قرانِ پاک کی ترتیب و تفہیم ۔۔۔۔ نور سعدیہ شیخ

نور وجدان

لائبریرین
انسانی احساسات جُوں جُوں پروان چڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سوالات کی پٹاری کھولے زندگی کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں ۔یہ سوال ہماری زندگی کا مقصد متعین کرتے ہیں کہ ان جوابات کی روشنی میں زندگی گزارنا ہی بطریقِ احسن ہے ۔

لفظ میرا سرمایہ ہے ۔مجھے جینے کا طریقہ لفظوں نے سکھایا ہے ۔ میری زندگی میں پہلا لفظ اس ہستی کے لیے نکلا ، جس نے مجھے تخلیق کیا ۔ احساس نے مجھے ''ماں'' اور ''اللہ '' دو الفاظ سکھائے اور میری جستجوِ لفظ نے سوالات کا انبار میرے سامنے رکھ دیا ہے ۔ زندگی میں انسان خود سے بہت زیادہ سولات کرتا ہے۔ جب سوالات کا جواب تشفی بخش نہیں ملتا تو تلاش میں نکل پڑتا ہے ۔میں نے ایک حدیث کی تحقیق کے لیے اصحاب و تابعین کو ایک بر اعظم کونے سے دوسرے کونے میں سفر کرتے ہوئے پڑھا تو حیرت نہیں ہوئی کہ اسلام کا حکم یہی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ . لفظ میرا سرمایہ ہیں. کبھی کبھی دل کرتا ہے ان لفظوں کو چوموں جو حقِ باری تعالی کا کلام ہیں. نوری کلام جو انسان کے قلم کی پیداوار نہیں ہے ۔

مجھ تک قرانِ پاک الفاظ تک پہنچا ۔ میں جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی مجھ پر سحر طاری ہوجاتا اور ہر دفعہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے اس کو سمجھ کر پڑھا نہیں ہے مگر اس کے اندر پھر بھی اتنی تاثیر ہے ۔ اس احساس نے مجھے قرانِ پاک کا ترجمہ پڑھنے پر مجبور کردیا ۔ جب ترجمہ پڑھا تو مجھ پر انکشافات ہوئے ، سوالات کے جوابات کو پا کر مزید خود کو تشنہ پایا کہ قرانِ پاک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ کے گیارہ گیارہ پرتیں ہیں ، جانے کب یہ اسرار کھلے ، جانے کب میں اس کلام پر عبور حاصل کر پاؤں ۔ مجھے یہ احساس ، یہ احساس رُلاتا ہے کہ میں نے عمر گنوادی مگر نوری کلام دل میں سما نہ پایا۔ خود پر بہت ملامت محسوس ہوئی ۔ اس ملامت کے نتیجے میں میں جو لکھ رہی ہوں ۔ وہ آپ کے سامنے ہے ۔ میرے لفظ ، میرے احساس سے اور میرا احساس سوالات کی مرہون منت ہے ۔ زندگی میں سوال کے جواب پانا مرا مقصدِ حیات ہے۔

قرانِ پاک میں اخفاء کیا ہے ؟ اور کیا ظاہر ہے ؟ اس کا اسرار بے چین رکھتا ہے اور میری جستجو ساری عمر جاری رہے گی جب تک کہ اسرار سے پردو نہ اٹھا کر جان نہ لوں ۔قران پاک کی کتابت اور تدوین جناب سیدنا حضرت عثمان رض کے دور میں ہوئی اور احادیث کی تدوین جناب حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں ہوئی ۔مزید کچھ لکھنے سے پہلے کچھ نقاط ذہن میں ہیں ۔ اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ درج ذیل ہیں ۔قوانین کو دو پرائمری اور سیکنڈری ماخد میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

بنیادی ماخد

1: قرانِ پاک
کلامِ الہی ہے ۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے ۔

2: سنت
کلامِ الہی کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کے ایک ہستی چلتا پھرتا قران بن گئی جن کو دنیا پیارے پیارے محمد صلی علیہ والہ وسلم کے نام سے جانتی ہے ۔ حدیث اور سنت : دونوں ماخذ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے منسلک ہیں ۔ سنت وہ ہے جس کی حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے عمل کی ذریعے ترغیب دی جبکہ حدیث وہ الفاظ ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال یا حرکات و سکنات مراد لی جاتی ہیں ۔

ثانوی ماخذ
1۔ رواج
: عربوں میں کچھ رواج جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جاری رکھے اوور کچھ کے احکامات بطور ممانعت نازل ہوئے ۔ مثال کے طور پر شراب جائز سمجھی جاتی جب تک کہ شراب سے متعلق احکامات جاری نہ ہوگئے ۔ اسی طرح خواتین کا پردہ اسلام کے پھیل جانے کے بعد بطور رواج روایت میں شامل نہیں تھا جب تک کہ اسکے احکامات نازل نہ ہوگئے ۔ان معاملات پر حضرت عمر رض کی رائے بطور سند لی گئ کہ ان کی رائے اللہ تعالیٰ کو پسند آیا کرتی تھی ۔ اسی وجہ سے ان کو صاحب الرائے کہا جاتا ہے ۔

2۔اجماع (consensus of opinion)
قران ِ پاک اور احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی گئی ۔ اسلام قانون سازی کا سب سے بڑا ماخذ قرانِ پاک اور پھر حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔ ''اجماع'' کو ''قیاس'' بھی کہا جاتا ہے ۔ عہد ِ وقت کے تمام علماء کا اسلام کے قانوں کے ماخذ میں سے ایک پر اکتفا کرتے ہوئے رضامند ہوجانا ایک نیا قانون سامنے لے کر آتا تھا۔ یہ قانون اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک علماء حیات ہوتے تھے ، اس کے بعد نئے آنے والے علماء اجماع کے ذریعے نیا قانون بناتے تھے ۔ اجماع کی بنیاد سب سے پہلے جناب امام ابو حنفیہ رح نے رکھی اور اس کے بعد امام مالک رح ،امام شافعی ، امام احمد حنبل اور اصولی مسلک سے تعلق رکھنے والوں اس کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کو شدت سے عملی جامہ بھی پہنایا گیا ۔

کچھ ماخذ پر اختلافات کی وجہ سے صرف نام لکھنے پر ہی اکتفا کروں گی ۔ ان میں قیاس ، فقہی صوابدید یا استحصان ،استدلال وغیرہ شامل ہیں ۔ بعض کی نسبت بعض نے ان پر شدت سے اکتفاء کیا۔


قرانِ پاک ہم عجمیوں کی زبان نہیں ہے اس لیے ا سمیں چھپپے اسرار اور مخفی علوم کو ہم حاصل کرنے سے قاصر رہیں ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برصغیر میں جس ہستی نے کام کیا وہ حضرت شاہ ولی اللہ رح ہیں ۔ جنہوں نے ایک بڑے پیمانے پر ایک مدرسہ قائم کرنے کے بعد قرانِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا ۔ جبکہ ان بیٹے شاہ عبد القادر نے قرانِ پاک کا اُردومیں ترجمہ کرکے قرانی تعلیمات کو عام کیا۔ اس طرح قرانِ پاک عربی سے لشکری زبان اور فارسی زبان میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے پھیلنے کے بعد ، ترجمہ پڑھ لینے کے بعد ہمارے اعمال ، احکام کے مطابق نہ ہوپائیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے قرانِ پاک کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں ۔

قرانِ پاک کی ترتیب
قرانِ پاک کی ترتیب کے دو طرز ہیں ۔
1۔ ترتیبِ نزولی
2۔ کتابی ترتیب


قرانِ پاک کی کتابت کا کام حضڑت عثمان رض نے کیا تھا۔ اس پیاری کتاب کے احکامات کو سمجھنے کے لیے نزولی ترتیب کو سمجھا جاتا ہے ۔ قران ِ پاک کے احکامات ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئے ۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کا دور اور اسلامی ریاست کا دور ۔۔ قیامِ مکہ کا عرصہ وہ دور تھا جس میں عزت مآب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے کے تمام کوششیں بروئے کار لائیں ۔ ہجرت کے بعد وہ آیات یا نشانیاں نازل ہوئیں جن کے براہِ راست احکام انسانی زندگی ، معاشرت ، نظامِ حکومت اور سیاست سے متعلق تھے ۔ اس لیے اس کے نزولی ترتیب اس کے احکامات کی سمجھنے میں درست سمت عطا کرتے ہوئے کلام الہی کو سمجھنے میں مدد دے گی ۔ اکثر ایک حکم کی کئی نشانیاں موجود ہیں ۔ اگر ان نشانیوں یا آیات کو اکٹھا کیا جائے تو مزید احکامات سے پردہ اٹھایا جاسکتاہے ۔ یہی قرانِ پاک کو درست سمجھنے کا طریقہ ہے ۔ اس سے ہی ہماری زندگیاں سنور سکتی ہیں کہ انسان دنیا میں آیا ہی ایک امتحان دینے ہے ۔ اس کو پاس ہم ان احکامات کی روشنی میں کرسکتے ہیں

قرانِ پاک کی تعلیمات کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی خوبی اس کی ترتیل ہے ، قران پاک کے ابتدائی احکامات میں اس کے پڑھنے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے سورۃ مزمل میں لفظ ترتیل استعمال کیا گیا جس سے مراد ہے کہ اس کو اس انداز سے پڑھا جائے جس سے آواز میں موسیقیت پیدا ہوجائے ۔ قرانِ پاک کے لفظ ایک خاص قسم کے پچ اور حیطہ رکھتے ہیں اور یہ پچ اور حیطہ تقریبا پورے قرانِ پاک میں ایک جیسا ہے ، اس لیے جب یہ کلام نازل ہوا تو عربی جو کہ خود کو فصاحت میں ید طولیٰ سمجھتے تھے کہ دیا کہ انسانی کلام ایسا نہیں ہو سکتا ۔ قرانِ پاک میں احکامات کے ساتھ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا ۔ایک زُبان ، اس زبان میں نازل ہو جو زبان عربیوں کی ہے اور دوسرا عربیوں میں فصیح و بلیغ وہی کہلاتا تھا جس کا کلام بہترین شاعری کی صورت لیے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احکامات کے ساتھ عربیوں کو مانوس رکھنے کے لئے قران پاک کو بصورت شاعری اتارا کہ لوگ اس حکمت بھری کتاب میں شاعری کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کو ترتیل سے پڑھیں ۔ اس کو ترتیل سےپڑھنے سے تلاوت دلوں پر اثر کرتی ہے کہ جس طرح موسیقی کا اثر دلوں پر ہوتا ہے ۔ اس لیے ہم جو قرانِ پاک کا علم نہیں رکھتے جب یہ کلام سنتے ہیں تو دل مسحور ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو کہ انسانی کمالات کی حد سے پرے ہے ۔

قران پاک کو ترجمہ و تفسیر پڑھنے کے لیے ترتیبِ نزولی کا سہارا لیتے ہوئے اس کے اسرار و رموز کا جاننے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس حصے کو میں اس مقصد کے لیے مختص کرتے ہوئے گزارش کرتی ہوں کہ جو تبصرہ کرنے چاہے وہ اس لڑی میں تبصرہ ارسال کر سکتا ہے

تبصرہ جات یہاں پر ارسال کریں
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
ترتیب نزولی کے لحاظ سے پہلی قرانِ پاک کی سورۃ :العلق

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (1) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (2) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (3) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ (4) عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (5) كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى (6) أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى (7) إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى ( أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى (9) عَبْدًا إِذَا صَلَّى (10) أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى (11) أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى (12) أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى (13) أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى (14) كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ (15) نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ (16) فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ (17) سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ (1 كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (19)
ترجمہ
پڑھو! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو !تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ انسان کو وہ(علم)سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ ہاں ہاں بیشک آدمی سرکشی کرتا ہے ۔ اس پر کہ اپنے آپ کو غنی (بے نیاز) سمجھ لیا، بیشک تمہارے رب ہی کی طرف پھرنا یا لوٹنا ہے۔ تم نے دیکھا اُس شخص کو جو ایک بندے کو منع کرتا ہے جبکہ وہ نماز پڑھتا ہو ؟ بھلا دیکھو تو اگر وہ (بندہ) راہِ راست پر ہو یا پرہیزگاری کی تلقین کرتا ہو ؟ تمہارا کیا خیال ہے اگر (یہ منع کرنے والا شخص حق کو ) جھٹلاتا ہو اور منہ موڑتا ہو ؟ کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ؟ ہر گز نہیں، اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اُس کی پیشانی کے بال پکڑ کو اُس کو کھینچیں گے ،اس پیشانی کو جو سخت جھوٹی اور خطا کار ہے




میں نے قران پاک کی پہلی نشانی اُٹھائی اور لفظ ''اقراء'' پر غور کرنا شروع کیا۔ زندگی میں پہلی دفعہ میرا دماغ مفلوج ہوگیا ۔ تین دن میرا ذہن لفظ ''اقراء'' میں پھنسا رہا ہے۔ اس بات نے مجھے بے قرار رکھا کہ میں اکثر ایک دو نظر سبق پڑھ کر اپنے آپ کو پاس کروالیتی ہے ۔زندگی کا ایک بڑا امتحان میرے سامنے ہے ۔میں پہلے لفظ میں کھوئی ہوئی ہوں ۔ میری رفتار کیا ہے ؟ میں بہت کُند ذہن ہوں ۔ میں نے اللہ کے سامنے اپنی کم علمی کا اعتراف کیا کہ مالک میرا سجدہ قبول فرما لے ، میری گریہ قبول فرمالے ۔میرا لیے یہ زندگی کا سب سے بڑا مشکل امتحان ہے کہ جس میں قدم قدم پر آزمائش شرط ہے ۔ جہاں جستجو ہو ، وہاں دُعا رائیگاں نہیں جاتی ۔ چار دن بعد میری نظر لفظ ''اقراء'' سے ہوتی ہوئی ''العلق'' پر گئی ہوں ۔ اقراء کا مطلب ''پڑھ '' ہے مگر اس کا عنوان ''العلق '' ہے ۔ اس کشمکش نے مجھے بہت رُلایا ہے ۔ بہت غور و فکر کے بعد میں اک نتیجے پر پُہنچی ہوں۔۔ اس سورۃ نے کائنات کی تفسیر بیان کردی ہے ۔ اگر یہ کائنات کی تفسیر ہے تو پورا قرانِ پاک کیا ہوگا۔۔۔ہائے ! میرا احساس ندامت !!! احساس! میری غفلت کا ہے ، میری سرکشی کا ہے ، میری نافرمانی کا ہے ۔


''العلق'' کیا ہے ؟ کیا ایک انسان ہے ؟ ایک انسان کے دو حصے ہیں ؟ حیوانات کے دو حصے ہیں ؟ نباتات کے دو حصے ہیں؟ آخر کیا ہے ؟ حیوانات و نباتات کی ابتدا ''جوڑوں '' کی بصورت مذکر و مونث سے ہوئی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر ہر شے جو تخلیق کی صلاحیت رکھتی ہے اس کے جوڑے مختص کر دیے ہیں ۔ العلق کا لفظ جاندار نوع کی ابتدا کی تفسیر ہے ۔ بالخصوص اس سورۃ میں انسان کی بات کی گئی ہے ۔ انسان کی ابتدا کیسے ہوئی ہے ۔ انسان بڑا کثیف ہے ۔ ہائے! اس کی کثافت اس کو گُناہ کی طرف لے جاتی ہے ۔ یہ کثافت لطافت میں کیسے بدلی جائے ؟ انسان کی نجات کیا ہے ؟ میں ! میری ابتدا کہاں سے ہوئی ہے مجھے بتا دیا گیا ہے مگر انتہا کیا ہے ؟


اس بات سے پہلی دفعہ میرے دل میں سچا خوف پیدا ہوا ہے ۔ اس سے پہلے میں سوچا کرتی تھی کہ میں اللہ سے محبت کروں گی کہ خوف نہ کھاؤں گی ۔مجھے جنت اور دوذخ نہیں چاہیے ۔ خیر ! یہ تو بچپن کی سوچ ہے اور بچپن تو ہوتا ہے معصوم ہے ۔ جہاں میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے ایک گناہ کیا ہے اور معافی مانگ لی ہے اور میں پاک ہوگئی ہوں ۔ مجھے کیا پتا تھا میں جب بڑی ہوجاؤں گی مجھے خود کو کتنی دفعہ ''سفل '' کہنا ہوگا کہ میں نے اکثر ایسا کہا ہے ۔۔اس میں دُکھ تھا کہ میری روح بڑی ناپاک ہے اور روح ناپاک ہے کہ میں جھوٹ بولوں ، میں منافق بن جاؤں ، میں دھوکا دوں ، میں اللہ کا خیال نماز میں نہ لاؤں اور ٹکر مارتی جاؤں ۔ بہت سے ایسے گناہوں جن کو میں کبیرہ اور صغیرہ کہتی ہوں میں نے اپنی زندگی میں کیے ہیں ۔۔۔ ان گُناہوں نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں لکھوں کہ شاید ہدایت پاجاؤں ۔ شاید میرا نامہ اعمال کی سیاہ کاریاں کم ہو جائیں ۔۔ !!!


اب کہ ''العلق'' سے خیال میرا براہِ راست "اقراء' کی طرف آیا ۔۔ اس میں تو '' پڑھ '' کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ میں نے آج تک بہت کتابیں پڑھ ڈالیں مگر مجھے کچھ حاصل نہ ہوا۔ میرا من خالی ہے ِ؟ جانے یہ دل میخانہ کیوں نہ بنا ؟ جانے یہ دل کب میخانہ بنے گا؟ یہ سوال تو بڑا تڑپاتا ہے !!! میں جب پہلی دفعہ اسکول میں داخل ہوئی تو اس میں سب سے پہلے مجھے حروفِ تہجی سکھائی گئی اور پھر مجھے لکھنا سکھایا گیا جب میں نے لکھنا سیکھ لیا تو میرا امتحان لیا گیا ۔ میرا امتحان مجھے اگلے درجے میں پہنچا گیا ۔ اس کا ادراک مجھے پہلی دفعہ یہ سورۃ پڑھتے ہوئے کہ اس سورۃ کی تفسیر تو میری زندگی کی تعمیر و تخریب کی کہانی سناتی ہے کہ میں جو چاہوں راستہ اختیار کرلوں ۔میں نے قران پاک پڑھا۔۔ ارے ! میں پڑھ رہی ہوں مگر مجھے دو لفظوں کی مار نے ایسا رُلایا کہ میں اتنا کبھی نہیں روئی ۔ میں اس بے قراری کو کیا کہوں ۔۔۔؟ اگر اس طرح میں نے پورا قران پاک پڑھا تو کیا میں میرا عمل خالی رہ جائے گا؟

بات سمجھ کی آگئ ۔۔۔ میں نے پڑھا اور اس کو سمجھا !! اس کے بعد میں نے عمل کو لکھا ۔ کیسے ! اس سوچ میں ہوں کہ ایک لکھنا تو وہ ہے کہ مجھے بات سمجھ آگئ اور میں نے جو سمجھا لکھا ؟ سب سے پہلے اس کو دماغ کی سلیٹ پر لکھا ہے ۔ اس کے بعد اس سلیٹ سے میں نے کاغذ پر لکھنا شروع کردیا۔ اب جو میں نے لکھا ہے اس کو میں نے اچھا جانا ہے تو میں عمل اچھا کروں گی اور اگر اس کو سمجھ کر بھی میں اس پر عمل نہ کرسکی تو؟ اس سوالیہ کے نشان پر مجھے ناکامی کا احساس یاد آیا ہے کہ زندگی میں خواب ٹوٹ جائیں تو ناکامی بڑا ستاتی ہے ۔ ناکامی نہ جینے دیتی ہے اور نہ مرنے نہ دیتی ہے ۔۔ ہائے ناکامی ۔۔ وائے کامیابی ۔۔۔ وائے کامیابی ۔۔ کیسے اس کامیابی کو حاصل کیا جائے ؟ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آئی ۔میں نے محنت شروع کرکے اعمال سنوارنے کی کوشش کی ؟ یا میں نے پیغام سمجھ لینے کے بعد اَن سُنی کردی ۔

کچھ طالب علم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے اندرونی انتشار کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اور بعض اوقات وہ ناکام ہوجاتے ہیں ۔یہ تو زندگی کے امتحان ہوتے ہیں ، اس اندرونی انتشار کا سامنا ہم کو آخری امتحان روزِ محشر نہ ہو ۔ ورنہ میں اور آپ تو بڑے پھنس جائیں گے ۔ناکام کی کی جگہ اس دنیا میں کم ہوتی ہے دنیا کامیابی کے پیچھے بھاگتی ہے . اس طرح آخرت کی طرف دوڑنے والے کامیاب ہوجائیں گے . سب سے بڑا استاد خالق ہے اور اس کے شاگرد اس کو چیلنج کریں تو کیا اس کی غیرت یہ گنوارا کرے گی َ؟ وہ بہت رحیم و رحمان ہے . فضل و کرم ان پر کرتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور ان کو سزا دیتا ہے جن کے دل قفل لگ جانے کی وجہ سے گرد اٹ جاتے ہیں . گرد تالے کے اوپر جمع ہوجاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ تالا یا قفل زنگ آلود ہوجاتا ہے ، پرانے تالوں پر چابیاں کام کرنا چھوڑ جاتی ہے . اللہ تعالیٰ کا کلام چابی ہے . یہ کلام ہر روح پر کارگر ہے ، ہر روح پر اسرار اس کلام کے ذریعے کھلتے ہیں . مگر جن کی عقل کام کرنا چھوڑ دے ، جن کا دل و نگاہیں بصیرت و بصارت کھودیں ، جن کے آنکھیں حقائق کو دیکھ کر ماننے سے انکار کردیں ان کے دل پر تالے ہیں. ان کے تالے کیسے کھلیں کہ عرصہ گزر جانے کے بعد رحمانی کلام کی چابی سے دل کے قفل نہیں کھولے گئے . کہاں جائیں گے وہ لوگ؟ کہاں جائیں گے َ ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگاَ؟ ان کے حصے میں ناکامی ہے ؟ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا؟


