عبد الرحمن
لائبریرین
قربانی
افسانہ
پنڈال کو گویا سانپ سونگھ گیا تھا۔ لیکن حواس خمسہ سے بیگانہ نہیں ہوا تھا۔ مجمع دم سادھے اپنے آنے والے حسین کل کو نہ صرف دیکھ رہا تھا بلکہ سن بھی رہا تھا۔ اور سنتا بھی کیوں نہیں؟ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی آسمانی اپسرا زمین کے باسیوں کے آنسو پونچھنے آئی ہو۔ اپوزیشن پارٹی کی یہ نئی امید وار لوگوں کو اس بات کی امید دلا رہی تھی کہ ہم نے اپنے ماضی میں جو غلطیاں کیں ہم اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ ان پانچ سالوں میں ہم نے دن رات ایک کر کے خود کو آپ کے قابل بنایا ہے۔ موجودہ حکومت کی کارکردگی آپ کے سامنے ہے۔ ہمیں پھر موقع ملا ہے اپنی قسمت بدلنے کا، اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے کا، اپنا حال اپنے ماضی سے بہتر بنا کر مستقبل کو بہترین بنانے کا۔ پھر ظفر علی خان کا یہ شعر محفل کو گرمانے کے لیے پڑھا جو اقبال کے ہر "عقیدت مند" سیاسی لیڈر کی زبان پر رقصاں رہتا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمیں منتخب کیجے!
ہمارے لیے نہیں آپ کے لیے!
آپ کی نسلوں کے لیے!
مجھے دیکھیے!
میں آپ ہی میں سے ہوں۔
اپنے وطن اپنی قوم کی بقا کے لیے میں بہت قربانیاں دے کر یہاں تک آئی ہوں۔ محض اس لیے کہ آپ کی خدمت کر سکوں۔ آپ کو اس دلدل سے جس میں آپ دھنستے چلے جا رہے ہیں، نکال سکوں۔ آج میں یہاں ہوں۔ کل آپ بھی یہاں ہو سکتے ہیں۔ تو ثابت ہوا کہ یہ کوئی موروثی سیاسی جماعت نہیں بلکہ عوامی جماعت ہے آپ کی اپنی جماعت ہے۔ آپ ہی نے اسے چلانا ہے۔ آگے بڑھانا ہے۔ اس پارٹی اور اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
آپ کا ایک صحیح یا غلط فیصلہ آپ کی قسمت کا فیصلہ کرے گا۔ سوچ لیجے سمجھ لیجے اور خدارا عوام کی جماعت جو آپ کی اپنی جماعت ہے کو اقتدار میں لایے۔
تقریر ختم ہوتے ہی تا حد سماعت تالیوں کا شور سنائی دیا۔ پارٹی کے چیئرمین نے بھی توصیفی نظروں سے اس نئی جوشیلی کارکن کو دیکھا جو جلسہ ھذا کے علاقے سے الیکشن لڑنے جا رہی تھی۔ تا حد نگاہ انسانوں کا یہ پر جوش ٹھاٹھیں مارتا سمندر بتا رہا تھا کہ وہ لڑنے سے پہلے ہی اپنے مد مقابل کو چت کر چکی ہے۔
اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟ اس آواز میں درد تھا، اپنائیت تھی، محبت تھی، تڑپ تھی اور سب سے بڑھ کر قربانیاں تھیں جو اس نے محض اپنے ملک کے لیے اپنے ملک کے لوگوں کے لیے دی تھیں۔ یہ آواز سن کر کوئی بھی اپنا آپ اس پاربتی پر نچھاور کرنے کو تیار ہو جائے۔ تو ووٹ تو بہت حقیر شے تھی۔ اور یہ بھی تھا کہ اتنا دلفریب چہرہ فریب دے ہی نہیں سکتا۔ یہ تو باہر سے جتنا دل کش ہے اندر سے بھی اتنا ہی دل افروز ہوگا۔
میں اس جماعت کا سب سے چھوٹا "ممبر" تھا۔ اس لیے ہر کوئی مجھے چھوٹو نام سے بلاتا تھا۔ میں نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ میرے ذمہ کئی اہم کام تھے۔ جن میں معمولی سی بھی غفلت کی گنجائش نہیں تھی۔ اہم کاموں کی لسٹ میں پارٹی کے وزراء کی سگریٹوں کے لیے لائٹر جلانا، ان کے پیر دبانا، پینے پلانے کا انتظام کرنا اور اس طرح کی کئی "خدمات" شامل تھیں۔ میرے جیسے ممبران کی پارٹی میں کمی نہیں تھی۔ لیکن میں چوں کہ اپنے باپو کی جگہ پر آیا تھا۔ اس لیے ان سب خدام میں میری پوزیشن زیادہ مضبوط تھی۔
