لمحہء فکریہ والے دور سے بھی ہم آگے آ گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ جیسے سب کسی نشے میں دُھت ہیں، جو تھوڑا بہت دیکھ سن رہے ہیں اُن کے بھی اعصاب اس قابل نہیں کے ردِ عمل ظاہر کر سکیں۔شرافتوں کی فاقہ مستیاں جب خر مستیاں بننے لگیں تو قوم کے کے لیے لمحہءفکریہ ہونا چاہیئے۔
لگتا ہےصبر میں تو ہماری قوم نمبر لے گئی ، اب قوم کےصبر کا نہیں بلکہ بے صبری کا امتحان ہے۔
پہلے الیکٹرانک میڈیا اور اب سوشل میڈیا نے ہم سب کو اپاہج بنا دیا ہے۔
جو غصہ اور بھڑاس نکالنی ہوتی ہے، وہ کسی اینکر کی زبانی نکلتی دیکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔
یا سوشل میڈیا پر بھڑاس نکال کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا۔
مجھے آدھا پر اعتراض ہے.کیا سی پیک ہی کے حوالے سے آدھا ملک رہن نہیں رکھا جا رہا؟؟
کیا سی پیک ہی کے حوالے سے آدھا ملک رہن نہیں رکھا جا رہا؟؟
مجھے آدھا پر اعتراض ہے.
سی پیک کے علاوہ بھی پراجیکٹس آنکھیں بند کر کے چائنیز کے حوالے کیے جا رہے ہیں.
اقتصادی سپر پاور چائنہ اب ہمارا مائی باپ بن گیا ہے۔
ہم تو خوش ہی غلامی میں رہتے ہیں۔
کبھی یہاں موجود چائنیز کمپنیز میں موجود پاکستانیوں سے پوچھیں۔ کہ ایک چائنیز ملازم اور ایک پاکستانی ملازم میں کیا فرق ہے۔ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہو گا۔چائینیز تعداد میں اتنے سارے ہیں اور مستقبل قریب میں انہیں وسائل کی اس قدر ضرورت پڑنے والی ہے کہ سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ آنے والے وقت میں پاکستانیوں کا حال بھی روہنگیا مسلمانوں کا سا نہ ہو جائے۔
یاجوج ماجوج
کبھی یہاں موجود چائنیز کمپنیز میں موجود پاکستانیوں سے پوچھیں۔ کہ ایک چائنیز ملازم اور ایک پاکستانی ملازم میں کیا فرق ہے۔ آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہو گا۔