نور وجدان
لائبریرین
انسانی احساسات جُوں جُوں پروان چڑھتے جاتے ہیں ویسے ویسے زندگی میں آنے والے نشیب و فراز سوالات کی پٹاری کھولے زندگی کو سوالیہ نشان بنا دیتے ہیں ۔یہ سوال ہماری زندگی کا مقصد متعین کرتے ہیں کہ ان جوابات کی روشنی میں زندگی گزارنا ہی بطریقِ احسن ہے ۔
لفظ میرا سرمایہ ہے ۔مجھے جینے کا طریقہ لفظوں نے سکھایا ہے ۔ میری زندگی میں پہلا لفظ اس ہستی کے لیے نکلا ، جس نے مجھے تخلیق کیا ۔ احساس نے مجھے ''ماں'' اور ''اللہ '' دو الفاظ سکھائے اور میری جستجوِ لفظ نے سوالات کا انبار میرے سامنے رکھ دیا ہے ۔ زندگی میں انسان خود سے بہت زیادہ سولات کرتا ہے۔ جب سوالات کا جواب تشفی بخش نہیں ملتا تو تلاش میں نکل پڑتا ہے ۔میں نے ایک حدیث کی تحقیق کے لیے اصحاب و تابعین کو ایک بر اعظم کونے سے دوسرے کونے میں سفر کرتے ہوئے پڑھا تو حیرت نہیں ہوئی کہ اسلام کا حکم یہی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ . لفظ میرا سرمایہ ہیں. کبھی کبھی دل کرتا ہے ان لفظوں کو چوموں جو حقِ باری تعالی کا کلام ہیں. نوری کلام جو انسان کے قلم کی پیداوار نہیں ہے ۔
مجھ تک قرانِ پاک الفاظ تک پہنچا ۔ میں جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی مجھ پر سحر طاری ہوجاتا اور ہر دفعہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے اس کو سمجھ کر پڑھا نہیں ہے مگر اس کے اندر پھر بھی اتنی تاثیر ہے ۔ اس احساس نے مجھے قرانِ پاک کا ترجمہ پڑھنے پر مجبور کردیا ۔ جب ترجمہ پڑھا تو مجھ پر انکشافات ہوئے ، سوالات کے جوابات کو پا کر مزید خود کو تشنہ پایا کہ قرانِ پاک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ کے گیارہ گیارہ پرتیں ہیں ، جانے کب یہ اسرار کھلے ، جانے کب میں اس کلام پر عبور حاصل کر پاؤں ۔ مجھے یہ احساس ، یہ احساس رُلاتا ہے کہ میں نے عمر گنوادی مگر نوری کلام دل میں سما نہ پایا۔ خود پر بہت ملامت محسوس ہوئی ۔ اس ملامت کے نتیجے میں میں جو لکھ رہی ہوں ۔ وہ آپ کے سامنے ہے ۔ میرے لفظ ، میرے احساس سے اور میرا احساس سوالات کی مرہون منت ہے ۔ زندگی میں سوال کے جواب پانا مرا مقصدِ حیات ہے۔
قرانِ پاک میں اخفاء کیا ہے ؟ اور کیا ظاہر ہے ؟ اس کا اسرار بے چین رکھتا ہے اور میری جستجو ساری عمر جاری رہے گی جب تک کہ اسرار سے پردو نہ اٹھا کر جان نہ لوں ۔قران پاک کی کتابت اور تدوین جناب سیدنا حضرت عثمان رض کے دور میں ہوئی اور احادیث کی تدوین جناب حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں ہوئی ۔مزید کچھ لکھنے سے پہلے کچھ نقاط ذہن میں ہیں ۔ اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ درج ذیل ہیں ۔قوانین کو دو پرائمری اور سیکنڈری ماخد میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
بنیادی ماخد
1: قرانِ پاک کلامِ الہی ہے ۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے ۔
2: سنت
