کے کمرے سے باہر نکلا تو اس نے اپنے دل میں غریبوں کے لئے سخت نفرت محسوس کی۔ دراصل اس کے والد کے پاس باب دادا کے زمانے کی کئی زمینیں موجود تھیں جن سے ہر مہینے لاکھوں روپے آمدنی ہوتی تھی۔ ان پیسوں نے شفیق کے گھرانے سے رحم دلی مکمل طور پر چھین لی تھی۔ شفیق کے والد اپنی دولت صرف اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا مانگتے تھے۔ شفیق نے یہ بات خود بھی محسوس کی تھی۔ ایک دن وہ اپنے والد کے ساتھ گاڑی میں بیٹھا سکول جا رہا تھا کہ راستے میں کسی فقیر نے گاڑی کے شیشے پاس آکر بھیک کے لئے ہاتھ بڑھائے۔ گاڑی اس وقت سگنل کے سرخ ہوجانے کی وجہ سے رکی ہوئی تھی۔ فقیر کو دیکھ کر شفیق کے والد کا منہ مارے غصے کے سرخ ہوگیا۔ پھر انہوں نے گاڑی کا شیشہ کھول دیا۔ فقیر بے چارہ یہ سمجھا کہ اب اسے کچھ پیسے دئیے جائیں گے لیکن ہوا کچھ اور ہی !۔ شفیق کے والد نے اس کا ہاتھ جھٹکے سے اندر کی طرف کھینچا اور پھر پوری قوت سے مڑوڑ دیا۔ فقیر کے منہ سے ایک درد بھری چیخ نکل گئی۔ شفیق بھی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جب گاڑی آگے بڑھ گئی تو شفیق کے والد نے اس کی حیرت دور کرتے ہوئے کہا:۔
بیٹا ! ۔۔ حیران نہ ہو ۔۔۔ یہ فقیر اسی لائق ہوتے ہیں ۔۔۔ میں نے تو اس فقیر کا بھلا کیا ہے ۔۔۔ اب اس کے ٹوٹے ہوئے ہاتھ کو دیکھ کر لوگ اسے کافی زیادہ بھیک دے دیں گے " شفیق کے والد نے بھیانک مسکراہٹ کے ساتھ کہا جس پر شفیق بھی ہنس پڑا۔ اسی طرح شفیق کا پورا بچپن مال و دولت اور عیش و عسرت میں گزرا۔ شفیق کے والد کے سامنے جب بھی کسی فقیر کا ہاتھ بھیک مانگنے کے لئے اٹھتا تو پھر دوبارہ اٹھنے کے قابل نہیں رہتا تھا۔ اُس بھکاری کا حال اس قدر بھیانک کر دیا جاتا کہ پھر کوئی بھی بھکاری شفیق کے والد سے بھیک مانگنے کا سوچ کر ہی کانپ جاتا تھا۔ شفیق جوان ہوا تو وہ بھی اپنے والد کی طرح سنگ دل اور بے رحم بنا۔ وہ اپنے نام سے بالکل ہی مختلف ثابت ہوا۔ اپنے والد سے حاصل کی ہوئی ظالمانہ تربیت پانے کی وجہ سے وہ ایک روپیہ بھی کسی غریب کو دینے کے لئے تیار نہ ہوتا تھا۔اس کے جوان ہونے کے کچھ ہی دنوں بعد اُس کے والد کو اس دنیا کے عیش و آرام کو چھوڑ کر قبر کی تاریکیوں میں جانا پڑا۔ وہ اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے۔ کفن دفن کرنے کے بعد جب شفیق واپس لوٹا تو اس نے اپنی ماں کے چہرے پر تھکاوٹ کا سمندر محسوس کیا جیسے وہ اپنے شوہر کے بغیر جینا نہیں چاہتی ہوں اور دنیا سے تھک چکی ہوں۔ ایک ہی ہفتے کے اندر اندر شفیق کی ماں بھی اپنے خاوند کے موت کے غم کو برداشت نہ کر سکی اور ان کے پیچھے پیچھے موت کے سفر پر روانہ ہوگئی۔ اپنی ماں کی وفات کے بعد شفیق دنیا میں تنہا رہ گیا تھا لیکن !!!۔ زیادہ دن تک اسے یہ تنہائی برداشت نہیں کرنی پڑی۔ پیسوں کے زور پر اسے ایک گھرانے سے اچھا رشتہ مل ہی گیا اور پھر کچھ ہی دنوں میں اس کی شادی ہوگئی۔ شادی کے بعد بھی اس کا رویہ نہ بدلا۔ اپنی بیوی کے ساتھ وہ نہایت مہربان اور نرم دل تھا لیکن کمزوروں بوڑھوں اور غریبوں کے ساتھ اُس کی سختی دیکھ کر امیر بھی کانپ اٹھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ شاید شفیق کو اور ڈھیل دینا چاہتے تھے ۔ جلد ہی اس کے گھر دو جڑواں بیٹے پیدا ہوئے۔ جب دوستوں کو اس نے یہ خبر سنائی تو سب نے یک زباں ہو کر کہا:۔