مجھ سے پہلے باپو میری جگہ پر تھے اور اپنے چالیس سال اس پارٹی کے نام کیے تھے۔ باپو مجھے پڑھا لکھا کر دوسرے شہر منتقل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کبھی مجھ سے پارٹی کی کوئی برائی نہیں کی تھی۔ لیکن مجھے ہمیشہ محسوس ہوا کہ وہ مجھے اس سے بہت دور رکھنا چاہتے تھے۔ تاہم جب جماعت کے سربراہ نے خود میرا مطالبہ کیا تو باپو انکار نہیں کر سکے اور چپ چاپ مجھے ان کے حوالے کر دیا۔ لیکن آج کی تقریر سننے کے بعد میرے ذہن سے وہ وہم بھی اتر گیا جس کو میں سمجھ پاتا تھا نہ کوئی نام دے پاتا تھا۔ اور اس کے لیے بھی میں اپنی اس محسنہ کا شکر گزار تھا۔ اگر وہ روپ کی دیوی اس جماعت میں شامل نہ ہوتی تو میں ماہ و سال بے نام کشمکش میں ہی رہتا۔ مزید یہ کہ آج کی تقریر کے بعد مجھے ایسا لگنے لگا کہ ملک کی تعمیر و ترقی کی تاریخ جب بھی رقم کی جائے گی اس میں کہیں نہ کہیں میرا بھی نام لکھا جائے گا اور نہ بھی لکھا گیا تو میرے دل کو تسلی رہے گی کہ میں ایک ایسی تنظیم سے وابستہ رہا جس نے ملک کی آن کے لیے ہر آن کام کیا۔
پارٹی کی اس نئی رکن کو ہم لوگوں کے دلوں کی دھڑکن کہتے تھے۔ لوگ انہیں دور سے دیکھ کر ہی ان کے غلام بن جاتے تھے اور ان کے خیالات سننے کے بعد تو جان دینے لینے کے لیے آمادہ ہو جاتے تھے۔ خود میں بھی ان سے بہت متاثر تھا۔ اور انہیں اپنا رول ماڈل سمجھنے لگا تھا۔ میں ان کی طرح بننا چاہتا تھا ان سے سیکھنا چاہتا تھا۔ ان کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔ آج کے جلسے میں سیاہ لباس پر چاندنی کا موتیوں بھرا کام ان پر بہت جچ رہا تھا۔ بل کھاتی کمر تک جھولتے لمبے بال اور آدھے سر پر پڑا گہرا سیاہ ڈوپٹہ ان کے خطاب میں مزید گرمی پیدا کر رہا تھا۔
جلسہ قائد جماعت کی اختتامی تقریر کے بعد ختم ہوا۔ جس میں انہوں نے بطور خاص "جان جلسہ" کو کلمات تحسین سے نوازا۔
آج کا کامیاب جلسہ گویا ملک کی کایا کلپ کی نوید لے کر آیا تھا۔ اس خوشی میں رات پارٹی لیڈر نے ایک شاندار ضیافت کے انتظام کا حکم دیا۔ جس کو انہوں نے پارٹی کی اس مخلص اور با وفا پیکر احساس سے منسوب کیا۔ اپنی اپنی گاڑیوں میں بیٹھتے وقت میں نے قائد کو سرگوشی میں یہ بھی کہتے سنا کہ "یہ پجارو آج سے تمہاری ہوئی"۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج میں بہت مسرور تھا۔ لیکن دیگر وزراء اور کارکنان مسرور کے ساتھ ساتھ مخمور بھی تھے۔ میں مے نوشی کے راستے پر کبھی نہیں چلا تھا۔ لیکن اپنی پارٹی کے احترام اور عقیدت میں کبھی اس امر کے معیوب ہونے کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ تاہم اپنے واسطے میں نے ان تمام لغویات کا ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ بہرحال یہ ذاتی نقائص ہیں۔ اس کا ملک و قوم کی تنزلی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
دھیمی دھیمی موسیقی در و دیوار میں رچی بسی ہوئی تھی۔ رقص و سرود کی جلوہ آرائی پارٹی آفس میں بالا خانہ کے مناظر پیش کر رہی تھی۔ شراب و کباب کا شباب اپنے جوبن پر تھا۔ بد مستی اور بد مزاجی آج رات برپا ہونے والی قیامت کا پتہ دے رہی تھی۔
رہا میں، تو اس نشیلی قہر برساتی شب میں بھی میں اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے پورے ہوش و حواس میں ٹرے اٹھائے ہمارے قائد کے خلوت خانہ کی طرف جا رہا تھا۔ ابھی دروازے کے عین سامنے پہنچ کر دستک دینے ہی والا تھا کہ ایک مدہوش کن مہک کے ساتھ دروازہ اندر سے کھلا اور محترم قائد باہر آتے دکھائی دیے۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں میں نے سلوٹوں سے خالی وہی سیاہ لباس جو چند گھنٹوں پہلے لوگوں پر بجلیاں گرا رہا تھا، راکھ کے ڈھیر کی مانند اجڑی ہوئی حالت میں ایک کونے میں پڑا ہوا دیکھا۔ دروازہ اگلے ہی لمحے بند ہو گیا۔ میں چاہ کر بھی اپنی جگہ سے ہل نہیں پایا۔ نیفے کی ڈوری باندھتے ہوئے قوم کے آنے والے رہنما میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
اب ملک و ملت کے لیے دی جانے والی قربانیوں کا مفہوم میں اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