اس بات سے مجھے اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آگیا . جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ تارخ کے لے دُعا کی . بعض مورخین کے نزدیک ان کے والد کا نام آذر تھا جبکہ ان کے چاچا کا نام تارخ تھا . آپ نے اللہ سے ان کی مغفرت کی دعا مانگی . ایک شخص جس کی ساری زندگی انکار میں گزری ہو اور وہ روح پر قفل لگائے جہاں فانی سے کوچ کر جائے تو اس کا کیا ٹھکانہ ہوسکتا ہے ؟ اس کا ٹھکانہ اللہ تعالیٰ نے خود بتادیا . ایک پیغمبر جو خلیل اللہ تھے ان کی بات قبول نہ کی . اس بات سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ محشر میں قرابت و رشتہ داری کام نہ آئے گا .اگر کام آئے گا تو ایک سچا رشتہ جو مجھے اللہ سے جوڑے اور خالق سے نکلے جتنے رشتے ۔۔۔ان رشتوں سے اگر میں محبت کر سکی تو .. میں اس قابل ہو جاؤں گی اپنی پناہ کی التجا کر سکوں . ورنہ مجھےڈر ہے .. مجھے اپنی آخرت کا ڈر ہے .. مجھے روزِ محشر سے ڈر لگتا ہے ، مجھے عالم برزخ سے ڈر لگتا ہے جس کی دروازہ مجھ پر کھلے تو وہ جنت کی ٹھنڈی چھاؤں بھی ہوسکتا اور دوذخ کی گرم ہوا بھی ... اور مجھے سچ میں بہت ڈر لگا ... یوں لگا میرے آگے اندھیرا چھا گیا ہے .. اس سے آگے کا تصور میں کر نہیں سکی ... کیا کروں ... ڈر لگتا ہے ... بہت ڈر لگتا ہے ... مجھے اس کا نافرمان نہیں بننا .... مجھے کوشش کرنی ہے کہ میں اللہ کے راستے پر چل سکوں ۔۔

اس خیال کے آتے ہیں مجھے خیال آیا کہ اس صورت کے بھی چار حصے ہیں ....
1. انسان کی مادی تخلیق و ارتقاء
2. انسان کی روحانی تخلیق و ارتقاء
3. جبرو قدر کا فلسفہ .. اختیار و مرضی کا تعلق
4. برائی کا انجام ...جہنم


سم الله الرحمن الرحيم

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۔خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔۔اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۔۔الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۔۔۔ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔۔۔


یہ انسان کی روحانی تربیت کے بارے میں بتاتا ہے ۔ انسان کی روحانی تربیت پڑھنے سے شروع ہوتی ہے ۔ اور پڑھنے کے بعد اس کی سمجھ نمو پاتی ہے اس کے ساتھ ہی دوسری آیت میں انسان کی ابتدا کے بارے میں بتایا گیا ۔ انسان کی ابتدا کثافت سے ہوئی مگر اس کی کثافت ، روح کی لطافت بڑھانے سے کم ہوسکتی ہے ۔ روح کو لطافت پڑھنے سے ملتی ہے ۔ جو جتنا پڑھتا جائے گا اس کی لطافت کثافت کو ختم کرتی جائے گئ ۔ پیغمبروں کو اس لیے معصوم کہا جاتا ہے کہ ان میں لطافت لطافت ہی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جناب حضرت محمد ﷺ لطافت طائف کے سفر میں لہولہان ہوجانے کے باوجود بد دعا کے لئے ہاتھ اٹھا نہ سکے مگر وہ پیارے ہاتھ دعا کے لیے اٹھ گئے ۔ اس روحانی تربیت کی مثال کہاں ملے گی کہ اپنی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دعا دیے جارہیں تھے ۔ ہم پیارے نبیﷺ کی پیروی کرتے ہوئے گناہوں سے پا ک ہو کر روح کو بلند مقام کی طرف لے جاسکتے ہیں ۔مگر اس کے لیے ہمیں پڑھنا اور سمجھنا ہی نہیں ہے ، ان اعمال کو لکھنا ہے ، عمل کرنا ہے ، اچھائی کی طرف جانا ہے ، قلم ہمارا متحرک رہے ، ہمارا دماغ اچھے کو قبول کرکے اچھے کی طرف آمادہ کرے ۔۔۔ یہاں دو طرح کا لکھنا ہے ایک وہ قلم جس سے کاغذ پر لکھا جاتا ہے اور ایک وہ قلم ہے جس کو دماغ لکھتا ہے ، اس قلم سے عمل بنتا ہے ۔ قلم جب چلتی ہے ، دماغ جب چلتا ہے تو انسان وہ علم سیکھتا ہے جن علوم کو وہ جانتا ہی نہیں ۔ اب ہم کس حد تک اس قلم یعنی دماغ کو چلا کے روح کی تربیت کرکے مرشد کامل کے راستے پر چلتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔



كَلَّا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى Aya- أَنْ رَآَهُ اسْتَغْنَى Aya-7. إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى Aya-8. أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى Aya-9. عَبْدًا إِذَا صَلَّى Aya-10.


جبرو قدر کا فلسفہ سورۃ کے اس حصے میں بیان کیا گیا ہے ۔ انسان کی سرشت میں سرکشی ہے اور اپنے آپ کو روحانی تربیت سے بے نیاز کرکے حق کی طرف رجعت سے انکار کردیتا ہے ۔ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ اس عارضی ٹھکانے میں کب تک رہے گا؟ آخر کو اس دنیا سے کوچ کرکے موت کی طرف جائے گا ۔ اس بات کا بالخصوص ذکر سورۃ ''ق' ' میں ذکر ہے ۔ انسان کی ہڈیاں کھا لی جائیں گی ۔ اس کے اعضاء ریشہ ریشہ ہوجائیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس بکھرے ہوئے حصوں کو مجتمع کر لے گیں ۔ اور اس میں روح ڈال کر اس سے حساب لیں گے ۔ اس کے بعد اس کی سرکشی کس کام کی َ ؟ کہ دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے ۔ ۔۔''اریت'' کے معنی دیکھنا ۔۔'' ینہی'' بمعنی منع کرنا۔۔۔ کسی چیز سے منع کرنا ۔۔ ؎؎عبد'' ۔۔ بندے کو ۔''۔ صلیََ ''۔۔۔ نماز و عبادت کرے ۔۔ وہ بندہ جو سرکش ہے ۔ تاریخی حوالہ تو جناب پیارے حضور پاکﷺ اور ابو جہل سے متعلق ہے ۔ مگر یہاں یہ ہر اس انسان پر لاگو ہے جو حق راہ پر چلنے والوں کا راستہ روکے اور عبادت مٰیں رخنہ ڈالیں ۔۔ ان کا ٹھکانہ کیا ہوگا۔۔۔ جو اللہ کے آگے جھک جاتے ہیں وہ اس کے بندے ہوتے ہیں اور جو اس کے محبوب بندوں کو تنگ کریں وہ کس راہ پر ہوں گے ؟ سوچیے نا! وہ جو اس محبوب بندوں کو ایک سیدھی راہ پرچلنے دیں کہ ان کے دل تاکے کھاچکے ہیں مگر اپنے ساتھ نقصان تو یہ لوگ کرتے ہی ہیں ، ساتھ ساتھ اللہ کے نیک بندوں کے درمیاں رخنہ ڈال دیتے ہیں تاکہ عبادت میں رکاوٹ پیدا ہوجائے ۔ ایسے بندوں کے لیے سخت وعید ہے ۔

أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى Aya-أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى Aya-12. أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى Aya-13.أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى Aya-14. كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ Aya-15. نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ Aya-16.فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ Aya-17. سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ Aya-18. كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ Aya-19.

''ارایت'' بمعنی دیکھنے کے ۔۔'' کان ''بے شک ۔۔ ''علی'' ۔۔اوپر یا کی جانب ۔۔ کیا ہدایت پاجانے والے بندے کو نہیں دیکھا ۔۔ بے شک حضرت محمدﷺ کی طرف اشارہ ہے اور ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے لیے اشارہ ہے ، جو نبیﷺ کا پیرو کار ہے کہ وہ ہدایت پر ہیں ۔۔ امر ۔۔ بمعنی حکم کے ۔۔ پیرہیزگاری کے حکم کو اپنائے ہوئے ہے یا اس کو تقوی پر استوار کردیا گیا ہے ۔ اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی راہ ہر ہے اس کو اگر اس کو فتنہ ساز تنگ کرے گا تو کیا ہوگا؟ کذب۔۔ جھوٹا اور ''تولی'' ۔۔۔ بمعنی حق سے رو گردانی کرنا ہے ۔۔۔ کہ یہ فتنہ ساز جھوٹے اور حق سے روگرادنی کرنے والے ہیں ۔۔۔؎؎ الم ''۔۔۔ کیا نہیں ، ''یعلم'' ۔۔ جانتا ۔۔'' یری ''۔۔ دیکھنے کے روپ میں ۔۔۔اللہ تعالیٰ کیا نہیں دیکھ رہا کہ جو یہ لوگ کر رہے ہیں ۔ اور جب اللہ جانے تو اس کا کیا سلوک ہوگا ۔ بے شک یہ ایک وعید ہے ، ایک تنبیہ ہے ۔کہ ان کو پیشانیوں کے بل کھینچا جائے گا۔۔۔ پیشانی وہ جگہ جو دماغ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دماغ جب اندھا ہوجائے تو اس کو اس کی پیشانی سے پکڑ کر جہنم واصل کیا جائے اور تب اس کے ساتھی اس کے کام نہیں آنے والے ۔۔ اور جو لوگ پرہیز گار ہیں ۔۔ جو عبادت کرتے ہیں ۔۔ اس کو سنا دیا گیا کہ ان سے ڈرو مت ۔۔۔ تم حق پر ڈٹے رہو۔۔ اور اللہ کا قرب حاصل ہو۔۔


جاری۔۔۔۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ۔۔!

سورۃ العلق قرانِ پاک کی پہلی صورت ہے جس کا نزول غارِ حرا میں ہوا ۔ اس کی آغاز حضور پاکﷺ کی روحانی تربیت سے ہوا۔ روحانی تربیت بمعنی کلامِ الہی کے اسرار و رموز کا آپﷺ کی ہستی پر کُھل جانا ۔ اس سے پہلے آپﷺ پر خوابوں کا سلسلہ شروع ہوا جس کی وجہ سے آپﷺ نے گوشہ نشینی اختیار کرلی اور غارِ حرا میں جاکر غور و فکر شروع کردیا ۔ یہی غور و فکر انسانی تربیت کی معراج ہے ، کمال پر پہنچ کر پیغمبروں پر وحی اور مومنوں پر ان کے درجات کے مطابق کشف و الہام کے سلسلے شروع ہوجاتے ہیں۔ پڑھنے پر تین دفعہ زور دیا گیا ۔ ایک وجہ یہ تو ہے جب کسی چیز پر بہت زور دیا جائے تو اس کو تین دفعہ لکھا جاتا ہے کہ یہ شرط ٹھہری کہ یہ کام کرنا ہی کرنا ہے ۔ اس لیے جب حضور پاکﷺ نے پہلی دفعہ انکار کیا تو روح الامین کے ہاتھوں خود کو مجبور پایا ۔آپ جو پڑھنا ،لکھنا نہیں جانتے تھے ، آپ ﷺ کی تعلیم اللہ تعالیٰ نے پلک جھپکتے ہی کردی ۔ اور ''کن'' کا یہ امر ساری عمر جاری رہا ۔آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ سے جُڑا اور اس جڑ جانے کے بعد آپﷺ دوسرے انسانوں کے لیے سایہ درخت بن گئے ۔

اس صورت کا نزول دو حصوں میں ہوا۔ ایک کو ''مالم یعلم '' تک مقرر کیا جانا حق تعالیٰ سبحانہ کی مرضی تھی اور ''لیس الانسان لیطغی '' سے دوسرا حصہ شروع ہوجاتا ہے ۔ اس روایت کو تمام آئمہ کی جماعت متفقہ طور پر مانتی ہے ۔

یہاں دو قسم کے لوگ متعارف ہوئے ہیں ۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اللہ کی راہ پر چلتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو نفس کے پیروکار ہوتے ہوئے شیطان کے حامی ہوجاتے ہیں ۔ ابوجہل اورسیدنا فاروق اعظم رح دو ایسےاشخاص تھے جو ہم نام تھے ۔ حضور پاکﷺ نے ان میں سے ایک لیے کی دُعا کی کہ اسلام کی طرف مائل ہوجائیں کہ دونوں ہی اسلام کے حامیوں کے جانی دشمن تھے مگر دونوں پاس سرداری کی نشانیاں لیے ہوئے تھے ۔ عقل جس نے گمراہ کردیا اور اس ابوجہل کو بہکادیا ۔ عقل جو تقلید کی راہ پر لے گئی اور سر جھکا دیا ۔ اس بندے کو وزیرِ شاہ جہاںﷺ کا لقب ملا۔ صاحب الرائے اور فاروق دوسرے القابات تھے ۔ حضرت سیدنا فارق رض کس راستے پر تھے ۔ اس راستے پر جو راستہ حضور پاکﷺ کا ہے ۔ ایک وہ انسان جو'' احسن تقویم'' کی بُلندیوں پر ہیں اور دوسرے وہ جو ''اسفل سافلین '' کی پستی پر ہیں ۔ یہ دو انتہائیں : ایک مثبت اور دوسری منفی ہے ۔

روایت کے مطابق دوسرا حصہ اس وقت نازل ہوا جب حضور پاکﷺ نے باقاعدہ حرم میں نماز پڑھنا شروع کردیا۔ حرم کعبہ اس وقت بُتوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس صورت میں وہ انسان جو نئے طریقے پر چلے گا اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ؟ ظلم کیا جائے گا !! یہی اللہ کے قاصد دو جہاں کی رحمت حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ہوا۔ اس ظلم میں پیش پیش ابوجہل تھا ۔ اس کو تنبیہ کی گئی کہ'' لیس الانسان لیطغی'' بے شک انسان جو سرکشی کرتا ہے اور اس کی سرکشی اس کو اس طرح غرق کردیتی ہے جس طرح انسان پانی میں مکمل ڈوب جاتا ہے ۔بالکل اسی طرح کہ تنفس کا عمل ختم ہوجائے ۔ یہاں روح کے ڈوب جانے اور اس کی تنفس کی موت مراد لی گئی ہے ۔ انسان سرکش کون سے ہیں ۔ ان کا انجام کیا ہوگا۔

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ۔۔ثُمُ رددناہُ اسفل سافلین

اچھے اور بُرے کے درمیان ترازو قائم کردیا گیا ہے اور وہ ترازو کونسا ہے ۔ آسمانی نور ۔۔۔وہ نور جس کا نور ہر روح میں موجود ہے ۔ اس کے آئینے جا بجا پھیلے ہوئے ہیں ۔ اس کے بندے ، وہ کیوں نہ چاہے گا ، اس کے بندے ہدایت ہا جائیں ۔ وہ خالق ہے اور اس نے روح سے بندوں کی تعمیر کی ہے ۔ اس لیے خالق نے حقوق اللہ پر حقوق العباد کو فوقیت دی ہے کہ اس کی غیرت کیسے گوارا کرے اس کی تخلیق آپس میں لڑے اور فساد برپا کرے ۔ترازو اللہ کی نظر متعین کر رہی ہے ، اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر ہے ۔ سب دیکھتا اور سنتا ہے ، مالک تمام راز جانتا ہے ۔اچھے اعمال والے انسان اُس کے سامنے ہیں اور وہ انسان بھی جن کے عمل دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ وہ انسان جیسے کہ ابوجہل نے آپﷺ پر گندگی پھینکی اور جناب حضرت پاک محمد ﷺ نے اس کو برداشت کیا مگر اللہ دیکھ رہا ہے ۔ وہ بندے جو صابر و شاکر رہے ان کے لیے معراج کا تحفہ ہے ۔ عالی مرتبت حضرت محمدﷺ کو اسی بنیاد پر معراج کا تحفہ نصیب ہوا۔

اچھے اعمال والے حق کے قریب ہوجاتے ہیں ۔ آسمان کی بُلندیوں اور لامتناہی فاصلوں کو سیکنڈز میں طے کرکے قُرب کا شرف حاصل کرتے ہیں ۔ حضور پاکﷺ نے تمام انبیاء کی امامت کروائی مسجدِاقصی میں اور پھر آسمان کی جانب تشریف لےگئے ، یہاں پر آپ کی ملاقات دیگر پیغمبران سے ہوئی ۔ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گئ ۔ جب مظالم کی انتہا ہوگئی تو صبر کے ثمرات ملنا شروع ہوگئے ۔ آپﷺ کی ہجرت اسلام نظامِ حکومت کی بنیاد بنی اور یہ سب واقعہ معراج کے بعد ہوا۔ آپﷺ کا انجام اس سے بہتر ہو بھی کیا سکتا ہے کہ شافعی امم دونوں جہاں کی رحمت بن کر اترے ۔

دوسری طرف ابولہب اور ابو جہل جیسے لوگ ہیں ، جو اپنی سرکشی میں اس قدر بڑھ گئے کہ ان کے لیے انصاف کا ترازو قائم کرنا پڑا۔ پاک ذاتِ حق انصاف سے زیادہ رحمت سے کام لیتے ہوئے ہمارے گُناہوں کو بخش دیتی ہے کہ توبہ کے دروازے ہماری تجدید کے دروازے ہوتے ہیں ۔ مگر وہ لوگ جو گناہ کر اس پر قائم رہتے ہیں اور گناہ پر گناہ کیے ھاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ رسی دراز کیے رکھتا ہے کہ یہاں تک کہ حد تجاوز نہیں کر جائے ۔ پھر انصاف کا ترازو ان لوگوں کے لیے عبرت بن جاتا ہے جن کے ارواح تجدید پر آمادہ نہیں ہوتیں ۔اور ان کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کیا ہے ۔ یہ ترازو اللہ تعالیٰ کی نظر قائم کرتی ہے ۔

ترازو کے لیے اصطلاح پیشانی کی ہے ۔ انسان جو سیدھی راہ پر ہیں وہ سجدہ کریں یعنی اپنی پیشانی حق کے روبرو جھکا دیں اور جو اپنی آپ کو نہیں جھکاتے ، ان کو زعم ہے وہ سردار ہیں ۔ ان کا حمایتی پورا قبیلہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاس فرشتوں کی جماعت ہے اللہ تعالیٰ کی فوج کا مقابلہ نہ کوئی کر سکا ہے اور نہ کوئی برابری کرسکا ہے ۔ مومنین کے لیے بالخصوص اس سورۃ کے پڑھنے کے بعد سجدہ کرنے کی ترغیب دی گئی کہ اپنی پیشانی حق کے سامنے جھکاتے ہوئے اپنی اطاعت اور اس کی ربوبیت کا اعلان کردیں ۔حضور پاکﷺ خود جب بھی یہ آیت مبارکہ پڑھتے تو سجدہ حق کو ضرور پیش کرتے تھے ۔سجدہ میں جانے سے مراد بندگی ہے ، جب غلامی میں انسان آجاتا ہے تو باطل کا زنجیریں توڑنے والا بن جاتا ہے اس کے دل سے ڈر اور خوف کے بجائے بہادری اور شجاعت کے نغمے نکلتے ہیں ۔ جس کے ساتھ اللہ ہو ، جس کی پشت پناہی اللہ تعالیٰ کرے ، اس کو کسی سے کیوں ڈرنا چاہیے ؟ سجدہِ حق اس کی شان میں ادا کرکے دل سے خوف نکال دینے چاہیے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین

بسم اللہ سے قراں کی ابتدا!
کردی خالق نے عطا کی انتہا!

پڑھ کے لکھ ! ارشاد میرے رب کا ہے
جو کرے صالح عمل! سب اس کا ہے

جو کہے دیوانہ احمدﷺ کو یہاں
خود بنے گا وہ ہی مجنوں دو جہاں

ہیں مخاطب اس میں خالق آپﷺ سے
ہر سطر میں نور کی بارش کی ہے

تم اطاعت گر نبیﷺ کی جو کرو!
تو سمجھ لو!! یہ اطاعت رب کی ہے!

مبتلا سب ہی جہالت میں ہیں یاں
اب ڈریں مت ! آپ کا ساتھی ہے رب!

قصے آباء کے، کہ کے رد ہے کیا !
پاس ان کے جب بھی فرماں آیا ہے!


ہیں مخاطب اس میں خالق آپ سے
پڑھ کے سمجھایا گیا ہے جو قراں

پائیں سب پیغام صورت بہ قراں
کشف ہوتا جائے اس کا ہر بیاں

صدق بھی ہے!حق بھی! اس میں تو نہاں!
ہے ہدایت کا صحیفہ تو قراں!

