نوید ناظم
محفلین
اس سے پہلے کہ زندگی کا چراغ بجھ جائے، انسان کو چاہیے کہ یہ اپنی بساط کے مطابق روشنی بانٹ جائے۔ کوئی میٹھا بول' بول جائے یا کوئی کڑوی بات برداشت کر جائے۔ اس دنیا میں بے شمار واقعات ہو رہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ان سب میں ہمارا کردار کیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم زندگی میں اور زندگی پہ صرف تنقید کرتے جا رہے ہیں۔۔۔۔ ہم آتشِ نمرود کو بھڑکتا تو دیکھتے ہیں مگر ہم اسے گلزار ہوتا نہیں دیکھتے۔ ہمارا میڈیا ہمیں زندگی کی کڑواہٹ اس حد تک دکھا چکا ہے کہ یہ کڑواہٹ ہماری رگوں میں اُتر چکی ہے، ہمارے لہجے بدلتے جا رہے ہیں۔ ہمارے اندر انتشار برپا ہے۔۔۔۔ اور باطن کا یہی انفرادی انتشار ہے جو کہ ظاہر میں اجتماعی طور پر ظاہر ہو رہا ہے۔ ظلم کی تشہیر صرف پیسہ کمانے کے لیے ہو تو یہ اُس سے بڑا ظلم ہے اور آج کا میڈیا یہی ظلم کر رہا ہے۔ ایک غریب کی غربت پینٹ کر کے لاکھوں میں بیچ دی جاتی ہے مگر اس غریب کی غریبی کو دور نہیں کیا جاتا، احساس کو بیچنے والے خود بے حسی کا شکار ہو جائیں تو اور ظلم کیا ہو گا۔ دراصل باتیں کرنا اصل کام نہیں ہے بلکہ کام کرنا اصل بات ہے۔۔۔۔اور یہی وہ بات ہے جس کا ہم میں فقدان ہے۔ ہمارے پاس محدود وقت ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ ہم اس محدود وقت کو کیسے گزارتے ہیں۔۔۔۔ کیا دنیا میں ہونے والے واقعات پر صرف تنقید ہوتی رہے گی یا کبھی ہماری نظر قریب کا منظر بھی دیکھے گی؟ مسلم امہ کی حالت پر بحث کرنے والا کبھی اپنے غریب بھائی کی حالت پر بھی غور کر سکے گا یا نہیں، پڑوسی ملکوں کے حالات کا جائزہ لینے والا کبھی اپنے پڑوسی کا دکھ جاننے کی کوشش بھی کر سکے گا یا نہیں۔۔۔۔ ہم زندگی کے جس دور کو "گلوبل ویلیج" کا نام دے رہے ہیں، کہیں یہ زندگی کا بے ہنگم پھیلاؤ تو نہیں؟۔۔۔۔۔ کیا ہمیں اس چیز کی ضرورت تو نہیں کہ ہم قریب سے دیکھنا شروع کریں۔۔۔۔ کیونکہ وہی چراغ سورج ہے جس کی روشنی کسی تک پہنچ جائے، ورنہ دور کے سورج کو اندھیرا سمجھو۔