::::::: قران و سُنت کے سایے میں :::::: صِدق ::::: سچائی :::::::

:::::: صِدق ::::: سچائی :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بے حساب و بے شمار رحمتیں کر رکھی ہیں ، اللہ کی اپنے بندوں اور خاص طور پر ایمان والے بندوں پر رحمت کا تو انداز ہی جُدا ہے کہ اُن کے لیے اُن کی زندگیوں کے ہر ایک لمحے میں رحمت اور مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب رکھ دیا ، اور اپنے بندوں کی درجہ بندی فرما کر اُن کے اِیمان اور اعمال کے مطابق اُنہیں مختلف اِقسام میں بیان فرمایا اور اُن اعمال کو اپنی رحمت و مغفرت ، اجر و ثواب ، یا اپنے غیض و غضب ، سزا و عذاب کا سبب بیان فرمایا ،
ان اعمال میں سے دو کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ((((( لِیَجزِیَ اللَّہُ الصَّادِقِینَ بِصِدقِہِم وَیُعَذِّبَ المُنَافِقِینَ إِن شَاء أَو یَتُوبَ عَلَیہِم إِنَّ اللَّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیماً ::: تا کہ اللہ صِدق والوں کو اُن کے صِدق کی جزاء عطا فرمائے اور اگر چاہے تو منافقوں کو عذاب دے یا اُن کی توبہ قبول کرے بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے ))))) سورت الأحزاب/آیت 24،
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ خبر ملتی ہے کہ ، اِیمان کی بنیادوں میں سے اہم بنیاد صِدق ہے،اور منافقت کی بنیاد جھوٹ ہے ، پس ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں ایک جگہ اکٹھے ہوں ، ایک دوسرے کو پہچان لیں اور ان کا جھگڑا نہ ہو،
اور یہ خبر بھی ملتی ہے کہ مُنافقت آخرت میں عذاب کا سبب ہے جبکہ سچائی ثواب کا ، بلکہ معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ صرف ثواب پر موقوف نہیں ، بلکہ آخرت میں بندے کی نجات کے بنیادی اسباب میں سے ہے ، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے ((((( قَالَ اللّہُ ہَذَا یَومُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدقُہُم لَہُم جَنَّاتٌ تَجرِی مِن تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ ذَلِکَ الفَوزُ العَظِیمُ ::: اللہ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہہ رہے ہیں ، ان باغات میں یہ سچے لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ ہے عظیم کامیابی ))))) سورت المائدہ / آیت 119،
صِدق ، جسے عام طور پر ہم لوگ سچائی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، اور اس کا مفہوم سچ بولنا لیا جاتا ہے ، لیکن اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان ظاہری طور پر ، باطنی طور پر ، سب کے سامنے ، اور تنہائی میں ، غرضیکہ ہر وقت اس طرح رہے کہ اُس کا عمل اور اُس کے اقوال ، اسکا ظاہر اور اس کا باطن ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے ہوں ،
تمام قارئین اس مذکورہ بالا تعریف کو یاد رکھیں ، کہ اگلی گفتگو میں ''' سچائی ''' اور ''' سچا ''' جیسے الفاظ اسی مفہوم کے ساتھ ذکر کیے جائیں گے ، ان شاء اللہ ، نہ کہ ان الفاظ کے عام محدود مفہوم کے ساتھ،
اس سلسلے میں ایک خاص معاملہ یہ ہے کہ اِیمان کے لیے اِخلاص لازمی صفت ہے اور صِدق اِخلاص کو اپنے اندر لیے ہوتا ہے ، یعنی ہرایک صاحب صِدق مُخلص ہوتا ہے لیکن ہر مُخلص صاحبِ صِدق نہیں ہوتا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ،،،،،
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
:::گذشتہ سے پیوستہ:::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
::::::: صِدق کی پہچان تین درجوں پر ہوتی ہے :::::::
::::::: (1 ) ::::::: کسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہو کہ وہ صادق ، یعنی سچا ہے ،
::::::: (2) ::::::: کسی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ صُدُوق یعنی بہت سچا ہے ،
::::::: (3) ::::::: کسی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہ صِدِّیق یعنی بہت ہی زیادہ سچا ہے ،
اور یہ تیسرا درجہ ''' صِدق ''' کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے ، جس پر سب سے پہلے ایمان لانے والے مرد ، پہلے بلا فصل خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ و أرضاہُ کے فائز ہونے کی خبر دی گئی ، اِنہیں یہ لقب اس لیے ملا کہ جب سوائے ایمان والوں کی والدہ محترمہ امی جان خدیجہ رضی اللہ عنہا کے عِلاوہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں سننے والاہر ایک اس کی تکذیب کر رہا تھا تو ایسے میں ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ و أرضاہ نے اس پر ایمان لا کر اپنے ظاہر و باطن سے اپنے قول اور فعل سے اس کی تصدیق فرماتے ہوئے اس کو قبول فرمایا ،
اور پھر اس قبول اور تصدیق کے بعد سب سے پہلے ایمان لانے والے مرد ، پہلے بلا فصل خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ و أرضاہُ نے ہر حال اور ہر مقال میں ، زبان حال اور زبان قال سے ہمیشہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اِیمان رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت و فرمان برادری میں کہیں کوئی کمی یا جُھول نہیں ہونے دی ، اور ایسا قولی اور فعلی اِیمان رکھا کہ انبیاء اور رسولوں کے بعد سب سے زیادہ افضل ہستی قرار پائے ،

اللہ تعالی نے اُنہیں ، اُن کے اِس صِدق کا ، دُنیا میں ایک پھل تو یہ عنایت فرمایا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن کی محبت ہر ایک اِیمان والے اور اِیمان والی کے دِل میں راسخ کر دی ، اور دوسرا انعام یہ عطا فرمایا کہ ، ان کی بہت ہی زیادہ سچے ہونے کی خبر ہر ایک اِیمان والے اور اِیمان والی کے دِل و دماغ میں راسخ کر دی اُس کی زُبان اور قلم پر رائج کر دی ،
اور آخرت کے انعامات کے بارے میں خبر عطا فرمائی
((((( وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَأُولَ۔ئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنعَمَ اللّہُ عَلَیہِم مِّنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَ۔ئِکَ رَفِیقاً ::: اور جو اللہ کی اطاعت کرے گا اور رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) کی اطاعت کرے گا تو وہ (آخرت میں ) یقینا ، نبیوں اور صدیقوں اور شھیدوں اور نیکو کار لوگوں کے ساتھ ہو گا اور یہ ساتھی (تو) بہت ہی اچھے ہیں ))))) سورت النساء / آیت69 ،
اللہ سبحانہ و تعالیٰ یقینا یہ جانتا تھا کہ اُسکی مخلوق میں کچھ ایسے بد بخت بھی ہوں گے جنہیں اُس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پہلے بلافصل خلیفہ ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ کی یہ فضیلت بھی برداشت نہ ہو گی اس لیے اگلی ہی آیت میں ، ایمان والوں کی دِل جمعی کے لیے اور ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہُ سے بغض و عناد رکھنے والوں کے لیے عذاب کی خبر کے لیے اِرشاد فرمایا ((((( ذَلِکَ الفَضلُ مِنَ اللّہِ وَکَفَی بِاللّہِ عَلِیماً ::: یہ اللہ کی طرف سے فضل ہے اور اللہ (سب کے بارے میں) بہت اچھی طرح عِلم رکھنے والا کافی ہے ))))) سورت النساء /آیت (70)
اس آیت مبارکہ میں''' صدیق''' سے مُراد نبیوں علیھم السلام کے پیروکار ہیں ، اور یہ بتایا گیا ہے کہ انبیاء کے بعد ان کے درجہ ہوتا ہے ، ان ''' صدیقوں ''' کی تعریف یوں کی گئی کہ :::
یہ وہ لوگ ہیں جو انبیاء اور رسولوں کے براہ راست پیروکاروں ، ساتھیوں (صحابیوں) میں سے اپنے ''' صِدق''' اور ''' تصدِیق ''' کی قوت کی بنا پر سب سے بہترین ہوں ، اور یا انبیاء ہی کی طرف سے خاص طور پر چُنے گئے ہوں ،
اس صفت کی بنا پر یہ لوگ انبیاء کے بعد سب سے زیادہ افضل اور بُلند رُتبے والے ہیں ،
ان کے بعد والا درجہ ''' صادقین ''' کا ہے ، جن کی راہ پر چلتے ہوئے اُن کے ساتھ رہنے یعنی ، اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر ایمان اور اُن کی تابع فرمانی میں اُن کے ساتھ رہنے ، کا حُکم اللہ تعالیٰ نے دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا (((((یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّہَ وَکُونُوا مَعَ الصَّادِقِینَ::: اے ایمان لانے والو اللہ (کے غیض و عذاب ) سے بچو اور سچائی والوں کے ساتھ رہو ))))) سورت التوبہ / آیت 119،
یہ وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ چلے منافقین کے ساتھ نہیں ہوئے ، اور ان میں سب سے پہلا گروہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ،
اس آیت مبارکہ میں ''' صادقین ::: سچائی والوں ''' کی تفسیر میں چند اور اقول بھی مذکور ہیں ، پس کہا گیا کہ ''' صادقین ''' سے مُراد انبیاء اور رسول علیہم الصلاۃ و السلام ہیں ، اور کہا گیا کہ ''' صادقین ''' سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد پورے کیے ، اور کہا گیا کہ ''' صادقین ''' سے مُراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پہلے دو بلافصل خلیفہ ابو بکر الصدیق اور عُمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہما ہیں ، اور کہا گیا کہ ''' صادقین ''' سے مُراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ ہجرت کرنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین ہیں ، اور کیا گیا کہ ''' صادقین''' سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس طرح حق قبول کیا اور اسکی تصدیق کی کہ اُنکے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں ہوا ، ( تفسیر الطبری ، تفسیر القرطبی ) ،
(خیال رہے یہ مختلف اقوال اختلاف نہیں ہیں بلکہ تنوع فہم ہیں اور سب کے اپنی اپنی جگہ پر ایک صحیح مفہوم لیے ہوئے اور کوئی بھی اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کسی فرمان کے خلاف نہیں )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ،،،،،
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
:::گذشتہ سے پیوستہ ::: تیسرا حصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
:::::::::::::: صِدق یعنی ظاہر و باطن کی ہم آہنگ سچائی کے واقع ہونے کے مُقامات ::::::::::::::
اِمام ابن القیم رحمہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ''''' صِدق تین قسم کا ہوتا ہے ، قول میں ، عمل میں ، اور حال میں ،
::: اقوال میں صِدق ::: یہ ہوتا کہ ::: زُبان اپنی کہی ہوئی باتوں پر قائم رہے جیسے( کسی پودے کی) بالی اُس کے تنے پر قائم رہتی ہے
::: اعمال میں صِدق ::: یہ ہوتا ہے کہ ::: کاموں کو (اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے )احکام کے مطابق باقاعدگی اور مستقل مزاجی سے کیا جاتا رہے جیسا کہ جسم پر سر قائم ہوتا ہے ( سر سے مُراد دِماغ ہے ، یعنی ہر کام کو سوچ سمجھ کر باقاعدگی کے ساتھ کرواتا ہے اور جسم کو اپنے قابو میں رکھتا ہے اور اتنی ساری مشقت اسے جسم پر مضبوطی سے قائم رہنے میں مانع نہیں ہوتی )
:::حال و احوال ( زندگی کے مختلف حالات اور اوقات) میں صِدق ::: یہ ہوتا کہ دلی اعمال اور ظاہری خارجی أعضاء کے اعمال میں کو اپنی وسعت اور طاقت کو خوب اچھی طرح خرچ کرتے ہوئے مستقل مزاجی ، مضبوطی اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا جائے ، (مدارج السالکین)
::::::: صِدق کی نشانی ::::::: دِل کا اِطمینان :::::::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( دَع مَا یَرِیبُکَ إلی مَا لاَ یَرِیبُکَ فَإن الصِّدق َ طُمَأنِینَۃٌ وَإِنَّ الکَذِبَ رِیبَۃٌ ::: جو چیز تمہیں شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالے وہ اپنا لو صِدق اطمینان ہے اور جھوٹ شک ))))) سنن الترمذی / حدیث 2518 ، اور امام الترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے ، اور امام الالبانی نے اسے صحیح قرار دیا ،
پس صِدق کا حامل یعنی ظاہری و باطنی قولی اور فعلی طور پر سچا انسان بہت اچھی طرح سے اپنے افعال اور اقوال کے بارے میں اپنے دل کو اطمینان سے لبریز پاتا ہے اور اپنے اقوال و افعال پر بڑے ہی پر سکون حال میں قائم رہتا ہے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے ،،،،،
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
:::گذشتہ سے پیوستہ ::: چوتھاحصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
::::::: صِدق کے فائدے :::::::
صِدق کے بہت سے فائدے ہیں ، ہم اِن میں سے أہم ترین کا ذکر کرتے ہیں ،
::::::: پہلا فائدہ ::::::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا اِرشاد مُبارک ہے ((((( إِنَّ الصِّدقَ یَہدِی إلی البِرِّ وَإِنَّ البِرَّ یَہدِی إلی الجَنَّۃِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَصدُقُ حتی یَکُونَ صِدِّیقًا وَإِنَّ الکَذِبَ یَہدِی إلی الفُجُورِ وَإِنَّ الفُجُورَ یَہدِی إلی النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیَکذِبُ حتی یُکتَبَ عِندَ اللَّہِ کَذَّابًا ::: بے شک صِدق نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور یقینا نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اوروہ شخص جو صِدق پر (مستقل ) عمل پیرا رہتا ہے (اُسکے لیے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ) وہ اللہ کے ہاں صدیقوں میں لکھ لیا جاتا ہے اور جھوٹ یقینا برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی یقینا جہنم کی طرف لے جاتی ہے اور وہ شخص جو ہمیشہ جھوٹ بولتا رہے (اُسکے لیے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ) وہ اللہ کے ہاں جھوٹوں میں لکھ لیا جاتا ہے ))))) صحیح البُخاری / حدیث 7543/کتاب الادب / باب 69، صحیح مُسلم / حدیث 2607/ کتاب البر و الصلۃوالآداب/ باب 29،
یعنی جب کوئی اِنسان مستقل طور پر صِدق پر عمل پیرا رہتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں ''' صدیقین ''' میں شامل کر لیا جاتا ، ''' صدیقین ''' کے درجہ اور اجر و ثواب کے بارے میں بات گزر چکی جو اس عظیم فائدے کی أہمیت بتانے کے لیے کافی ہے ، ان شاء اللہ ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اس فرمان میں ہمیشہ جھوٹے بولنے والے کے لیے یہ وعید بھی ہے کہ وہ اللہ کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹے کا انجام تقریبا سب کو ہی معلوم ہے ، اپنے رواں موضوع تک محدود رہتے ہوئے میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ، پس صِدق کے اگلے فائدے کا ذکر کرتا ہوں ،
::::::: دوسرا فائدہ ::::::: اللہ کے ہاں ''' صدیقین ''' میں شُمار ہونے جانے کے نتیجے میں یقینا اہل جنت میں سے ہو جانا،
::::::: تیسرا فائدہ ::::::: صِدق والا لوگوں کی محبت اور ان کا اعتماد حاصل کر لیتا ہے ، اور اسے وہ احترام میسر ہو جاتا ہے جو کسی بڑے سے بڑے معاشرتی رتبے والا کو بھی میسر نہیں ہوتا ،
::::::: چوتھا فائدہ ::::::: نفس کا اطمینان حاصل ہوتا ہے ،
::::::: پانچواں فائدہ ::::::: صِدق مصیبتوں اور پریشانیوں سے نکلنے کا سبب بنتا ہے ، جیسا کہ حدیث مبارک میں غار میں پھنس جانے والے تین آدمیوں کے واقعہ میں ملتا ہے کہ انہوں نے صِدق سے کیے ہوئے اعمال اللہ کے سامنے پیش کیے اور اللہ نے ان کی تصدیق فرماتے ہوئے ان کو مصیبت سے نجات دی ،
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ''' اگر جھوٹ کسی پریشانی سے نکلنے کا سبب بنتا ہے تو صِدق اس سے کہیں زیادہ اور مظبوط سبب ہے کیونکہ جھوٹ تو حقیقتاً کسی مصیبت سے نجات نہیں دلاتا بلکہ وہ تو دھوکہ دہی اور حق کو چھپا کر ایک مصیبت سے نکل کر دوسری مصیبت میں داخل کروانے والا ہوتا ہے '''
::::::: چَھٹا فائدہ ::::::: اللہ کے حُکم سے رزق میں برکت اور زیادتی کا سبب ہوتا ہے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے کہ ((((( البَیِّعَانِ بِالخِیَارِ ما لم یَتَفَرَّقَا فَإِن صَدَقَا وَبَیَّنَا بُورِکَ لَہُمَا فی بَیعِہِمَا وَإِن کَذَبَا وَکَتَمَا مُحِقَت بَرَکَۃُ بَیعِہِمَا ::: دوبا اختیار خرید و فروخت کرنے والے (خرید و فروخت کر کے ) الگ ہونے سے پہلے اگر صِدق والا معاملہ کریں گے تو اُن کے لیے اُن کی خرید و فروخت میں برکت دی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں اور ( سامان کا عیب )چھپاتے ہیں تو ان کی خرید و فروخت کی برکت مِٹا دی جاتی ہے ))))) صحیح البُخاری / کتاب البیوع /باب 44، صحیح مُسلم / کتاب البیوع / باب 11 ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
صِدق کی تعریف ،اُس کے موجود ہونے کے مُقامات، اُس کی نشانی ، اور اُس کے فوائد جاننے کے بعد اِن شاء اللہ ہم یہ سیکھیں گے کہ وہ کون سے طریقے یا ذرائع ہیں جن کو استعمال کر کے ہم اپنی اولاد کے دِلوں میں صِدق کا پودے لگا اور اُگا سکتے ہیں ، اِن شاء اللہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ،،،،،،
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
:::گذشتہ سے پیوستہ ::: پانچواںحصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
::::::::::: صِدق کے حصول کےچند اہم ذرائع :::::::::::​
::::::: پہلا ذریعہ ::::::: والدین کا اپنا عمل ::::::: یہ سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہے جس کو استعمال کر کے ہم اپنی اولاد کے دِلوں اور دِماغوں میں کچھ بھی ڈال سکتے ہیں او راُسے راسخ کر سکتے ہیں اور اس طرح کہ انہیں یہ احساس بھی نہ ہو کہ انہیں کیا سکھایا جا رہا ہے ،
اگر بچے یہ دیکھیں کہ ان کے والدین ہر معاملے میں سچ پر عمل پیرا رہتے ہیں ، ان کے قول اور ان کے فعل ایک دوسرے کی تصدیق کرنے والے ہوتے ہیں ، تو بچے خود بخود ایسا ہی کرنا سیکھتے چلے جائیں گے ، اور جب یہ کام اُن کی زندگیوں کا لازمہ بن جائے اور وہ کہی ہوئی بات کو سمجھنے کے قابل ہو جائیں تو پھر انہیں صِدق کے بارے میں معلومات اور قولی تعلیم کا آغاز کیاجانا چاہیے ،
ذرا سوچیے ایسے والدین جو سچے نہیں ہوتے ، ان کے قول اور فعل ان کے ظاہر اور باطن ایک دوسرے کی تصدیق کرنے کی بجائے تکذیب کرتے ہیں ایسے والدین کی اولاد بھی خودبخود جھوٹ اور دھوکہ دہی سیکھتی چلی جاتی ہے اور پھر بعد میں ، یا ساتھ ہی ساتھ کی جانے والی نصیحت کسی کام نہیں آتی ،
مثلاً بچے دیکھتے اور سنتے ہیں کہ ان کے والد صاحب لوگوں سے جھوٹ بولتے ہیں اپنے کام نکلوانے کے لیے ، اپنی تجارت چلانے کے لیے ، اپنی ساکھ بنانے کے لیے ، لوگوں میں اپنی شان بنانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں ، اور کچھ ایسا ہی معاملہ والدہ کا بھی ہوتا ہے ،

عام روزمرہ کے معمولات میں ایسے جھوٹ اور دھوکہ باری کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں ، جیسا کہ والد کسی کے آنے پر یا کسی کے فون آنے پر بچوں میں سے کسی کو کہتے ہیں کہ کہہ دو ابو گھر پر نہیں ہیں ، یا ، کہہ دو کہ ابو سو رہے ہیں '''وغیرہ وغیرہ ، اور والدہ چند روپے کی چیز کی قیمت کئی سو میں بتاتی دکھائی دیتی ہیں، خاوند کی دی ہوئی چیز یا خود خریدی ہوئی چیز کو میکے کا تحفہ بتاتے ہوئے سنائی دیتی ہیں ، وغیرہ وغیرہ ،
بچے یہ غیر محسوس تربیت اور تعلیم صرف اپنے والدین سے ہی حاصل نہیں کرتے بلکہ اپنے خاندان اور اپنے اِرد گِرد کے ہر بڑے سے حاصل کرتے ہیں ، پس جب یہ والد یا والدہ ، خاندان کے بڑے ، معاشرے میں بڑے بچوں کو جھوٹ بولنے سے منع کرتے ہیں یا ڈانٹتے ہیں تو ان بچوں کے دِلوں میں اپنے والدین اور بڑوں کے لیے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جن کے نتائج بعد میں نکل کر ہی رہتے ہیں ، جن میں سے سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اولاد اپنے کاموں کے بارے میں ان والدین سے جھوٹ بولنے لگتی ہے اور ان کو دھوکہ دینے لگتی ہے ، ( ایسے ہی مزید کاموں کا ذکر """ بچوں میں جھوٹ بولنے کے اسباب """ میں کر چکا ہوں)
پس یہ ہم سب کا اجتماعی فریضہ ہے کہ ہم صِدق کو اپنائیں رکھیں تا کہ ہم اپنی مانے والے نئی نسل اور ان کے ذریعے ان کے بعد آنے والے اگلی نسلوں میں صِدق کے پودے لگاتے جائیں اور جھوٹ اور دھوکہ دہی کی بیج کنی کرتے جائیں ، اللہ ہم سب کو جھوٹ اور دھوکہ دہی سے محفوظ رکھے اور ہماری نسلوں کو بھی ،
::::::: دوسرا ذریعہ ::::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ، صفات اور قدرت کی پہچان :::::::
اللہ کی ذات پاک ، اس کی صفات اور اس کی قدرت کی پہچان انسان کے اندر وہ احساسات اجاگر کرنے کا اہم سبب ہے اور انسان کو جھوٹ سے دور رکھنے اور صِدق کی مزلیں طے کروانے کا اہم سبب ہے ،
::::::: تیسرا ذریعہ ::::::: دُنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی ہمیشگی کا یقین :::::::
دُنیا اور اس کی سجاوٹ اور اس کے پھلوں اور پھولوں کی حقیقت جان کر اُس کی طرف راغب نہ رہنا اور آخرت کی حقیقت جان کر اس میں خیر اور فائدے کے حصول کی تگ ودو بھی انسان کو مسالکءِ صِدق کا سالک بنانے کا سبب ہے ،
یہاں ایک اور مضمون """ دُنیا کے پھل و پھول خوفناک ہیں""" کے مطالعے کا مشورہ پیش کرتا ہوں ، اور اپنی اگلی بات کی طرف چلتا ہوں،
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا دِین ، جس سے ہم منسوب ہیں ، اللہ نے اپنے ایمان والے بندوں کے لیے آسانی بنایا ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندوں کے لیے آسانی چاہتا ہے ((((( یُریدُ اللہُ بِکُم الیُسرَ ولا یُریدُ بِکُم العُسر::: اللہ تُم لوگوں کے لیے آسانی چاہتا اور تُم لوگوں کے لیے تنگی نہیں چاہتا ))))) سورت البقرہ ، پس اپنی اس شفقت کے مطابق ، اپنی مکمل بے عیب حِکمت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زُبان مُبارک سے اِیمان والوں کے لیے ، صِدق کی مشقت میں سے کچھ رُخصت یعنی چُھوٹ کے مواقع بھی عطا فرمائے ، صِدق کے بارے میں یہ بنیادی معلومات جاننے کے بعد میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان مواقع کے بارے میں بھی مختصر طور پر کچھ بات کر لی جائے ، اِن شاء اللہ اگلے حصے میں اُن مواقع کے بارے میں‌بات کروں گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ،،،،،
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
:::گذشتہ سے پیوستہ ::: چَھٹا حصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
::::::: وہ حالات جِن میں جھوٹ بولنا جائز ہے :::::::
::::::: (1) ::::::: ام کلثوم بنت عُقبہ رضی اللہ عنہا کا کہنا ہے کہ ''' میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اِرشاد فرماتے ہوئے سُنا کہ ((((( لَیس الکَذَّابُ الذی یُصلِحُ بَینَ النَّاس فَیَنمِی خَیرًا أو یقول خَیرًا ::: وہ جھوٹا نہیں جو لوگوں میں دُرستگی کے لیے (جھوٹ بولے تا کہ اس طرح ) خیر میں اضافہ کرے یا خیر کی بات کرتا ہو ))))) صحیح البخاری / کتاب الصُلح / باب 2، صحیح مُسلم /حدیث 2605/کتاب البر والصلہ و الآداب/باب 27،
::::::: (2) ، (3) ، (4) ::::::: کچھ اور روایات میں اس کے ساتھ کچھ اور مواقع کا بھی ذکر ہے ((((( ولم أَسمَع یُرَخَّصُ فی شَیء ٍ مِمَّا یقول الناس کَذِبٌ إلا فِی ثَلَاثٍ (1) الحَربُ وَ (2)الإِصلَاحُ بَینَ النَّاس وَ (3) حَدِیثُ الرَّجُلِ امرَأَتَہُ وَحَدِیثُ المَرأَۃِ زَوجَہَا ::: لوگ جو جھوٹ بولتے ہیں اُن جھوٹ میں سے میں نے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سوائے تین معاملات میں جھوٹ کی اجازت دینے کے لیے علاوہ (کسی اور معاملہ میں اجازت دیتے ہوئے ) نہیں دیکھا (1) جنگ (2) لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے میں (3) خاوند کی اپنی بیوی سے بات کرنے میں اور بیوی کی اپنے خاوند سے بات کرنے میں (یعنی ایک دوسرے کی ناراضگی دُور کرنے کے لیے ))))) صحیح مُسلم /کتاب البر و الصلۃ و لاآداب / با ب 27 ، یہاں یہ بات امام ابن شہاب الزہری رحمہُ اللہ کی طرف سے روایت ہے ، اور سنن البیہقی ، سنن النسائی ، المعجم الکبیر للطبرانی ، اور مسند احمد وغیرہ میں صراحت کے ساتھ یہ الفاظ ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہیں نہ کہ امام ابن شہاب الزہری رحمہُ اللہ سے ، امام البخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو حدیث کو الادب المُفرد میں روایت کیا ، جس میں لفظ''' الحَرب ::: جنگ ''' نہیں ، بلکہ صِرف '''' اِصلاح ::: دُرستگی'''' کو ایک چیز کے طور پر بیان کیا گیا ہے ، امام الالبانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے ،الادب المُفرد (بتعلیقاتہ) /حدیث 385، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ 545 ،
اِمام النووی رحمہُ اللہ تعالیٰ نے ریاض الصالحین /کتاب الامور المنھی عنہا /باب تحریم الکذب میں لکھا ''''' بات کسی بھی مقصد کی تکمیل کے لیے مختلف ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور (شرعی لحاظ سے ) ہر تعریف شُدہ اچھے مقصد کی تکمیل سچائی اور جھوٹ دونوں کے ذریعے ہو سکتی ہے ، لیکن جھوٹ حرام ہے کیونکہ (حقیقتاً ) اس کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہوتی ، لیکن اگر کسی ایسے (یعنی شرعی لحاظ سے تعریف شُدہ اچھے ) مقصد کی تکمیل کے لیے سچ میسر نہ ہو اور جھوٹ کے ذریعے ایسا ممکن ہو تو ایسی صورت میں جھوٹ اُس (شرعی لحاظ سے تعریف شُدہ اچھے ) مقصد کی تکمیل کے جائز ہوجاتا ہے ، مثلاً اگر کوئی کسی کو قتل کرنے کا اِرداہ کیے ہوئے آئے اور اسے (یعنی قتل کرنے کے اِرادے والے سے ) یہ کہہ دیا جائے کہ وہ (یعنی جسے قتل کرنا چاہتا ہے ) موجود نہیں یا کہیں سفر پر چلا گیا ہے وغیرہ تو ایک مسلمان کی جان بچانے کے لیے ایسا جھوٹ جائز ہے ، اور اسی طرح (ایک اور مثال کے طور پر بتایا جا رہا ہے کہ) اگر کوئی کسی کا مال چوری کرنا چاہے اور یہ صاحبِ مال اپنا مال بچانے کے لیے چور سے یہ کہہ دے کہ میرے پاس مال نہیں ہے ،یا مال یہاں نہیں ہے وغیرہ '''''
اِمام النووی رحمہُ اللہ نے ہی شرح صحیح مُسلم/ کتاب البر والصلہ و الآداب/باب 27میں اِمام قاضی عیاض رحمہُ اللہ کی بیان کردہ شرح لکھی جس کا اجمالی طور پر مفہوم یہ کہ ''''' کچھ لوگ اس اجازت کو مذموم (مذمت کیے گئے ، برے قرار دیے گئے ) یعنی ایسے جھوٹ جس میں مسلمانوں کے لیے نقصان ہو کو جائز قرار دینے کے لیے اِستعمال کرتے ہیں ، جبکہ یہ اجازت اُس جھوٹ کے لیے جس میں مسلمانوں کے لیے خیر اور درستگی ہو ، اور اس بات کی دلیل کے طور پر إِبراہیم علیہ السلام کے اس فرمان کو پیش کیا جاتا ہے (جو اللہ تعالیٰ نے قران الکریم میں بیان فرمایا کہ جب اِبراہیم علیہ السلام کی قوم نے اُن کے بُت توڑے جانے پر سوال کیے اور جواب میں اِبراہیم علیہ السلام نے فرمایا ) ((((( بَل فَعَلَہُ کِبِیرُھُم ھَذا ::: بلکہ یہ کام تو اِن بُتوں کے اس بڑے (والے بُت) نے کیا ہے ))))) سورت الأنبیاء / آیت23 ،
اور (جب اِبراہیم علیہ السلام کو اُن کی قوم نے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا تو )انہوں نے یہ بھی فرمایا
((((( إِنِّی سَقِیمٌ ::: میں بیمار ہوں ))))) سورت الصافات / آیت 89 ،
اور (جب اُن علیہ السلام سے اُن کی بیوی کے بارے میں پوچھا گیا تو اِرشاد فرمایا کہ) ''''' ھی اُختی ::: یہ میری بہن ہے ''''' تو یہ تین مُقامات ایسے ہیں جِن میں اِبراہیم علیہ السلام کے بارے میں یہ خبر ملتی ہے کہ اُنہوں نے جھوٹ بولا ، اور اس کی تشریح میں کہا جاتا ہے کہ ''' یہ سب جھوٹ مصلحت کی بنا پر تھے تاکہ اِبراہیم علیہ السلام اپنی جان کی حفاظت کر سکیں اور اپنی بیوی کو اُس مصیبت سے محفوظ کر سکیں جس کی دھمکی اُن کو دی گئی تھی ''' اور یہ بھی کہا گیا کہ ''' یہ ممکن (یعنی جائز )ہے ایسے کاموں میں جھوٹ سے مدد لی جائے ''' (شرح النووی علی صحیح مُسلم)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان شاء اللہ اگلے حصے میں """ جھوٹ اور دِکھاوے کی بات """ کے فرق کے بارے میں بات ہو گی ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ،،،،،
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ،
:::گذشتہ سے پیوستہ ::: ساتواں اور آخری حصہ :::
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
::::::: جھوٹ اور دِکھاوے کی بات میں فرق :::::::

دِکھاوے کی بات جسے عربی میں ''' التوریۃٌ ''' کہا جاتا ہے ، یعنی ایک بات کی آڑ میں دوسری بات کو چھپانا ، اس سے مُراد ذومعنی بات ہے ، یعنی ایسی بات جس کے دو یا دو سے زیادہ معنی ہو ں ، کہنے والا کا مقصد وہ نہ ہو جو ظاہری الفاظ سے عیاں ہوتا ہو ، بلکہ باطنی معنیٰ میں پوشیدہ ہو ، جو کہ سننے والے کی رسائی میں نہ آ سکتا ہو ،
علامہ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ''' ''' ''' ایسا کرنا دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے (1) ایسی بات میں استعمال شدہ الفاظ اس دوسرے معنیٰ کے محتمل ہوں ، اور (2) وہ بات ظُلم ( یعنی کسی گناہ ) کے لیے نہ ہو ''' ''' ''' فتاویٰ عُلماء البلد الحرام ، ص1722،
اس قسم کی بات کی دلیل کے طور پر ایک تو اِبراہیم علیہ السلام کا مذکورہ بالا فرمان کہ جب انہوں نے اپنی بیوی کے بارے میں یہ کہا کہ ''' ھی اُختی ::: وہ میری بہن ہے ''' ، کہ اس طرح انکی مراد یہ تھی کہ اُن کی بیوی بحیثیت مسلمان ان کی مسلمان بہن تھیں
اور دوسری دلیل خلیفہ اول بلا فصل ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی وہ بات جو انہوں مدینہ المنورہ کی طرف ہجرت کے دوران فرمائی کہ جب راستے میں لوگ ان سے اُن کے ساتھی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے بارے میں پوچھتے کہ یہ کون ہیں تو اس ڈر سے کہ کہیں قریش کو خبر نہ کر دے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بارے میں یہ بتاتے کہ ''''' ھذا ھادی یھدینی الی الطریق ::: یہ راہنما ہیں مجھے راستہ دکھا رہے ہیں ''''' ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ جو فرما رہے تھے وہ بالک سچ تھا ، لیکن سننے والے کو لامحالہ یہ ہی سمجھ آتا کہ یہ کوئی مقامی راستے جاننے والا ایسا راہبر ہے جسے ابو بکر نے اپنے ساتھ اجرت پر لے رکھا ہے تا کہ انہیں ریگستان اور پہاڑوں وغیرہ میں راستہ دکھا کر بتا کر ان کی منزل مقصود یثرب (مدینہ المنورہ ) تک پہنچا دے ، اور ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کی بات سے اُنکی مراد مدینہ کی طرف راستہ نہ تھا بلکہ اللہ کی طرف ، اللہ کی رضا اور اللہ کی جنت کی طرف
کا راستہ تھا ،
اس سفر میں مدینہ منورہ کی طرف راستہ بتانے کے لیے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے عبداللہ بن أریقط کو اُجرت پر لے رکھا تھا ، لیکن ابو بکر الصدیق کی اس ذومعنی بات سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو زمینی راستہ بتانے والا راہبر سمجھتے ، تو ایسی بات کو جھوٹ نہیں کیا جاتا ، گو کہ ظاہری طور پر یہ جھوٹ ہی لگتی ہے ، اور ایسی بات کسی شرعاً جائز اور فائدہ مند عمل کے لیے کہی جانا جائز ہے ،
اس قسم کی بات کو '''التوریۃ '''بھی کہا جاتا ہے جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا اور اس کو ''' المعاریض ''' بھی کہا جاتا ہے ، دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کہ کوئی شخص کوئی چیز دکھا کر یا کہہ کر کچھ اور دکھانا یا کہنا چاہتا ہو ،
خیال رہے کہ یہ تقیہ نہیں ، جو لوگ تقیہ کرتے اور کرنے کا کہتے ہیں وہ کسی خیر کے لیے ایسا نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کے نقصان کے لیے اپنے شر کو چھپانے اور خیر اور اِیمان کے طور پر دکھانے کے لیے جھوٹے قول و فعل ادا کرتے ہیں ،
ہم نے جو جھوٹ ، یا سچی ذومعنی بات کرنے کے جواز کا ذکر کیا ہے وہ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ بات اسلام اور مسلمانوں کے لیے خیر والی ہو ، جبکہ تقیہ میں یہ شرط بالکل نہیں پائی جاتی بلکہ اس کا اُلٹ ہے ،
اپنے بنیادی موضوع ''' صِدق ''' کی طرف آتے ہوئے اختتامی یاد دہانی کے طور پر کہتا ہوں کہ ،
::::: صِدق وہ راہ ہے کہ اس کے چھوڑنے والے اللہ کی راہ سے کٹ جانے والے اور ھلاک ہوجانے والے ہوجاتے ہیں ،
::::: صِدق وہ راہ ہے جو اپنے راہیوں کو اہل نفاق اور اہل کفر اور اہل شرک سے الگ اور ممتاز کرتی ہے ،
::::: صِدق وہ راہ ہے جو اہل جنت اور اہل جہنم میں فرق کرتی ہے ، کہ اس پر چلنے والے جنت میں جانے والے ہو جاتے ہیں اِن شاء اللہ ، اور اس کو چھوڑنے والے جہنم میں جانے والے ، اِن شاء اللہ ،
ابو القاسم الجنید بن محمد القواریری جو اہل تصوف کے ایک بڑے عالم تھے ، سے کیا خوب بات منسوب ہے کہ ''''' صِدق (پر عمل پیرا رہنا )ایسا ہے جیسا کہ پہاڑوں کو اٹھائے رکھنا کہ جس پر بہت ہی مضبوط اِرداہ والے لوگ قائم رہ سکتے ہیں اور یہ لوگ اس وزن کے نیچے کسی حاملہ کی طرح رہتے ہیں جو اپنا حمل اٹھائے مشقت اور تکلیف میں اپنا وقت گذارتی ہے ، اور جھوٹ کسی پَر کی طرح ہلکا ہوتا ہے ، جس کا کوئی وزن اور تکلیف جھوٹا شخص محسوس نہیں کرتا اس لیے وہ اُسے اُٹھائے ہوئے جہاں چاہتا ہے لیے چلتا ہے اور اِستعمال کرتا رہتا ہے '''''
و السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
مصادر و مراجع ::: صحیح البُخاری ، صحیح مُسلم ، سنن البیہقی ، سنن النسائی ، المعجم الکبیر للطبرانی ، اور مسند احمد، السلسہ الاحادیث الصحیحہ ، موسوعہ النضرۃ النعیم ، آداب الصِدق (ڈاکٹر أحمد بن عبداللہ الباتلی) ، مدارج السالکین (امام ابن القیم ) ، صلاح الاُمہ فی عُلو الہِمۃ ( شیخ محمد بن عُثیمین) ۔
مضمون کا برقی نسخہ """ یہاں """ سے نازل کیا جا سکتا ہے ۔
اپنی دعاوں میں یاد رکھا کیجیے ، والسلام علیکم۔
 
Top