طارق شاہ
محفلین
غزل
قرار، ہجر میں اُس کے شراب میں نہ ملِا
وہ رنگ اُس گلِ رعنا کا، خواب میں نہ ملِا
عجب کشش تھی نظر پر سرابِ صحرا سے
گُہر مگر وہ نظر کا اُس آب میں نہ ملِا
بس ایک ہجرتِ دائم گھروں، زمینوں سے
نشانِ مرکزِ دِل اِضطراب میں نہ ملِا
سفر میں دُھوپ کا منظر تھا اور ،سائے کا اور
مِلا جو مہر میں مجھ کو، سحاب میں نہ ملِا
ہُوا نہ پیدا وہ شُعلہ جو علم سے اُٹھتا
یہ شہر مُردہ صحِیفوں کے باب میں نہ ملِا
مکاں بنا نہ یہاں، اِس دیارِ شر میں مُنؔیر
یہ قصر ِشوق، نگر کے عذاب میں نہ ملِا
منؔیر نیازی
آخری تدوین: