عادل ـ سہیل
محفلین
:::::: صِدق ::::: سچائی :::::::
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بے حساب و بے شمار رحمتیں کر رکھی ہیں ، اللہ کی اپنے بندوں اور خاص طور پر ایمان والے بندوں پر رحمت کا تو انداز ہی جُدا ہے کہ اُن کے لیے اُن کی زندگیوں کے ہر ایک لمحے میں رحمت اور مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب رکھ دیا ، اور اپنے بندوں کی درجہ بندی فرما کر اُن کے اِیمان اور اعمال کے مطابق اُنہیں مختلف اِقسام میں بیان فرمایا اور اُن اعمال کو اپنی رحمت و مغفرت ، اجر و ثواب ، یا اپنے غیض و غضب ، سزا و عذاب کا سبب بیان فرمایا ،
ان اعمال میں سے دو کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ((((( لِیَجزِیَ اللَّہُ الصَّادِقِینَ بِصِدقِہِم وَیُعَذِّبَ المُنَافِقِینَ إِن شَاء أَو یَتُوبَ عَلَیہِم إِنَّ اللَّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیماً ::: تا کہ اللہ صِدق والوں کو اُن کے صِدق کی جزاء عطا فرمائے اور اگر چاہے تو منافقوں کو عذاب دے یا اُن کی توبہ قبول کرے بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے ))))) سورت الأحزاب/آیت 24،
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ خبر ملتی ہے کہ ، اِیمان کی بنیادوں میں سے اہم بنیاد صِدق ہے،اور منافقت کی بنیاد جھوٹ ہے ، پس ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں ایک جگہ اکٹھے ہوں ، ایک دوسرے کو پہچان لیں اور ان کا جھگڑا نہ ہو،
اور یہ خبر بھی ملتی ہے کہ مُنافقت آخرت میں عذاب کا سبب ہے جبکہ سچائی ثواب کا ، بلکہ معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ صرف ثواب پر موقوف نہیں ، بلکہ آخرت میں بندے کی نجات کے بنیادی اسباب میں سے ہے ، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے ((((( قَالَ اللّہُ ہَذَا یَومُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدقُہُم لَہُم جَنَّاتٌ تَجرِی مِن تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ ذَلِکَ الفَوزُ العَظِیمُ ::: اللہ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہہ رہے ہیں ، ان باغات میں یہ سچے لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ ہے عظیم کامیابی ))))) سورت المائدہ / آیت 119،
صِدق ، جسے عام طور پر ہم لوگ سچائی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، اور اس کا مفہوم سچ بولنا لیا جاتا ہے ، لیکن اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان ظاہری طور پر ، باطنی طور پر ، سب کے سامنے ، اور تنہائی میں ، غرضیکہ ہر وقت اس طرح رہے کہ اُس کا عمل اور اُس کے اقوال ، اسکا ظاہر اور اس کا باطن ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے ہوں ،
تمام قارئین اس مذکورہ بالا تعریف کو یاد رکھیں ، کہ اگلی گفتگو میں ''' سچائی ''' اور ''' سچا ''' جیسے الفاظ اسی مفہوم کے ساتھ ذکر کیے جائیں گے ، ان شاء اللہ ، نہ کہ ان الفاظ کے عام محدود مفہوم کے ساتھ،
اس سلسلے میں ایک خاص معاملہ یہ ہے کہ اِیمان کے لیے اِخلاص لازمی صفت ہے اور صِدق اِخلاص کو اپنے اندر لیے ہوتا ہے ، یعنی ہرایک صاحب صِدق مُخلص ہوتا ہے لیکن ہر مُخلص صاحبِ صِدق نہیں ہوتا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ،،،،،
بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ ::: بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بے حساب و بے شمار رحمتیں کر رکھی ہیں ، اللہ کی اپنے بندوں اور خاص طور پر ایمان والے بندوں پر رحمت کا تو انداز ہی جُدا ہے کہ اُن کے لیے اُن کی زندگیوں کے ہر ایک لمحے میں رحمت اور مغفرت اور درجات کی بلندی کا سبب رکھ دیا ، اور اپنے بندوں کی درجہ بندی فرما کر اُن کے اِیمان اور اعمال کے مطابق اُنہیں مختلف اِقسام میں بیان فرمایا اور اُن اعمال کو اپنی رحمت و مغفرت ، اجر و ثواب ، یا اپنے غیض و غضب ، سزا و عذاب کا سبب بیان فرمایا ،
ان اعمال میں سے دو کو بیان فرماتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا ((((( لِیَجزِیَ اللَّہُ الصَّادِقِینَ بِصِدقِہِم وَیُعَذِّبَ المُنَافِقِینَ إِن شَاء أَو یَتُوبَ عَلَیہِم إِنَّ اللَّہَ کَانَ غَفُوراً رَّحِیماً ::: تا کہ اللہ صِدق والوں کو اُن کے صِدق کی جزاء عطا فرمائے اور اگر چاہے تو منافقوں کو عذاب دے یا اُن کی توبہ قبول کرے بے شک اللہ بخشش کرنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے ))))) سورت الأحزاب/آیت 24،
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں یہ خبر ملتی ہے کہ ، اِیمان کی بنیادوں میں سے اہم بنیاد صِدق ہے،اور منافقت کی بنیاد جھوٹ ہے ، پس ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ یہ دونوں ایک جگہ اکٹھے ہوں ، ایک دوسرے کو پہچان لیں اور ان کا جھگڑا نہ ہو،
اور یہ خبر بھی ملتی ہے کہ مُنافقت آخرت میں عذاب کا سبب ہے جبکہ سچائی ثواب کا ، بلکہ معاملہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ صرف ثواب پر موقوف نہیں ، بلکہ آخرت میں بندے کی نجات کے بنیادی اسباب میں سے ہے ، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے ((((( قَالَ اللّہُ ہَذَا یَومُ یَنفَعُ الصَّادِقِینَ صِدقُہُم لَہُم جَنَّاتٌ تَجرِی مِن تَحتِہَا الأَنہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنہُم وَرَضُوا عَنہُ ذَلِکَ الفَوزُ العَظِیمُ ::: اللہ نے فرمایا یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کی سچائی نفع دے گی ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہہ رہے ہیں ، ان باغات میں یہ سچے لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے یہ ہے عظیم کامیابی ))))) سورت المائدہ / آیت 119،
صِدق ، جسے عام طور پر ہم لوگ سچائی کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، اور اس کا مفہوم سچ بولنا لیا جاتا ہے ، لیکن اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان ظاہری طور پر ، باطنی طور پر ، سب کے سامنے ، اور تنہائی میں ، غرضیکہ ہر وقت اس طرح رہے کہ اُس کا عمل اور اُس کے اقوال ، اسکا ظاہر اور اس کا باطن ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے ہوں ،
تمام قارئین اس مذکورہ بالا تعریف کو یاد رکھیں ، کہ اگلی گفتگو میں ''' سچائی ''' اور ''' سچا ''' جیسے الفاظ اسی مفہوم کے ساتھ ذکر کیے جائیں گے ، ان شاء اللہ ، نہ کہ ان الفاظ کے عام محدود مفہوم کے ساتھ،
اس سلسلے میں ایک خاص معاملہ یہ ہے کہ اِیمان کے لیے اِخلاص لازمی صفت ہے اور صِدق اِخلاص کو اپنے اندر لیے ہوتا ہے ، یعنی ہرایک صاحب صِدق مُخلص ہوتا ہے لیکن ہر مُخلص صاحبِ صِدق نہیں ہوتا ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مضمون جاری ہے ،،،،،