کاشفی
محفلین
غزل
جوش ملیح آبادی
قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرّا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے، ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا، پھر بھی
ہجومِ کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلافِ مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں، مگر ناصح!
وہ آتے ہیں تو چہرہ پر تغیّر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر!
مگر جو گھِر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیالِ عیشِ رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں، یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گل، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے
جوش ملیح آبادی
قدم انساں کا راہِ دہر میں تھرّا ہی جاتا ہے
چلے کتنا ہی کوئی بچ کے، ٹھوکر کھا ہی جاتا ہے
نظر ہو خواہ کتنی ہی حقائق آشنا، پھر بھی
ہجومِ کش مکش میں آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
خلافِ مصلحت میں بھی سمجھتا ہوں، مگر ناصح!
وہ آتے ہیں تو چہرہ پر تغیّر آ ہی جاتا ہے
ہوائیں زور کتنا ہی لگائیں آندھیاں بن کر!
مگر جو گھِر کے آتا ہے وہ بادل چھا ہی جاتا ہے
شکایت کیوں اسے کہتے ہو یہ فطرت ہے انساں کی
مصیبت میں خیالِ عیشِ رفتہ آ ہی جاتا ہے
شگوفوں پر بھی آتی ہیں بلائیں، یوں تو کہنے کو
مگر جو پھول بن جاتا ہے وہ کمھلا ہی جاتا ہے
سمجھتی ہیں مآلِ گل، مگر کیا زورِ فطرت ہے
سحر ہوتے ہی کلیوں کو تبسّم آ ہی جاتا ہے