دسویں تقریر
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
…اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ والطَّیْرُ صٰفّٰتٍط کُلُ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہ وَتَسْبِیْحَہ طوَاللّٰہُ عَلِیْمُ مبِمَایَفْعَلُوْنَ۔ (سُورہٴ نُور، آیت ۴۱)
رسول اکرم سے خطاب ہو رہا ہے، کیا تم نہیں دیکھتے (یعنی تم مشاہدہ کر رہے ہو اور دیکھ رہے ہو) کہ جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور فضا میں پر پھیلائے اور صف باندھے ہوئے پرندے، یہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہے ہیں۔ کُلُ قَدْ َعَلِمَ صَلاَتَہ وَتَسْبِیْحَہ وَاللّٰہُ عَلِیْمُ مبِمَا یَفْعَلُوْنَ “ ہر کوئی اپنی نماز اور تسبیح سے آگاہ ہے اور خدا بھی اس سے آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔ ان گزشتہ چند تقاریر میں ہم نے جن آیات (آیتِ نور سے لے کر اب تک کی آیات) کی تفسیر بیان کی ہے ان میں نور اور تاریکی کے مختلف نقشے کھینچے گئے ہیں۔ البتہ تاریکی ان میں نور سے استفادہ نہ کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔ اور اس تاریکی کا سامنا ان افراد کو کرنا پڑتا ہے جو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نور، جس سے استفادہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، سے استفادہ نہیں کرتے۔ ان انوار سے استفادہ نہ کرنے سے ہی تاریکی وجود میں آتی ہے۔ انسان کو نورِ فطرت اور نورِ وحی و نبوّت سے استفادہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر وہ ان سے استفادہ نہیں کرے گا تو تاریکی اس کا محاصرہ کر لے گی۔ خدا کا نور ساری کائنات پر چھایا ہوا ہے۔ اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ ساری کائنات خدا کے نور سے روشن ہے اور آگاہ ہے (کیونکہ کائنات تاریکی میں نہیں، روشنی میں ہے) اور اپنے خالق و باری کا ادراک رکھتی ہے۔
اس آیت میں بیان ہونے والا مطلب مختلف الفاظ میں قرآن مجید میں آیا ہے۔ معارفِ قرآنی ہر دور میں انسانی فکر سے آگے ہی ہوتے ہیں اور ہونا بھی اسی طرح چاہئے۔ یعنی انسان کو ان حقائق کو جاننے کی کوشش کرنا چاہئے اسے ہر گز یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ قرآن اپنے مطالب ہماری علمی سطح کے مطابق بیان کرے۔ علم میں ارتقاء کا عمل جاری رہتا ہے۔ یہ توقع قرآن سے نہیں بلکہ انسان کی کتاب سے رکھنی چاہئے۔ جو شخص نورِ خدا سے ہدایت پانا چاہتا ہے اسے قرآن کی آواز پر ہمہ تن گوش رہنا اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنا چاہئے۔
قرآن نے جن مطالب کو تاکید کے ساتھ بیان کیا ہے ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات خدا کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہیں۔ بعض آیات میں آیا ہے کہ کائنات کا ہر ذرہ خدا کی تسبیح میں مصروف ہے۔ قرآن کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ لکڑی، لوہا وغیرہ خدا کی تسبیح و حمد کرتے ہیں، ہوا کے تمام ذرات خدا کے تسبیح گو ہیں، پانی کے تمام مالیکیول، تمام ایٹم اور ایٹم سے بھی چھوٹے تمام ذرات خدا کے تسبیح گو ہیں۔
اب ہمیں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ قرآن نے یہ مطلب بیان کیا ہے یا نہیں۔ پہلے ہم ان آیات کو پڑھیں گے جن میں یہ مطلب بیان ہوا ہے، پھر اس کا جائزہ لیں گے کہ انسان اپنی عقل، فہم اور عرفان کے اعتبار سے اپنے آپ کو کس حد تک اس قرآنی منطق کے قریب کر سکا ہے۔ پس ہمارے سامنے دو مرحلے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا قرآن نے یہ مطلب بیان کیا ہے یا نہیں۔ دوسرا یہ کہ انسان نے اپنی کوشش و جدوجہد کی بناء پر کس حد تک اپنے آپ کو اس حقیقت کے نزدیک کیا ہے۔ (پہلے مرحلے کے متعلق عرض ہے کہ) قرآن نے اس مطلب کو مختلف الفاظ میں متعدد مرتبہ بیان کیا ہے۔ جو چند آیات اس وقت میرے پیش نظر ہیں اور میرے حافظے میں محفوظ ہیں، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ایک آیت سورت بنی اسرائیل میں ہے۔ اس میں شاید دوسری تمام آیات سے زیادہ عمومیت اور صراحت پائی جاتی ہے۔ آیت یہ ہے ”وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْعَھُمْ “ (اسراء۔ ۴۴) کوئی چیز بھی نہیں، اِنْ مِّنْ شَیْ ءٍ کا مطلب ہے ”مَا مِنْ شَیْءٍ“ یعنی کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا کی تسبیح گو نہ ہو، ہر چیز حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ یعنی یہ نہ کہو کہ میں اپنا کان اس لکڑی یا درخت کے قریب لے کر جاتا ہوں۔ تو ان سے خدا کی تسبیح کی آواز نہیں آتی۔ یہی حالت میرے اپنے بدن کے ذرات کی ہے۔
قرآن کے بقول میری جلد، ہڈی، میرا گوشت، خون اور میرے بدن کا ہر بال یعنی میرے جسم کا ہر ہر خلیہ ہر لمحے خدا کی تسبیح میں مشغول ہے۔ لیکن میں اس کو سن نہیں پاتا۔ قرآن نے یہ نہیں کہ تم اس کو سنتے نہیں ہو بلکہ اس کا کہنا ہے کہ ”تم اس کو سمجھتے نہیں۔“ قرآن نے لاَ تَسْمَعُوْنَ نہیں کہا بلکہ وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ کہا ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ اگر ”لاَ تَسْمَعُوْنَ “ کہا جاتا تو مطلب یہ ہوتا کہ ممکن ہے کہ یہ بات ہماری سمجھ میں آ جائے کہ ہر چیز خدا کی تسبیح میں مصروف ہے لیکن ہم اس کو سن نہیں پاتے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے اب ہم جانتے ہیں کہ اس فضا میں مختلف ریڈیو اسٹیشنوں کی ریڈیائی لہریں موجود ہیں لیکن ہم انہیں سن نہیں سکتے۔ قرآن نے کہا ہے کہ تم اس مطلب کو سمجھتے نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ فقط یہ کہ تم تسبیح کو سن نہیں سکتے بلکہ تم سمجھتے ہی نہیں، یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ ابھی تم اسے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
دوسری آیات بیان کرنے سے قبل تسبیح اور حمد کے مابین پائے جانے والے فرق کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔ خدا فرماتا ہے ”اِلاَّ یُسَبِّحُ بحَمْدِہ“ چونکہ تسبیح اور حمد ہمارا فعل ہے اس لئے کم از کم سمجھ لینا چاہئے کہ جب ہم نماز میں کہتے ہیں ”سُبْحٰنَ رَبِّی الْعَظِیْمِ وَ بِحَمْدِہ“ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’میں اپنے ربِ عظیم کی تسبیح و حمد کرتا ہوں“ یا جب ہم کہتے ہیں ”سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ وَبِحَمْدِہ“ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ”میں اپنے ربِ اعلیٰ کی تسبیح اور حمد کرتا ہوں“ تو اس ”میں تسبیح کرتا ہوں“ اور ”حمد کرتا ہوں“ کا معنی کیا ہے؟
خدا کی ثناء دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک تسبیح دوسری حمد۔ تسبیح کا مطلب تنزیہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں خدا کو نقص و عجز پر دلالت کرنے والے تمام امور سے منزہ قرار دیتا ہوں۔ میں اسے ان امور سے مبرا قرار دیتا ہوں کہ جو مخلوق کی شان ہیں۔ درحقیقت لفظ ”سبحان“ کا معنی یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کو پاک و منزہ قرار دیتا ہوں اس سے کہ اسے آنکھ سے دیکھا جا سکے، ہاتھ سے لمس کیا جا سکے اور اس سے کہ وہ جسم ہو اور جگہ گھیرے حتیٰ کہ میری عبادت کا اور کسی اور چیز کا محتاج نہیں ہے۔ میں اس کو منزہ قرار دیتا ہوں کہ ظلم و ستم کو اس سے منسوب کروں، کس کو اس کا شریک ٹھہراؤں، اسے مرکب اور ذو اجزاء قرار دوں، یہ کہوں کہ وہ کس سے بنا ہے اور کہاں سے آیا ہے۔ الغرض میں جو اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جن امور کے متعلق جانتا ہوں کہ خدا ان سے برت ہے، لفظ ”سبحان“ کے ذریعے خدا میں ان امور کے پائے جانے کی نفی کرتا ہوں۔
ثنائے الٰہی اقرارِ توحید کی مانند نفی اور اثبات کا مجموعہ ہے۔ جب ہم ”لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ“ کہتے ہیں تو غیرِ خدا کے معبود ہونے کی نفی اور اللہ تعالیٰ کا اثبات کرتے ہیں۔ اسی طرح ثناء الٰہی بھی نفی اور اثبات کے مجموعہ کا نام ہے۔ نفی یہ ہے کہ وہ فلاں فلاں چیز سے منزہ ہے۔ اگر میں اللہ تعالیٰ کی تعریف ان الفاظ میں کروں کہ تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں، سب کمالات کا مرجع اور سرچشمہ وہی ہے۔ وہ ہر چیز کو جانتا ہے۔ وہ ”بِکُلِّ شَیْ ءٍ عَلِیْمُ “ ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ”وَھُوْعَلیٰ کُلِّ شیْ ءٍ قَدِیْرُ “ وہ سننے والا ہے، جاننے والا ہے، زندہ ہے، قیوم ہے، ملک ہے، موٴمن، مہیمن ہے، زبردست ہے، جبار ہے، متکبر ہے، تو یہ صفات ثبوتیہ ہیں اور حمد صفات ثبوتیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی توصیف کرنے کا نام ہے۔ پس ہم ”سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہ“ اور ”سُبْحٰنَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی وَبِحَمْدِہ“ کہنے سے جملہ نقائص کو آنکھوں کے سامنے لا کر کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ان سے منزہ ہے اور جملہ کمالات کو پیش نظر رکھ کر کہتے ہیں کہ ہمارا خدا ان صفات سے متصف ہے۔ جب نماز میں ہم سورہ اخلاص پڑھتے ہیں تو کہتے ہیں قُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدُ اَللّٰہُ الصَّمَدُ۔ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْ لَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَّہ کُفُوًا اَحَدُ ۔“ اس سورت میں صفاتِ ثبوتیہ بھی ہیں اور صفاتِ سلبیہ بھی۔ مذکورہ سورت پڑھنے کے بعد ہم کہتے ہیں ”کَذٰلِکَ اللّٰہُ رَبِّیْ “ یعنی میرا پروردگار ایسا ہی ہے۔ اس میں صفات کمالیہ پائی جاتی ہیں اور میں ان صفات کے ساتھ اس کی حمد و تعریف کرتا ہوں۔ اس میں کسی قسم کا نقص نہیں ہے، اس کی اولاد نہیں ہے، وہ کسی کا فرزند نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں۔ ”کَذٰلِکَ اللّٰہُ رَبِّیْ ۔“ قرآن کہتا ہے کہ یہ تسبیح اور حمد جو تم کو اپنے ظاہری اور انسانی شعور کے ساتھ انبیاء کی تعلیمات سے یاد کرنا چاہئے اور اپنے ارادے اور اختیار کے ساتھ خدا کی تسبیح و حمد کرنی چاہئے، جہانِ وجود کا ہر ذرہ اس میں مشغول ہے۔ مخلوقات کی تسبیح کے سلسلے کی یہ ایک آیت ہے۔ اسی طرح قرآن مجید کی پانچ سورتوں، بلکہ سورہ ”سَبِّحِ اسْمَ “ کو ساتھ ملانے سے چھ سورتوں کا آغاز تسبیح کے ذکر سے ہوتا ہے۔ ان سورتوں کو ”مسبحات“ کا نام دیا گیا ہے۔ سورہ حدید کا آغاز ان الفاظ سے ہوا ہے۔ ”سَبَّعَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ“ اس میں لفظ ”ما“ دو مرتبہ آیا ہے۔ اس آیت کا بھی وہی معنی ہے کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کا تسبیح گو ہے۔
سورت جمعہ اور سورہ تغابن کا آغاز ان الفاظ میں ہوا ہے۔ ”یُسَبِّعُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَھُوَالْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔“ ”سَبّحِ اسْمَ “ میں تسبیح پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان پانچ سورتوں میں فعلِ تسبیح کو تین مقامات پر فعل ماضی اور دو مقامات پر فعل مضارع کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ البتہ پانچویں مقامات پر لفظ ”ما“ آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ”جو کچھ“ آسمان اور زمین میں ہے، خدا کا تسبیح خوان ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ تمام موجودات خدا کو سجدہ کرتے ہیں یعنی تمام موجودات خدا کی بارگاہ میں خاضع ہیں اور سجدہ نام ہی خضوع کا ہے۔ ہم سجدہ کرتے ہیں تو پیشانی زمین پر رکھتے ہیں۔ پیشانی کو زمین پر رکھنا ہمارے خاضع ہونے پر شاہد ہے۔ قرآن کے بقول تمام موجودات خدا کو سجدہ کرتے ہیں، خورشید، چاند اور ستارے سب خدا کو سجدہ کرتے ہیں۔ یہ بات بھی مسلم ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ مثلاً خورشید کی بھی پیشانی ہے جس کو وہ زمین پر رکھتا ہے۔ جب آپ اپنی پیشانی زمین پر رکھتے ہیں تو آپ کا عمل بتاتا ہے کہ آپ نہایت درجہ خاضع ہیں اور روح میں خضوع پیدا کرنے کے لئے پیشانی زمین پر رکھی جاتی ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ قرآن مجید کی بعض آیات میں مخلوقات کے لئے ”سبح“ اور ”تسبیح“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
بعض دوسری آیات میں یہی مطلب دوسری طرح سے بیان ہوا ہے۔ مثلاً بیان کیا گیا ہے کہ جمادات، نباتات یا حیوانات فلاں مقدس روحانی شخصیت کے ہمراہ خدا کی حمد و تسبیح کیا کرتے تھے۔ قرآن سورہ مبارکہ ”ص“ میں داؤد علیہ اسلام کے بارے میں فرماتا ہے۔ ”وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاودَ ذاالْاَیْدِ اِنَّہٓ اَوَّابُ ۔“ ہمارے قوت والے بندے داؤد کو یاد کر جو خدا کی طرف بہت رجوع کرنے والا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ اسلام نے غیراللہ سے اپنا تعلق منقطع کرکے اپنا ناطہ فقط خدا سے جوڑ لیا تھا۔
اس کے بعد ارشاد ہے۔ اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرةً کُلُ لَّہ اَوَّابُ ۔“ (ترجمہ) ہم نے پہاڑوں کو مسخر کر دیا۔ صبح و شام کے وقت جب داؤد اپنے خدا کی تسبیح کرتا تو پہاڑ اور پرندے بھی اس کی آواز میں آواز ملاتے۔ وہ بھی خدا کی تسبیح کرتے۔ یہ اس مفہوم کی دوسری آیات تھیں۔ سورہ نور کی ان آیات کا شمار بھی مذکورہ آیات کے زمرے میں ہوتا ہے۔ سورہ نور کی ان آیات جیسی دوسری آیات بھی قرآن مجید میں پائی جاتی ہیں۔ سورہ نور میں خدا نبی اکرم کو مخاطب قرار دے کر ارشاد فرماتا ہے۔ ”اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ“ کیا تونے نہیں دیکھا کہ جو کوئی بھی زمین میں ہے (یاد رہے کہ خدا تسبیح کے عمل کو فقط موٴمنین تک محدود نہیں کر رہا بلکہ فرما رہا ہے کہ اے پیغمبر! کیا تو نے فضا کی بلندی میں صف باندھے ہوئے پرندوں کی تسبیح نہیں دیکھی؟ بلکہ اس کے بعد تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”کُلُ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہ وَتَسْبِیْحَہ “ یعنی ان میں سے ہر چیز پہاڑ، درخت، پرندے، انسان اور خدا کا ہر تسبیح خوان اپنی تسبیح سے آگاہ ہے، اپنی نماز سے باخبر ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ قرآن نے اسے ”نماز“ سے موسوم کیا ہے۔ ہم بیان کر چکے کہ قرآن نے ایک مقام پر تسبیح و حمد سے موسوم کیا ہے، ایک مقام پر ”سجود“ سے اور یہاں ”صلوٰة“ سے موسوم کر رہا ہے۔ اگرچہ مفسرین نے کہا ہے کہ اس صلوٰة کا معنی ”دعا“ ہے مگر مفسرین کی یہ بات درست نہیں ہے۔ روحِ نماز بھی دعا ہی ہے، خود قرآن نے ”صلوٰة“ سے تعبیر کیا ہے۔ موجودات کی نماز کی نوعیت جداگانہ ہے اور وہ اس سے باخبر بھی ہیں اور ان کا خدا بھی ان کے اعمال سے آگاہ ہے۔
ہم نے عرض کیا تھا کہ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ دیکھیں کہ کیا قرآن موجودات کی تسبیح کے مسئلے کو زیربحث لایا ہے یا نہیں؟ تو قرآن واضح الفاظ میں فرما رہا ہے کہ جہانِ ہستی کے تمام ذرات خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہیں۔ لہٰذا ہمیں پہلے اس بات کی طرف نہیں جانا چاہئے کہ ہم دیکھیں کہ تسبیح سے کیا مراد ہے اور کیا ہم تسبیح کا ٹھیک طریقے سے معنی بیان کر سکتے ہیں یا نہیں؟ قرآن میں نہ فقط تسبیح کے بارے میں واضح آیات موجود ہیں بلکہ وہ ہم سے کہہ رہا ہے کہ موجودات کا تسبیح کرنا ایک حقیقت ہے لیکن تم اس کو نہیں سمجھ پاتے۔ البتہ یہ مطلب بیان کرنے سے قرآن کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ انسان کے لئے ایک ایسا معمہ پیش کرنا چاہتا ہو جسے وہ کبھی بھی حل نہ کر سکتا ہو۔ بلکہ قرآن نے یہ مطلب اس لئے بیان کیا ہے کہ ہم خود کوشش کرکے اس حقیقت تک پہنچ جائیں اور اپنی صلاحیت و استعداد کے مطابق اس حقیقت کا ادراک کر لیں۔
ہم نے بیان کیا تھا کہ دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ قرآن کی ہدایت و راہنمائی کے بعد انسان نے اس سلسلے میں کیا قدم اٹھایا ہے اور اس نے ان آیات کی تفسیر کی طرح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسی قرآنی آیات کی تفسیر دو طرح سے کی گئی ہے۔ ان کو ہم ”حکیمانہ“ اور ”عارفانہ“ کا نام دے سکتے ہیں۔ بعض مفسرین نے ان آیات کی تفسیر حکیمانہ انداز میں کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن نے یہ جو کہا ہے کہ ہر چیز خدا کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے تو اس تسبیح سے ”تکوینی تسبیح“ اور زبان حال کی تسبیح مراد ہے۔ ایک ”زبان حال“ ہوتی ہے اور دوسری ”زبان قال“ زبان حال یہ ہے کہ کسی موجود مثلاً انسان کی زبان تو خاموش ہو لیکن اس کا حال محو گفتگو ہو۔ مثلاً آپ سڑک پر کھڑے ہو کر کسی شخص سے باتوں میں مشغول ہوں اور ایک مفلوک الحال شخص پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس آپ دونوں کے پاس آ کر سر جھکائے کھڑا ہو جائے تو اس کا حال ہی آپ سے کہے گا کہ میں فقیر و مسکین ہوں، میری امداد کریں۔ اسے ”زبان حال“ کہا جاتا ہے۔ لیکن ایک مرتبہ ایک شخص آپ کے پاس آکر کہتا ہے کہ میری امداد کریں، تو اسے ”زبان قال“ کہا جاتا ہے۔ بنا بریں اکثر اوقات انسان کی ظاہری حالت اس کے ضمیر کا پتہ دیتی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ
رنگِ رخسار خبر می دھداز سرِّ ضمیر
(چہرے کا رنگ ضمیر کا راز فاش کردیتا ہے) کس طرح فاش کرتا ہے؟ چہرے کا رنگ بات تو نہیں کرتا بلکہ دلالت کرتا ہے۔ انسان بہت سی باتیں بے زبانی کی زبان سے کرتا ہے۔ اشخاص بے زبانی کی زبان سے جو باتیں کرتے ہیں وہ ان باتوں کہیں زیادہ ہوتی ہیں جو دوسری زبان سے کرتے ہیں،
میں نے اپنی کتاب ”مسئلہ حجاب“ میں تحریر کیا ہے کہ بعض قسم کے ملبوسات اور بدن و ہاتھوں کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ جب کو ئی شخص اکڑکر چلے، رعب دار آواز میں بات کرے، زور سے پاؤں زمین پر مارے، تو وہ حقیقت میں دوسروں سے کہنا چاہتا ہے کہ میرے سامنے عجز و انکساری سے رہو۔ مجھ سے ڈر کر رہا کرو۔ عورت دو طرح کے لباس پہنتی ہے۔ بعض عورتیں ایسا لباس پہنتی ہیں اور اس انداز سے چلتی ہیں کہ ان کی ظاہری حالت پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ میں پاکدامن ہوں۔ کسی کو مجھے بری نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے۔ حقیقت میں اس کے چلنے کا انداز اور اس کا لباس اس کی پاکدامنی کی گواہی دیتا ہے اور اوباش ایسی عورتوں کا پیچھا نہیں کرتے۔ اور بعض اوقات معاملہ برعکس ہوتا ہے (جس طرح بعض افراد اپنے لباس کے ذریعے دوسروں پر اپنا رعب ڈالنا چاہتے ہیں) کہ عورت ایسا لباس پہنتی ہے جو اپنی زبان بے زبانی میں مردوں کو پکار پکار کر کہتا ہے کہ میرا پیچھا کرو۔ عورت اپنی زبان سے کچھ نہیں بولتی مگر اس کا لباس اور اس کی چال مردوں کو اس کا پیچھا کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ اسے ”زبانِ حال“ کہا جاتا ہے۔ ہم اصلی مطلب سے بہت دور چلے گئے ہیں۔
پس بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ خدا نے موجودات کی تسبیح کی جو بات کی ہے تو اس سے ”زبانِ حال“ کی تسبیح مراد ہے، یعنی ہر چیز زبانِ حال سے خدا کی تسبیح میں مصروف ہے کیونکہ ہر چیز خدا کی مخلوق ہے اور ہر ”مخلوق“ میں ایک پہلو نقص کا اور دوسرا پہلو کمال کا پایا جاتا ہے۔ نقص کا پہلو اس کے مخلوق ہونے کا لازمی نتیجہ ہے او راس میں جو بھی کمال پایا جاتا ہے وہ اس کے خالق کی جانب سے اسے عطا ہوا ہے۔ (جان لینا چاہئے کہ موجودات عالم میں جو بھی کمال آپ کو دکھائی دیتا ہے خدا کی جانب سے ہی عطا ہوا ہے)۔ پس ہر چیز درحقیقت ”زبانِ حال“ سے اپنے خالق کی تعریف و حمد کرتی ہے۔ وہ بے زبان کی زبان سے کہہ رہی ہے کہ ”حمد کے لائق ہے وہ ذات جس نے مجھے خلق کیا ہے۔“ اور تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر چیز زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ تمہیں مجھ میں جو نقص دکھائی دیتا ہے وہ میری ذات کا لازمہ ہے۔ خالق اس عیب سے پاک ہے۔
البتہ یہ بات بالکل صحیح ہے اور اس میں ذرہ برابر شک کی گنجائش نہیں ہے کہ مخلوق زبان سے حال سے اپنے خالق کی تسبیح اور حمد میں مصروف ہے۔ بے شک مخلوقات و موجودات تکوینی زبان سے خدا کی حمد و تسبیح میں مشغول ہیں۔ ہر تخلیق اپنے خالق کا پتہ دیتی ہے۔ گلستان سعدی بھی سعدی کی تعریف کرتی ہے۔ یعنی وہ زبانِ حال سے کہہ رہی ہے کہ آفرین اس شخص پر جس نے مجھ جیسی شاہکار کتاب تحریر کی۔ اور اپنے اندر پائے جانے والے نقائص کے متعلق گلستان سعدی کہتی ہے کہ چونکہ یہ الفاظ کی دنیا ہے، اور الفاظ کی دنیا محدود ہے، اس لئے سعدی اس سے بہتر کتاب تحریر کر ہی نہیں سکتا تھا۔ لیکن جو قرآن فرما رہا ہے۔ ”اِنْ مِّنُ شَیْ ءٍِ اِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہ“ تو کیا اس تسبیح سے مراد ”زبانِ حال“ کی تسبیح بھی ہے؟ یعنی کیا قرآن کہنا چاہتا ہے کہ ہر چیز زبانِ حال سے خدا کی تسبیح کر رہی ہے؟
دوسری تفسیر (جسے میں نے ”تفسیرِ عارفانہ“ کا نام دیا ہے) یہ ہے کہ آپ کی بات درست ہے کہ موجودات و مخلوقات زبانِ حال سے خدا تعالیٰ کی حمد و تسبیح میں مصروف ہیں لیکن قرآن اس سے زیادہ دقیق و گہری بات کر رہا ہے کیونکہ اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ ”وَلٰکِنْ لاَّتَفْتَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ (ترجمہ) لیکن تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ پاتے۔“ حالانکہ زبانِ حال کی تسبیح کو سب سمجھتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ”کوئی چیز بھی نہیں مگر یہ کہ …“ قرآن نے ہر چیز کا تعارف تسبیح خوان کی حیثیت سے کروایا ہے۔ فقط عقل و شعور رکھنے والوں کی بات نہیں کی۔ بات تو جاندار اور بے جان تمام اشیاء کی ہے لیکن ان کے لئے ضمیر ذوی العقول لائی گئی ہے۔ گویا خدا کہنا چاہتا ہے کہ دنیا کی تمام اشیاء عقل و شعور رکھتی ہیں کیونکہ خدا کا ارشاد ہے کہ ”وَلٰکِنْ لاَّ تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ “ ”ھُمْ “ ایسی ضمیر ہے جس کو عربی زبان میں اشخاص کے لئے لایا جاتا ہے، اشیاء کے لئے نہیں۔ یہاں قرآن نے اشیاء کا ذکر کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے لئے ”اشخاص“ کی ضمیر (ھُمْ) استعمال کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کہنا چاہتا ہے کہ تمام اشیاء ایک جہت سے اشخاص ہیں (اور شعور رکھتی ہیں)۔ مذکورہ آیت میں پرندوں کا ذکر بھی آیا ہے۔ اگر اس میں پرندوں کا ذکر نہ ہوتا تو ہم کہتے کہ قرآن نے جو کہا ہے کہ ”جو آسمانوں اور زمین میں ہے“ تو ہم کہتے کہ آسمان والوں سے فرشتے اور زمین والوں سے انسان مراد ہیں اور انسانوں سے بھی فقط موٴمنین مراد ہیں۔ ’کُلُ قَدْ عَلِمَ صَلاَتَہ وتَسْبِیْعَہ “ سب کے سب اپنی تسبیح اور نماز سے واقف و آگاہ ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ فرشتے او رانسانی اپنی تسبیح اور نماز سے آگاہ ہیں لیکن قران کہتا ہے ”…اور پرندے۔“ پرندوں کو بھی قرآن نے ان میں شامل کیا ہے۔ یہ بات مسلم ہے کہ پرندوں میں انسان اور فرشتوں جیسا شعور نہیں پایا جاتا۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کی دنیا میں بھی ایک ایسا سلسلہ جاری ہے جس سے ہم بے خبر ہیں۔
ہم بیان کر چکے ہیں کہ پہلی تفسیر حکیمانہ ہے۔ حکیم ابو نصر فارابی جن کا شمار بڑے بڑے مسلمان فلاسفہ میں ہوتا ہے، کا ایک بہت ہی خوبصورت جملہ ہے (جو شاید کتاب ”خصوص“ میں ہے)۔ انہوں نے اسی مطلب کو البتہ زیادہ تر زبانِ حال کے موضوع سے بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ”صَلَّتِ السَّمَآ ءُ بِدَوَرَانِھَا وَالْاَرْضُ بِزَجَجَانِھَا وَالْمَظَرُ بِھَطَلاَنِہ“ آسمان اپنی گردش کی صورت میں بارگاہِ الٰہی میں نماز ادا کرتا ہے۔ آسمان کا گھومنا ہی اس کی نماز ہے۔ زمین جھٹکے کھاتی ہے۔ اس کا جھٹکا کھانا ہی اس کی نماز ہے۔ بادل برس کر نماز ادا کرتے ہیں کیونکہ حقیقت نماز اور روحِ نماز اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ حق کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے اور پورے خلوص کے ساتھ معبود کی اطاعت کی جائے۔ حکیم ابو نصر فارابی کا کہنا ہے کہ گردش کرنے والا آسمان، جھٹکے کھانے والی زمین اور برسنے والے بادل سب کے سب اپنے پروردگار کی اطاعت میں مصروف ہیں اور یہی ان کی نماز ہے۔
مولانا جلال الدین رومی جو کہ بہت بڑے عارف ہیں اور مسائل کو عرفان کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہ تسبیح کی تفسیر مذکورہ انداز میں نہیں کرتے۔ بلکہ ان کا کہنا ہے کہ عوام الناس تسبیح و حمد کو نہیں سمجھ پاتے۔ کائنات کا ہر ذرہ واقعی اپنے رب سے آگاہ و باخبر ہے۔ اس کا ادراک کرتا ہے اور پروردگار عالم کی تسبیح و حمد میں مصروف ہے۔ مولانا جلال الدین رومی نے اس مطلب کو متعدد مرتبہ بیان کیا ہے۔ اس سلسلے میں ان کے اشعار مشہور ہیں۔ مرحوم شیخ عباس قمی نے بھی ان کو مفاتیح الجنان میں نقل کیا ہے۔
فرماتے ہیں۔
جملہٴ ذرّاتِ عالم در نہاں
باتومی گویند روزان و شبان
ماسمیعیم و بصیریم و ہشیم!
