ملک حبیب
محفلین
میری پسندیدہ ترین غزل جس کا مطلع میں اکثر گنگناتا رہتا ہوں،،، ایک دوست محترم راجہ ساحل چنگیز صاحب نے عطا کی۔۔
بدیار عشق تو ماندە ام ز کسے ندیدە عنایتی
بغریبیم نظری فکن کہ تو پادشاە ولایتی
میں تمہارے عشق کے دیار میں پڑی ہوئی ہوں کسی سے کوئی لطف و کرم نہیں دیکھا، میری غریب الوطنی پر ایک نظر ڈال کہ تُو ہی بادشاە ولایت ہے۔
گنهی بود مگر ای صنم که ز سر عشق تودم زنم
فهجر تنی و قتلتنی و اخذتنی بجنايتی
اے محبوب! کیا تمہارے عشق کا دم بھرنا کوئی گناە کی بات ہے کہ تم مجھے اس طرح فراق میں چھوڑتے ۔ قتل کرتے اور میرے جرم پر مواخذە کرتے ہو۔
شُده راه طاقت و صبر طی بکشم فراق تو تا بکی
همه بند بند مرا چونی بود از غم تو حکايتی
اب صبر و طاقت کہاں؟ تمہارے فراق کو کب تک برداشت کروں میرے بدن کا بند بانسری کی مانند تمہارے غم کی حکایت سنا رہا ہے ۔
عجزالعقول لدرکه هلک النفوس لوهمه
به کمال تو که برد رهی نبود بجز تو نهايتی
عقلیں اس کے ادراک سے عاجز ہو گئیں اور حواس اس کا وصف بیان کرنے میں قاصر ہیں۔تیرے کمال تک بھلا کس کو راە ہے کہ تیرے بغیر نہایت کسی کو نہیں۔
چو صبا برت گذر آورد ز بلا کشان خبر آورد
رُخ زرد و چشم ترآورد چه شود کنی تو عنایتی
جب بادِ صبا تم سے گُزر کر آتی ہے تو بلا کشوں کی خبر لاتی ہے۔ یہ زرد چہرە اور پرنم آنکھ عطا کرتی ہے۔اگر تو مجھ پر عنایت کرے تو کیا ہو۔
قدمی نهی تو به بسترم سحری ز فيص خود ازکرم
به هوای قرب تو بر پرم به دو بال دهم بجناحتی
اگر تو مہربانی کرتے ہوئے سحر کے وقت میرے بستر پر اچانک قدم رکھے تو میں تیرے قرب کی آرزو میں دونوں پروں سے پرواز کر جاوٴں۔
برهانيم چو از اين مکان بکشانيم سوی لامکان
گذرم ز جان و جهانيان که تو جان و جانده خلقتی
اگر تو مجھے اس مکان سے نجات دلائے اور لامکاں کی طرف کھینچ لے تو میں جہان والوں کی جان سے گزر جاوٴں۔ کیونکہ جان تو ہی ہے اور جان عطا کرنے والا بھی تُو ہی۔
کلام قرة العين طاهره
بدیار عشق تو ماندە ام ز کسے ندیدە عنایتی
بغریبیم نظری فکن کہ تو پادشاە ولایتی
میں تمہارے عشق کے دیار میں پڑی ہوئی ہوں کسی سے کوئی لطف و کرم نہیں دیکھا، میری غریب الوطنی پر ایک نظر ڈال کہ تُو ہی بادشاە ولایت ہے۔
گنهی بود مگر ای صنم که ز سر عشق تودم زنم
فهجر تنی و قتلتنی و اخذتنی بجنايتی
اے محبوب! کیا تمہارے عشق کا دم بھرنا کوئی گناە کی بات ہے کہ تم مجھے اس طرح فراق میں چھوڑتے ۔ قتل کرتے اور میرے جرم پر مواخذە کرتے ہو۔
شُده راه طاقت و صبر طی بکشم فراق تو تا بکی
همه بند بند مرا چونی بود از غم تو حکايتی
اب صبر و طاقت کہاں؟ تمہارے فراق کو کب تک برداشت کروں میرے بدن کا بند بانسری کی مانند تمہارے غم کی حکایت سنا رہا ہے ۔
عجزالعقول لدرکه هلک النفوس لوهمه
به کمال تو که برد رهی نبود بجز تو نهايتی
عقلیں اس کے ادراک سے عاجز ہو گئیں اور حواس اس کا وصف بیان کرنے میں قاصر ہیں۔تیرے کمال تک بھلا کس کو راە ہے کہ تیرے بغیر نہایت کسی کو نہیں۔
چو صبا برت گذر آورد ز بلا کشان خبر آورد
رُخ زرد و چشم ترآورد چه شود کنی تو عنایتی
جب بادِ صبا تم سے گُزر کر آتی ہے تو بلا کشوں کی خبر لاتی ہے۔ یہ زرد چہرە اور پرنم آنکھ عطا کرتی ہے۔اگر تو مجھ پر عنایت کرے تو کیا ہو۔
قدمی نهی تو به بسترم سحری ز فيص خود ازکرم
به هوای قرب تو بر پرم به دو بال دهم بجناحتی
اگر تو مہربانی کرتے ہوئے سحر کے وقت میرے بستر پر اچانک قدم رکھے تو میں تیرے قرب کی آرزو میں دونوں پروں سے پرواز کر جاوٴں۔
برهانيم چو از اين مکان بکشانيم سوی لامکان
گذرم ز جان و جهانيان که تو جان و جانده خلقتی
اگر تو مجھے اس مکان سے نجات دلائے اور لامکاں کی طرف کھینچ لے تو میں جہان والوں کی جان سے گزر جاوٴں۔ کیونکہ جان تو ہی ہے اور جان عطا کرنے والا بھی تُو ہی۔
کلام قرة العين طاهره