قرطبہ - روش صدیقی

کاشفی

محفلین
قرطبہ
(روش صدیقی - 1925ء)
(1)
بہارِ خلد سے رنگیں تھا گلستاں تیرا
غلامِ احمد مرسل تھا باغباں تیرا
جلال ملّتِ بیضا تھی بارگاہ تری!
سجود گاہِ ملائک تھا آستاں تیرا!
فرشتے وادی انوار تجھ کو کہتے تھے!
ہر ایک ذرّہ تھا خورشید آسماں تیرا
وہ صبحِ گلکدہء وادی الکبیر کہاں؟
کہ جس کے عکس میں منظر تھا زرفشاں تیرا
شرابِ نور تری خاک سے اُبلتی تھی
بہارِ خلد تری گود میں مچلتی تھی
(2)
وہ گلستانِ رصافہ حدیقہ اُمَوی
کہ جس کو خُلد میں کہتے تھے جنّتِ ارضی
وہ جس کا جلوہء محبوب زینت فردوس
وہ جس کا منظر معصوم خلد رنگینی
وہ آبشار وہ فوّارہء گُہر افشاں
وہ اُن کے عکس میں شمس و قمر کی جلوہ گری
وہ بلبلانِ خوش الحاں وہ نغمہ ریز طیور
زباں پہ جن کے درودِ محمدِ عربی
نسیم قدس کے جھونکے جدہر کو بڑھتے تھے
چٹک کے غنچے دعائے خلیل پڑھتے ہیں!
(3)
وہ جلوہ گاہِ خلافت مدینہ الزہرا
کہ جس میں شمعِ محبت تھی انجمن آرا!
وہ در کہ جس کی بھکاری تھی عظمتِ مغرب
وہ قصرِ مطلع انوار مشرقِ عظمیٰ
حریفِ عرش ہے اس بارگاہ کی عظمت
غلامِ احمد مختار ہو مکیں جس کا!
فرشتے اُس کی زیارت کو مائلِ تنزیل
بہشت اس کے مناظر کے سامنے دُھندلا!
جلال ناصرِ اعظم کا جلوہء تمکیں
ربابِ الفت زہرا کا نغمہء رنگیں
(4)
وہ بارگاہِ خداوند جامع اعظم
جبینِ عظمتِ کونین جس کے در پر خم
وہ جس کے ذرّوں میں نقشِ سجود الداخل
خضوع قراءتِ منصور جس میں ہے مدغم
وہ درسگاہِ مقدس وہ چشمہء عرفان
اُٹھایا جس نے نقابِ رموز کیف و کم
الہیات کی تبلیغ جس نے دہر میں کی
علومِ قُدس سے معمور کردیا عالم
وہ جس کی خاک وقار جبینِ ابنِ رشد
وہ جس کا بوریہء خشک تاج ابن حزم
فرانس، اٹلی و جرمن تھے خوشہ چیں جس کے
سلوسٹر بھی ہوا جس کا گوشہ گیر کرم
رہی نہ ظلمتِ تثلیث شرک گاہوں میں
جلائی شمعِ حرم اس نے خانقاہوں میں
(5)
اگرچہ آج وہ اقبال و احتشام نہیں
وہ نور صبح نہیں وہ سوادِ شام نہیں
تھی جس کے در پہ فتادہ سیاستِ مغرب
اگرچہ آج وہ اسلام کا نظام نہیں!
دیار قدس ہے اُن وحشیوں کے زیرِ قدم
کہ جن کے دل میں خدا بھی احترام نہیں
نہ کیوں ہو مادرِتثلیث خندہ زن تجھ پر
کہ لاالہ کی شمشیر بے نیام نہیں!
مگر ملال نہ کر اے مدینہ الاسلام
کہ ظلم کو کبھی حاصل ہوا قیام نہیں
بلند نعرہء تکبیر ہونے ولا ہے
بعید اب کرمِ خالق انام نہیں
درِ خدا سے ہمیں بامراد ہونا ہے
بالاخرش تجھے اُم لبلاد ہونا ہے
 
Top