پھر تو تمہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔۔۔ اور کچھ صدقہ خیرات بھی کرنی چاہیے ۔۔ "۔ دوستوں کی بات سن کر شفیق کا منہ بن گیا۔
اللہ کا کس لئے شکر ادا کروں۔۔ اور صدقہ خیرات بھی کس کو کروں ۔۔۔ غریبوں کو ۔۔۔ جنہیں دیکھنا بھی میں اپنی توہین سمجھتا ہوں " شفیق نے مغرور لہجے میں کہا اور محفل سے اٹھ کھڑا ہوا۔ دوسرے حیرت سے اسے دیکھتے رہ گئے۔ دن یونہی گزرتے گئے یہاں تک کہ دس سال کا طویل عرصہ بیت گیا۔ اور پھر ایک دن اللہ کی رحمت جوش مار گئی۔ اس کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آنے کو تیار ہوگیا ۔ وجہ ایک مظلوم بچے کی موت تھی جس نے آسمان کی تمام مخلوقات تک کو لرزا کر رکھ دیا۔ ہوا کچھ یہ تھا کہ ایک دن شفیق رات کے وقت اپنی فیکٹری سے واپس گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں اس کی گاڑی کے سامنے ایک آٹھ نو سال کا معصوم بچہ جھولی پھیلائے کھڑا ہوگیا۔ بچے کو بھیک مانگتے دیکھ شفیق کے چہرے پر غصے کی بجلیاں نظر آنے لگیں۔ اُس نے گاڑی روکی اور پھر گاڑی سے اتر کر اس بچے کے پاس آپہنچا۔ بچے نے معصومیت سے کہا:۔
انکل۔۔۔ میں نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ۔۔۔ میں بہت بھوکا ہوں ۔۔۔ میرا کوئی نہیں ہے ۔۔ میں یتیم و مسکین ہوں ۔۔ مجھے کچھ پیسے دے دیں یا اگر پیسے نہ ہوں تو کھانا کھلا دیں " بچے حسرت بھرے لہجے میں کہتا چلا گیا۔ شفیق نے پھاڑ کھانے والے انداز میں اسے دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے ایک زناٹے دار تھپڑ بچے کے گال پر پڑا۔ بچے بلک بلک کر رونے لگاَ۔ دوسری طرف شفیق گرج کر کہہ رہا تھا۔
بھیک مانگنے کے لئے میں ہی بچا ہوں ۔۔۔ تم غریب لوگوں کو صرف کھانا ہی کھانا آتا ہے ۔۔۔ بھوکے نہیں رہ سکتے ۔۔۔ تمہیں تو زندہ ہی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ تم جیسے غریب لوگوں کی وجہ سے آج ہمارا ملک ترقی نہیں کر رہا ۔۔۔ کاش ایک مہم چلائی جائے جس میں ہر امیر کو دس غریبوں کو قتل کرنے کا حکم دے دیا جائے ۔۔۔ جاؤ ۔۔۔ دفع ہو جاؤ ۔۔۔ اور ہاں جا کر اپنی قسمت پر رو کہ تمہیں خدا نے غریب کیوں پیدا کیا ۔۔ اگر آئندہ میرے سامنے بھیک مانگنے آئے تو زندہ نہیں چھوڑوں گا " شفیق نے نہایت بے رحم اور شدید تلخ لہجے میں کہا۔ شفیق کی اس جھڑک نے بچے کے چہرے پر آنسو رواں کر دئیے ۔ وہ سسک سسک کر رونے لگا۔ اسے روتے ہوئے دیکھ شفیق کا دل نرم نہ پڑا بلکہ وہ اور بھی برہم ہوکر کہنے لگا:۔