کلامِ الہی کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کے ایک ہستی چلتا پھرتا قران بن گئی جن کو دنیا پیارے پیارے محمد صلی علیہ والہ وسلم کے نام سے جانتی ہے ۔ حدیث اور سنت : دونوں ماخذ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے منسلک ہیں ۔ سنت وہ ہے جس کی حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے عمل کی ذریعے ترغیب دی جبکہ حدیث وہ الفاظ ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال یا حرکات و سکنات مراد لی جاتی ہیں ۔
ثانوی ماخذ
1۔ رواج : عربوں میں کچھ رواج جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جاری رکھے اوور کچھ کے احکامات بطور ممانعت نازل ہوئے ۔ مثال کے طور پر شراب جائز سمجھی جاتی جب تک کہ شراب سے متعلق احکامات جاری نہ ہوگئے ۔ اسی طرح خواتین کا پردہ اسلام کے پھیل جانے کے بعد بطور رواج روایت میں شامل نہیں تھا جب تک کہ اسکے احکامات نازل نہ ہوگئے ۔ان معاملات پر حضرت عمر رض کی رائے بطور سند لی گئ کہ ان کی رائے اللہ تعالیٰ کو پسند آیا کرتی تھی ۔ اسی وجہ سے ان کو صاحب الرائے کہا جاتا ہے ۔
2۔اجماع (consensus of opinion)
قران ِ پاک اور احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی گئی ۔ اسلام قانون سازی کا سب سے بڑا ماخذ قرانِ پاک اور پھر حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔ ''اجماع'' کو ''قیاس'' بھی کہا جاتا ہے ۔ عہد ِ وقت کے تمام علماء کا اسلام کے قانوں کے ماخذ میں سے ایک پر اکتفا کرتے ہوئے رضامند ہوجانا ایک نیا قانون سامنے لے کر آتا تھا۔ یہ قانون اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک علماء حیات ہوتے تھے ، اس کے بعد نئے آنے والے علماء اجماع کے ذریعے نیا قانون بناتے تھے ۔ اجماع کی بنیاد سب سے پہلے جناب امام ابو حنفیہ رح نے رکھی اور اس کے بعد امام مالک رح ،امام شافعی ، امام احمد حنبل اور اصولی مسلک سے تعلق رکھنے والوں اس کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کو شدت سے عملی جامہ بھی پہنایا گیا ۔
کچھ ماخذ پر اختلافات کی وجہ سے صرف نام لکھنے پر ہی اکتفا کروں گی ۔ ان میں قیاس ، فقہی صوابدید یا استحصان ،استدلال وغیرہ شامل ہیں ۔ بعض کی نسبت بعض نے ان پر شدت سے اکتفاء کیا۔
قرانِ پاک ہم عجمیوں کی زبان نہیں ہے اس لیے ا سمیں چھپپے اسرار اور مخفی علوم کو ہم حاصل کرنے سے قاصر رہیں ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برصغیر میں جس ہستی نے کام کیا وہ حضرت شاہ ولی اللہ رح ہیں ۔ جنہوں نے ایک بڑے پیمانے پر ایک مدرسہ قائم کرنے کے بعد قرانِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا ۔ جبکہ ان بیٹے شاہ عبد القادر نے قرانِ پاک کا اُردومیں ترجمہ کرکے قرانی تعلیمات کو عام کیا۔ اس طرح قرانِ پاک عربی سے لشکری زبان اور فارسی زبان میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے پھیلنے کے بعد ، ترجمہ پڑھ لینے کے بعد ہمارے اعمال ، احکام کے مطابق نہ ہوپائیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے قرانِ پاک کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں ۔
قرانِ پاک کی ترتیب
قرانِ پاک کی ترتیب کے دو طرز ہیں ۔
1۔ ترتیبِ نزولی
2۔ کتابی ترتیب
قرانِ پاک کی کتابت کا کام حضڑت عثمان رض نے کیا تھا۔ اس پیاری کتاب کے احکامات کو سمجھنے کے لیے نزولی ترتیب کو سمجھا جاتا ہے ۔ قران ِ پاک کے احکامات ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئے ۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کا دور اور اسلامی ریاست کا دور ۔۔ قیامِ مکہ کا عرصہ وہ دور تھا جس میں عزت مآب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے کے تمام کوششیں بروئے کار لائیں ۔ ہجرت کے بعد وہ آیات یا نشانیاں نازل ہوئیں جن کے براہِ راست احکام انسانی زندگی ، معاشرت ، نظامِ حکومت اور سیاست سے متعلق تھے ۔ اس لیے اس کے نزولی ترتیب اس کے احکامات کی سمجھنے میں درست سمت عطا کرتے ہوئے کلام الہی کو سمجھنے میں مدد دے گی ۔ اکثر ایک حکم کی کئی نشانیاں موجود ہیں ۔ اگر ان نشانیوں یا آیات کو اکٹھا کیا جائے تو مزید احکامات سے پردہ اٹھایا جاسکتاہے ۔ یہی قرانِ پاک کو درست سمجھنے کا طریقہ ہے ۔ اس سے ہی ہماری زندگیاں سنور سکتی ہیں کہ انسان دنیا میں آیا ہی ایک امتحان دینے ہے ۔ اس کو پاس ہم ان احکامات کی روشنی میں کرسکتے ہیں
قرانِ پاک کی تعلیمات کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی خوبی اس کی ترتیل ہے ، قران پاک کے ابتدائی احکامات میں اس کے پڑھنے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے سورۃ مزمل میں لفظ ترتیل استعمال کیا گیا جس سے مراد ہے کہ اس کو اس انداز سے پڑھا جائے جس سے آواز میں موسیقیت پیدا ہوجائے ۔ قرانِ پاک کے لفظ ایک خاص قسم کے پچ اور حیطہ رکھتے ہیں اور یہ پچ اور حیطہ تقریبا پورے قرانِ پاک میں ایک جیسا ہے ، اس لیے جب یہ کلام نازل ہوا تو عربی جو کہ خود کو فصاحت میں ید طولیٰ سمجھتے تھے کہ دیا کہ انسانی کلام ایسا نہیں ہو سکتا ۔ قرانِ پاک میں احکامات کے ساتھ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا ۔ایک زُبان ، اس زبان میں نازل ہو جو زبان عربیوں کی ہے اور دوسرا عربیوں میں فصیح و بلیغ وہی کہلاتا تھا جس کا کلام بہترین شاعری کی صورت لیے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احکامات کے ساتھ عربیوں کو مانوس رکھنے کے لئے قران پاک کو بصورت شاعری اتارا کہ لوگ اس حکمت بھری کتاب میں شاعری کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کو ترتیل سے پڑھیں ۔ اس کو ترتیل سےپڑھنے سے تلاوت دلوں پر اثر کرتی ہے کہ جس طرح موسیقی کا اثر دلوں پر ہوتا ہے ۔ اس لیے ہم جو قرانِ پاک کا علم نہیں رکھتے جب یہ کلام سنتے ہیں تو دل مسحور ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو کہ انسانی کمالات کی حد سے پرے ہے ۔
قران پاک کو ترجمہ و تفسیر پڑھنے کے لیے ترتیبِ نزولی کا سہارا لیتے ہوئے اس کے اسرار و رموز کا جاننے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس حصے کو میں اس مقصد کے لیے مختص کرتے ہوئے گزارش کرتی ہوں کہ جو تبصرہ کرنے چاہے وہ اس لڑی میں تبصرہ ارسال کر سکتا ہے
تبصرہ جات یہاں پر ارسال کریں
لفظ میرا سرمایہ ہے ۔مجھے جینے کا طریقہ لفظوں نے سکھایا ہے ۔ میری زندگی میں پہلا لفظ اس ہستی کے لیے نکلا ، جس نے مجھے تخلیق کیا ۔ احساس نے مجھے ''ماں'' اور ''اللہ '' دو الفاظ سکھائے اور میری جستجوِ لفظ نے سوالات کا انبار میرے سامنے رکھ دیا ہے ۔ زندگی میں انسان خود سے بہت زیادہ سولات کرتا ہے۔ جب سوالات کا جواب تشفی بخش نہیں ملتا تو تلاش میں نکل پڑتا ہے ۔میں نے ایک حدیث کی تحقیق کے لیے اصحاب و تابعین کو ایک بر اعظم کونے سے دوسرے کونے میں سفر کرتے ہوئے پڑھا تو حیرت نہیں ہوئی کہ اسلام کا حکم یہی کہ علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ۔ . لفظ میرا سرمایہ ہیں. کبھی کبھی دل کرتا ہے ان لفظوں کو چوموں جو حقِ باری تعالی کا کلام ہیں. نوری کلام جو انسان کے قلم کی پیداوار نہیں ہے ۔
مجھ تک قرانِ پاک الفاظ تک پہنچا ۔ میں جب بھی یہ الفاظ سنتی تھی مجھ پر سحر طاری ہوجاتا اور ہر دفعہ میں سوچا کرتی تھی کہ میں نے اس کو سمجھ کر پڑھا نہیں ہے مگر اس کے اندر پھر بھی اتنی تاثیر ہے ۔ اس احساس نے مجھے قرانِ پاک کا ترجمہ پڑھنے پر مجبور کردیا ۔ جب ترجمہ پڑھا تو مجھ پر انکشافات ہوئے ، سوالات کے جوابات کو پا کر مزید خود کو تشنہ پایا کہ قرانِ پاک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ہر ہر لفظ کے گیارہ گیارہ پرتیں ہیں ، جانے کب یہ اسرار کھلے ، جانے کب میں اس کلام پر عبور حاصل کر پاؤں ۔ مجھے یہ احساس ، یہ احساس رُلاتا ہے کہ میں نے عمر گنوادی مگر نوری کلام دل میں سما نہ پایا۔ خود پر بہت ملامت محسوس ہوئی ۔ اس ملامت کے نتیجے میں میں جو لکھ رہی ہوں ۔ وہ آپ کے سامنے ہے ۔ میرے لفظ ، میرے احساس سے اور میرا احساس سوالات کی مرہون منت ہے ۔ زندگی میں سوال کے جواب پانا مرا مقصدِ حیات ہے۔
قرانِ پاک میں اخفاء کیا ہے ؟ اور کیا ظاہر ہے ؟ اس کا اسرار بے چین رکھتا ہے اور میری جستجو ساری عمر جاری رہے گی جب تک کہ اسرار سے پردو نہ اٹھا کر جان نہ لوں ۔قران پاک کی کتابت اور تدوین جناب سیدنا حضرت عثمان رض کے دور میں ہوئی اور احادیث کی تدوین جناب حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں ہوئی ۔مزید کچھ لکھنے سے پہلے کچھ نقاط ذہن میں ہیں ۔ اسلامی قوانین کے بنیادی ماخذ درج ذیل ہیں ۔قوانین کو دو پرائمری اور سیکنڈری ماخد میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
بنیادی ماخد
1: قرانِ پاک کلامِ الہی ہے ۔ اس میں کمی و بیشی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ چودہ سو سال سے آج تک یہ جُوں کا تُوں ہے ۔
2: سنت
کلامِ الہی کے ہر حکم پر عمل پیرا ہو کے ایک ہستی چلتا پھرتا قران بن گئی جن کو دنیا پیارے پیارے محمد صلی علیہ والہ وسلم کے نام سے جانتی ہے ۔ حدیث اور سنت : دونوں ماخذ حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے منسلک ہیں ۔ سنت وہ ہے جس کی حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم نے عمل کی ذریعے ترغیب دی جبکہ حدیث وہ الفاظ ہیں جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اقوال یا حرکات و سکنات مراد لی جاتی ہیں ۔
ثانوی ماخذ
1۔ رواج : عربوں میں کچھ رواج جو حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے جاری رکھے اوور کچھ کے احکامات بطور ممانعت نازل ہوئے ۔ مثال کے طور پر شراب جائز سمجھی جاتی جب تک کہ شراب سے متعلق احکامات جاری نہ ہوگئے ۔ اسی طرح خواتین کا پردہ اسلام کے پھیل جانے کے بعد بطور رواج روایت میں شامل نہیں تھا جب تک کہ اسکے احکامات نازل نہ ہوگئے ۔ان معاملات پر حضرت عمر رض کی رائے بطور سند لی گئ کہ ان کی رائے اللہ تعالیٰ کو پسند آیا کرتی تھی ۔ اسی وجہ سے ان کو صاحب الرائے کہا جاتا ہے ۔
2۔اجماع (consensus of opinion)
قران ِ پاک اور احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسلامی قانون سازی کی گئی ۔ اسلام قانون سازی کا سب سے بڑا ماخذ قرانِ پاک اور پھر حضور پاک صلی علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس ہے ۔ ''اجماع'' کو ''قیاس'' بھی کہا جاتا ہے ۔ عہد ِ وقت کے تمام علماء کا اسلام کے قانوں کے ماخذ میں سے ایک پر اکتفا کرتے ہوئے رضامند ہوجانا ایک نیا قانون سامنے لے کر آتا تھا۔ یہ قانون اس وقت تک جاری رہتا تھا جب تک علماء حیات ہوتے تھے ، اس کے بعد نئے آنے والے علماء اجماع کے ذریعے نیا قانون بناتے تھے ۔ اجماع کی بنیاد سب سے پہلے جناب امام ابو حنفیہ رح نے رکھی اور اس کے بعد امام مالک رح ،امام شافعی ، امام احمد حنبل اور اصولی مسلک سے تعلق رکھنے والوں اس کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ قوانین کو شدت سے عملی جامہ بھی پہنایا گیا ۔
کچھ ماخذ پر اختلافات کی وجہ سے صرف نام لکھنے پر ہی اکتفا کروں گی ۔ ان میں قیاس ، فقہی صوابدید یا استحصان ،استدلال وغیرہ شامل ہیں ۔ بعض کی نسبت بعض نے ان پر شدت سے اکتفاء کیا۔
قرانِ پاک ہم عجمیوں کی زبان نہیں ہے اس لیے ا سمیں چھپپے اسرار اور مخفی علوم کو ہم حاصل کرنے سے قاصر رہیں ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے برصغیر میں جس ہستی نے کام کیا وہ حضرت شاہ ولی اللہ رح ہیں ۔ جنہوں نے ایک بڑے پیمانے پر ایک مدرسہ قائم کرنے کے بعد قرانِ پاک کا فارسی میں ترجمہ کیا ۔ جبکہ ان بیٹے شاہ عبد القادر نے قرانِ پاک کا اُردومیں ترجمہ کرکے قرانی تعلیمات کو عام کیا۔ اس طرح قرانِ پاک عربی سے لشکری زبان اور فارسی زبان میں پھیلتا چلا گیا۔ اس کے پھیلنے کے بعد ، ترجمہ پڑھ لینے کے بعد ہمارے اعمال ، احکام کے مطابق نہ ہوپائیں تو سمجھ لیں کہ ہم نے قرانِ پاک کو ٹھیک سے پڑھا ہی نہیں ۔
قرانِ پاک کی ترتیب
قرانِ پاک کی ترتیب کے دو طرز ہیں ۔
1۔ ترتیبِ نزولی
2۔ کتابی ترتیب
قرانِ پاک کی کتابت کا کام حضڑت عثمان رض نے کیا تھا۔ اس پیاری کتاب کے احکامات کو سمجھنے کے لیے نزولی ترتیب کو سمجھا جاتا ہے ۔ قران ِ پاک کے احکامات ہجرت سے پہلے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئے ۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے پھیلنے کا دور اور اسلامی ریاست کا دور ۔۔ قیامِ مکہ کا عرصہ وہ دور تھا جس میں عزت مآب حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسلام کو پھیلانے کے تمام کوششیں بروئے کار لائیں ۔ ہجرت کے بعد وہ آیات یا نشانیاں نازل ہوئیں جن کے براہِ راست احکام انسانی زندگی ، معاشرت ، نظامِ حکومت اور سیاست سے متعلق تھے ۔ اس لیے اس کے نزولی ترتیب اس کے احکامات کی سمجھنے میں درست سمت عطا کرتے ہوئے کلام الہی کو سمجھنے میں مدد دے گی ۔ اکثر ایک حکم کی کئی نشانیاں موجود ہیں ۔ اگر ان نشانیوں یا آیات کو اکٹھا کیا جائے تو مزید احکامات سے پردہ اٹھایا جاسکتاہے ۔ یہی قرانِ پاک کو درست سمجھنے کا طریقہ ہے ۔ اس سے ہی ہماری زندگیاں سنور سکتی ہیں کہ انسان دنیا میں آیا ہی ایک امتحان دینے ہے ۔ اس کو پاس ہم ان احکامات کی روشنی میں کرسکتے ہیں
قرانِ پاک کی تعلیمات کے علاوہ اس کی ایک اور بڑی خوبی اس کی ترتیل ہے ، قران پاک کے ابتدائی احکامات میں اس کے پڑھنے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے سورۃ مزمل میں لفظ ترتیل استعمال کیا گیا جس سے مراد ہے کہ اس کو اس انداز سے پڑھا جائے جس سے آواز میں موسیقیت پیدا ہوجائے ۔ قرانِ پاک کے لفظ ایک خاص قسم کے پچ اور حیطہ رکھتے ہیں اور یہ پچ اور حیطہ تقریبا پورے قرانِ پاک میں ایک جیسا ہے ، اس لیے جب یہ کلام نازل ہوا تو عربی جو کہ خود کو فصاحت میں ید طولیٰ سمجھتے تھے کہ دیا کہ انسانی کلام ایسا نہیں ہو سکتا ۔ قرانِ پاک میں احکامات کے ساتھ دو باتوں پر خاص طور پر زور دیا گیا ۔ایک زُبان ، اس زبان میں نازل ہو جو زبان عربیوں کی ہے اور دوسرا عربیوں میں فصیح و بلیغ وہی کہلاتا تھا جس کا کلام بہترین شاعری کی صورت لیے ہوئے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے احکامات کے ساتھ عربیوں کو مانوس رکھنے کے لئے قران پاک کو بصورت شاعری اتارا کہ لوگ اس حکمت بھری کتاب میں شاعری کے اسرار و رموز سمجھتے ہوئے اس کو ترتیل سے پڑھیں ۔ اس کو ترتیل سےپڑھنے سے تلاوت دلوں پر اثر کرتی ہے کہ جس طرح موسیقی کا اثر دلوں پر ہوتا ہے ۔ اس لیے ہم جو قرانِ پاک کا علم نہیں رکھتے جب یہ کلام سنتے ہیں تو دل مسحور ہوجاتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا معجزہ ہے جو کہ انسانی کمالات کی حد سے پرے ہے ۔
قران پاک کو ترجمہ و تفسیر پڑھنے کے لیے ترتیبِ نزولی کا سہارا لیتے ہوئے اس کے اسرار و رموز کا جاننے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس حصے کو میں اس مقصد کے لیے مختص کرتے ہوئے گزارش کرتی ہوں کہ جو تبصرہ کرنے چاہے وہ اس لڑی میں تبصرہ ارسال کر سکتا ہے
تبصرہ جات یہاں پر ارسال کریں
آخری تدوین: