عادل ـ سہیل
محفلین
::::: قران و سُنّت کے باغ میں سے :::::
::::: اللہ کے ہاں دُعا ء کی قُبُولیت کے نُسخہ جات ::::
بِسمِ اللہ الذی یسمع ، و یُجیب الدَّعوات الدَّاعِ مِن دُون الواسطۃِ أو الوسیلۃ و الصَّلاۃُ و السَّلام ُعلیٰ رسولِ اللہ
اللہ تعالیٰ نے اِرشاد فرمایا (((((وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ::: اور اگر (اے محمد)میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو یقیناً میں(اُن کے ) قریب ہوں ،جب (کوئی)مجھے پکارتا ہے (دُعا کرتا ہے ، سوال کرتا ہے) تو میں دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں ، لہذا (سب ہی) لوگ میری بات قُبُول کریں اور مجھ پر اِیمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پا جائیں )))))سُورت البقرہ(2)/آیت186 ،
اللہ تبارک وتعالیٰ کا یہ فرمان مبارک اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ ہم سے بالکل قریب ہے اور ہماری دُعائیں سُنتا ہے اور قُبُول فرماتا ہے ،
پس لوگوں کا یہ کہنا اور سمجھنا کہ اللہ تو ہماری سُنتا نہیں ، یا فُلاں لوگوں کی سنتا ہے اور فُلاں لوگوں کی نہیں سنتا ، فُلاں کی مانتا ہے ، اور فُلاں کی نہیں مانتا ، ہماری سنتا نہیں اور فُلاں کی ٹالتا نہیں ، اس قِسم کے سب ہی عقائد اور خیالات اللہ تبارک و تعالیٰ کے اِس فرمان مبارک کا بھی انکار ہیں ، یعنی دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے گا کہ ایسے عقائد یا خیالات اللہ تبارک و تعالیٰ کے مذکورہ بالا فرمان کا کفر ہیں ، اس کفریہ عقیدے اور خیا ل کا شِکار کرنے کے بعد شیطان مردود اور اس کے پیروکار ، اللہ کے بندوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ سے دُعا کرنے میں شِر ک کی راہوں پر گامزن کر دیتے ہیں ، اور اللہ عزّ و جلّ کوبراہ راست پُکارنے اور برراہ راست اُس سے دُعا ء کرنے کی بجائے انہیں اللہ کے ساتھ شریک بنانے ، اور اپنانے میں لگا دیتے ہیں ،
یہ بھی یاد رکھیے ، اور ہمیشہ یاد رکھیے کہ کوئی بھی بات پہلے سنی جاتی ہے اور پھر قبول یا رد کی جاتی ہے ، اور ہمارے اللہ نے ہمیں یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ دعائیں قبول کرتا ہے ، لہذا دُعائیں سنا جانا تو قبول کیے جانے سے زیادہ یقینی امر ہوا ،
لہذا ، ہمیں اللہ جلّ جلالہ کی طرف سے یہ مذکورہ بالا خوش خبری والا اعلان سننے ، پڑھنے کے بعد نہ صِرف ایسے کفریہ عقائد اور خیالات سے توبہ کرتے ہوئے انہیں ترک کرنا چاہیے بلکہ یہ بھی سوچنا ، بلکہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دِیا کہ(((((أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ:::جب (کوئی)مجھے پکارتا ہے (دُعا کرتا ہے ، سوال کرتا ہے) تو میں دُعا کرنے والے کی دُعا قُبُول کرتا ہوں))))) وہ تو ہماری دعائیں قُبُول فرماتا ہے ،
پس ہمیں اِس فرمان مبارک پر مکمل اِیمان رکھنا چاہیے ، نہ کہ اِس فرمان مبارک کے خِلاف یہ سوچنا چاہیے کہ اللہ ہماری نہیں سنتا یا نہیں مانتا وغیرہ ، اور اگر ہمیں ہماری دُعائیں قبول ہوتی ہوئی محسوس نہیں ہوتِیں تو ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین مبارکہ کے مطابق ہی اِس معاملے کو سمجھنا چاہیے ، نہ کہ اُن کے فرامین مبارکہ کے خلاف ،
ہماری زیر مطالعہ آ یت مبارکہ میں بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہمیں ایک ایسا نسخہ بتایا گیا ہے جِس پر عمل کرنے سے ہماری دُعائیں جلد قبول ہو سکتی ہیں ، جی ہاں ، اسی آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم فرمایا ہے کہ (((((فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي ::: لہذا (سب ہی) لوگ میری بات قُبُول کریں )))))، یہ ہی وہ نسخہ جِس پر عمل کرنے سے ہماری دُعائیں اِن شاء اللہ جلدی ہی قبول ہونے والی دُعاؤں میں شامل ہو سکتی ہیں ، لیکن اس کے لیے ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس حکم پر عمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی بات کیسے قُبُول کریں !!؟؟؟
اللہ جلّ و علا کے اِس فرمان مبارک میں تدبر کرنے سے ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ دُعا ؤں کی جلدی قبولیت کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کی ساری ہی باتیں قُبول کرنا ہوں گی ، ہر وہ کام جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے بلا یا ، وہ کام کرنا ہوگا ، اور ہر وہ کام جس کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دِیا اُس کام سے باز رہنا ہی ہو گا ، اسی طرح (((((فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي ::: لہذا (سب ہی)لوگ میری بات قُبُول کریں)))))پر عمل ہو گا ، اور جب اس نسخے پر عمل ہو گا تو پھر اللہ بھی ہماری دعائیں اسی وقت ، قُبُول فرما لے گا ،
اب اگر ہم اس نسخے کی تفصیل میں تدبر کریں تو ہمیں اسی نسخے کے ضمن میں اور بھی بہت سے ایسے نسخے دِکھائی دیتے ہیں جِن کو استعمال کرتے ہوئے ہم اِس بنیادی نسخے کے فائدے حاصل کر سکتے ہیں ، اور اپنی دُعاؤں کو اللہ کے ہاں جلد ہی قُبول ہونے والی دُعاؤں میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کر سکتے ہیں ،
لہذا ہمیں خُوب اچھی طرح اُن باتوں اور کاموں کے بارے میں جان لینا چاہیے جِن کی طرف ہمیں اللہ تعالیٰ نے بلایا ہے ، تا کہ ہم ان کو قُبُول کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں ہماری دعائیں فوراً قُبُول ہوا کریں ،
::::::: پہلا نُسخہ ::: نیکی کے کام کرنے میں جلدی کرنا :::::::
دُعا کے فوراً قُبُول ہونے کے ذرائع میں سے سب سے پہلا ذریعہ نیکی کے کام کرنے میں جلدی کرنا ہے ، اللہ عزّ و جلّ نے زکریا علیہ السلام کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے ، اپنے نیک بندوں کی صِفات میں یہ صِفات بیان فرمائی ہیں کہ (((((فَاسْتَجَبْنَا لَهُ وَوَهَبْنَا لَهُ يَحْيَىٰ وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ::: لہذا ہم نے زکریا کی دُعا قُبُول فرمائی اور اُسے یحیی عطاء کیا ، اور ذکریا کے لیے اُس کی بیوی کو ٹھیک کر دِیا،بے شک وہ لوگ نیکی کے کام کرنے میں بہت ہی تیزی کرتے تھے اور ہم سے(قُبولیت کے)شوق اور لگن اور (اللہ سے)ڈر کی کیفیات میں رہتے ہوئے دُعاء کرتے تھے اور ہم سے ڈرتے تھے))))) سُورت الأنبیاء (21)/آیت 90،
اللہ کے اس فرمان مبارک سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اللہ کے وہ نیک بندے جو نیکی کرنے میں کوئی دیر نہیں کرتے ، کسی کا انتظار نہیں کرتے کہ کوئی انہیں کسی نیکی کی دعوت دے ، نیکی کے کسی کام کی طرف بلائے تو پھر وہ لوگ نیکی کریں ، بلکہ خود نیکی کرنے کے مواقع تلاش کرتے ہیں ، اپنے ہر کام کو اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں اور انہیں نیکی بنا لیتے ہیں ، اور ایسا کرنے میں نہ صرف دیر نہیں کرتے بلکہ بہت ہی تیزی سے نیکی کرنے کے مواقع تلاش کرتے ہیں اور نیکی والے کام کر تے ہیں، اور پھر صِرف اپنے اللہ ہی کو پکارتے ہیں ، صِرف اُسی سے ہی دُعائیں کرتے ہیں ، اور اس طرح کرتے ہیں کہ ان کے دِلوں میں اللہ کی طرف دُعاؤں کی قبولیت کا شوق بھی ہوتا ہے ، اور اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں اُن کی دُعا ء اوردُعا کرنے کے انداز و اطوار میں کچھ ایسا نہ ہو جائے جِس کی وجہ سے اللہ ناراض ہوجائے اور وہ لوگ اللہ کے عذاب پانے والوں میں سے ہوجائیں ، لہذا یہ لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں ، اپنے ایسے بندوں کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ جلدی ہی قبول فرماتا ہے ،
اب ہم اپنا حال تو دیکھیں ، ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنہیں اللہ نے مال دیا ہے لیکن وہ کبھی یہ کوشش نہیں کرتے کہ اپنا مال خود کسی ضرورت مند ، غریب ، محتاج ، مسکین ، بیوہ، یتیم ، تک پہنچا دیں ، بلکہ جب تک اُن کے پاس کوئی حاجت مند خود نہیں آتا انہیں اس کی پرواہ ہی نہین ہوتی کہ وہ اپنے مال میں سے اللہ کی راہ میں بھی خرچ کر لیں ، اور پھر اُن میں سے بھی کتنے ایسے ہیں جن تک جب کوئی حاجت مند پہنچتا ہے تو وہ اُس کی کوئی مدد نہیں کرتے،
اور ہم میں سے کتنے ایسے ہیں ، جن کے پاس صحت اور وقت اُن کی ضرورت سے زیادہ میسر ہیں ، لیکن وہ کبھی ان نعمتوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے ، اور اگر کبھی اللہ ہی اُنہیں کوئی ایسا موقع عطاء کر دے جس سے فائدہ اُٹھا کر وہ لوگ اپنا وقت اور صحت اللہ کی راہ میں خرچ کر سکیں تو بھی وہ لوگ ایسا نہیں کرتے ،
ہم میں ہر ایک خود سے یہ پوچھے کہ میں نے کتنی دفعہ خود کسی محتاج اور ضرورت مند کو تلاش کر کے ، مالی ، یا بدنی طور پر اس کی خدمت کرتے ہوئے اس کی حاجت روائی کی ہے ؟؟؟
کتنی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نے کسی کو راہ راست سے ہٹا ہوا پایا ہو اور اسے ٹھیک راستے کی خبر کی ہو ؟؟؟
کتنی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نے کسی کو نماز نہ پڑھتے ہوئے دیکھ کر نماز پڑھنے کی تلقین کی ہو ؟؟؟
کتنی دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے کسی کو بے پردگی والا انداز اپنائے ہوئے دیکھ کر اسے پردہ کے احکام پر عمل کی دعوت دی ہو ؟؟؟
کتنی دفعہ ایسا ہوا کہ میں نے کسی کو شیاطین کی آوازیں یعنی گانا اور موسیقی وغیرہ سنتے دیکھ کر ، اُس سے دُور رہنے کی تلقین کی ہو ؟؟؟
بلکہ کسی اور کے ساتھ کی جانے والی نیکیوں سے پہلے خود اپنی ہی جان کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں ہی سوچتے ہیں کہ ، کتنی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں نے اپنی معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنے کی دُنیاوی مشغولیات کے علاوہ غیر ضروری مشغولیات کو ترک کر کے خود کو اللہ کی کتاب کی تلاوت ، درست فہم اور اس پر عمل میں مشغول کیا ہو ؟؟؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ کی تعلیم اور اس پر عمل کی طرف خود کو راغب کیا ہو ؟؟؟
جب ہم ، اور ہمارے دوسرے مسلمان بھائی اور بہنیں اللہ کی طرف بڑھیں گے ہی نہیں ، نیک کام کرنے میں جلدی کرنا تو دُور ٹھہرا نیک کاموں سے ہی دُور رہیں گے تو پھر یہ شکوہ کیوں کہ ہماری دعائیں قُبُول نہیں ہو تِیں ؟؟؟
جبکہ ہمارے اللہ نے ،جِس سے ہم دُعائیں کرتے ہیں ، اور جو کسی واسطے ، کسی وسیلے کے بغیر براہ راست ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے ، اس نے ہمیں یہ نسخہ بتا دیا ہے کہ اُس سے دُعا قُبُول کروانے کے لیے نیکی کرنے میں بہت ہی جلدی کرنا اپنا معمول بنانا پڑے گا ،
(((میرے اس مضمون کے آغاز میں ذِکر کردہ سُورت البقرہ کی آیت186 ، ہی کے فہم و تدبر میں ایک اور مضمون ’’’ صرف اور براہ راست اللہ سے دُعاء کیجیے ‘‘‘ پہلے شائع کیا جا چکا ہے )))۔
::::::: دُوسرا نُسخہ ::: قُبُولیت کےشوق اور لگن ، اور اللہ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کے خوف کی کیفیات کی موجودگی کے ساتھ دُعاء کرنا :::::::
(((((وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا::: اور ہم سے(قُبولیت کے)شوق اور لگن اور (اللہ سے)ڈر کی کیفیات میں رہتے ہوئے دُعاء کرتے تھے)))))اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے اِس مذکورہ بالا فرمان پاک میں یہ بھی بتا دیا کہ اُس کے ہاں دُعا کی جلدی قُبولیت کے لیے دُعاء کرتے ہوئے مذکورہ بالا دو کیفیات، یعنی اللہ سے قبولیت کا شوق اور لگن ، اور اُس کی ناراضگی اور عذاب کا ڈر ، اِن دو کیفیات کا حاضر ہونا ضروری ہے ،
لہذا ضروری ٹھہرا کہ ہم اِن مذکورہ بالا دو کیفیات کو حاضر رکھتے ہوئے دُعائیں کریں ،
یہاں ایک بہت ہی أہم سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ :::
کیا جب ہم اللہ سے کوئی دُعاء کرتے ہیں تو اُس وقت ہمارے دِل اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ،،، اور ہمارا مطمع قلب اللہ کی رضا کا حصول ہوتا ہے ،،، یا ،،،ہمارے دِل ہمارے مطلوبہ چیز ، یا ضرورت کی طرف لگے ہوتے ہیں اور اسی کے حصول کے شوق اور لگن میں تڑپ رہے ہوتے ہیں ؟؟؟
اس سوال کا جواب ، دُعاء کی قُبولیت کے رازوں میں سے ایک راز ہے ، جو دُعاء کرنے والا ہر ایک شخص اپنی دُعاء کے بارے میں خود ہی جان سکتا ہے ،
اور خُوب اچھی طرح سے یاد رکھیےکہ جو دِل اللہ کی طرف سے متوجہ نہ ہو اُس دِل کی دُعاء اللہ کے ہاں قُبول نہیں ہوتی، اس کی خبر ہمیں اُس صادق المصدوق صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دی ہے جِن کے بارے میں اللہ نے گواہی دی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کلام نہیں فرماتے ، بلکہ اُن کی طرف کی گئی وحی کے مطابق کلام فرماتے ہیں ، انہوں نے ہمیں یہ بتایا ہے کہ (((((ادْعُوا اللَّهَ وَأَنْتُمْ مُوقِنُونَ بِالإِجَابَةِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ لاَ يَسْتَجِيبُ دُعَاءً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لاَهٍ ::: اللہ سے اس طرح دُعاء کیا کرو کہ تُمہیں قُبول ہونے کا یقین ہو ، اور جان رکھو کہ اللہ غفلت زدہ غیر متوجہ دِل کی دُعاء قبول نہیں کرتا)))))سُنن الترمذی /حدیث3816/کتاب الدعوات/باب66، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے ‘‘‘حسن ’’’ قرار دِیا ،
پس یاد رکھیے کہ اگر دُعاء کرتے ہوئے دُعاء کرنے والا دِل اللہ کی طرف متوجہ نہیں تو اللہ اُس کی دُعاء قُبول نہیں کرتا ،
اور اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لیجیے کہ دِل کی حاضری سے پہلے اُس دِل میں دُعاء کی قُبولیت کا یقین بھی ہونا چاہیے اور دُعا کی قُبولیت کا یقین اُسی وقت کیا جا سکتا ہے جب دُعاء اور اس کے کرنے کے انداز و اطوار کےت بارے میں یہ یقین ہو کہ اُن میں سے کہیں بھی کچھ بھی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی والا نہیں ہے۔
::::::: تیسرا نُسخہ ::: اللہ تبارک و تعالیٰ سے ڈر :::::::
(((((وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ::: اور ہم سے ڈرتے تھے)))))
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے ہم پر اپنی بے پناہ رحمت اور شفقت کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتا دِیا کہ اُس کے ہاں دُعاء کی قُبولیت کے لیےدُعاء کرنے والے کے دِل میں اللہ تعالیٰ کاڈر ہونا بھی ایک لازمی امر ہے ، کہ جِس قدر دُعاء کرنے والا اللہ سے ڈرنے والا ہوگا اُسی قدر اُس کی دُعائیں اللہ کے مقبول ہونے والی ہوں گے ،
خیال رہے کہ اللہ سے ڈر صرف دُعاء کرتے ہوئے ہی مطلوب نہیں ، اور نہ ہی صرف دُعاء کرتے ہوئے پایا جانے والا ڈر دُعاء کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے ، بلکہ یہ ڈر مسلمان کی زندگی کے ہر لمحے میں پایا جانا مطلوب ہے اور اس کا ہر کام اس ڈر کے احساس کے ساتھ کیا جانا مقصود ہے ، کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہو گا کسی کا کوئی بھی عمل اللہ کے ہاں قبولیت کے امکانات پانے والا نہیں ہو گا ، کیونکہ اللہ کے ڈر کی عدم موجودگی میں نہ تو کسی کو اللہ کی عبادت کرنے یا نہ کرنے کا غم ہو گا ، اور نہ ہی عبادت کرنے والے کو ٹھیک طور پر عبادت کرنے کی فکر ہو گی ، اور نہ ہی معاشرتی زندگی میں اللہ کے بندوں کی جان ، مال ، اور عزتوں کو محفوظ رکھنے کی پرواہ ہو گی ، اور نہ ہی اپنے رزق کو حلال ذرائع سے کمانے کی فِکر ہو گی ،
پس جو شخص اللہ کی عبادت ہی ٹھیک طور پر نہ کرتا ہو، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف مقرر کردہ حدود سے نکل کر اپنی مرضی کے مطابق عبادتیں کرے ، اور ان کے بتائے ہوئے انداز و طریقوں کی بجائے اپنے یا دوسروں کے خود ہی بنائے ہوئے طور طریقوں پر عبادتیں کرے تو کیا اُس کی کی ہوئی عبادتوں کو اللہ کے ڈر کے ساتھ کی جانے والی عبادات کہا یا سمجھا جا سکتا ہے ؟؟؟ کیا اللہ اُس سے راضی ہو گا ؟؟؟یقیناً نہیں ہو گا تو پھر کیا اُس کی دُعائیں اللہ کی ہاں قبول ہوں گی ؟؟؟
جو شخص اللہ کے بندوں اور بالخصوص مسلمانوں کے جان ، مال اور عزت میں بغیر حق کے تصرف کرتا ہو، اُن کے حقوق کی ادائیگی میں جان بوجھ کر بد دیانتی کرتا ہو، کیا اُسے اللہ سے ڈرنے والا کہا یا سمجھا جا سکتا ہے ؟؟؟ کیا اللہ اُس سے راضی ہو گا ؟؟؟ یقیناً نہیں ہو گا تو پھر کیا اُس کی دُعائیں اللہ کی ہاں قبول ہوں گی ؟؟؟
جو شخص اپنی کمائی میں حلا ل و حرام کی کچھ تمیز نہ رکھتا ہو ، بس جیسےبھی ہو کمانے کی دُھن میں ہی لگا رہے،، کیا اُسے اللہ سے ڈرنے والا کہا یا سمجھا جا سکتا ہے ؟؟؟ کیا اللہ اُس سے راضی ہو گا ؟؟؟ تو کیا اُس کی دُعائیں اللہ کے قُبول ہوں گی ؟؟؟
جی نہیں ، ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں سمجھا جا سکتا ، اگر اللہ اُن کے سوال کے مطابق کچھ دے دیتا ہے تو وہ اللہ طرف سے اُن کے لیے امتحان ہوتا ہے ، اور ان لوگوں کو اُن کی راہوں پر چھوڑ دیے جانے کے لیے ہوتا ہے ، پس ہم سب کو بھرپور کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ ہمارا کوئی ایک بھی ، نہ ہی ظاہری اور نہ ہی باطنی قول اور فعل اللہ کے ڈر سے خالی نہ ہو ،
اپنی دُعاؤں کی قُبولیت کے لیے قران کریم میں بیان فرمائے گئے ، مذکورہ بالا تین نسخوں پر عمل شروع کر دیجیے ، اور یہ بھی یاد رکھیے کہ اگر آپ کی طرف سے دُعاء کی قبولیت کی شرائط پوری ہونے کے بعد بھی دُعا ء کرتے کرتے اگر کافی وقت بھی گذر جائے اور بظاہر دُعاء قُبول ہوتی ہوئی محسوس نہ ہو ، تو بھی قبولیت سے مایوس نہیں ہونا ،
اللہ تعالیٰ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی پاکیزہ اور معصوم زبان سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خبر کروائی ہے کہ (((((يُسْتَجَابُ لأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِى:::تُم میں سے کسی دُعاء کرنے والے کی دُعاء اُس وقت قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدبازی نہیں کرتا اور ایسا نہیں کہتا (یا ایسا نہیں سمجھنے لگتا) کہ میں نے دُعاء کی اور میری دُعاء قُبول نہیں کی گئی )))))صحیح البخاری /حدیث/6340کتاب الدعوات/باب22،
اور اِرشاد فرمایا (((((لاَ يَزَالُ يُسْتَجَابُ لِلْعَبْدِ مَا لَمْ يَدْعُ بِإِثْمٍ أَوْ قَطِيعَةِ رَحِمٍ مَا لَمْ يَسْتَعْجِلْ:::بندے کی دُعاء اُس وقت تک قُبول ہوتی رہتی ہے جب تک کہ وہ گناہ یا صلہ رحمی کے خلاف دُعاء نہ کرے ، اور جب تک وہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے)))))،صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ، جلد بازی کرنا کیا ہے ؟ اے اللہ کے رسول ،
تو اِرشاد فرمایا (((((يَقُولُ قَدْ دَعَوْتُ وَقَدْ دَعَوْتُ فَلَمْ أَرَ يَسْتَجِيبُ لِى فَيَسْتَحْسِرُ عِنْدَ ذَلِكَ وَيَدَعُ الدُّعَاءَ::: جلد بازی) یہ کہنے لگے کہ میں نے دُعاء کی ، اور دُعاء کی لیکن مجھے( اپنی دُعاء کی) قُبولیت ہوتی ہوئی دِکھائی نہیں دیتی،پس پھر وہ حسرت کا شِکار ہو جاتاہے اور دُعاء کرنا چھوڑ دیتا ہے)))))صحیح مُسلم /حدیث/7112کتاب الذِکر و الدُعاء والتوبہ /باب25،
لہذا اس بات پر بھی اِیمان رکھیے کہ اگر آپ کی درست طور طریقے سے مانگی ہوئی جائز دُعاء قبول ضرور ہو گی خواہ اُس کی قُبولیت نظر آنے میں کتنی ہی دیر کیوں نہ لگ رہی ہو ، پس دُعاء کرنے سے رُکیے نہیں ،
اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھیے کہ اگر درست طور طریقے پر کی ہوئی کوئی نیک دُعاء دُنیا میں قُبول شدہ نظر نہیں بھی آتی ہو تو بھی اِن شاء اللہ وہ آپ کے لیے آخرت میں محفوظ کر لی گئی ہو گی ، اس کی خبر بھی ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زبان مبارک سے کروائی ہے کہ (((((ما مِنْ مُسْلِمٍ يَدْعُو بِدَعْوَةٍ لَيْسَ فِيهَا إِثْمٌ وَلاَ قَطِيعَةُ رَحِمٍ إِلاَّ أَعْطَاهُ اللَّهُ بِهَا إِحْدَى ثَلاَثٍ إِمَّا أَنْ تُعَجَّلَ لَهُ دَعْوَتُهُ وَإِمَّا أَنْ يَدَّخِرَهَا لَهُ فِى الآخِرَةِ وَإِمَّا أَنُْ يَصْرِفَ عَنْهُ مِنَ السُّوءِ مِثْلَهَا:::کوئی بھی مسلمان جب کوئی ایسی دُعاء کرتا ہے جس میں گناہ نہ ہو ، اور نہ ہی صلہ رحمی کے خلاف ہو، تو اللہ اُس کو (اُس کی دُعاء کی قُبولیت میں) تین میں سے کوئی ایک چیز عطاء کرتا ہے ، (1) یا تو اُس کی دُعاء کو جلد ہی پورا کر دیتا ہے ، اور (2)یا اُس کی دُعاء کواُس کی آخرت کے لیے محفوظ کر دیتا ہے ، اور (3)یا اُس کی اُس دُعاء کے بدلے اُس پر آنے والے کوئی پریشانی ٹال دیتا ہے))))) مُسند احمد /حدیث11432،مُسند ابی سعید الخُدری رضی اللہ عنہ ُ میں سے حدیث 156 ، امام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا ‘‘‘ حدیث حسن صحیح ’’’ہے ، صحیح الترغیب والترھیب/ حدیث 1633،
پس میرے محترم بھائیوں ، اور محترمہ بہنوں ، ہم سب کو ہی چاہیے کہ ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے فرامین ، اور اللہ کی وحی کے مطابق اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرامین کے مطابق اپنی دُعاؤں کی قبولیت کے ان نسخوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دُعاء کیا کریں اور دُعا کے نتائج سے بھی مایوس نہ ہوا کریں ۔
والسلام علیکم و رحمۃُ اللہ و برکاتہُ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
مضمون کا برقی نسخہ ’’’ یہاں ‘‘‘ سے نازل کیا جا سکتا ہے ۔