آؤ ! مل کے سب پڑھیں ہم بھی قراں
حق کہے ہے! سب سمجھ کے لو! قراں

نیک بنتے جائیں سارے پڑھ کے ہی!
اچھے ہوں اعمال! انساں ہم بنیں!


ترتیب نزولی کے لحاظ سے دوسری قرانِ پاک کی سورۃ :القلم


تعارف: اس سورۃ میں چھپا ہے اللہ تعالیٰ کا پہلی سورۃ سے ملحق پیغام۔ اللہ نے سمجھایا ہے ''اقراء کے ذریعے قراں ، سمجھا قراں ، سیکھا قراں اور عمل کیا قراں پر، ہوگئے سب مسلمان ، حق نے پالیا غلبہ ! بے شک حق کو ہی غلبہ ہے ۔ باطل مٹنے والا ہے اور حق ہمیشہ غلبہ پاتا ہے ۔ عمل جس کی قراءت کی گئی ہے وہ نقش ہوگیا ہر انسانی دماغ میں ، انسانی دماغ کرتا رہا ہے بقلمِ حق اور قاری بنتا رہا ہے قراں ، جذب ہوتا رہا ہے سب میں قراں ،ڈٹ گئے سب آزمائشوں میں اور سہتے رہے ظلم کلمے کی نوک پر ، ثابت قدم عمار رض کا حال پوچھیے یا بلال حبشی کا ایماں ، بو بکر بن گئے حبیب ، علی رض ہوگئے رفیق ، خدیجہ رض ہر قدم ساتھ آپ ﷺ کے ، زید رض ہوگئے غلام آپ ﷺ کے ، کرلیا متنبیٰ آپ رض کو محمدﷺ نے ، یتیم و مسکین و لاچار تھے محمدﷺ ، بنے والی مسکین و لا چار کے محمدﷺ، اس دور کی بات سے ثابت ہوا کہ قران محفوظ بقلم ہوا، تسکینِ مومنین کے لیے ہوگئیں آیاتِ قلم کی نزول ، تسلی کے ساتھ حق نے کفار کو کی تنبیہ ، دی نشانیاں سمجھانے کے واسطے ، کہ شکر کریں ، صبر کریں اب سارے ، کفار کے ظلم سے ایمان والے اب کیوں ڈریں ، حق ساتھ ہے تو مرمٹے سارے ، جو جو پڑھ اس کو خدارا، نقش ہوجائے ایمان اس کے ذہن میں ، قلم ہوجائے قراں اس کے دل میں

جاری۔۔۔۔۔۔

 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گُزشتہ سے پیوستہ

القلم سورۃ ایک ضرب ہے ، حق کی آیات میں سے ایک بڑی روشن نشانی ہے ۔ کلمہ اس کا سُبحانی ہے اور جو اس کو پڑھے اس کا دل نورانی ہے ۔ نور والے نور کی تجلی لیے اس سورۃ کی تلاوت میں مصروف نظر آتے ہیں ۔ سب سے بڑی نشانی نور ازل نے اپنے پیارے محمدﷺ کے لیے دی ۔ رب کو منظور نہ تھا اس کے صابر محبوب کے لیے کوئی بُرے اور توہین آمیز الفاظ استعمال کرے ۔حق تو محمدﷺ کے لیے ثناء خواں ہے ، اس سے بڑھ کر بڑائی آپ ﷺ اور کیا ہو کہ خالق خود ثناء خواں ہے


اس سورۃ کو کچھ سوالات کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش سے ہمیں اس سورۃ کی افادیت کا اندازہ ہوسکے گا ۔ اس لیے اس میں روز مرہ کے درپیش مسائل سے مطابقت رکھتے ہوئے تاریخی تناظر کی رُو سے جواب دینے کی سعی کی جائے گی ۔ اس لحاظ سے پہلے سوال کو رکھتے ہوئے قرانِ کریم اور آپ ﷺ کے طرزِ عمل کے ذریعے ان جوابات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔


سوال :ہمارے پیارے نبی ﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے تھے مگر جب جب ان کی توہین کی گئ آپ ﷺ نے کیا سلوک اختیار کیا ۔ اس سلوک کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہمیں کون سا رویہ اختیار کرنا چاہیے َ؟

انَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا سورۃ الاحزاب( 56)

جب حق تعالیٰ وسبحانہ محبوب کی شان کی دلالت دے اور اس کی محبت کی قسمیں کھاتے ہوئے کہے جس نے میری نبیﷺ سے محبت کی ، اُس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان کی راہ میں رخنہ ڈالا تو گویا اُس فتنہ ساز نے میری کبریائی کو للکارا!! اس لیے جہاں جہاں کفارِ مکہ نے آپﷺ کی شان میں کلمات گستاخی کہے تو اللہ تعالیٰ نے محبوب کی تسلی اور تشفی کے لیے آیات نازل کیں ۔ ایک طرف تنبیہ اور دوسری طرف محبوب کی تسکیں ملحوظ تھی ۔ قرانِ پاک میں جگہ جگہ آپﷺ کی تسلی کے لیے الفاظ کہے گئے ہیں جو آپ ﷺ کی افضلیت کی دلالت کرتے ہیں۔

و أطيعوا الله و الرسول و احذروا فإن توليتم فاعلموا أنما على رسولنا البلاغ المبين (المائدة: 92)

اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ملحوظ رکھتے ہوئے بتادیا گیا ہے اگر کوئی مرتد ہوجائے تو جان لے کہ رسول پاک ﷺ نے پیغام تو صاف صاف واضح کردیا ہے ۔۔۔۔۔!!! حضور پاک ﷺ کا کردار اسلام کے پھیل جانے سے پہلے آپ کے روشن مزاج اور عاقل ہونے کی دلیل ہے ۔ جب خانہ کعبہ پر حجرِ اسود رکھنے کی بابت حق دار آپ ﷺ خود ہوئے کہ یہ اعزاز کی بات تھی تو آپ ﷺ نے اس اعزاز میں سب سرادروں کو شریک کرلیا ہے کہ شیرِ خدا کا کام بندوں کے دلوں کو جوڑنا تھا اور دلوں کے میل کو ختم کرنا تھا ۔ دشمن بھی آپ ﷺ پر بھروسہ کریں اور آپ ﷺ کو امین و صادق کے القابات دیں ، دشمن کی گواہی تو مظہر ہے کسی کے کردار کو اجاگر کرنے کی کہ ''دشمن کی تنقید کے چراغ سے اپنی منزل تلاش کر'' اس لیے سورۃ الاحزاب میں ارشاد ہوتا ہے

لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة لمن كان يرجو الله واليوم الآخر وذكر الله كثيرا (الأحزاب: 21)

آپ ﷺ کی ہستی ہر لحاظ سے مکمل اخلاق کی حامل تھی۔ ان آیات کا نزول گرچہ مدینہ میں ہوئے جب غزوہ خندق درپیش تھا ۔حق کو مقصود آپ ﷺ کے اعمال سے ثابت کرنا کہ آپ ﷺ اخلاق کے بُلند درجے پر فائز ہیں ۔ وہ موقع الاحزاب ، جب پیٹ پر پتھر باندھنے والے آپ خود تھے کہ صابر ہستی کے منہ سے اپنے لیے تو ایک لفظ کبھی نکلا کہ آپ ﷺ کو دوسروں کی فکر اکثر رہا کرتی تھی ۔ اس لیے جو دشمن برا کہتا ، اس کو ڈرانے کے لیے آیات کا نزول ہوا ۔سورۃ العلق میں نزول ابو جہل کے لیے تو کہیں ابو لہب کے لئے تنبیہ اور کہیں مغیرہ بن شعبہ کے لیے ، کہ سرداران قریش نے آپ ﷺ کے خلاف محاذ تیار کر رکھا ہوتا تھا

’’’ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا ‘

اسی طرح امیہ بن خلف نے جب گالیاں دیں تو آپ ﷺ کو دیکھتے ہوئے غصے میں ہذیانی ہوجاتا ۔ آپ ﷺ خاموشی اختیار کرتے مگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے لیے آیات نازل کیں ۔

’’’وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِۨ
بڑی خرابی (اور تباہی) ہے ہر ایسے شخص کے لیے جو خوگر (و عادی) ہو منہ در منہ طعن (و تشنیع) کا اور پیٹھ پیچھے عیب لگانے کا۔

اسی طرح جب پیارے محبوب ﷺ کے صاحبزادے وفات پاگئے تو آپ ﷺ کے لیے کفار نے ''ابتر '' کا لفظ استعمال کیا ۔ ابتر عربی لفظ سے ماخوذ ہے جس کے معنی عربی میں اس شخص کے لیے جاتے تھے جس شخص کی اولاد کی وفات ہوجائے اس کی بطور تضحیک اس طرز کے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے ۔ کثیر الاولاد ہونا فخر کی بات سمجھا جاتا رہا ہے اور جس کی اولاد بچپن میں ہی وفات پاجائے ، اس کے دُکھ میں اضافہ کرنا چہ معنی ! آپ ﷺ کے لیے گرچہ یہ صدمے کے کے لمحات میں بھی آپ ﷺ کا صبر دیدنی تھا، آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی حکمتوں پر زیادہ بھروسہ تھا کُجا کہ شکوہ کرتے ، جواب دیتے ، خاموش اختیاری کیے رکھتے . آپ کا صبر ، آپ ﷺ کے ایمان و یقین کی دلالت کرتا ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ پر زیادہ بھروسہ تھا اور دنیاوی غم آپ ﷺ کے دل میں کوئی حیثیت رکھتے بھی نہ تھے . ان غموں کا کیا کرنا آپ ﷺ کا دل تو اپنے دشمنوں کے لیے دعا کرتا تھا کہ رو رو کہ آپ ﷺ اس طرح امت کے لئے دعا مانگا کرتے تھے جس طرح وہ آپ ﷺ کی اولاد ہو . کوئی اولاد کے لیے بھی اس طرح روتا نہیں ہے جس طرح شافعی محشر نے اپنی امت کے لیے رورو کے دُعا کی . آپ نے کبھی نفسی نسفی کا کلمہ نہیں پڑھا . محشر والے دن بھی آپ ﷺ باقی پیغمبران کی طرح نفسی نفسی نہیں کریں گے بلکہ تب تک روتے جائیں گے جب تک کہ اللہ تعالیٰ امت کی کثیر تعداد کو بسبب رونے کے معاف نہ کردیں . آپ ہمیں خوشخبری دیتے جائیں گے اور خود روتے جائیں گے . سبحان اللہ ، کیا شان میرے محبوب کی !!!


وَوَجَدَکَ ضَالًا فَھَدٰی.(الضحیٰ ۹۳:۷)
’’اس نے تمھیں جویاے راہ پایا تو راستہ دکھایا۔‘‘

آپ ﷺتحنث کے ذریعے قلب کی صفائی کی گئی . وہ مرحلہ جب فرشتوں نے دل چاک کردیا اور دل میں نور بھردیا . وہ نور جو آسمانی ہے قلب اطہر ہوگیا ۔ دل نرم ہوگیا ۔ دل کے نرم ہوجانے کے بعد نور نے پھیلنا تھا۔ ارواح زمیں پر اللہ تعالیٰ کے نور کے تجلی لیے ہوئے ہیں ۔ اور اس نور کی بے مثال تجلی آپ ﷺ لیے ہوئے ہیں ۔ نورِ مبارک محمد ﷺ کی کیوں نہ ہو صابر ہو ، کیوں نہ ہو شاکر کہ دل تو آپ ﷺ کا نوارنی ہے اس روح سے لوگوں کو ہدایت ملنی ہے ، یہ ہاتھ ، اس دل کی صدا کسی کے خلاف کیسے جاسکتی تھی ، اس نور کے بارے میں سورۃ النور میں ارشاد مبارک ہوا ہے

وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلاً مِنْ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (34) اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (35)


"(اے نبی!) ہم نے آپ کی جانب روشن آیات نازل کی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو آپ سے پہلے تھے، پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت۔ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو گویا کہ وہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو کہ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ یہ نور کے اوپر ایک اور نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔"

جب براءت کی آیات کا نزول ہوا تو سورۃ التوبہ میں منافقین کے طرز عمل پر روشنی ڈالی گئی اور ان کو مسجد الحرا م میں داخل ہونے سے منع کیا گیا ۔ ان مدنی آیات سے یہ صاف پتا چلتا ہے کہ ایک اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آچکا تھا کیونکہ اس سورۃ میں احکامات زیادہ نازل ہوئے ہیں ، ان احکامات میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کے بارے میں کیا فرمایا ہے ۔

”قل ان کان آباء کم وابناء کم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال اقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللہ بامرہ واللہ لایہدی القوم الفاسقین“۔ (التوبہ:۲۴)


ترجمہ․”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو تم پسند کرتے ہو‘ تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور جہاد سے اس کی راہ میں تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور اللہ تعالیٰ راستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو“۔


اولاد ، جان و مال غرض دنیا کے ہر شے سے مقدم ہمیں محمدﷺ کو کرنا چاہیے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو کیا مقدم تھا ۔ کیا ان کو فتنہ فساد مقدم تھا ؟ اگر ایسا تھا تو سید الشہدا حضرت حمزہ رض کے جگر کھاجانے والی ہندہ کو معاف نہ کرتے اور جانی دشمن اور چچا حضرت ابو سفیاں رض کے گھر کو جائے امان نہ ٹھہراتے ۔ میرئ نبی ﷺ کے اوصاف کیسے تھے ؟ قرانِ پاک نے جگہ جگہ آپ ﷺ کی ذات اقدس کی بڑائی بیان کردی ہے ۔

کیا اللہ تعالیٰ کی بیان کی ہوئی بڑائی ہماری بڑائی سے کم ہوگی َ؟ ہر گز نہیں ! اگر یہ بڑائی اور اصاف جوں کے توں رہیں گے تو ہم پھر آپس میں تکرار ان باتوں پر کرتے ہیں جن باتوں سے ہمارے دین میں اختلاف پیدا ہوتا ہے ۔ شان ِ اقدس کے ہوتے ہوئے کبھی اصحاب آپس میں جنگ و جدل نہ کرپائے مگر آپﷺ کی رحلت کے بعد منافقین اس بات پر قادر نظر آئے کہ اسلام کی تقسیم کرسکیں ۔ کیا ایسا تھا آپﷺ کے اوصاف میں ؟

آپﷺ کو قتل کرنے کی نیت سے آنے والے خود اسلام لے آتے ۔ آپ کی اوصاف جمیلہ ، صبر و استقامت اور تحمل ۔۔۔ آپ ﷺ بات کو صبر سے سن کر کسی بھی مسئلے کا حل نکالنے میں قادر نظر آتے ۔آپ ﷺ اللہ کے نائب اور قاصد کی حیثیت سے اس دنیا میں تشریف لائے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ آپ کی تسکین اور بڑائی بیان کرتے ہوئے دکھتے ہیں وہیں آپ ﷺ کو تلقین بھی کی گئ ۔ کس بات کی تلقین کی گئی ہے ؟ صبر کی تلقین کی گئی ہے جس طرح پہلے انبیاء نے صبر کیا ؟ حضرت ابراہیم و اسماعیل ؑ کا صبر اور استقامت ، حضر ت موسی ؑ کا استقلال و عزم اور حضرت عیسیؑ کی درویشانہ روش و تحمل ۔۔۔ آپ ﷺ ان تمام میں سے بڑھ کے تھے ۔جب آپﷺ نے اپنی توہین کے خلاف کچھ بھی نہ بولا اور نہ اصحاب کو اجازت دی جو سر دھڑ کی بازی لگانے کو تیار رہتے تھے تو ہم کون ہوتےہیں کہ جس بات کی اجازت اللہ تعالیٰ نے ہمیں نہیں دی ، جس بات کی اجازت اور حکم ہمیں حدیث سے نہیں ملتا کہ آپﷺ نے بدلہ اللہ کی راہ میں ، اللہ کے لیے ، اللہ کی رضا میں ، اللہ کے دین کو پھیلانے کی خاطر لیا ، آپ ﷺ کی ذات تو کہیں بھی نہیں تھی اپنے لیے کھڑی ہونے والی ، تو کیا حدیث و قراں سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ آپس میں فتنہ و فساد ڈالیں ، لڑائی کریں یا صلح صفائی سے کام لیتے ہوئے اسلام کے حامی ناصر رہیں ۔ اسلام کو پھیلانے والے بنے ، اچھی بات کو پکڑ لیں کہ اچھی بات کو پکڑنا اس طرح ہے جس طرح اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ


اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کا حکم سورٰۃ الاعمران سے ملتا ہے جس میں صاف بتایا گیا کہ کس طرح دشمنوں کو آپس میں بھائی کر دیا ، نفرت کو محبت مین بدل دیا ، آگ کے گڑھے میں جو لوگ گر رہے تھے اس رسی کے تھامے رہنے کی وجہ سے وہ آگ میں گرنے سے محفوظ ہوگئے ۔ اب وہ رسی ، وہ اچھائی ، وہ نور اس بات کو فروغ دے رہا کہ تمام نوع ِ انسانی میری تخلیق ہے ، میرامذہب آپس میں فتنے کے لیے نہیں بلکہ یہ تو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ، اس ضابطے کے مطابق اگر ہم زندگیاں بسر کریں تو معلوم ہوسکے کہ ہم سب اللہ کی تخلیق ہیں اور اللہ کی تخلیق ہوتے ہوئے فساد برپا کرنا اللہ کو کس قدر ناپسند ہے

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ

سوالنمبر2: حکمران ہونے کی حیثیت سے خلیفہ کے کیا فرائض ہو سکتے ہیں ؟ متکبر حکمران کے انجام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کیا فرماتے ہیںَ؟

قرانِ پاک میں ہمارے لیے جگہ جگہ نشانیاں موجود ہیں ۔نشانیاں نورانی و رحمانی ہیں ۔ ان نورانی نشانیوں کی تلاوت سے رحمت کی بارش ہوتی ہے۔جو چاہے بھیگ جائے اس بارش میں ۔۔۔۔!!! وہ ابرِ رحمت کے نور سے خود کے گناہوں کو دھو کے مستقیم کرلے ۔۔۔۔! استقامت و صبر ایمان کی نشانیاں ہیں ۔مومن لوگ ان نشانیوں کے بل پر صراط کو پار کر جائیں گے اور جو رہ جائیں گے صراط پر لڑکھڑاتے ، بل کھاتے ہوئے ان کے لیے نار ہوگی جہنم کی ۔ نار جہنم بڑی دہکتی ہوئی آگ ہیں جن سے ان کی پیشانیاں داغی جائیں گی ۔ رب کریم کی رحمت بے مثال ہے وہ مسکین کو ایمان کی آزمائش میں ڈالتا ہے کہ جانچ سکیں کہ اس کا ایمان کتنا مضبوط ہے اور صاحب حیثیت کو اس کی خیر کی طاقت سے آزمائش میں ڈالتا ہے کہ لوگ اس کتنا نفع لے سکتے ہیں ۔ نفع سے نکلے گا ان کے لیے نور ۔۔۔ کن لے لیے مومنین کے لیے جو مستقیم رہیں گے اور وہ جو خیر کا باعث ہوجائیں گے اور اگر مستقیم نہ ہوئے تو ان کی نشانیاں بتائیں جائیں گی جن سے وہ عبرت حاصل کرسکیں ۔۔!!!


نبی ﷺ مبعوث کیے گئے آپ کو نیابت سونپ دی گئی اور آپ ﷺ کی نشانیاں بتائیں جاتی رہیں گی ان نشانیوں میں قصے ہوں گے جو ہر دو صورتوں میں سمت متعین کردیں گی کہ اللہ کی رحمت سمت متعین کرنے کے لیے ہے ۔ پہلی نشانی بطور کہانی دی گئی جس میں قصہ دو باغ کے مکینوں کا تھا اور باغ کے مکینوں کا یہ قصہ سورۃ الکہف میں بھی سنایا گیا ہے یعنی اگر ہم سورۃ الکہف کی تلاوت کرلیں تو ہم اس سورۃ کی شرح مزید واضح ہوسکتی ہے ۔ اس بات کی وضاحت سورۃ اکہف کو دیکھتے ہوئے کچھ اپنے انداز میں اس طرز سے دیکھی جاسکتی ہے ۔

تاریخی انسانی میں نامی حکمران آئے ہیں ۔ ان میں سے تین حکمران ایسے ہیں جن کا نام تاریخ میں بطور منتظم سنہری حروف لکھا گیا ہے ۔ ایک کا نام ذوالقرنین ، دوجے کا نام تیمور اعظم اور آخری کا نام اکبر اعظم تھا۔۔ ان تینوں میں ایک خصوصیت نمایاں تھی وہ ان کی تنظیمی صلاحیتیں تھیں ۔ اکبر کو دیکھا جائے تو تاریخ کے چند حکمران ہی پورے ہندوستاں پر قابض رہ سکے کہ مسلم تاریخ میں علا الدین خلجی نے ایسا خواب دیکھا ، شیر شاہ سوری یہ کام نہ کرپایا ، دوجے کو دیکھیں تو تیمور ، جس کی سلطنت چار سو پھیل چکی تھی اس کے آباء چنگیز خان اور ہلاکو تھے ۔ اسی تیمور کی تمثیل جس کو''طوفانی روح '' کہا جاتا ہے ، اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی جس کی حدود جدید یورپ ، دمشق ، سمر کند و بخارا ، ایران ، افغانستان اور چین تک رک گئیں۔ تیسرے جناب ذوالقرنیں تھے جن کے دور میں پیغمبر حضرت دانیال ؑ تھے ۔ انہوں نے حکومت قائم کی اور ان کی حکومت مشرق سےمغرب تک پھیل گئی تھی ، جس طرح انگریزوں کی حکومت یورپ شمال سے افریقہ ، ایشیا جنوب تک پھیل گئی تھیں اس طرح ان کی حکومت بھی مغرب و مشرق تک پھیلی ہوئی تھی ۔


ذوالقرنین جناب اللہ تعالیٰ کے احکامات بجا لانے والے تھے ۔اتنے بڑی ریاست کے ہوتے ہوئے سجدہ حق کے آگے ہوتا جبکہ تکبر طاقت آنے کے بعد خاصہ ہوجاتا ہے اور شر پھیل جاتا ہے جب شر پھیل جاتا ہے تو نار جہنم ٹھکانہ بن جاتی ہے ۔ آپ نے لوگوں کی تحفظ کے لیے دو قبائل کے مذموم ارادوں سے بچانے کے لیے دو لوہے کے بڑے دروازے بنائے جن کی مثال و پس منظر دیوارِ چین کو رکھتے ہوئے سامنے ہے کہ یہ دیوار بھی اسی طرز اور بنیاد پر تعمیر کی گئی تھی کہ منگولیوں کے حملہ سے بچا جاسکے ۔

سرکشی تو انسان کا خاصہ ہے جب جب طاقت آئی ہے انسان نے اپنی مرضی کی ہے اور مرضی کا نقصان اٹھایا ہے ، نقصان بھی بھاری ۔۔۔ کفار میں قبائل جن کی ریاستیں بہت چھوٹی تھیں اگر دیکھا جائے تو ان کی تعداد ۔۔۔ ان کی تعداد جناب ذوالقرنیں کی فوج کے سامنے کیا تھی ؟ کچھ بھی نہیں ؟ کچھ بھی نہیں مگر ذرا سی طاقت پر غرور بہت تھا ان کو ۔۔ غرور کرتے ہوئے تضحیک خاصہ ہوجاتی ہے اور انسان دنیاوی نفع دیکھتا ہے ۔

اور اگر حکومت قائم کرنی ہو اس حکومت کی بنیاد کسی بنیاد پر قائم کی جائے ؟ اس کی بنیاد اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی آگے بطور نائب پیش ہوا جائے اور اس کے آگے سر جھکا کر اعتراف کیا جائے کہ تکبر کرنے کے لائق صرف ایک ذات ہے وہ ذات ہے رحمان و رحیم ۔۔ نائب کا کام حق کے کام کو شکر سے کرتے ہوئے مصائب کو برداشت کرکے مستقیم رہنا اور ہدایت سے سرفراز کرتے ہوئے نفع دینا ہے ۔جتنا نفع نائب نے اللہ تعالیٰ کی تخلیق کو دیا اللہ تعالیٰ اس کو اپنے اتنا ہی قریب کرلیں گے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی کو قریب کرلیتے ہیں اس کی بلندی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہوتی ہے اللہ تعالٰی اس کو کبھی بھی نیچا نہیں کرتے ، کبھی پستی کی طرف نہیں لے کر جاتے ہیں ۔ نبی ﷺ بطور نائب اور بطور قاصد آئے اور ان کو نیابت کے فرائض سے آگاہی ہونا ضروری امر تھا جبکہ کفار کو بتلانا مقصود تھا کہ نبی آخر الزماں اس دنیا میں مبعوث ہوگئے ہیں ۔ آپ کو صبر کی تلقین کی گئی کہ صبر سے کام لیں اور بطور تمثیل صاحب حوت یعنی حضرت یونسؑ کی مثال دی گئی ۔ اگر وہ صبر سے کام نہ لیں تو حضرت یونس ؑ کا حال سامنے ہے جن کو نرم کردیا گیا تھا ان کا جسم اتنا نرم ہوگیا تھا جس طرح ماں کے پیٹ میں سے بچہ ۔۔۔۔!!! اور آپ کی ہڈیاں نرم ہوگئیں تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو کلمہ عطا کیا جس سے شفاء حاصل ہوئی ۔

اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک چھوٹی سی حکومت کی مثال دی گئی کہ جس میں دو لوگ باغ کے مالک تھے ۔ باغ کے رکھوالے ، باغ کی حفاظت کرنے والے ، اس کے ثمرات کا پھل لینے والے اپنے خیر پر آمادہ رہے اور دوسروں کا نفع بھول گئے جب بھول گئے دوسروں کا نفع تو کیا ہوتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ دی گئی نعمت کو واپس لے لیتے ہیں ۔ ہر شے ، ہر شے ۔۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ ہر شے کو زوال ہے جس کو عروج دیا گیا اس کو زوال ملا کہ عروج کا عرصہ بہت کم ہے اس کے بعد نیچے بمعنی پستی میں رہنا پڑتا ہے جب صاحب باغ نے وہ امر پسند نہ کیا کہ لوگوں میں جو ضرورت مند ۔۔۔تقسیم کر سکیں تو اللہ تعالیٰ نے ان سے نعمت واپس لے کر باغ کو ویران کر دیا اور جب وہ باغ پہنچے سمجھے کہ ہم غلط جگہ پر آگئے ، درحقیقت ان کا باغ وہاں نہیں تھا یعنی نام و نشان مٹ گیا ، مٹے نامیوں کے نشان ۔۔۔۔ باغ کا نشان مٹ جانا ، نعمت کا واپس لیا جانا یہ بتلاتا ہے کہ جب اختیار دیا جائے تو اختیار کو کسی طرح فائدہ میں لایا جاسکتا ہے

آج کے دور میں دیکھا جائے تو انسان اشرف المخلوقات ہے ہر انسان اللہ کا نائب ہے ۔ اشرف المخلوقات میں بعض کو بعض ہر زیادہ عطا اور بعض کو کم دے کر آزمایا جاتا ہے ۔ ایک سے پھیلنا ہوتا ہے خیر و شر ۔۔کہ خیر کو پھیلائے تو اس کا بھلا اور اگر نہ بھیلا پایا تو صریح گمراہی میں ۔۔۔ دوسری صورت میں صبر کی تلقین ۔۔۔اگر اختیار نہیں ہیں اور نیابت کے فرائض دیے گئے ہیں ۔ ان کو صبر سے کام لیتے ہوئے ، استقامت کے ذریعے ثمر و نعمت کو حاصل کرنا ہے تاکہ نعمت حاصل ہو اور مزید خیر پھیلے کہ صبر ایک درخت ہے جس پر جتنے ثمر ہوں گے اتنا خیر پھیلے گا ۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ


سورۃ القلم نورِ حق کی طرف سے نور والوں کے لیے نور کا ایک تحفہ ہے۔ نور والے لوگ تاکہ حق کا پیغام بلا خوف اور بلا ججھک اٹھائیں ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسلام کی صدا بُلندا ہوا چاہ رہی تھی ۔ لوگ جوق در جوق اسلام کے حلقہ کی میں داخل ہوا چاہتے تھے ۔ اس لحاظ عرب یعنی مکہ کے شہر میں لوگوں کی قلیل سی تعداد اسلام لے آئی تھی ۔ آپ ﷺ کو اسلام پھیلانے کے لیے ہر قسم کے ڈر ہونے کی بابت اس سورۃ میں کہا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ کب کب آپﷺ کا ساتھی نہیں ہوا ہے اور کب کب قسم کھا کر بات کی ہے ؟جب جب اللہ تعالیٰ کی غیرت کو کسی نے للکارا ہے تب تب آیات ِ تنبیہ نازل ہوئی ہیں تاکہ ''نذیر'' قرار دیے جانے والے ، ''بشیر '' کہلائے جانے والے کوی حرفِ تسلی دیا جائے ۔ اس سورۃ کو بنیادی طور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقسیم کیا گیا ہے

1۔ اللہ تعالیٰ کی حضور پاک ﷺ محبت
2۔ حضور پاکﷺ کے منصب کے بارے میں آگاہی
3۔ متکبر لوگوں کے لیے سبق
4۔جنت و دوذخ کا تصور ۔۔۔۔۔سزا و جزا کا تصور۔
5۔ عمل اور توبہ کا وقت


پانچ باتوں کا ذکر سورۃ میں ہے!
القلم نمبر میں سورۃ دوسری!


کوئی فرازانہ محمد سا ہے کیا؟
جو کہے مجنون دیوانہ وہ خود!


جگ میں جا دل کےلگانے کی نہیں!
لو لے عبرت !مستقل رہنا نہیں!


عجز سے جو کام لے فاتح وہی!
جو کرے گا اب تکبر فیل ہے!


بس میں مالک کے ہے، سب کی زندگی

''قم'' کہ ''کن'' ہو دیر کتنی لگتی ہے!!!


یہ کلامِ حق ہے سمجھو، بولو پھر !

ہے اگر ہمت نشانی لاؤ تم!


ہیں محمدآﷺ جگ کی تسکیں کے لیے!
رب ہے نا!احمد کی تسکیں کے لیے!




بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ (١) مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ (٢) وَإِنَّ لَكَ لأجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ (٣) وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (٤)فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ (٥) بِأَيِّكُمُ الْمَفْتُونُ (٦) إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (٧)

ترجمہ:نٓ۔ قلم کی اور جو (اہل قلم) لکھتے ہیں اس کی قسم۔کہ (اے محمدﷺ) تم اپنے پروردگار کے فضل سے دیوانے نہیں ہو۔اور تمہارے لئے بے انتہا اجر ہے۔اور اخلاق تمہارے بہت (عالی) ہیں۔سو عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور یہ (کافر) بھی دیکھ لیں گے۔کہ تم میں سے کون دیوانہ ہے۔تمہارا پروردگار اس کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے رستے سے بھٹک گیا اور ان کو بھی خوب جانتا ہے جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضور پاکﷺ کے اوصافِ جمیلہ کے بارے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے بارے میں پہلی ہی بات ہوچکی ہے . حضور پاکﷺ کو جب جب تضحیک کا نشانہ بنایا تب تب وحی اتری . جب آپ ﷺ کو مدد کی ضرورت ہوئی تب اللہ تعالیٰ نے قلب میں سکینہ اتاری ..... !!! آپ ﷺ کی تعریف و توصیف میں خود مصروفِ ثناء خالق ہے ، یہ کلام جا بجا آپﷺ کی توصیفی کلمات سے بھرا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ نے کلمات ِتوصیفی زبانی نہیں کہے یہ صفتیں محمد ﷺ میں پہلے سے موجود تھیں ۔ ان صفات کو کفار خود بھی مانتے تھے مگر اسلام کی وجہ سے جھٹلا دیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جھوٹ کا پردہ فاش کیا ہے جیسے جیسے آپ ﷺکے اعمال حکومتی امور اور غزوات میں راہ دکھاتے رہے ، وہی کلمات توصیفی آپ ﷺ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے کہے ۔ یعنی حق تعالیٰ نے وہ کہا ہے ، جس کا صرف اللہ تعالیٰ نے خود شاہد نہیں بلکہ عالم گواہ ہو۔۔اور جس کا عالم گواہ ہو اس کا رب گواہ نہ ہو؟ اس کا بھی رب گواہ ، جو حق کہتا ہے ، جو سچ کہتا ہے ، حق کو وہ بہت محبوب ہے ۔۔۔۔ اور محبوب کے لیے نشانیاں ظاہر کی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ نشانیاں ظاہر کیں ۔سبحان اللہ ۔

پھر جو مجنون آپ ﷺ کو کہتا ہے اس پر ظاہر ہوگا کون مجنون ہے اور کون سرداری کے لائق ہے . کون بنا سرداری کے لائق ؟ کس نے اسلامی نظام قائم کیا ؟ کس نے مواخات کی بنیاد پر رشتے بنائے ؟ کس نے فتح مکہ کے بعد دشمنانِ اسلام کے لیے سینے فراخ کیے اور ان کے گھر کو جائے اماں قراد دیا؟ عفو کی مثال ، بے مثال قائم کی ، صبر کا نمونہ بنے ، اخلاق کی گواہی تو قرانِ پاک میں جگہ جگہ دی گئی ہے ، کیوں ایسا ہوگا ؟ کیوں ؟ کیونکہ جو اللہ کے دوست ہوتے ان کے دل ہوتے فراخ ہیں ، ان میں فرزانگی بدردجہ اتم ہوتی ہے ، ان کے دماغ روشن ہوتے ہیں ، حق ان کے ساتھ ہوتا ہے ، نور کے ہوتے ہوئے جو چراغ بن جائیں حق کو یہ گوارا ہوگا کہ ان کو کوئی کہے کہ وہ اندھیرے میں؟؟ کوئی کہے گا تو اس نے گویا حق کو تکلیف دی . جس نے حق کو تکلیف دی اس نے اپنی دنیا رسوا کی تو کی مگر اس نے آخرت بھی ساتھ خراب کرلی . ایسے بندوں کا انجام کیا ہواَ؟ مغیرہ بن شعبہ کیا انجام کیا ہوا؟ ابو جہل کے ساتھ معاملہ کیا ہوا؟ سوچیے ! سوچنے والے نشانی پا جاتے ہیں ، سوچ کر راہ سیدھی کرلینی چاہیے .


ساتھ میں نبی اکرم ﷺ کوتلقین کی گئ ہے کہ جو جو حق کی راہ میں اس کو ڈرنے کی ضرورت کیا ہو کہ آپ ﷺ حق راہ میں ، ان کو کھل کر اسلام کی بات کرنی چاہے ، وہ باطل سے نہ دبیں اور نہ منافقین کی باتوں میں آئیں . اللہ تعالیٰ نے ایک اور راہ دکھائی کہ یہ خاموشی کو کمزوری جانتے ہیں .نبی اکرمﷺ کی حد سے بڑھی خاموشی و تحمل و شرافت کو کفار کمزوری جانتے اس لیے کفار کو سورۃ التوبہ میں تنبیہ کی گئی جس میں حضور پاک ﷺ کو انہوں نے کانوں کا کچا کہا ہوا تھا ... سو جو جو حق کی راہ میں اس کو چاہیے جہاں جہاں اس کو ڈٹنا چاہیے وہ ڈٹ جائے .


فَلا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ (٨) وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (٩) وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَهِينٍ (١٠) هَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِيمٍ (١١) مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ (١٢) عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ (١٣) أَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ (١٤)إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الأوَّلِينَ (١٥) سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ (١٦)
ترجمہ :تو تم جھٹلانے والوں کا کہا نہ ماننا۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی اختیار کرو تو یہ بھی نرم ہوجائیں۔اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے۔طعن آمیز اشارتیں کرنے والا چغلیاں لئے پھرنے والا۔مال میں بخل کرنے والا حد سے بڑھا ہوا بدکار۔سخت خو اور اس کے علاوہ بدذات ہے۔اس سبب سے کہ مال اور بیٹے رکھتا ہے۔جب اس کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔ہم عنقریب اس کی ناک پر داغ لگائیں گے۔

۔۔۔۔۔

حضرت پاکﷺ کے اوصاف میں بدلہ لینا نہیں لکھا ہوا تھا .اور حضور پاک ﷺ کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیتے تھے . اللہ کے لیے اللہ کی راہ میں سب کچھ برداشت کرتے مگر اب ان کو اللہ کی جانب سے اذن مل گیا کہ ان کی باتیں حق کو گوارا نہیں ہے سو ان کے آگے مطیع یا دباؤ میں آنے میں ضرورت نہیں . مھین کی صفت استعمال کی . یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ذلت لکھی ہوئی ... وہ جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلت دے ....!


یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں جب ان کو بطور ٖعبرت قصے سنائے جاتے ہیں ، ان قصوں کو اسا طیریت کا درجہ دیتے ہوئے تحقیر کرتے ہیں ، حق کی نشانیوں کی جھٹلاتے ہیں ، کیا یہ نہیں جانتے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے ، آخرت کا باغ گر بنجر ہوگا ، اس میں پھل نہیں ہوگا اور فساد کی آگ لگا کر فصلیں جلا دیں گے ، کیا پائیں گے ؟ کیا پائیں گے ؟ آج یہ قصے جھٹلاتے جب ان کے پاس اجل کا پیغام آئے گا اور قبر میں ان پر دوذخ کیا دروازہ کھلے گا اور نار سے ان کا وجود جھلسے گا ، نار کا کام ہی جھلسانا ، اس وقت رجوع کرنا کام نہیں آئے گا .

یہ لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں اور جو لوگ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں .... ان کے لیے درد ناک عذاب میں مبتلائے غم ہوں گے ، یہ ابتلا ان کی اپنی سر لی ہوئی جس میں ان کی پیشانیاں ان کی پیٹھ ، ان کی کمر داغی جائیں گی اور جب ان کو کھانا دیا جائے وہ ایسا ہوگا کہ جس سے ان کا حلق میں بنے گا پھندا ، پھندا بن کے گلے میں ڈالے گا زخم ، اور زخم سے کرا ہتے ہوئے کریں گے دہائیاں مگر ان کی دہائیاں کہاں اب قبول ہونے والی ہیں . اس لیے کہ اب ان کے لیے تجدید کا وقت ختم ہوگیا ہے ، دنیا میں انہوں جو پرچہ حل کیا ہے اس میں نمبر تو نہ لے سکے بلکہ اپنے نمبر نفی میں لے گئے دوسروں کو ایذا ء پہنچا کرکے اور تکلیف دے کر .

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ ﴿١٧﴾ وَلَا يَسْتَثْنُونَ ﴿١٨﴾ فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ ﴿١٩﴾ فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ ﴿٢٠﴾ فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ ﴿٢١﴾ أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ ﴿٢٢﴾ فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ ﴿٢٣﴾ أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ ﴿٢٤﴾ وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ ﴿٢٥﴾ فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ ﴿٢٦﴾


ترجمہ :ہم نے ان لوگوں کی اسی طرح آزمائش کی ہے جس طرح باغ والوں کی آزمائش کی تھی۔ جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہوتے ہم اس کا میوہ توڑ لیں گے۔اور انشاء الله نہ کہا۔سو وہ ابھی سو ہی رہے تھے کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے (راتوں رات) اس پر ایک آفت پھر گئی۔تو وہ ایسا ہوگیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی۔جب صبح ہوئی تو وہ لوگ ایک دوسرے کو پکارنے لگے۔اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی جا پہنچو۔تو وہ چل پڑے اور آپس میں چپکے چپکے کہتے جاتے تھے۔آج یہاں تمہارے پاس کوئی فقیر نہ آنے پائے۔اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جا پہنچے (گویا کھیتی پر) قادر ہیں۔جب باغ کو دیکھا تو (ویران) کہنے لگے کہ ہم رستہ بھول گئے ہیں

۔۔۔۔۔
قصہ ان کو عبرت کے لیے سنایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ دنیا میں گمراہ ہونے والوں کے لیے کیا کیا سزا ہیں اور جو سزا کے بعد توبہ کرے جیسے جہنم میں جانے کے بعد توبہ تو اس کے لیے کیا رکھا ہے مگر عبرت کے ، سو یہ قصہ بھی ہے عبرت کا ہے جس میں بتانا ہے کہ دنیا بنی ہے امتحان گاہ اور اس میں وہ لوگ کامیاب ہیں جو خیر پھیلاتے ہیں اور بخل سے کام نہیں لیتے ہیں اور جو بخل سے کام لیتے ہیں گویا وہ کہ وہ اپنی فصل خود کاٹ رہے ہیں ان کی یہ فصل کاٹی نہ جاسکی گی جب تک کہ سیاہ اعمال نامہ ان کے سامنے آجائے اور یہ اعمال نامہ ان کے منہ میں مار دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ یہ تھے وہ اعمال جو تم نے کیے ، یہ اذیتیں ، یہ تکالیف تم نے نور والوں کو دیں ، نور والے ، اللہ والے ہیں اور جو نور محمد ﷺ کے خلاف جائے اور نور والے اصحاب کے خلاف اور ان کو جا کے تنگ کرے ، کیا رکھا ہے ان کے لیے ، ان کے پاس رجعت کا موقع نہیں ہے اور نہ یہ وہ موقع دنیا میں ، اپنی زندگی میں پاسکیں گے ، کہ ان کی کوتاہی اور غلطی ایسی ہے کہ اس کی سزا سوائے ھاویہ کے کچھ نہیں ہے .


بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ ﴿٢٧﴾ قَالَ أَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ ﴿٢٨﴾ قَالُوا سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ﴿٢٩﴾ فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَلَاوَمُونَ ﴿٣٠﴾ قَالُوا يَا وَيْلَنَا إِنَّا كُنَّا طَاغِينَ ﴿٣١﴾ عَسَىٰ رَبُّنَا أَن يُبْدِلَنَا خَيْرًا مِّنْهَا إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا رَاغِبُونَ ﴿٣٢﴾ كَذَٰلِكَ الْعَذَابُ ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴿٣٣﴾
ترجمہ:نہیں بلکہ ہم (برگشتہ نصیب) بےنصیب ہیں۔ایک جو اُن میں فرزانہ تھا بولا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟(تب) وہ کہنے لگے کہ ہمارا پروردگار پاک ہے بےشک ہم ہی قصوروار تھے۔پھر لگے ایک دوسرے کو رو در رو ملامت کرنے۔کہنے لگے ہائے شامت ہم ہی حد سے بڑھ گئے تھے۔امید ہے کہ ہمارا پروردگار اس کے بدلے میں ہمیں اس سے بہتر باغ عنایت کرے ہم اپنے پروردگار کی طرف سے رجوع لاتے ہیں۔(دیکھو) عذاب یوں ہوتا ہے۔ اور آخرت کا عذاب اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش! یہ لوگ جانتے ہوتے۔​

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ایسے لوگ بھی آئیں گے جو اپنی غلطی پر شرمندہ ہوں گے ، جو شرمند ہ ہوجائیں اور حق کی طرف رجوؑع کرلیں ، بے شک حق کے پاس بندے کو آنا ہے اور اس کی رجعت ہی اس کی تجدید ہے کہ اس نے تجدید کردی کہ اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے ، رب باری تعالیٰ ایسے لوگوں کو معاف فرما دے گا جیسا کہ ابو سفیان رض جو کہ تھے جانی دشمن باوجود قرابت کہ مگر پا گئے اصحاب میں سے درجہ اور ان کا بیٹا ایمان والا ہوگیا ، عکرمہ اپنے باپ سے بڑھ کر نکلا ایمان والا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں، جو پکڑ لیں عبرت سے نشانی ، وہ عقل والے ہوش کے ناخن لے لیں تو ان کو معاف کرنا اللہ کا کام ہے مگر جو حق کی نشانیاں کو جھٹلاتے ہوئے بار بار تضحیک سے کام لیں ان کے لیے کیا کہا حق نے ، کہ بے شک وہ بن جائیں گے دنیا والوں کے لے عبرت


إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ ﴿٣٤﴾ أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ ﴿٣٥﴾ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ ﴿٣٦﴾ أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيهِ تَدْرُسُونَ ﴿٣٧﴾ إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ ﴿٣٨﴾ أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۙ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ ﴿٣٩﴾ سَلْهُمْ أَيُّهُم بِذَٰلِكَ زَعِيمٌ ﴿٤٠﴾ أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ فَلْيَأْتُوا بِشُرَكَائِهِمْ إِن كَانُوا صَادِقِينَ ﴿٤١﴾ يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ ﴿٤٢﴾

ترجمہ : پرہیزگاروں کے لئے ان کے پروردگار کے ہاں نعمت کے باغ ہیں۔کیا ہم فرمانبرداروں کو نافرمانوں کی طرف (نعمتوں سے) محروم کردیں گے؟تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو؟کیا تمہارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں (یہ) پڑھتے ہو۔کہ جو چیز تم پسند کرو گے وہ تم کو ضرور ملے گی۔یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن تک چلی جائیں گی کہ جس شے کا تم حکم کرو گے وہ تمہارے لئے حاضر ہوگی۔ان سے پوچھو کہ ان میں سے اس کا کون ذمہ لیتا ہے؟کیا (اس قول میں) ان کے اور بھی شریک ہیں؟ اگر یہ سچے ہیں تو اپنے شریکوں کو لا سامنے کریں۔جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائے گا اور کفار سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

واہ ! کیا ارشاد ہے ، حق تعالیٰ نے اچھا انعام رکھا ہے جنہوں نے اپنی جان کو قرض دے رکھا ہے ، حق تعالیٰ اس قرض کو اپنے مرضی کے مطابق بے حساب کرکے لٹاتا ہے ، سو جو اچھا کام کریں اور ہوجائیں فرمانبردار ، ان کے لیے کیا ہے ؟ ان کے لیے کیا جنت ہے ؟ ان کے لیے حق کا جلوۃ ہے ؟ ان کےلیے حوضِ کوثر ہے َ؟ کیا وہ پل صراط سے آسانی سے گزر جائیں گے ؟ کیا ان کے لیے جنت میں محل ہیں ؟ کیا ان کے لیے بہتی ہوئی نہریں ہوں گی ؟ کیا ان کے لیے حوریں اور غلمان ہوں گے ؟ ارے ! یہ سب ، یہ سب ان کو دیا جائے گا بے حساب اور اللہ تعالیٰ کے لیے جو بلا حساب خود کو پیش کردیں کیا وہ ان کو بے حساب نہ لوٹائیں گے ؟

اور اس کا سلسسلہ کب تک جاری رہے گا ؟ انعامات کی بارش کب تک ہوگئ ؟ ایک ایسی زندگی ان کا انتظار کررہی جس میں وقت کی قید نہٰیں ہے ،جہاں عیش و تعیش کا سب سامان موجو د ہے ، اس لئے قربان ہوجائیں اور ایمان پر قائم رہیں ، آنے والے مصائب کو سہ کر مسکراتے جائیں تو کیا ان کی یہ ثابت قدمی کیا حق کو اچھی نہ لگے گی ، حق کو ان کی یہ ادا پسند نہ آئی گی ؟حق کو ایسے جانباز ہی تو پسند ہیں جو فرشتے نہ ہوتے ہوئے اوصاف فرشتانہ رکھیں گے اور جو خلیفہ ہوتے ہوئے اس کے حضور ایسے جھکیں گے جیسے ایک ادنی سا ذرہ ، اللہ تعالیٰ ذروں کو ِ اپنے قریب کرلیتا ہے

ایک مستقل زندگی ملے گی مگر وہ مستقل ٹھکانہ بنانا ہے ہم نے اپنے اعمال سے ، جو ہوں گے برے اعمال والے ان کےاعمال ان کو گرادیں گے پل صراط سے ، اور ہو جائیں گے وہ نادار ، جو ہوجائیں گے نادار اور لاچار ، ان کو کیسے ہوگا دیدار اور جو کر نہ پایا دیدار وہ جنت میں کیسے جائے گا، ایک چابی نہ کھلے گئ اور دوسری کیسے کھولے گا ، سو ان کا ٹھکانہ بن گیا ہے جہنم ....مگر جو اپنے جان ومال کو دے دیں حق کے پیش ، جیسے کا دےدیا ، حق کے پیش حضرت ابو بکر صدیق رض نے ، حق نے کیا سلوک کیا کیا ؟ معراج کے موقع پر فرشتہ بنادیا بشکل حضرت ابو بکر صدیق بواسطے تسکیں اور کہلائے وزیرِ شاہِ دو جہاں رحمت العالمیں ﷺ،....حضور پاکﷺ تک نے کہ دیا کہ میں نے سب کے احسانات کا بدلہ اتار دیا ہے اور ابو بکر کے احسانات کا بدلہ نہ اتار سکا اور ان کا بدلہ اتاریں گے حق ....حق کیسا بدلیں دیں گے... جن کو لقب ملا گیا صدیق کا... سچے لوگو جلوہِ حق کریں گے ..کیامقام ہے ان کا ...سبحان اللہ



43 خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَالِمُونَ 44 فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِّبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ 45 وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ 46 أَمْ تَسْأَلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ 47 أَمْ عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ 48 فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظُومٌ49 لَوْلَا أَنْ تَدَارَكَهُ نِعْمَةٌ مِنْ رَبِّهِ لَنُبِذَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ 50 فَاجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَجَعَلَهُ مِنَ الصَّالِحِينَ 51 وَإِنْ يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّكْرَ وَيَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونٌ .52وَمَا هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ

ترجمہان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی حالانکہ پہلے (اُس وقت) سجدے کے لئے بلاتے جاتے تھے جب کہ صحیح وسالم تھے۔تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو۔ ہم ان کو آہستہ آہستہ ایسے طریق سے پکڑیں گے کہ ان کو خبر بھی نہ ہوگی۔اور میں ان کو مہلت دیئے جاتا ہوں میری تدبیر قوی ہے۔کیا تم ان سے کچھ اجر مانگتے ہو کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے۔یا ان کے پاس غیب کی خبر ہے کہ (اسے) لکھتے جاتے ہیں۔تو اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو اور مچھلی (کا لقمہ ہونے) والے یونس کی طرح رہو نا کہ انہوں نے (خدا) کو پکارا اور وہ (غم و) غصے میں بھرے ہوئے تھے۔اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی ان کی یاوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیئے جاتے اور ان کا حال ابتر ہوجاتا۔پھر پروردگار نے ان کو برگزیدہ کرکے نیکوکاروں میں کرلیا۔اور کافر جب (یہ) نصیحت (کی کتاب) سنتے ہیں تو یوں لگتے ہیں کہ تم کو اپنی نگاہوں سے پھسلا دیں گے اور کہتے یہ تو دیوانہ ہے۔اور
ور (لوگو) یہ (قرآن) اہل عالم کے لئے نصیحت ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی جھٹلانے والوں کو خود دیکھ لے گا کہ یہ نہیں مان رہے کوئی دلیل اور جھٹلا رہے ہیں نشانیاں جیسے کہ وہ ماضی کی یاداشت کہ حق نے اتاری ان کے لیے وہ آیت ، نبی کا کام صدا لگا دینا ، آگا ہ کر دینا ہے اور آگاہی کے بعد جو نہ مانے ، تو ا سکا معاملہ اللہ کے ساتھ ہوگا اس کے لیے نبی اکرمﷺ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ا ن سے ڈرنے کی تو بالکل ضرورت ہی نہیں ہے . ان کو آگاہ کرنا کام ہے .

یہاں ایک اور تنبیہ کردی جب اللہ انبیاء کو اپنے قریب کرلیتا ہے تو وہ محبوب ہو جاتے ہیں مگر اس کو اپنے سارے بندے محبوب ہیں . سو ان کے لئے عذاب مانگنے والے صاحب حوت کی طرح سزا پالیتے ہیں یہ ایک عبرت کی نشانی ہے جن جن کے ذمے حق کا کام ہے ان کو رویہ دعا دینے والا ہونا چاہئے اور اگر کوئی بددعا دے گا اس کا حال اس طرح ہوگا جس طرح جضرت یونس کا ہے
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
سورۃ المزمل
تیسری سورۃ نزول کے لحاظ سے
تعارف

قرانِ پاک کی بالترتیب تیسری سورۃ جس کی ابتدا کچھ آیات مکی ہیں اور باقی آیات مدنی ہیں. اس سورۃ کو نسبت ہے جناب عالی مرتبت حضور پاکﷺ سے ، آپ ﷺ مکی و مدنی ہیں . اس لیے یہ سورۃ بھی مکی مدنی ہے . اس کا پہلا رکوع مکی ہے اور دوسرا رکوع مدنی ہے . دوسرا حصہ ، پہلے حصے کے نزول کے دس سال بعد نازل ہوا........ !

پہلے حصے میں رسول پاکﷺ کے بتایا گیا ہے کہ ان کا سلوک لعن طعن کرنے والے کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے . اور تلقین کی گئی کہ رات میں قیام کرنا ضروری ہے کہ آپﷺ پر جو نبوت کا بھاری بوجھ ہے ، رات میں قیام سے آپ پر اس کا بوجھ ہلکا ہوتا رہے گا . آپﷺ کی برداشت بڑھانے واسطے تلقین کی گئی ہے . آپ ﷺ کی تربیت مقصود تھی حقِ باری تعالیٰ کو . تہجد کی نماز لازم قرار دی گئی کہ یہ وہ وقت جب خالق کا خلق سے رشتہ مضبوط تر سے مضبوط ترین ہوجاتا ہے . جب کون و مکان کا مالک سب سے نچلے آسمان پر آجاتا ہے اور پکارتا ہے کہ کوئی ہے دعا مانگنے والا ؟ کوئی سائل ہے ؟ کوئی مانگے تو میں اس کو دوں ! اس وقت سونے والے پیچھے رہ جاتے ہیں اور جاگتے ہیں ان کو نواز دیا جاتا ہے . یہ تلقین بھی اس لیے کہ گئی ہے .


نبوت کا بوجھ کیسا ہوتا ہے . انبیاء پر وحی نازل ہوتی ہے . وحی الہامی ہوتی ہے جب سینہ کو علم سے بھرا جاتا ہے . جب وحی نازل ہوتی تو آپ ﷺ کی برداشت قابلِ دید ہوتی کہ جانور ہو یا انسان اس کا بوجھ اٹھا نہیں سکتے کہ ایک دن وحی نازل ہوئی اونٹ کے اوپر ، بوجھ سے وہ اونٹنی زمیں پر بیٹھ گئی . سردیوں میں حضور پاکﷺ کی پیشانی پر پسینہ اطہر کے قطرے نمودار ہوجاتے تھے ، گرمیوں میں کیا حال ہوتا ہوگا ؟ قرانِ پاک کو ترتیل سے پڑھنے سے کہا گیا ہے . ترتیل سے اس طرح پڑھو کہ لفظ حقیقت بتانے لگے ، آپ ﷺ اس طرح قرانِ پاک کی ہر آیت پر غور فرماتے کہ ہر آیت میں موجود حکمتیں آپ پر عیاں ہونے لگتی . آپ ﷺ اکثر ایک آیت کو کھینچ کھینچ کر پڑھا کرتا تھے ایک لفظ ہر جتنا قیام ہوگا ، اتنا ہی جاننے کا موقع ملے گا.

مدنی آیات میں دنیا میں رہنے کے طریقے پر روشنی ڈالی گئی ہے .زندگی کس ڈھنگ سے گزارنی ہے ، معاشی و معاشرتی رہن سہن پر روشنی ڈالی گئی ہے .ساتھ ساتھ دنیا میں اچھے اعمال والے کے انعامات بتاتے ہوئے جنت کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان کی حیثیت اس دنیا میں ایک مسافر کی سی ہے ، مسافر کا کام منزل تک پہنچنا ہے ، جو پہنچے منزل تک ان کے لیے انعامات ہیں.


محمدﷺ مکے سے مدینہ رہے ہیں!
مزمل کے فرماں کی شہروں سے نسبت!!

''قُم الیل'' سے ہے ابتدا کیا تھا مقصد ؟
تہجد۔۔ اِلہی سے قربت کا جوہر!

قراں کو ترنم سے پڑھنا ہے اچھا!
غذا روح لے، یہ طریقہ ہے سچا!

طریقہ یہ باطن کی تسخیر کا ہے !
نبھا پائیں گے ذمہ داری اک احسن!

کرو کام دن میں ، ہے کیا دن کا مقصد ؟
سجا لو الہی کی باتوں سے راتیں!

مدد اس سے مانگو ،جو رب دو جہاں کا !
فنا سب نے ہونا۔۔۔۔۔۔ رہا کچھ زماں میں؟

رجوع جو کریں گے وہی لوگ اچھے!
نہ مانیں.........! مزہ پھر جہنم کا چکھیں


جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

نور وجدان

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔
سورۃ المزمل

بسم الله الرحمن الرحيم

يا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (1) قُمِ اللَّيْلَ إِلاَّ قَلِيلًا (2) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا (3) أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا (4) إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا (5) إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا (6) إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحًا طَوِيلًا (7) وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (8 رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لا إِلهَ إِلاَّ هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا (9)

الفاظ کے معانی ۔ المزملُ : چادر لپیٹنے والے ، قم: قم لفظ قیام سے نکلا ہے ، معانی قیام کے ہیں یا ٹھہرو ، قلیلا: کم کم،۔نصفہُ : آدھی (رات) تک کرو، اونقص: اور کم یا کمی کرنا(تہجد کا وقت )، ورتل : سہج سہج کر پڑھنا ، سنقلی : ہم کر دیں گے، ثقیلا : بھاری ، انّ : بے شک۔۔ناشِئَةَ : رات کو اٹھنا۔ الیل: رات ، وَطْئًا : قوی یا فضیلت والا ، واقومُ: اور براہِ راست (کافی) نافع ہونا قیلا: لفظ ( اللہ سبحانہ وتعالی کا کلام) لک : تمھارے لیے فی : میں یا کسی چیز کے درمیان اور بیچ ہونا النھار : صبح یا طلوع آفتاب کا وقت سبحا : پیشہ یا کام طویلا : لمبے یا تھکا دینے والے واذکر : اور ذکر کرو اسم : نام ربک :اپنے رب کا وتبتل : جاں وار دینا ، نیت کو استوار کرلینا، الیہ : کی طرف وکیلا : کارساز ہے فاتخذہ :اُسے سمجھ لو یا بنا لو

ترجمہ : اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے۔ رات کو نماز میں قیام کرو مگر کم ۔ آدھی رات یا اس سے کم قیام کرلو۔ یا اس سے زیادہ کرلو اور ( قرانِ پاک) ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو ۔ بے شک تم پر نازل کریں گے بھاری کلام۔ درحقیت رات کو اٹھنا افضل ہے اور (یہ) اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرکے کلام کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ، بے شک دن میں کے اوقات تمھارے لیے بہت سے کام ہوتے ہیں ۔ وہی مشرق و مغرب کا رب ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کی ہی اپنا وکیل بنا لو


تفسیر : سورۃ المزمل وہ سورۃ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضور پاکﷺ کو نام دے کر پُکارا ہے ۔ اس کے پسِ منظر سورۃ العلق میں واضح ہے جب آپﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپﷺ گھبرا گئے اور گھر آکر حضرت خدیجہ رض سے کہا 'زملونی زملونی ' مجھ پر چادر اوڑھا دو۔ اس سورۃ کا پہلا لفظ اسی بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ دوسری نسبت رات کو چادر لے کر سونے والی کی ہے ، پہلی بات زیادہ افضل لگتی ہے کیونکہ بہت سے مفسرین کی نظر میں ''قیام'' رات کی بات کی گئی ہو، بعض کہتے ہیں سو کر اٹھو اور قیام کرو اور بعض کی نزدیک رائے یہ ہے کہ پوری رات نہ جاگو مگر آدھا یا اس سے کم ، آپﷺ کو کملی والا یا چادر اوڑھنے والا کہ کر اللہ تعالیٰ نے مخاطب کیا جو کہ محبت کا غمازی کر رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے نام لے کر نہیں پکارا بلکہ اُس نام سے پکارا جو کیفیت نزولِ قران پر ہوئی ، اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہونا ہے اور یہ کیفیت مزید بھی ہوسکتی ہے کہ گھبراہٹ زیادہ طاری ہوجائے ۔ قرانِ پاک کا بہت قلیل حصہ نازل ہوا ہے ۔اب نازل ہونے والی سورتیں چھوٹی چھوٹی ہیں مگر آگے اللہ تعالیٰ نے بھاری ذمہ داری اور کام سونپنے ہیں ان کاموں سے نپٹنے کا طریقہ سمجھایا جارہا ہے ، گویا مالک ِ دو کائنات اپنے پیارے محبوب ﷺ کی تربیت کر رہے ہیں اور جس کی تربیت منجانب اللہ ہو ، اس کے اوصاف کتنے خیر والے ہوں گے ۔ ایک طرف خالق اور دوسری طرف عبد ، ایک طرف مسجود اور دوسری طرف ساجد ، ایک طرف مخدوم اور دوسری طرف خادم۔۔!!!

تربیت کے لیے کیا کہا گیا ہے ؟ کلام کس کا ہے ؟ کلام اللہ کا ہے اور جس کا کلام ہو وہ بہتر جانتا ہے اس کی تفہیم کیسے ہوسکتی ہے اور اس کے لیے جس نے کلام لکھا ہے اس کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ بہتر اور پورے معانی کے ساتھ سمجھا جاسکے ۔اللہ کہاں ملیں گے؟ اللہ تعالیٰ آسمان کی بُلندیوں پر مقیم ہے مگر رات کے آخری پہر کہاں آجاتے ہیں؟ رات کے آخری پہر اللہ تعالیٰ آخری آسمان پر آجاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کوئی میرا بندہ ہے جو مجھ سے سوال کرے ؟ مجھ سے پوچھے ؟ مجھ سے مانگے ؟ اس وقت جو لوگ سورہیں ہوتے ہیں وہ تو یہ موقع کھو دیتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ تاکید سے اپنے محبوبﷺ کو کیا کہ رہے ہیں؟ رات کے وقت قیام کریں اور قلیل قیام کریں تو بوقتِ تہجد کریں ۔

حضور پاکﷺ کو قیام کے بعد دوسری بات کی گئ ہے اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی ہے ۔ اس کا اشارہ دو باتوں کی طرف ہے : رات کے وقت بقرب الہی کلام میں چھپے اسرار سے آگاہی حاصل ہوجاتی ہے کہ مخلوق اور بندے کا رابطہ براہِ راست ہوجاتا ہے ۔ ساتھ ترتیل کے پڑھنا یعنی کھینچ کھینچ کر پڑھنا ، جب کلام کو غور سے پڑھا جائے اس کے ایک لفظ پر وقفہ دیا جائے اور رک کر ایک لفظ کو سمجھا جائے تو معانی خود بخود سمجھ آنے لگتے ہیں ، ایک بات میں چھپے ہیں کئی معانی ، ایک سطحی معانی اور اس سطحی معانی کی باقی پرتیں سمجھنے کے لیے غور وفکر کرنے کو کہا گیا ہے ، یعنی قرانِ پاک کو غور و فکر کرکے سہج سہج کر پڑھیں تاکہ کلام الہی کی ساری باریکیاں عیاں ہوجائیں ۔


اس بات میں پوشیدہ ہے ایک اور امر ، ایسا کس لیے کہا جارہا ہے اور کیوں کہا جارہا ہے رات کے وقت قیام کا ؟ کلام کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھو تاکہ اس کے معانی ہوجائیں ازبر اور جب اس جیسی مفہوم والی اور نشانی نازل ہو تو اس کے مفاہیم کو ملایا جاسکے تاکہ پیغام کی آفاقیت کو مزید جانا جاسکے ۔ اس لیے کہ آگے نازل ہوگا بھاری کلام یعنی اللہ سبحانہ چاہتے ہیں کہ قران کی نشانیاں اس طرح کی اور نازل ہوں گی ، جب رات کے وقت سہج سہج کر پڑھیں گے تو آیت تو آیت سے ملا کر جزوی سے کُلی معانی اخذ کیے جاسکیں گے اور اس کے لیے مخصوص کر دیا جائے رات کا وقت ۔۔۔! کیوں رہنمائی کرنے والا اور کلام کو لکھنے والا ایک ہی یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات احد و واحد ہے ۔ سبحان اللہ ۔۔ہم پر جب اس طرح معانی کھلیں گے تو کیا ہم قرانِ پاک کے علم سے عمل کرکے آخرت سنوار سکتے ہیں ، ہمیں کرنی ہے حضور پاکﷺ کی اتباع اور اتباع کے طور پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ہم سب پر واجب ہوا

واذکرسم ۔۔ اس نشانی سے دو مفاہیم اخذ کیے جاسکتے ہیں ایک تو یہ کہ جب ذکر باری تعالیٰ کیا کرو تو ساری یکسوئی اللہ تعالیٰ کی طرف کرلو۔ اور یکسوئی سے ذکر کرنے سے علم کے اسرار کھُل جاتے ہیں ، دوسرا معانی یہ ہے کہ کفار چونکہ مخالف ہے اس پر صبر کرتے ہوئے اللہ کا ذکر کرکے ان سے دوری اختیار کرلو۔اوپر والے مفہوم کا تعلق سابقہ آیات سے ظاہر ہے ۔ اگر اللہ کے کلام کو رات کے وقت یکسوئی سے ٹھہر ، ٹھہر کے پڑھا جائے تو قران پاک پورے مفہوم کے ساتھ ، پوری روح کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے ، دوسرا معانی اس لحاظ سے موزوں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے ۔ سو جب کفار مکہ طعنوں سے ، گالیوں سے کام لیں تو اس وقت ذکر الہی کارگر ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کی تخلیق پوری یکسوئی سے جب ذکر کرتی ہے خالق کا، تو ارتکاز دنیا سے ہٹ کر مرکز اللہ تعالیٰ بن جاتے ہیں ، کیا اللہ تعالیٰ کو کعبہ بنانے والے ، دلوں میں بسانے والے دنیا والوں کے رنج سے دور نہ رہیں گے ؟ سبحان اللہ! کلام الہی کی کیا بات ہے کہ اس کے ذکر سے در حقیقت سکون ملتا ہے

رات کے وقت قیام کا کیوں کہا گیا ہے َ؟ ایک وجہ تو پہلے ظاہر کی جاچکی ہے دوسری وجہ امورِ دنیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نبی اکرمﷺ کو جینے کا ڈھنگ بتا رہے ہیں کہ دنیا میں رہ کر خالق کو یاد کرنے کا طریقہ کیا ہے ۔ کیا اس کے لیے ہمیں دنیا کو بھول جانا چاہیے ؟ ایسا خالق کیوں چاہیں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے حقوق پر ترجیح دی ہے مخلوق کے حقوق کو ، یعنی حقوق العباد کو حقوق اللہ پر ترجیح ہے ۔ وجہ : راہبانہ زندگی کے بجائے وہ زندگی گزاری جائے کہ دنیا میں بھی رہا جائے اور اس کے امور بھی نپٹائے جائیں یعنی کوتاہی نہ ہو اور بعد اس کے خالق کو یاد کیا جائے ، امورِ دنیا میں معاش ، معاشرت اور اس سے ملحقہ باتیں آتی ہیں ، اس کے لیے بتایا جارہا ہے آگے کو اسلامی نظام حکومت قائم کیا جائے تو اس کے لیے محنت کا وقت دن کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس بندے کو محبوب رکھتے ہیں جو دین و دنیا دونوں ساتھ لے کر چلے اور توازن قائم کرے ، اس لیے بھاری ذمہ داری جو نازل کی جانی بے شک وہ احکام سے متعلق ہے احکامات تب نازل ہوتے ہیں جب ایک نظام تشکیل دیا جاچکا ہوتا ہے ۔ اس لیے دن میں مشقت کے اور کام ہیں اور رات کو حق باری تعالیٰ کا ذکر ہے ۔


اللہ تعالیٰ دو عالم کا رب ہے اسی طرح مشرق و مغرب کا اختیار بھی اس کو ہے ، مشرق جب دن نکلتا ہے اور مغرب جب شام ڈھل کر رات کا روپ دھار لیتی ہے ، یعنی ایام کی گردش و ماہ و سال کا اختیار کس کے ہاتھ میں ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ؟ حضور پاکﷺ کے کی ساتھیوں تعداد کتنی ہے؟ کل کتنی ہوسکتی ہے؟ اس کا اختیار کس کو ہے ؟ اس کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ کل یعنی آنے والے دنوں میں اسلام کے حامی بفضل اللہ کے زیادہ ہوں گے اس وجہ سے مشرق و مغرب کا رب وہی ہے جب وہ ہی سب کچھ کرنے والا ہے تو ہر معاملے کس کو وکیل کرنا چاہیے ؟ اللہ تعالیٰ کے جو فرماتا ہے

إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَقُولَ لَهُ كُنْ فَیَكُونُ (یس/82)

إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَن نَّقُولَ لَهُ كُن فَیَكُونُ (نحل/40)

إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا یَقُولُ لَهُ كُن فَیَكُونُ (آل عمران/47 و...)

خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَیَكُونُ (آل‏عمران، 59)

وَیَوْمَ یَقُولُ كُن فَیَكُونُ (انعام، 73)



''کن فیکون'' کی تکوین بتا رہی ہے کائنات میں ہونے والے ہر چھوٹے بڑے واقعہ یا امر صرف رب کی مقصود سے ہے ، جب سب انسان اللہ کی مخلوق ہیں ، ارواح اس کے کُن کے اشارے کی وجود ہیں تو ہمیں اس پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اسی کو ماننا چاہیے کہ اس سے بڑا وکیل کوئی بھی نہیں ہے اور جب اللہ تعالیٰ وکیل ہوجاتا ہے تب مخالفت ، دشمنی کی فضاء تحلیل ہوجاتی ہے ، حق غالب اور باطل مغلوب ہوجاتا ہے۔۔۔

حضور پاکﷺ نے فرمایا جو قرانِ پاک کو ٹھہر ٹھہر کر نہیں پڑھتا وہ ہم میں سنے نہیں . فرمایا : قرانِ پاک کو اپنی آواز کی ( نغمگی) سے خوبصورتی بخشو .

حضرت ابن مسعود رض سے روایت ہے
قرانِ پاک کی تلاوت ریت کے بکھرے جانے کی طرح مت کرو اور نہ ہی اس کو اتنا جلد جلد پڑھو جیسے شاعری کو جلد پڑھتے ہو . اس کی ہر آیت پر رُک جاؤ کہ تمھارا دل اس آیت پر حرکت کرنا شروع کردے (یہاں تک روح کو سرور حاصل ہو ) اس کا( ختم کرنے کی جلدی میں) دھیان آخری آیات کی طرف نہیں ہونا چاہیے ( البغوی)

ایک شخص حضرت ابن مسعود رض کے پاس آیا اور کہا میں نے بتفصیل قرانِ پاک کے تمام اسباق ''ق'' سے الناس'' تک پڑھ لیے ہیں رات کے آخری پہر کی نماز میں. یہ بالکل ایسے بھاگ کر پڑھنا جیسے کہ کوئی شاعری کو پڑھتا ہے . بروایت البخاری

ناشئتہ الیل کی لفظی اہمیت کو زبان دانوں نے مختلف طریقوں سے کی ہے کہ اس لفظ میں اتنی وسعت کہ ہے اس سے مراد رات اٹھ کر قیام کرنا ہے ، رات بوقت تہجد کے قیام کرنا ہے ، رات کے گھنٹے مراد ہیں ، یا کسی شخص کا اٹھنا رات کے وقت بیدار ہونا مقصور ہے . اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کچھ وقت نیند کا پورا کرلیا اور کچھ وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں ، یا نیند

رات کے وقت کا قیام انسان کو ، نفس کے جہاد پر قادر کرتا ہے ، نیند فطری مجبوری ہے اور رات کا وقت اس کے لیے مختص ہے ، جو لوگ رات کو نفس مار کے اٹھتے ہیں ، یعنی ایک قدم اللہ کی طرف بڑھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف دس قدم بڑھاتا ہے . اس طرح خالق اور مخلوق کے درمیان کا رشتہ نفس کی تسخیر کے ذریعے ممکن ہے . اس لیے رات کا وقت مذہب کے لیے مختص کر دینا سچائی اور ایمانداری کی نشانی ہے بروایت زید بن اسلم

ذکر کرنے کے متعلق کیا کہا گیا ہے

او اذکر اسم ربک بکرۃ واصیلا

اپنے پروردگار کے نام سے دن اور رات کو سجاؤ

اس نام میں کیا ایسی بات ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے اور بالخصوص پریشانی کی حالت میں ، جب مصائب نے گھیرا تنگ کر رکھا ہو تو دُعا کے لیے اُٹھے ہوئے کبھی رد نہیں ہوتے . اللہ تعالیٰ کی یاد سے زندگی کے تمام راستے سیدھے ہوجاتے ہیں

حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے حضرت محمدﷺ نے فرمایا وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ان دو کے درمیان فرق اتنا ہے کہ ذکر کرنے والے کا دل زندہ اور نہ کرنے والا کا دل مردہ ہوتا ہے

حضرت ابو ہریرہ رض سے مروی ہے کہ حضور پاکﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر میں اپنے ہونٹوں کو جنبش دیتا ہے اس کے ساتھ اللہ ہے (البخاری)

ابن جعفر رض نے فرمایا ایک جانثار مسلم متبتلی کہلاتا ہے . اس کی مثال اس طرح سے ملتی ہے حضور پاکﷺ نے ممانعت کی ہے کہ متبتلی کو یہ اجازت نہیں وہ شادی نہ کرے .

یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اتنا محو ہوجائے اپنے رشتہ داروں کو بھُلا دے کہ حقوق العباد کی اہمیت پر برابر زور دیا گیا ہے . بہترین متبتلی وہ ہے جو دین اور دنیا کو متوازی لے کر چلے


جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ
  1. وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلا٭ وَذَرنیِ وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلا ٭ إِنَّ لَدَيْنَا أَنكَالا وَجَحِيمًا ٭ وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا ٭ يَوْمَ تَرْجُفُ الأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلا ٭ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولا ٭ فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلا ٭ فكيف تتقون إن كفرتم يوما يجعل الولدان شيبا ٭السَّمَاء مُنفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولا ٭ إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلا

    وَاصْبِرْ : صبر کیجیے 2۔عَلَى : اوپر3:مَا : جو 4يَقُولُونَ : کہا جارہا ہے 5۔وَاهْجُرْهُمْ: ان سے بچیں 6:هَجْرًا : بچنا 7:جَمِيلا: بطریق احسن8:وذرنی :ان کو ترک کردو 9:وَالْمُكَذِّبِينَ: اور جو جھٹلاتے ہیں 10:أُولِي : مقدم ، اہم یا بنیادی ہونا 11:وَمَهِّلْهُمْ:ان کو مہلت دی 12: لَدَيْنَا:حساب ان کا 13: أَنكَالا : بیڑیاں ہیں 14:وَطَعَامًا: اور کھانا 15ذَا: اشارہ کرنا کسی بات کی طرف 16:غُصَّةٍ : گلے کا پھندا 17:تَرْجُفُ : وہ لرزیں گے 18:الأَرْضُ وَالْجِبَالُ : زمیں اور پہاڑ 19:وَكَانَتِ : اور بن جائیں گے 20:كَثِيبًا: ریت کا ایک دھیڑ 21:مَّهِيلا: ریت کی طرح بکھرے جارہے ہیں ۔22:إِلَيْكُمْ: تمھاری طرف 23:فَعَصَى: پس نافرنی کی 24:مُنفَطِرٌ : ایک دوسرے بکھر کر ٹوٹ جائے گا
25:كَانَ: کیس چیز کا وقوع پذیر ہونا 26:مَفْعُولا: مقدر ہونا 27: هَذِهِ : اس میں یا اس سلسلے میں 28:فمن: پس جو چاہے 29: اتَّخَذَ : پکڑ لینا یا رابطے میں ہونا 30: سَبِيلا : سیدھا راستہ

ترجمہ :
اور صبر کیجیے جو (لوگ) باتیں کر رہے ہیں اور ان سے اچھے طریقے سے علیحدگی اختیار کرلیں ۔خوشحال لوگ جو (پیغام )جھٹلاتے ہیں ان کی پرواہ نہ کریں، ان کے پاس وقت بہت کم ہے ۔ان کا حساب بیڑیوں سے اور دہکتی ہوئی آگ سے لیا جائے گا۔ان کو کھانا کھلایا جائے گا جو گلے میں پھندا بن جائے گا۔جس دن( قیامت) زمین اور پہاڑ لرزیں گے اور پہاڑ ریت کا دھیڑ بن کر ریت کی مانند بکھرتے جائیں گے۔ ہم نے تم لوگوں کی طرف ایک رسول گواہ بنا کر بھیجا ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف ( حضرت موسی ع) ایک رسول بھیجا تھا۔پس فرعون نے اُس رسول کی بات نہ مانی تو ہم نے اُس کو بڑی سختی سے پکڑ لیا ۔پس تم کفر کی حالت میں اُس دن(قیامت) سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا کردے گا ، جس کی سختی سے آسمان ٹکڑے ہوجائے گا اور جو ان کے مقدر لکھا جاچکا ہے وہ پورا ہوکر رہے گا۔اس میں ( محشر کی سختیوں) کا ذکر کیا گیا ہے۔ پس جس کا جی چاہے اپنے رب کی طرف جانے والے راستے کو پکڑ لے۔


جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
تفسیر

وَاصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيلا٭


آیت ِ صبر کا نزول دو باتوں کی نشاندہی کرتا ہے : نفس کے ساتھ جہاد کی تلقین صبر کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی دی گئی ہے کہ آپﷺ صبر کریں اللہ تعالیٰ ان کو خود دیکھ لیں گے . اس کا اشارہ اگلی آیات میں ملتا بھی ہے ، نفس کو معطر کرنے کا سب سے بڑا ہنر ''صبر کرنا'' ہے . صبر کا مفہوم جبر سے قدرے مختلف ہے ، جبر میں مسلط کی گئی چیز کو ماننا ہوتا ہے جس کو دل قبول بالکل نہیں کرتا ہے . جبکہ صبر سے مراد تمام تر توجہیات کو پرے رکھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنی رضا مان لینا . اس صورت میں انسان کے دل میں ظلم وزیادتی سے ملال پیدا نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے آگے اور جھکنے کا احساس ''عبد'' کے رشتے کو خالق سے مضبوط کردیتا ہے .ایک طرف اللہ تعالیٰ سے رشتہ استوار کرنے کا حکم ہے اور دوسری طرف جو اس پیغام کو نہیں مانتے ان کے ساتھ معاملہ اللہ تعالیٰ خود کریں گے.


ألا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ

اللہ تعالیٰ کے ساتھ استوار رشتہ اس کے ذکر کی طرف راغب کرتے ہوئے دلوں میں سکون پیدا کرتا ہے ۔ جس دل میں اللہ تعالیٰ کا بسیرا ہوجائے وہاں سکون کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا ہے۔

دوسرا نکتہ نظر اس آیت کی رُو سے '' توہینِ رسالت '' کی بابت ہے ۔ کفار نے حضرت محمدﷺ کی ہجو میں کسر اٹھا نہ رکھی ، آپ کو لعن طعن کرنا انہوں نے فرض سمجھ لیا تھا۔آپ کی توہین کرنے میں غرض کسر نہ اُٹھا رکھی ۔ اس توہین کے جواب میں آپ ﷺ کو تلقین صبر کی گئی ہے اور بہترین بدلہ لینے والا اللہ تعالیٰ ہیں مگر یہ کہ ظالم کی رسی دراز کیے ہوئے ہیں ۔ اس آیت کے تناظر میں جو لوگ توہین ِ رسالت ﷺ کے مرتکب ہوئے ہیں ان بدلہ لینے کئ بجائے صبر سے کام لینا کا حکم دیا گیا ہے کہ بہتر بدلہ لینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔


جس کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہوجائے ، اگر اس کو مزید تکالیف پہنچائی جائیں تو وہ ہنس کے سہ لیتا ہے ۔ اس کی تلقین چونکہ حضور پاکﷺ کو گئی تاہم اس کا اطلاق سب مسلمانوں پر ہوتا ہے ، ایک وجہ کہ کلامِ الہی میں سب کے لیے رہنمائی ہے اور دوسری وجہ حضور پاکﷺ چلتا پھرتا قران ہیں ، حضور پاکﷺ کے طریقے پر چلتے ہوئے ، ان کی سنت پر چلتے ہوئے طریقہ درست کیا جاسکتا ہے


لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ( الاعمران 3:186)


بحوالہ سورۃ الاعمران : آزمائش مقصود اللہ تعالیٰ کو ایمان والوں کی ،کن کے ذریعے جو شرک کرتے ہیں ۔ ایک طرف توہینِ رسالت ﷺ کی بات ہے تو دوسری طرف شرک کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے شر ک کو کھلا ظلم قرار دیا ہے ۔ ان کے ساتھ حکم صبر سے کام لینے کا ہے ۔ صبر انسانی سرشت پر عجب اثر انداز ہوتا ہے کہ مدِ مقابل گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور جو ہوتے ہیں سرکش ، جو نہیں ٹیکتے گھٹنے ، ان کا معاملہ یقینا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے ۔


وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ ( لانعام 6:68

صبر سے کام لیتے ہوئے اس کا ثمر کیا ہوسکتا ہے ؟ وہ لوگو جو طنز کرتے ہیں یا ہجو کرتے ہیں وہ متاثر ہوں حسنِ سلوک سے اور لوٹ آئیں اللہ کی طرف اور کرلیں ایمان والوں سے بات چیت ۔ یہی تربیت اللہ تعالیٰ کو مقصود ہے کہ صبر کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں مگر جو لوگ اس آزمائش میں پورا اترتے ہیں ان کے لیے راحت ہی راحت ہے ۔

حضرت عبداللہ بن زبیر رض نے اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے

أُمِرَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنْ يَأْخُذَ الْعَفْوَ مِنْ أَخْلاَقِ النَّاسِ

حضور پاکﷺ کو صبر کا حکم دیا گیا اور لوگوں سےا چھے اخلاق سے پیش آنے کی ، سورۃ قلم میں اللہ تعالیٰ نے حضور پاکﷺ کے اخلاق کی گواہی دی ہے اور یہاں پر آپﷺ کو صبر کا حکم دیا گیا ہے ۔آپﷺ پر اذیتوں کا سلسہ شروع ہوا چاہتا ہے اور یہ ایذء کفار کی جانب سے ہوگی ۔ اس کے لیے آپﷺ کو پہلے سے تلقین کی گئی ہے کہ آپﷺ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دینا

حضرت عائشہ رض فرماتی ہیں یہودیوں کا ایک گروہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپﷺ سے ملنے کی اجازت چاہی اور ملنے پر موت کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کو بُرا کہا۔ جواب میں حضرت عائشہ رض نے کہا تم لوگوں کے ساتھ خود ایسا معاملہ ہو۔اللہ تعالیٰ کے قاصد نے جواب میں کیا کہا

يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ

اے عائشہ رض ، اللہ تعالیٰ مہربان ہے اور ہر معاملے میں مہربانی کو پسند کرتا ہے ۔

البخاري اختار في هذا مذهب الكوفيين فإن عندهم أن من سب النبي أو عابه فإن كان ذميا عزر ولا يقتل وهو قول الثوري

ماخذ : صیح بخاری 6520

البخاری میں اس واقعے کو بیان کیا گیا ہے جس میں واضح ہے کہ ایسے لوگوں پر توہینِ رسالت کے کسی بھی معاملے میں قانونی سزا لاگو نہیں ہوتی ۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گرشتہ سے پیوستہ

تفسیر : سورۃ المزمل


وَذَرنیِ وَالْمُكَذِّبِينَ أُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلا ٭ إِنَّ لَدَيْنَا أَنكَالا وَجَحِيمًا ٭ وَطَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا ٭


ا جب بھی کسی مذہب کو جھٹلایا جاتا ہے اس کی وجوہات ہوتی ہیں ۔ سب سے بڑا خطرہ سرداری کو خطرہ ہوتا ہے ۔ سردار کا اثر رسوخ عام عوام کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ عوام کے بل بوتے پر حکومت کرنے والے کب چاہیں گے ان کے زیرِ اثر لوگ کسی اور کی اطاعت کریں ۔ اس لیے جھٹلانا ایک فطری عمل ہے۔ کفارِ مکہ کے سردار اس عمل سے باز نہیں آنے والے ۔ اس صورت میں ایک ترغیب کی جارہی ہے ۔ ان کو دنیا کو جہاں کی نعمتیں ملی ہوئی ہیں مگر ان کے پاس مدت قلیل ہے ۔ مہلت سے مراد دو باتیں ہیں ۔ ایک تو انسانی فانی ہے ، دوسرا حساب و میزان کا دن اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہوا ہے ۔ اس صورت میں ان سے اجتناب کا حکم دیا گیا ہے ۔ اجتناب صبر کرکے ، خاموش رہ کر ، تاہم اچھے اخلاق متوجہ کرلیتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ لوگ اسلام کے حامی ہو جائیں گے ان سے جنگ کی جاسکتی ہے ۔

غزوہ بدر جس میں مسلمانوں کی تعداد کم تھی مگر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال تھی ۔ ہر وہ ذی نفس جو دشمنِ اسلام تھا قتل کر دیا گیا ۔ قریش کے سردار اس غزوہ میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ۔ موت کا ذائقہ ہر نفس نے چکھنا ہے تو اللہ تعالیٰ کا حساب ان سے براہِ راست ہوگا ۔جو اللہ کے قاصد کی بات نہیں مانتے اور ہدایت پر نہیں ہے ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیسا معاملہ کرسکتے ہیں ؟

اس لیے حدیث مبارکہ نے موت کے ذکر و اہمیت کو اجاگر کیا ہے ۔


أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ يَعْنِي الْمَوْتَ (ترمذی)

اس دن کو یاد کرو جو تمام خواہشات بھُلا دیتا ہے --موت

كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَ۔مَةِ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَما الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُورِ (الاعمران 3: 185٭

ا ہر ذی نفس کو موت کو ذائقہ چکھنا ہے جو ان لوگوں نے کمایا ہے وہی آخرت کے دن ان کو لوٹایا جائے گا ۔ کمائی نسبت اعمال کے دی جائی گئ کسی کو جنت اور کسی کو دوذخ کا عذاب

جھٹلانے والے خوشحال لوگ ہیں ، سرداری ہیں ان کی سزا کیا ہوگی جب ان کو قیامت کے دن دہکتی ہوئی آگ میں، بیٹریوں سے گھسیٹ کر کھنچ کر ڈالا جائے اور کہا جائے گا یہ وہ کمائی ہے ، یہ وہ اجر ہے اس کا صلہ ان کی کمائی کے عین مطابق ہے

جو کھانا ان کا دیا جائے گا وہ حلق کو چیر کر رکھ دے گا ، یہ ہوں گے آگ کے کانٹے جس سے حلق زخمی ہوگا مگر ان کو نہ وہ اُگل سکیں گے اور نہ ہی نگل سکیں گے ۔تب یہ لوگ معافی مانگیں گے مگر وہ قبول نہ ہوگی ۔ انہوں نے مزاق اڑایا اللہ تعالیٰ کے احکامات کا ، اب اس عمل کا مزہ لیں ۔

قَالَ المَلَاُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰكَ فِىۡ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الۡكٰذِبِينَ‏ ﴿7:66﴾

کفار کے سردار نے کہا کہ تم حماقت میں مبتلا ایک جھوٹے شخص ہو۔ وہی شخص جس کی سچائی کی قسمیں کفار کھاتے تھے آج یہ کہ رہے ہیں کہ آپﷺ جھوٹے ہیں اور حماقت میں مبتلا ہیں ۔ اس طرح کی رکاوٹیں ہر دور کے نبی کو پیش آئیں ہیں اس لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔ اس واسطے صبر کی تلقین کی گئی ہے ۔

جہنم میں ان کو بیٹریوں سے باندھا جائے گا وہ بیٹریاں بہت بھاری ہوں گی جن کا بوجھ یہ برداشت نہ کرسکیں گے اور اپنے جسم کو مفلوج پائیں گے اس حالت میں دہکتی آگ میں ان کو ڈالا جائے گا۔ اس آگ سے ان کا جسم بار بار جھلسایا جائے گا اور کہا جائے گا یہ ہے وہ مال جو تم لوگوں نے کمایا ہے

جاری۔۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ

تفسیر : سورۃ المزمل

يَوْمَ تَرْجُفُ الأَرْضُ وَالْجِبَالُ وَكَانَتِ الْجِبَالُ كَثِيبًا مَّهِيلا ٭ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولا ٭ فَعَصَى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْنَاهُ أَخْذًا وَبِيلا ٭ فكيف تتقون إن كفرتم يوما يجعل الولدان شيبا ٭ السَّمَاء مُنفَطِرٌ بِهِ كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولا ٭ إِنَّ هَذِهِ تَذْكِرَةٌ فَمَن شَاء اتَّخَذَ إِلَى رَبِّهِ سَبِيلا

پہاڑ سخت چٹانوں سے وجود میں آئے ہیں . ان کو زمیں کا ستون بھی کہا جاسکتا ہے . کائنات کی ابتدا میں ان پہاڑوں کو میخوں سے زمین پر گاڑ دیا گیا ہے . اللہ تعالی ہی ہر شے پر قادر ہیں . روزِ قیامت میں فنا ہونا ہے ہر شے کو ، اسی طرح ہر وہ شے جس کی تشکیل زندگی کے لیے کی گئی تھی اب اس کی تخریب لازم ہوگی . انسان کا مقصد اس دنیا سے ختم ہوگیا ہے . فانی دنیا اور فانی انسان دنیا میں مستقل رہنے کا سوچنے والا ... اب کہاں جائے گا ؟ پہاڑ پہلے تو ریت کی طرح بکھرے گے،زمین میں زلزلہ آجانے کی وجہ سے زمیں اس ریت کو بکھیر دے گی . پہاڑ اور آسمان علامت ہیں مضبوطی کی اور کائنات کی تشکیل کی .. جب یہ ٹوٹیں گے اور بکھریں گے تو پھر قیامت دور از بعید نہیں ہوگی .یہی ریت ( پہاڑوں کی) زمین کے متوازی ہوجائے گی گویا کہ ہموار میدان ہو جیسے .... !

اسی بات کو سورۃ طہ میں بیان کیا گیا ہے

وَيَسلُوۡنَكَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ يَن سِفُهَا رَبِّى نَسۡفًا ۙ‏ ﴿20:105﴾ فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفۡصَفًا ۙ‏ ﴿20:106﴾ لَّا تَرٰى فِيهَا عِوَجًا وَّلَاۤ اَمۡتًا ؕ‏ ﴿20:107﴾
آ

وہ آپ سے پہاڑوں کے بارے میں سوال کریں گے کہ وہ کہاں جائیں گے.ان سے کہ دیجئے کہ میرا خدا ان کو مٹی یا ریت کی طرح بکھیر دے گا اور زمیں کو ہموار کردے گا .جس میں آپ کوئی خم نہیں پائیں گے

اس دن زمین ہموار ہوجائے گی ...سمندر کی تہوں میں سوراخ ہوجائے گا. سارا پانی سمندر کا ختم ہوجائے گا. سمندر کی سطح بھر جائے گی .

اس دن زمین کی ہیئت بالکل بدل جائے گی . (سورۃ ابراہیم)

قتادہ اور ابنِ عباس رض کی رائے میں اس دن زمین جنت میں بدل جائے گی . پوری زمیں ایک ملک بن جائے گی ور یہاں نیک لوگوں رہیں گے.


کسی بھی نبی کو کسی قوم کی طرف بھیجنے کا مقصد صرف اور صرف ایک قاصد اور خبر دینے والے کے ہے . قاصد کا کام پیغام پہنچانا ہے . اس لیے حضور پاکﷺ ویسے ہی قاصد ہیں جیسا کہ حضرت موسی ؑ کو فرعون کے پاس بھیجا گیا تھا. اس کے بعد اللہ تعالیٰ عدالت قائم کریں گے اور اپنے پوچھیں گے کہ ان کے پاس پیغام آیا تھا اور جھٹلایا گیا ایسے میں ان کے ساتھ حساب کڑا لیا جائے گا. .. اس لیے حضور پاکﷺ کو اوپر کی آیات میں صبر کی تلقین کی گئی ہے . مقصود یہ ہے کہ ان کام بس پیغام کی آگاہی ہے وہ پیغام جو اللہ تعالیٰ بصورت وحی ان پر نازل کر رہے ہیں ... اور پس وہ جھٹلائیں تو ان کے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے حواریوں کے ساتھ کیا .فرعون پر تو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں عذاب بھیجا اور اگر دنیا میں ان پر کوئی عذاب نازل ہوا تو یہ کیا کریں گے .



اسی دن کا وعدہ کیا گیا ہے جو روزِ محشر پورا ہو کر رہے گا جو بچوں کو بوڑھا کردے گا ، آسمان شق ہوجائے گی زمیں پر عدالت قائم کی جائے گی . اس وقت کون بچ سکے گا قہر سے جب کہ انبیاء کرام پر نفسی نفسی کا عالم ہوگا ... یہ نشانیاں اللہ تعالیٰ نے اس لیے کھول کھول کر بیان کی ہیں کہ ان پر غور و فکر کیا جائے . تاکہ خود کو راہِ راست پر لایا جاسکے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے . یہاں پر رہ کر امتحان کو اچھے طریقے سے عمل کے ذریعے حل کرنا ہے

جاری.
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ
سورۃ المزمل


إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

ترجمہ :

اے نبی ! تمھارا رب جانتا ہے کہ تُم کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات، اور کبھی ایک تہائی عبادت میں کھڑے رہتے ہو۔ تمھارے ساتھیوں میں سے بھی ایک گروہ یہ علم کرتا ہے ۔اللہ ہی رات اور دن کے اوقات کا حساب رکھتا ہے ۔ اُسے معلوم ہے کہ تم اوقات کا ٹھیک شُمار نہیں کر سکتے ۔لہذا ، اس نے تم پر مہربانی فرمائی۔ اب جتنا قران آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو۔اُسے معلوم ہے کہ تم میں کچھ لوگ مریض ہوں گے ۔کچھ دوسرے لوگ اللہ کی فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں۔پس جتنا قران بآسانی پڑھا جاسکے پڑھ لیا کرو ۔نماز قائم کرو اور اللہ کو اچھا قرض دیتے رہو۔ جو کچھ بھلائی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے وہی زیادہ بہتر ہے۔اس کا اجر بہت بڑا ہے۔اللہ سے مغفرت مانگتے رہو، بے شک اللہ غفور الرحیم ہے

إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَى مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ


سورۃ کے ابتدا میں قیامِ الیل کی تاکید کی جارہی ہے . صبح کے وقت ذہن کے شعوری و لاشعوری حصے بیدار ہوتے ہیں . ذہن کے لا شعوری اور تحت شعوری گوشے اس وقت کام بہتر طور پر کرتے ہیں جب جسم سکون کی حالت میں ہو . جب جسم حرکت کرتا ہے تب شعور بہتر کام کرتا ہے . متوازن زندگی کے لیے جسمانی اور روحانی تربیت ضروری ہوتی ہے . اس لیے حکم باری تعالیٰ ہوا کہ رات کے اس وقت اٹھو جس وقت جسم مکمل آرام کی حالت میں ہوتا ہے . یہ وقت ذہن کی پوشیدہ قوتوں کو روشن کرنے کے لیے ہوتا ہے .انسان میں وہ صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں جو نفس کی تسخیر کو باعث بنتی ہے۔


دوسرے رکوع میں اس کی تخفیف کر دی گئی ہے . جس سبب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی روحانی تربیت ہوچکی ہے اور اسکی بدولت اسلام پھیلتا جارہا ہے ۔ ان آیات کا نزول بتا رہا ہے کہ مسلمانوں نے تسخیر نفس کی بدولت دنیا پر غلبہ پالیا.اس لیے رات کے قیام کے اوقات کو انسانی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ پہلے رکوع میں رات جاگنے کا احکام لازم قرار دیا جبکہ دوسرے رکوع میں انسانی مرضی پر چھوڑ دیا گیا۔ انسان چاہے تو جاگے اور اگر مجبوری ہو تو انسان پر حکم نہیں کہ وہ رات میں قیام کرے ۔

تہجد کی نماز کا لازم قرار دیا جانا اور نماز میں قرانِ پاک کی تلاوت کا حکم دو چیزوں کی دلالت ہے ۔ انسان جب کھڑا ہوتا ہے تب وہ اللہ تعالیٰ کے روبرو ہوتا ہے مگر اس کے سب اعضاء مستعد ہوجاتے ہیں ، سب کو ایک حالت میں رہنا ہوتا ہے اور اس حالت میں جسمانی مشقت کے ساتھ قرات قران پاک کرنا ذہن کے خفیہ گوشوں کو روشنی سے فراہم کرنا ہے ۔ یہ کام ہر انسان نے خود کرنا ہوتا ہے ۔ یعنی جسم کی مستعدی اور ایک حالت میں قیام سے ، زبان کی تلاوت سے انسانی ذہن کے خفیہ گوشے میں پیغام الہی نقش ہوتا رہتا ہے ۔ جب انسان رکوع کی حالت میں جاتا ہے ۔ آدھا جسم جھک جاتا ہے جس میں سوائے ٹانگوں کے پورا جسم سجدے میں ہوتا ہے ۔یعنی کہ وہ دماغ جو قران پاک کی قرات میں کرچکا ہے ، اس کا اقرار کرتے ہوئے خود کو جھکا دے۔رکوع کے بعد دوبارہ قیام اور قیام کے بعد مکمل جھکنا اس بات کی دلالت ہے کہ ٹھہر کے سیکھا اور سر جھکا دیا اور پھر رکوع کے بعد غور کیا اور سجدے میں چلا گیا ۔ سجدہ اور رکوع ۔۔۔وہ قیام کی جگہ ہیں جب انسان کا دماغ اور جسم دونوں یک بیک اقرار کرتے ہیں کہ دماغ و جسم دونوں مطیع ہیں ۔ نماز میں سجدہ سب سے اہم رکن ہے کہ اس کا تعلق انسانی دماغ کو زمین پر رکھ کر ایک تو اطاعت و تلاوت کی تفہیم ہے دوسرا یہی مقام ہے جہاں انسانی دماغ کی صلاحیتیں پورے عروج کو پہنچ جاتی ہیں ۔ یہاں پر آیات ترتیل ہوجاتی ہیں ، ان کی تفیہم ہوجاتی ہے ۔ اس لیے قرانِ پاک نے رکوع و سجود پر زور دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ''قیام الیل'' پر۔

قیام الیل کے حکم پر تخفیف کر دی گئی کہ تم سے جتنا آسانی سے ہوسکے اس کی تلاوت کرو، تلاوت میں کمی بیشی کی اجازت دو باتوں کی دلیل ہے کہ قران پاک کا بیشتر حصہ نازل ہوچکا تھا اور مسلمان حکومت قائم کر چکے تھے ۔ ان کے دن میں فرائض اب پہلے سے زیادہ ہوگئے ہیں ۔ ان باتوں کے سبب ان کو اجازت دے دی گئی کہ وہ چاہیں تو رات کو قیام کریں ۔ اگر مجبوری کی حالت تو ان پر کوئی گنہ نہیں ہے ۔



أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَاقْرَؤُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللَّهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

تخفیف کی بنیاد کن وجو ہات کی بنیاد پر کی گئی ہے ۔ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ بیمار ہوسکتے ہیں ، کچھ اللہ کی راہ میں خوشنودی کی خاطر روانہ ہوتے ہیں کچھ جہاد فی السبیل اللہ میں خود کو مصروف رکھے ہوئے ہیں

بیماری کی حالت میں انسان فرائض پورا کرنے سے عاجز ہوتا ہے ۔ اللہ کی رضا حاصل کرنے والے وہ لوگ جو اسلام پھیلانے کے لیے سفر کرتے ہیں. یا وہ لوگ جو رزق کی تلاش میں ہوتے ہیں ، یا وہ لوگ جو دوسروں کی مدد کرنے ، ان کی مشکلات کو حل کرنے میں مشغول ہوتے ہیں ، ان سب کو اختیار ہے کہ وہ چاہیں تو نماز کے اوقات میں تخفیف کردیں کہ ان کو دوسرے کام بھی ہیں اور ان لوگوں کو جنہوں نے اپنی جانوں کو اور اپنے مال کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی سعی کی ہوئی ہے ، ایسے تمام لوگ جو اللہ کے لیے ، اللہ کی راہ میں ، اپنے نفس پر حکمران ہوتے ہوئے اللہ کے لیے چلتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیار مل گیا ہے کہ وہ نمازِ تہجد کے اوقات میں تخفیف کرسکتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں نکلنا بھی بذات خود جہاد ہے .

قرض کیا ہے اور قرض کی بنیاد کیا ہے . قرض سے مراد اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی خواہشات کو ختم کرکے اللہ کے لیے خود کو وقف کردینا ہے .وقف کیسے کیا جاسکتا ہے: اپنی جان کا نذرانہ دے کر، اپنے مال اور اولاد پر ترجیح اللہ تعالیٰ کو دے کر ، مال و جان و اولاد ...یہ تین چیزیں ہیں جن کو انسان کے لیے دنیا کا فتنہ قراد دیا ہے . یہی چیزیں انسان کو برائی کے راستے پر چلاتی ہیں . ان محبت اگر ختم ہوجائے تو دل میں اللہ تعالیٰ ہی رہتے ہیں کہ ان کی محبت ختم کرنا ہر کسی کے اختیار میں نہیں ، بشرطیکہ اس سے مضبوط دائرہ جس کو عشق کہتے ہیں اس میں داخل ہو کر انسان دنیاوی راحت کے بجائے سب وہ کرے جو اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں


بھلائی کے لیے آگے بھیجے جانے سے مراد صرف اور صرف اعمال ہیں . دنیا میں انسان جو کرے گا وہ آگے ہی جائے گا یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا ریکارڈ بنتا رہے گا . اگر بھلائی یا اچھے کام آگے جائیں گے تو وہ دینے والا بے حساب ہے . اعمال کا ثواب نیت کے مطابق ملے گا. اور نیت جتنی اچھی ہوگی ،اتنا اچھا اجر اللہ کے پاس بطور انعام ملے گا.انسان خطا کا پتلا ہے ، معصوم نہیں ہے ، ضروری نہیں کہ دنیا میں ہر کام اچھا کرے ، اس لیے جو کام برائی کی طرف مائل کرے یا برا ہو تو اس کے لیے توبہ کے دروازے ہمیشہ کھُلے رہیں گے . جو لوگ توبہ کرتے ہیں ان کا معاف کرنے والا اللہ تعالیٰ ہیں کہ اللہ سے بڑھ کر معاف کرنے والا اور فضل کرنے والا کوئی نہیں ہے.
 

نور وجدان

لائبریرین
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
سورۃ المدثر

يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ

ترجمہ :اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے

آیاتِ وحی ابتدائی دور سے تعلق رکھتی ہیں ۔ وہ عرصہ جو حضور پاکﷺ نے غور و فکر کرکے گزارا اور ان آیات کے بعد غور و فکر کے ساتھ خوف کا عنصر بھی شامل ہوگیا ۔ ایک بے یقینی کا عالم تھی جس میں آپ کی تشفی کبھی حضرت خدیجہ رض کیا کرتی تھیں تو کبھی حضرت جبرئیلؑ کرتے تھے ۔ اللہ کی طرف سے حضرت جبرئیل اور ام المومنین کی طرف حضرت خدیجہ رض کی تسلی کے باوجود آپ کا اضطراب نہیں جاتا تھا۔ اپنے منصب سے آگاہ ہوجانے کے بعد اگلے حکم کے انتظار میں تھے ان کو کیا کرنا ہے اور اس سلسلہ میں وحی کا نازل نہ ہونا اضطراب و بے چینی کی وجہ تھی ۔ خوف کے بادل، غم کی چادر بن کے آپﷺ کے منڈالاتے اور آپ ﷺ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا دیں اس لیے حضرت جبرئیل ؑ آپ کو تشفی دیا کرتے تھے ۔ ''کملی اوڑھے ہوئے '' یعنی غور و فکر کرنے والے ، غم میں گھرے ہوئے ، خوف سے پریشان ہونے والے کا کام اس دنیا میں کیا ہے ؟

قُمْ فَأَنذِرْ۔وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ

ترجمہ : اٹھو اور لوگوں کو ڈراؤ اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو

کملی اوڑھے ہوئے سے مراد ، غم کی ، فکر کی چادر کو اوڑھنے کے علاوہ ایک اور مفہوم بھی نکلتا ہے وہ یہ نبوت کا چاند ، جو کہ مبعوث کیا گیا حق تعالیٰ کی طرف سے ، وہ مہر نبوت جو سورۃ العلق میں آپﷺ کی عطا کی گئی ، اس کو دنیا کی خبر کیوں نہ ہوئی ، دنیا اندھیرے میں ہیں اور آپﷺ خود میں روشنی چھپائے بیٹھے ہیں . اس روشنی سے عالم کو منور کریں ، قاصد کا فرض کیا ہے َ ؟ ایک قاصد کا فرض لوگوں کو پیغامِ حق پہنچا دینا ہے . آپﷺ بھی یہ پیغام جگہ جگہ پہنچا دیں مگر آپ نے روشنی کو انجانے خوف میں چھپا رکھا ہے . اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے خوف اور آپ کو دی گئی روشنی جو اللہ تعالیٰ نے دی ، بطور صفت بنا کر پُکارا ، صفت کے طور پکارا جانا حق کی طرف سے محبت کی نشانی ہے . آپ ﷺ ایک بارِ گراں اٹھائے ہوئے ہیں خود میں ، جب تک اس کو نگر نگر نہیں پہنچائیں گے تو کیسے غم کو بوجھ ہلکا ہوگا ، خوف کیسے ختم ہوگا؟

اس روشنی کو پھیلانے کے لیے حُکم ہے ؟ اس کے لیے دو حکم ہیں ایک لوگوں کو فہمائش کا حکم ہے اور دوسرا حق تعالیٰ سبحانہ کی بڑائی کا اعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے.

اے نبیﷺ ! ان کو خبر دار کریں ... ان کو ڈرائیں .. کس چیز سے ڈرائیں؟ قیامت کے عذاب سے ؟ قبر کے عذاب سے ؟ محشر کے دن سے ؟ پل صراط کے گزرنے سے َ؟ جہنم کی سختیوں سے ؟ میزان قائم ہونے والے دن سے ؟ ان کو ڈرا دیجیے کہ ان سے کو کرنے والی طاقت کون سی ہے

جس دن صور پھونکا جائے گا؟ وہ صور کیا ہوگا؟ وہ صور ایک مرمریں سفید پتھر ہے ، جو کہ آئنہ کی مانند ہے ، اس آئینہ میں اتنے سوراخ ہیں جتنے انسان گُزر چکے ہیں ، جتنے آئیں گے اور جتنے موجود ہیں ، ان سب کی روحیں اس صور سے میں موجود سوراخوں میں کھینچ لی جائیں گی اور ان کو بجانے والے حضرت اسرافیلؑ ہوں گے . یہ وہ فرشتے ہیں جن کو کبھی ہنستے ہوئے پایا نہیں گیا . صور پھونکا جائے گا تو کیا ہوگا؟ اس دن سورج کے ٹکرے ہوجائیں گے ، جہنم میں جا گرے گا ، اور سمندروں میں جو سمندروں کے پانی کو آگ کے گولے بنا کر چلائے گا ، ہوائیں جو سمندروں سے ہو کر گزریں گی وہ سب آگ بن کر جسموں کو جلا دیں گی ، پہاڑ ریت ہوجائیں گے ،اور وہ دن جب علیل ، بچے ، بوڑھے ، تاجر ، عورتیں ، مرد جس جس کام میں مصروف ہوں گے ، وہیں ایک ہولناک آندھی طوفان کی ان کی روحوں کو قبض کرلے گی ، اس افراتفری کے عالم میں کوئی بھاگ نہیں سکے گا . زمین جہنم بن جائے گی


وہ لوگ جو مٹی تلے دب گئے ان کا کیا جائے گا؟ ان کی ہڈیاں تو گل سڑ گئی ، ان کے جسم کا حصہ ریڑھ کی ہڈی سے نیچے تباہ نہیں ہوگا. اس سے دوبارہ اٹھائیں جائیں گے ، کہ ان کی مٹی گل سڑ جائیں اور ہڈیاں کھا لیں جائیں . سب کچھ واپس اسی حالت میں آجائے گا یا کوئی شخص سمندر میں مچھلی کی خوراک بن گیا اور مچھلی نے جسم کو کھا لیا ،ہڈیاں پانی پر آئیں تو ان کو جانوروں نے کھایا ، ان کا نامیات مواد وقت کے ساتھ ساتھ چٹانوں کا حصہ بن گیا ، اس نامیاتی مواد کا ایک ذرہ ذرہ غائب ہوگیا ، یا وہ لوگ جو لاشوں کو جلا دیتے ہیں ، ان کی راکھ بکھر کر ختم ہوگئی . ان سب کے بکھرے اجزاء ترکیبی کو یکجا کرکے وہی انسان بنا دیا جائے گا.

ان کو قیامت ، محشر کے روز کی ہولناکیوں سے آگاہ کرنے کا حکم دیا گیا اور بڑائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ، بڑائی کی تعریف ... کس بات کی تعریف ......اللہ تعالیٰ کی قدرت کی تعریف، عظمت کی ، تخلیق کرنے کی عظیم الشان صلاحییتوں کی تعریف، زندگی اور موت کے مالک کی تعریف !!! تمام علوم پر دسترس کسے ہے ؟ سامع ہے َ ! بصیر ہے ! کریم ہے! عادل ہے !فضل کرنے والا ہے ! تمام مخلوقات کی تخلیق کرنے والا ہے ! جنت اور دوذخ کا مالک ہے! وہ جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند آتی ہے ! وہ رحیم بھی ہے اور کریم بھی ہے ! وہ ان تمام صفات کا حامل ہےاور اسکی صفات بیان کی جائیں تو دنیا میں جتنا سمندر ہے اس کو سیاہی سمجھ کر استعمال کیا جائے ، دنیا کے جتنے درخت ہیں وہ قلم بنا دیے جائیں اور میں بیٹھ جاؤں اس کی کبریائی کو بیان کرنے ، میرے پاس قیامت جتنا وقت ہو ، علم کی عطا مجھے اللہ تعالیٰ سے مل جائے تو کیا میں بیان کر سکوں گی؟ اس علم کے ہوتے ہوئے مجھے صدی بھی ایک پل بلا مغالبہ لگے گی کہ اللہ کی تعریف بیان نہیں کی جاسکتی اور اس کی کبریائی بیان کرنے کو ایک شخص ہیں وہ ہیں حضور پاکﷺ ، جن کو عطا علم ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ ان کو بتائے ان کا رب کون ہے؟ ان کو بتایے ان کے رب نے ان کے لیے انعام کن باتوں پر رکھا ہے ، ان کو بتائے ان کے لیے وعید کن باتوں پر ہے ؟ ان کو بتایے ان پر فضل خاص ہوگا ، ان کو بتایے حقوق اللہ کیا ہیں ؟ ان کو بتایے تکبر کرنا کس کو جائز ہے ؟ ان کو بتائے جو لوگ تکبر کرتے ہوئے لوگوں کو روندتے ہیں ان کو کیسے اٹھایا جائے گا ! ان کو قیامت والے دن چیونٹی کے جیسا اٹھایا جائے گا. کیونکہ یہ لوگ دوسروں کو چیونٹی کی طرح حقیر سمجھتے ہیں ، قیامت کے دن ان کو ویسا ہی اٹھایا جائے گاَ۔ ان کو آگاہ حق تعالیٰ سے کیجے تاکہ روزِ محشر یہ کہنے والے نہ بنیں کہ ان تک پیغام نہیں پہنچا۔

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ
سورۃ المدثر



وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ۔وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ۔وَلَا تَمْنُن تَسْتَكْثِرُ۔وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ

ترجمہ: اپنے کپڑے پاک رکھو اور گندگی سے دور رکھو ۔اور احسان نہ رکھو زیادہ حاصل کرنے کے لیے۔اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو۔

حضور پاکﷺ طاہر ہستی ہیں. ان آیات میں آپ کو کپڑوں کی صفائی کا حکم دیا گیا ہے . اس کی کیا وجہ ہوگی ؟ شاید کوئی تمثیل ، کوئی استعارہ ؟ یقیناً اس میں کوئی اشارہ ہے ، اشارہ قلب کی طہارت ہے . انسان کا غم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے. تسلی مل جانے سے سوال کا جواب نہ ملے تو بے صبری میں انسان کیا کرتا ہے؟ حضور پاکﷺ اپنے سوال کا جواب پانا چاہتے تھے کہ ان کو مبعوث کیا گیا ہے تو ان کے لیے حُکم کیا ہے؟ ان کو اب کیا کرنا ہے ؟ اس سوال کے جواب حق کی طرف سے دیر سے ملا ہے یقیناً حکمت ہوتی ہے تاخیر میں بھی ...! حضور پاکﷺ نے پہاڑ سے چھلانگ لگانے کی سعی کی . جبرئیل ِ امین آتے اور آپﷺ کو روکا کرتے . اس لیے حکم ہوا کہ دل کو غم اور خوف سے پاک رکھو تاکہ ظاہری ردِ عمل بھی ایمان کا عکاس ہو. اس لیے اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے .

دوسری آیت میں آپ کو گندگی سے دور رہنے کا حُکم دیا گیا ہے . حضور پاکﷺ پاک ہستی ہیں . آپ گندگی کے پاس رہتے ہیں یا دور رہنے کی بات کی تُو اس کا مطلب بھی کوئی استعارہ ہے َ ؟ کوئی اشارہ؟ ہر نبی کو اس کی قوم میں کس مقصد کے لیے بھیجا گیا َ؟ حضرت شعیبؑ کو تجارت کی ناپ تول میں کمی بیشی کے لیے خاص طور پر مبعوث کیا گیا . حضرت موسیؑ کو خدائی کے دعویداروں کے پاس بھیجا گیا اور پرورش بھی اسی خاندان میں ہوئی جہاں وہ رہتے تھے . اسی طرح حضرت ابراہیمؑ کو اس خاندان میں پیدا کیا گیا جو قوم بُت پوجتی اور بناتی تھی .جس نبی کی بعثت جس مقصد کے لیے کی گئی ہے وہ ان تمام نقائض کو جان سکے تاکہ وہ ان کے خلاف تجویز کرسکے . اسی طرح اب حضورﷺ جو حضرت ابراہیم کی طرح اس خاندان میں پیدا ہوئے جو بُتوں کے پجاری تھے . جن کے بُت لات، منات ، عزی تھے اور پورا خانہ کعبہ بُت خانوں سے بھرا ہوا تھا. اب وقت آگیا تھا ان سے دوری اختیار کریں .خانہ کعبہ جو بُتوں سے بھرا ہوا ہے ، ان سے دور ہوجائیں ، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان کردیا گیا ہے ، اس کا حُکم پچھلی آیت میں دیا گیا ہے . ایک دنیا میں دو خدا کیسے سما سکتے ہیں . اس لیے ان سے دوری اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اعلان نبی اکرمﷺ کی بعثت کا مقصد ہے . یعنی حضور پاکﷺ جس سوال سے پریشان رہتے تھے اس سوال کا جواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے دے دیا گیا ہے ۔


حضور پاکﷺ کا غم دور کردیا گیا ۔ ان کے مقصد کو واضح طور بتادیا گیا ۔اب اللہ تعالیٰ نے ان کے سوال کا جواب دے کر ان سے ایک اور تقاضہ کیا ہے ۔ تقاضہ ایک قاصد ، ایک پیغبرﷺ ، ایک نائب ، اور خاتم الانبین سے ہے! اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں جو کام حضور پاکﷺ کریں وہ اس طرح کریں جس طرح انسان کا اس میں اپنا مفاد ہے اور اللہ کا کام نہیں بلکہ نبیﷺ کا اپنا کام ہے ۔انسان کو ایک فرض جب سونپ دیا جاتا ہے ، چاہے وہ کوئی پیشہ ہو یا مزدوری یا خاندانی امور چلانے کی بات ، یا سیاسی مدبر کا مسائل کا حل نکالنا، کامیاب کوئی بھی انسان تب تک نہیں ہوتا جب تک وہ خود اس کام کو اپنا سمجھنا شروع نہ کردے ، اس کام کو اپنا نہ لے ، جب مقصد اپنا لیا جاتا ہے تو اس میں آنے والے ہر بات کو انسان اپنی فہم سے خود سلجھاتا ہے ۔پروردگارِ عالم یہی بات حضور پاکﷺ کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ جو کام ان کو سونپ دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ پر ان کا کوئی احسان نہیں ہے ۔


اللہ تعالیٰ کی تلقین : اللہ کے لیے صبر کرو۔۔۔ یعنی اچھا کام جو کرے گا وہ جان پر اپنی احسان ہوگا مگر جو صبر کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہوگا۔۔کیونکہ صبر دوسروں کی دی گئی تکالیف پر ہوتا ہے ۔ اچھے اخلاق اور کامیابی کے اصول : فرض کو اپنا جان کے کرو اور اگر صبر کرنا جہاں ہو ، وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کرو۔ اس کا اجر دگنا ہے ، وجہ اس کے اپنی ذات کو ختم کرکے دوسروں کے مظالم برداشت تو کرنا ہی مگر اس کے جواب میں سلوک بھی اچھا رکھنا ہے ۔ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔ یہ تلقین صرف حضور پاکﷺ کے نہیں ، تمام اصحاب اور تمام انسانوں کے لیے ہے جوجو اچھا کام کرے سمجھے وہ کام اپنی جان پر احسان کیا ہے اور اگر صبر کرے تو سمجھا اپنے نفس کو ختم کرکے اللہ تعالیٰ کے لیے دوستی ، دشمنی کی ، یعنی ذاتی عناد اور بغض کو ختم کرکے آپس میں انسانوں کو جوڑنے کا ذریعہ صبر ہے

جاری۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
گزشتہ سے پیوستہ
سورۃ المدثر




فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ٭ فَذَلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ٭عَلَى الْكَافِرِينَ غَيْرُ يَسِيرٍ٭ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا٭وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا٭وَبَنِينَ شُهُودًا٭وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيدًا٭ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ٭كَلَّا إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا٭سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا٭

ترجمہ:جس دن صُورکی پھونک ماری جائے گی۔وہ دن کافروں کے لیے بڑا سخت ہوگا۔میں اس شخص سے خود نپٹ لوں گا جس کو میں نے اکیلے پیدا کیا ۔جس کو مال کثیر عطا کیا اوراس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے۔اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہموار کی ۔پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اس کو اور زیادہ دوں ۔ ہر گز نہیں وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے ۔عنقریب ہم اس کو ایک کٹھن پہاڑی پر چڑھوائی چڑھاؤں گا۔
۔۔۔۔

کائنات کی تخریب و ترکیب کرنے والا اللہ تعالیٰ ہیں۔ کائنات کا اختتام روزِ محشر کی ابتدا ہے ۔ اس دن کی وعید سُنائی جارہی ہیں ۔ جب عذاب کی گھنٹی بجا دی جائے گی ۔میں ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھ کر ، نئی ایجاد کرکے ، نئی دنیا دریافت کرکے سمجھ لوں کہ مجھ پر کبریائی جچتی ہے ؟ کیا دریافت وہ نہیں ہے جو پہلے سے موجود ہے ؟ کیا ایجاد وہ چیز نہیں ہے جو خام مواد کو تخلیقی صلاحیت کی استعمال سے بنائی جاتی ہے ۔ کیا خام مواد پہلے سے موجود نہیں اور صلاحیت کا استعمال اللہ کی عطا نہیں ہے ؟ جب انسان ایک مکھی خود سے نہیں بنا سکتا ہے ؟ تو انسان کی اوقات کیا ہے ؟ مگر کس شان سے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلاتا ہے ! اس بات پر جلال کی صفت کا اظہار موجود ہے ۔ اگر میں تصور کروں نقارہ کیسے ہوگا تو مجھے کان سُن سے محسوس ہوتے ہیں ، جیسے سماعت ختم ہوگئی ہو اور یہ آواز اتنی تیر ہے اس نے میری بصارت چھین لی مگر آواز کی آندھی سے ہونے والہ تباہی کو میری بصارت محسوس کرسکتی ہے کہ یہ آواز آسمان کو چیر کر دو حصوں میں منقسم کر دے گی ۔ جب پہاڑ کو پہنچے گی تو پہاڑ اس آواز کی ہیبت سے ٹکرے ٹکرے ہونے کے بجائے روئی کے گالوں یا ریت کے ذرے میں بکھر جائیں گے ۔ جب بڑی بڑی نشانیاں وجود کھو دیں گے تو کیا انسان اس دن بچ جائے گا؟ یہ اللہ کی اسرافیل کو عطا کر دہ آواز کا اعجاز ہے کہ وہ تباہی لائے گی تکوینی عمل سے کہ اس تباہی میں سال لگ جائیں گے ۔ اس کے بعد محشر کا عذاب ، جس سے کسی کو مفر نہیں ہے ۔


اس سورۃ میں پیار و دلار سے مخاطب کیا ہے اور ساتھ میں وعید کی بات کی ہے ۔ اللہ باری تعالیٰ نے اپنی صفات کا اظہار کیا ہے کہ وہ قہار بھی ہیں اور ستار بھی ہے ، سامع بھی ہے اور بصیر بھی ہے ۔ ساری کائنات کا مالک اللہ تعالیٰ ہیں۔اس سورۃ کو میں نے غور سے پڑھا۔ مجھے اس میں کہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش مارتی دکھائی دی اور کہیں رحمت کو طوفان میں بدلتے دیکھا ۔ ایک دم مجھے فرحت کا احساس ہوا اور پھر غمناک ہونا پڑا اور پھر خوشی کا احساس دوبالا ہوگیا ۔ اس بات کو سوچتے ہوئے مجھے خوشی اور غم کا ادراک ہوا ہے ۔ دنیا میں مفلسی کا احساس دراصل جہنم کی بُو اور خوشی کا احساس جنت کی فرحت ہے ۔ مفلس کون؟ مجھے حضرت علی رض کا قول یاد آیا کہ مفلس وہ نہیں جس کے پاس دولت نہیں ہے بلکہ مفلس تو وہ ہے جس کے پاس سب کچھ ہے مگر اور کی لالچ رکھتا ہے ۔ قانع شخص کے لیے دنیا میں بھی خوشی اور حریص کے لیے دنیا ہی جہنم ہے ۔ دوذخ اور جنت کا یہی احساس تو عمل کی بنیاد ہے ۔ قانع شخص مصبیت پر صبر کرتا ہے اور لالچی شخص حسد کرتا ہے ۔ گویا اچھے اعمال بھی لکڑی کو جلا دیتے ہیں یعنی اعمال صالح بھی گئے اور باقی رہ گیے گناہ۔ جن کے پاس اعمال میں گناہ ہوں گے وہ کیا کریں گے ؟ وہ کیا پائیں گے کہ کبریاء تو اللہ تعالیٰ ہے اور قہار بھی وہ ہے ۔ اختیار تو سارا اس کے پاس ہے ۔ انسان کس بات پر غرور کرتا ہے کہ اس کے پاس دولت ہے ؟ یہ دولت تو عطا ہے جو ختم ہوجائے گی اور انسان کے پاس رہ جائیں گے باقی اعمال سیاہ اور اعمال نیک۔۔۔! نیک و بد اعمال والے وہی شخص ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں ۔

دریافت و ایجاد کی بات کی ہے ۔ آج علم کی اساس دریافت اور ایجاد پر ہے ۔ علم کی اس فوقیت سے انکار نہیں ہے کہ علم انسان کو بادشاہ بنا کر تکبر کروادے تو کیا فائدہ اس علم کا ؟ یا وہ علم اچھا ہے جس سے انسان میں عاجزی پیدا ہو اور انسان اپنی جبین اللہ تعالیٰ کے آگے جھکا کر عبدیت کا اقرار کرلے ۔ انسان یا تو عاجز و انکساری کرنے والا ہوتا ہے یا پھر کبریائی جتانے والا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی دین کا انداز بڑا عجیب ہے ۔ کبھی اللہ تعالیٰ دے کر آزماتا ہے اور کبھی لے کر آزماتا ہے۔ جس پر دنیاوی عطا کی بارش ہوئی اس نے اور کی طمع کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نشانیاں جھٹلادیں ۔وہ نشانیاں کون سی ہوسکتی ہیں؟علم کا انکار کرنا؟ کون سا علم ؟ وہ علم جس کی بنیاد پر فرشتوں پر انسان کی فوقیت ملی اور اس کو حضرت آدم کو براہ راست سکھایا گیا۔ روح کو علم دیا گیااور وہ باتیں سکھائیں گئی جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی پہچان کرسکے تاکہ نشانیوں کو بلا توجیہہ مان سکے ۔ اور کچھ کو اللہ تعالیٰ نے غور وفکر کے لیے چھوڑ دیا ہے ۔ اس سلسلہ کو حضرت ابراہیم پر استوار کیا گیا ۔ آپ نے غور وفکر سے پہچان کا راستہ تلاشا اور احد کو مانا۔۔اسی طرح حضور پاکﷺ نے بھی پہچان کے راستے ہوئے چلتے ہوئے تنہائی میں ریاضت کی ۔ہم امت محمدیﷺ ہیں ہم سے ہر کوئی پہچان کے راستے پر ہے وہ جو اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ جو اسکی وحدانیت کو ماننے سے قاصر ہیں ۔ہم نشانی جھٹلادیں تو ہم تکبر کرنے والوں میں سے ہیں اور نشانی کو دیکھ کر سجدہ کرلیں تو ہم عجر و انکساری کرنے والوں میں سے ہیں ۔


مال و اولاد فساد برپا کرتے ہیں ۔ اولاد سے مراد انسان کی اپنی نشانی جو وہ دنیا میں چھوڑ کر جاناچاہتا ہے تاکہ اس کی نسل جاری رہ سکے ۔ اولاد اور مال عطا ہیں ۔ جس نے اس عطا ہر تکبر کیا اور سمجھا کہ ان کو پانے میں وہ قادر ہیں ۔ اس انسان کے پاس کتنی قدرت ہوگی ؟ اس بات کے سوا ئے اس کو ڈھیل دی جاچکی ہے ۔ وہ جو نشانیوں کو جھٹلادیں ان کے لیے کیا وعید ہے ؟ میں نے خود کو پہاڑ کی بُلندی پر پایا ، جس کے اطراف میں کھائیاں تھیں ۔اور پہاڑ کی عمودی ڈھلان پر آگ سے بنے کانٹے سُرخ و زرد ی مائل مجھ کو ڈرا رہے تھے ۔مجھے ڈر ہے کہ میں کہیں ان کے اوپر نہ گر جاؤں ، دنیا مجھے ایسی محسوس ہوئی جہاں اطراف میں کھائیاں ہیں ۔نعمتیں جن کے بل پر میں فخر کا پہاڑ بناتی ہوں مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے آگ میں نہ دھکیل دیں ۔ اس بات نے مجھے جہنم کی حقیقت سکھائی ۔ سرکش کو بوجہ سرکشی کے جہنم میں پہاڑ پر سے نیچے پھینک دیا جائے گا۔ اور پہاڑ کی عمودی ڈھلان آگ کے کانٹوں سے بھرپور ہوگی ، جس میں سرکش منہ کے بل گر ے گا اور آگ کے کانٹے جسم کے حصوں میں چھید ڈالتے ہوئے کُھب جائیں گے ۔انسان کے پاس تب تڑپنے کے سوا رہ کیا جائے گا؟
 
Top