باشما نامحرمان ما خامشیم
چون شما سوی جمادی می روید
محرمِ جانِ خدا دان کی شوید
کائنات کے تمام ذرات دن رات دبے الفاظ میں تم سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم سننے والے اور بصیرت رکھنے والے ہیں مگر تم نامحرموں سے گفتگو نہیں کرتے۔ چونکہ تم جماد کی جانب بڑھ رہے ہو اس لئے تم خدا سے آگاہ روح کے رازدان نہیں بن سکتے۔ مولان روم کے دوسرے اشعار بھی ہیں جو بہت اچھے ہیں مگر افسوس کہ وہ سب مجھے زبانی یاد نہیں ہیں۔
ایک شعر ہے کہ
معنی ”اللہ“ گفت آن سیبویہ
یولہون فی الہوائج ہُم لدیہ
اللہ سے مراد وہ ذات ہے جس کی بارگاہ میں تمام موجودات اپنی حاجات لے کر جاتے ہیں۔ کوئی ذرہ ایسا نہیں جو اپنی حاجت اللہ کی بارگاہ میں پیش نہ کرتا ہو۔ بعد میں وہ کہتے ہیں کہ مٹی، ہوا، سمندر، صحرا اس طرح سے اس کی بارگاہ میں اپنی نیاز کا ذکر کرتے ہیں:
بلکہ جملہ ماہیان در موجہا
جملہٴِ پرندگان در اوجہا
تو جو علماء قائل ہیں کہ واقعی ذرّاتِ عالم میں مخلوقات کی تسبیح کا شور بپا ہے ان کی مراد کیا ہے؟ کیا وہ کہنا چاہتے ہیں کہ فضا میں ریڈیائی امواج کی مانند تسبیح کا شور ہے جسے ہم سن نہیں پاتے؟ نہیں! ہرگز ان کی مراد یہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہر چیز اور ہر ذرّہ کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ تو اسی جہان کی طرف ہے اور یہ رخ مردہ ہے۔ دوسرا رخ دوسرے جہان کی جانب ہے یعنی ہر چیز کا دوسرا رخ ملکوتی ہے اور اس رخ اور پہلو کے اعتبار سے ہر چیز زندہ ہے اور باشعور ہے۔ مثلاً ان کا کہنا ہے کہ آپ جس لکڑی کو دیکھ رہے ہیں اس کی پوری حقیقت آپ پر عیاں نہیں ہے۔ انسان کے دوررس علوم (حتیٰ کہ ایٹم کی تہہ تک پہنچنے والا علم) بھی اس چیز کے فقط ایک ہی رخ یعنی اس کے ملکی رخ سے آگاہ ہے اور ہر چیز کا دوسرا رخ یعنی ملکوتی رخ ان کے ظاہری حواس اور مروجہ علوم کی پہنچ سے باہر ہے۔ اگر انسان اہلِ دل، اہلِ معنی اور اہلِ حقیقت بن جائے تو اس صورت میں وہ اشیاء کے دوسرے یعنی ملکوتی رخ کو سمجھ سکے گا۔ اس رخ کے ادراک کے بعد انسان مشاہدہ کر سکتا ہے کہ تمام اشیاء و موجودات اس رخ کے اعتبار سے شعور، ہوش اور علم رکھتی ہیں اور خدا کی تسبیح و حمد میں مصروف ہیں۔ جب ہم کہتے ہیں کہ حضرت داؤد کے ہمراہ پہاڑ اور پرندے تسبیح کرتے تھے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ہم حضرت داؤد کے پاس موجود ہوتے تو ہم بھی پہاڑوں اور پرندوں کی آوازیں سن لیتے، کیونکہ دوسرے لوگ تو اس وقت موجود ہوتے تھے مگر اس کے باوجود وہ ان آوازوں کو نہیں سن پاتے تھے۔ حضرت داؤد کے وسرے کان تھے وہ اشیاء کے باطن اور ان کے ملکوت تک پہنچے ہوئے تھے۔ وہ ملکوت کی آوا زسن لیتے تھے۔ اگر ہمارے کان بھی کھل جائیں تو ہم بھی سن لیں گے اور آپ حضرات یہ خیال نہ کریں کہ ملکوت کی آواز کا سننا فقط انبیاء سے مختص ہے۔
شاید آپ نے سنا ہو کہ نبی اکرم کی ہتھیلی پر سنگریزوں نے تسبیح کی تھی۔ نبی اکرم کا ایک معجزہ یہ تھا کہ آپ نے مٹھی بھر سنگریزے اپنے ہاتھ میں لئے اور لوگوں نے دیکھا کہ سنگریزے خدا کی تسبیح کر رہے ہیں۔ تو یہاں نبی اکرم کا معجزہ یہ نہیں تھا کہ آپک نے سنگریزوں سے تسبیح پڑھائی بلکہ آپ نے یہ معجزہ کیا کہ لوگوں کے کان کھول دیئے جس کی وجہ سے انہوں نے تسبیح کی آواز سن لی۔ نبی اکرم کا معجزہ سنگریزوں میں آواز پیدا کرنا نہیں تھا۔ بلکہ وہ تو ہر وقت ہی خدا کی تسبیح میں مصروف ہیں۔ نبی اکرم کا معجزہ یہ تھا کہ آپ نے تسبیح کی آواز لوگوں کے کانوں تک پہنچائی۔
اب میں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ایسی باتیں کوئی زیادہ غیرمعمولی نہیں ہیں، آپکی خدمت میں ایک ایسے شخص کا واقعہ پیش کرتا ہوں جو ہم سب کے لئے لائقِ اعتماد ہے۔ میری مراد الحاج شیخ عباس قمی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کی ذات سے ہے کہ جو انتہائی متقی شخص تھے۔
یہ واقعہ انہوں نے منبر پر بیان کیا تھا اور میں نے اسے دو مراجع تقلید سے سنا ہے جو بقیدِ حیات ہیں اور وہ اس وقت شیخ عباس قمی کے درس میں شریک تھے۔ جناب قمی نے فرمایا کہ جوانی کے عالم میں جبکہ مجھ پر ایک خاص کیفیت طاری رہا کرتی تھی (اب وہ صورتِ حال نہیں رہی)، انہی ایام میں ایک دن زیارت کی غرض سے وادی اسلام گیا تو وہاں مجھے دور سے ایک مہیب آواز سنائی دی۔ یہ آواز اونٹ کی اس آواز سے ملتی جلتی تھی جو وہ گرم لوہے سے داغے جانے کے وقت نکالتا ہے۔ میں نے بہت ادھر ادھر دیکھا مگر اونٹ کا دور دور تک کہیں نام و نشان تک نہ ملا جبکہ دردناک آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی اور وادی اسلام میں کوئی اور تھا بھی نہیں۔ اسی اثناء میں وادی اسلام کے اس پار کچھ لوگ حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ میں نے جی میں کہا کہ شاید وہ اونٹ کو داغ رہے ہیں۔ میں دھیرے دھیرے ان کی جانب چلنے لگا تو ایک بات واضح ہو گئی اور وہ یہ کہ آواز اسی جانب سے آ رہی ہے۔ مگر وہاں پہنچنے پر بھی اونٹ کا نام و نشان تک نہ ملا۔ دراصل وہ لوگ ایک میت کو دفنانے کے لئے وہاں لائے تھے۔ وہ آواز اسی میت کی تھی۔ مجھے یہ آواز واضح طور پر سنائی دے رہی تھی جبکہ وہ افراد اسے نہیں سن رہے تھے۔ میں نے وادی اسلام کے اس پار سے اس آواز کو سن لیا تھا اور سمجھا تھا کہ یہ اونٹ کی آواز ہے۔ جب میت کے نزدیک پہنچا تب بھی اس آواز کو سن لیا۔ مگر وہ آواز ان افراد کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔
الغرض : آپ کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ دنیا میں موجود ہر آواز کو ہر کوئی سن سکتا ہے۔ بعض آوازیں مخصوص ہوتی ہیں او ران کو خاص کان ہی سن سکتے ہیں۔ مجلسی اول (جو کہ معروف و مشہور علامہ مجلسی مرحوم کے والد ہیں) بھی ہت بلند پایہ عالم اور متقی تھے۔ وہ شیخ بہائی کے شاگرد تھے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ شیخ بہائی اپنی وفات سے چھ ماہ قبل اپنے شاگرد کو ساتھ لے کر تخت فولاد اصفہان (جہاں بابا رکن الدین کا مقبرہ تھا شاید اب بھی ہو) قبور کی زیارت کے لئے گئے انہوں نے اچانک ہماری طرف رخ کرکے کہا۔ کیا تم نے کوئی آواز سنی ؟ میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ خاموش ہو گئے اور واپس لوٹ آئے۔ اس دن سے ان کی حالت بدل گئی۔ ہر وقت تزکیہ نفس میں مصروف رہتے۔ اب وہ بالکل بدل چکے تھے۔ ہم سب شاگردوں نے اندازہ لگایا کہ اس تبدیلی کی وجہ اسی دن کا کوئی واقعہ ہے۔ مجلسی اول کہتے ہیں کہ چونکہ میں دوسرے شاگردوں کی نسبت استاد سے زیادہ بے تکلف تھا اس لئے یہ طے پایا گیا کہ میں استادِ محترم سے اس تبدیلی کی وجہ دریافت کروں۔ تو میرے استفسار پر استاد نے فرمایا کہ اس دن جب ہم قبور کے پاس پہنچے تو ایک قبر سے میں نے یہ آواز سنی ”شیخ کچھ اپنی بھی فکر کرو۔ تمہاری رحلت کا وقت قریب ہے، تمہیں اپنی فکر کیوں نہیں؟ “ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد استاد نے رحلت فرمائی۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ چند افراد میں سے فقط ایک ہی شخص نے وہ آواز سنی تھی۔
ہماری کائنات بہت زیادہ دقیق و عمیق ہے۔ اب جب قرآن کہتا ہے کہ تمام ذراتِ عالم خدا کی تسبیح کرتے ہیں تو اس کے جواب میں یہ کہنا نادانی ہے کہ میں جب کسی چیز کے قریب کان لے کر جاتا ہوں تو مجھے تسبیح کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ یا لیبارٹریز میں اس قدر تجربات کے باوجود ابھی تک ان کی آواز کیوں نہیں سنائی دی۔ ایسی باتیں نادانی کی بناء پر ہی کی جاتی ہیں کیونکہ حقیقت ان باتوں سے بالاتر ہے۔
غار حرا میں نبی اکرم پر پہلی وحی نازل ہوئی۔ جبرائیل سورہ اقرأ کی یہ آیات لے کر نازل ہوئے:
”اِقْرَا بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَق الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَأ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔“