نور وجدان
لائبریرین
قران پاک میں تین الفاظ حوالہ کے لحاظ سے ملتے جلتے ہیں
تُلیت
قُرأَت
کُتبت
تلیت القران
جب قران پاک پڑھا جائے
کتبت
وہ قران جو لکھا گیا،اس لکھے گئے کی تلاوت
یہ تلاوت کیسے کی جائے
ورتل القران ترتیلا
جب یہ آیات اس انداز سے جسم و روح میں translate ہوتی ہیں تب روح کا (سافٹ وئیر) ایکٹیوٹ ہوتے ان آیات کا عمل کرواتا ہے.جب ہم نہیں کرتے تو اک ڈپریشن و ہیجان کا سامنا ہوتا ہے جس کے سبب ہمیں مزید زمینی و افلاکی آفات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جب تک کہ ہم اس ٹرانلیٹڈ ٹیکسٹ کے متن پر اپنے device کو اپڈیٹ نہیں کرلیتے
سورہ البقر جو قران پاک کا مینوئل کا ترتیب توفیقی کے لحاظ سے دوسرا باب ہے.اس باب کی پہلی پہلی آیت ہے
ذلک الکتاب لا ریب فیہ
یہ وہ کتاب ہے......
وہ مینوئل ہے جو قلوب میں رقم ہے بالکل اک موبائل ڈیوائس کی طرح. اس کتاب میں شک نَہیں ان کے لیے جو متقی ہیں
پھر چند اگلی آیات میں فرمایا گیا
جو لوگ ایمان لائے آپ پر نازل شدہ کتاب پر اور ان کتابوں پر جو نازل کی گئی دوسرے انبیاء پر
قران کریم کی کتاب تمام مومنین کے لیے ہے کیونکہ متقی مومنین ہیں اور مومنین کے لیے اس کتاب میں شک نہیں. یہ کتاب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دلوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے کی وساطت لکھی گئی تھی ...اور لکھی ان دلوں پر گئی تھی جو مومنین اور متقی تھے.جن کی اطاعت خدا سے، خدا کے ساتھ بالغیب پر ہوتے ....ویقیمون الصلوت ...اور جن کا قیام کنکشن پر تھا یعنی جن کا اللہ سے کنکشن تھا اور وہ اس کنشن پر قیام یا قائم ہیں .....
قرأت لفظ قرن سے نکلا ہے جس کا مطلب تمام زمانوں کا اجماع اور کنکشن یا گٹھ جوڑ ...قران جو نازل ہوتا ہے یا طاری ہوتا ہے وہ تمام انبیاء کرام اور الہامی کتب اور بآلاخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ربط جوڑتی ہے.اس ربط کے جڑتے انسان کا خدا سے تعلق و ربط بن جاتا ہے. اس کے اندر اخلاق کے وہ تمام خصائل پیدا ہوجاتے ہیں جس کے لیے اسکی چاہت کی گئی تھی اس جہان میں ..
سورہ الاقرء پہلی سورہ کا معانی قرأت کا ہے
انجیل کا مطلب خوشخبری
توریت کا مطلب حدود کے قوانین یا شریعت
زبور کا مطلب ہے عبادات و حمد و ثناء کے قوانین
قران کا مطلب ان تمام کا اجماع اور اضافہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کہا
ما انا بقاری ....
فرشتے کو کیوں نہیں کہا میں تمھیں نہیں جانتا یا مجھے تمھاری معرفت نہیں ہے یا پہلا کوئی خدشہ .... فرشتے نے اگر اپنا تعارف دیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ورقہ بن نوفل کے پاس نہ جاتے ....
فرشتے نے یہ کیوں نہ کہا
تلیت
یعنی تلاوت کرو
قرأت کا مطلب یقینا تلیت سے مختلف ہے ...کسی بھی مینوئل کی ایکٹیویشین قرأت سے کوتی ہے جبکہ تلاوت کوئی اور اثر رکھتی ہے. قرأت کی پہلی قسم ہے ترتیل سے پڑھنا ..جس نے قران کو ترتیل سے پڑھا اس کے لیے قران صدر کھول دیگا.....
تُلیت
قُرأَت
کُتبت
تلیت القران
جب قران پاک پڑھا جائے
کتبت
وہ قران جو لکھا گیا،اس لکھے گئے کی تلاوت
یہ تلاوت کیسے کی جائے
ورتل القران ترتیلا
جب یہ آیات اس انداز سے جسم و روح میں translate ہوتی ہیں تب روح کا (سافٹ وئیر) ایکٹیوٹ ہوتے ان آیات کا عمل کرواتا ہے.جب ہم نہیں کرتے تو اک ڈپریشن و ہیجان کا سامنا ہوتا ہے جس کے سبب ہمیں مزید زمینی و افلاکی آفات کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جب تک کہ ہم اس ٹرانلیٹڈ ٹیکسٹ کے متن پر اپنے device کو اپڈیٹ نہیں کرلیتے
سورہ البقر جو قران پاک کا مینوئل کا ترتیب توفیقی کے لحاظ سے دوسرا باب ہے.اس باب کی پہلی پہلی آیت ہے
ذلک الکتاب لا ریب فیہ
یہ وہ کتاب ہے......
وہ مینوئل ہے جو قلوب میں رقم ہے بالکل اک موبائل ڈیوائس کی طرح. اس کتاب میں شک نَہیں ان کے لیے جو متقی ہیں
پھر چند اگلی آیات میں فرمایا گیا
جو لوگ ایمان لائے آپ پر نازل شدہ کتاب پر اور ان کتابوں پر جو نازل کی گئی دوسرے انبیاء پر
قران کریم کی کتاب تمام مومنین کے لیے ہے کیونکہ متقی مومنین ہیں اور مومنین کے لیے اس کتاب میں شک نہیں. یہ کتاب سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں دلوں پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے کی وساطت لکھی گئی تھی ...اور لکھی ان دلوں پر گئی تھی جو مومنین اور متقی تھے.جن کی اطاعت خدا سے، خدا کے ساتھ بالغیب پر ہوتے ....ویقیمون الصلوت ...اور جن کا قیام کنکشن پر تھا یعنی جن کا اللہ سے کنکشن تھا اور وہ اس کنشن پر قیام یا قائم ہیں .....
قرأت لفظ قرن سے نکلا ہے جس کا مطلب تمام زمانوں کا اجماع اور کنکشن یا گٹھ جوڑ ...قران جو نازل ہوتا ہے یا طاری ہوتا ہے وہ تمام انبیاء کرام اور الہامی کتب اور بآلاخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ربط جوڑتی ہے.اس ربط کے جڑتے انسان کا خدا سے تعلق و ربط بن جاتا ہے. اس کے اندر اخلاق کے وہ تمام خصائل پیدا ہوجاتے ہیں جس کے لیے اسکی چاہت کی گئی تھی اس جہان میں ..
سورہ الاقرء پہلی سورہ کا معانی قرأت کا ہے
انجیل کا مطلب خوشخبری
توریت کا مطلب حدود کے قوانین یا شریعت
زبور کا مطلب ہے عبادات و حمد و ثناء کے قوانین
قران کا مطلب ان تمام کا اجماع اور اضافہ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب کہا
ما انا بقاری ....
فرشتے کو کیوں نہیں کہا میں تمھیں نہیں جانتا یا مجھے تمھاری معرفت نہیں ہے یا پہلا کوئی خدشہ .... فرشتے نے اگر اپنا تعارف دیا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی ورقہ بن نوفل کے پاس نہ جاتے ....
فرشتے نے یہ کیوں نہ کہا
تلیت
یعنی تلاوت کرو
قرأت کا مطلب یقینا تلیت سے مختلف ہے ...کسی بھی مینوئل کی ایکٹیویشین قرأت سے کوتی ہے جبکہ تلاوت کوئی اور اثر رکھتی ہے. قرأت کی پہلی قسم ہے ترتیل سے پڑھنا ..جس نے قران کو ترتیل سے پڑھا اس کے لیے قران صدر کھول دیگا.....