رو کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ میں تم پر ظلم کر رہا ہوں ۔۔۔ لگتا ہے تمہیں سبق سکھانا ہی پڑے گا " یہ کہتے ہوئے شفیق نے درندگی سے اس ننھے بچے کو ایک زور دار دھکا دیا اور اپنی گاڑی کے سامنے سے ہٹا دیا۔ دھکا لگتے ہی بچہ پوری قوت سے سڑک کی پتھریلی زمین کی طرف گیا اور پھر اس کا سر فٹ پاتھ سے ٹکرا گیا۔ ایک زبردست آواز پیدا ہوئی اور پھر بچے کے سر سے خون جاری ہوگیا۔ دوسری طرف وہ بچہ فٹ پاتھ پر گر کر بے سد ہوگیا۔ شفیق نے ایک حقارت بھری نظر اس بچے پر ڈالی اور پھر دوبارہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اسے اپنے اس عمل پر کوئی شرمندگی محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی اسے یہ جاننے کی فکر ہوئی کہ بچہ ٹھیک تو ہے۔ کہیں ا سکی حالت نازک تو نہیں ہوگئی؟ گھر پہنچا تو اپنی بیوی کو کھانے کی میز پر اپنا منتظر پایا۔ فوراً ہی شفیق کے دونوں بچے اس سے آکر لپٹ گئے۔ شفیق نے دونوں بچوں پیار کیا اور پھر وہ سب کھانا کھانے لگے۔ آج کا دن شفیق کے لئے بہت تھکاوت بھرا تھا۔ نتیجے کے طور پر وہ کھانا کھانے کے بعد زیادہ دیر تک جاگ نہ سکا اور بستر پر لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔ اس کے دونوں بچے بھی اپنے کمرے میں سو گئے تھے ۔ شفیق کی بیوی بھی سو گئی۔ دوسری طرف فٹ پاتھ پر وہ ننھا غریب بچہ بے ہوش پڑا تھا۔ اس کا خون ابھی تک سر سے نکل کر سڑک کو سرخ کر رہا تھا۔ سردیوں کے دن تھے اس لئے رات کے وقت مکمل سناٹا ہوجاتا تھا۔ ان حالات میں بچے کی بھلا کون مدد کرتا ؟ آخر خون کی بھاری مقدار بہ جانے کی وجہ سے بچہ زندگی اور موت کی کشمکش میں زندگی کی بازی ہار گیا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو گیا۔ اب آج کی رات شفیق کے لئے بہت بھیانک ہونے والی تھی۔ قدرت نے آج شفیق کو اپنے تمام کئے گئے بد افعال کی سزا دینی تھی۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ شفیق کو رات خواب میں وہی بچہ نظر آیا جس سے شفیق نے راستے میں ظالمانہ سلوک کیا تھا۔ وہ بچہ خون میں لت پت کھڑا شفیق کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا۔ اس غریب بچے کے سر سے خون بہ بہ کر اس کے پورے چہرے کر سرخ کر رہا تھا۔ شفیق اسے خواب میں اس حالت میں دیکھ کر بوکھلا گیا۔ تبھی اس بچے کے لب ہلنے لگے:۔
انکل ۔۔۔ آپ نے آج میری زندگی ختم کر دی ۔۔۔ میں اللہ کے پاس پہنچ چکا ہوں لیکن اب آپ کی زندگی بھی سکون سے نہیں گزرے گی ۔۔۔ یاد رکھیے ۔۔۔ آپ کے بھی دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں " بچے نے مسکرا کر کہا۔ اس بچے کی مسکراہٹ دیکھ کر شفیق کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ چلاتے ہوئے بستر پر اٹھ بیٹھا۔ شفیق کی چیخ سے اس کی بیوی کی بھی آنکھ کھل گئی۔ اس وقت شفیق پسینے سے شرابور تھا۔ اس کا بدن بخار میں تپ رہا تھا۔ اس کی ایسی حالت دیکھ کر شفیق کی بیوی حیران رہ گئی۔
کیا ہوا آپ کو ۔۔۔ کوئی برا خواب دیکھا کیا " شفیق کی بیوی نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔ شفیق نے صرف سر ہلا دیا اور پھر جگ سے پانی نکال کر پانی پیا ۔ دوسرے ہی لمحے وہ بنا کچھ کہے دوبارہ سونے کے لئے لیٹ گیا۔ اس کی بیوی سمجھ گئی کہ شفیق نے کوئی خوفناک خواب دیکھا ہے جس وجہ سے وہ اس قدر پریشان نظر آ رہا ہے۔ وہ بھی مطمئن ہو کر سو گئی۔ صبح شفیق کی آنکھ کھلی تو وہ بری طرح چونکا۔ اس کی بیوی روتے ہوئے اسے جگا رہی تھی۔ شفیق بوکھلا کر اٹھ بیٹھا اور پھر اپنی بیوی کو حیران ہو کر دیکھنے لگا۔
سنیے ۔۔۔ غضب ہوگیا ۔۔۔۔ ہمم ۔۔۔ ہمارے بچے ۔۔۔ " یہان تک کہہ کر شفیق کی بیوی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
کیا ہوا بچوں کو " شفیق نے لرزتے ہوئے سوال کیا۔
آپ ٹی وی پر خبر دیکھئے " شفیق کی بیوی نے سسک کر کہا۔ شفیق کے دماغ میں بجلی سی کوندی۔ اسے رات والا خواب یاد آگیا۔ اس کے جسم کا رواں رواں بے چین ہوگیا۔ وہ جلدی سے اٹھا اور ٹی وی لانچ کی طرف بھاگا۔ ٹی وی پر نظر پڑتے ہی اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ ٹی وی پر چلتی ہوئی خبر نے اس کے ہوش اڑا کر رکھ دئیے تھے۔ خبر یہ تھی۔
آج صبح سکول بس نمبر 9010 بچوں کو سکول چھوڑنے کے لئے روانہ ہورہی تھی کہ راستے میں بس کا انجن فیل ہوگیا ۔۔۔بس پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی ۔۔۔ ڈرائیور نے پوری کوشش کی لیکن کسی طرح بھی بس کو روک نہ سکا کیونکہ بس کے بریک بھی کام کرنا بند کر گئے تھے۔۔۔ اسی وقت ایک ٹرک سامنے سے بس کی طرف آیا ۔۔۔ ٹرک بھی پوری رفتار پر تھا ۔۔۔ نتیجے کے طور پر بس ٹرک سے ٹکرا گئی۔۔۔ ٹرک پر کافی من وزنی سامان لوڈ کیا ہوا تھا۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ بس کا کچومر بن گیا۔۔۔ اس وقت بس کے اندر کسی بھی بچے کی لاش پہچانی نہیں جارہی ہے " مکمل خبر سن کر شفیق کو خواب میں اس ننھے غریب بچے کے کہے ہوئے الفاظ یاد آنے لگے:۔
" انکل ۔۔۔ آپ نے آج میری زندگی ختم کر دی ۔۔۔ میں اللہ کے پاس پہنچ چکا ہوں لیکن اب آپ کی زندگی بھی سکون سے نہیں گزرے گی ۔۔۔ یاد رکھئے ۔۔۔ آپ کے بھی دو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں "۔ شفیق کے دماغ میں اس بچے کے الفاظ گونجنے لگے اور پھر شفیق کے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہٹ ناچنے لگی۔ اس کی بیوی نے آنسو صاف کرتے ہوئے حیرت سے اسے دیکھا۔ تبھی شفیق کے قہقہے کمرے میں گونج اٹھے۔ وہ دیوانے وار گلا پھاڑ کر ہنسنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد شفیق کو ایمبولنس میں پاگل خانے لے جایا جا رہا تھا جبکہ اس کی بیوی خالی خالی نظروں سے اسے پاگل خانے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ قدرت نے شفیق کے تکبر کی رسی کو ایک ہی دن میں توڑ کر رکھ دیا تھا۔
٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