قسمت کھلی ہے آج ہمارے مزار کی۔ بیدم شاہ وارثی

فرخ منظور

لائبریرین
قسمت کھلی ہے آج ہمارے مزار کی
چادر پڑی ہے گوشۂِ دامانِ یار کی

کیسا فشار کیسی اذیت فشار کی
لذت ملی ہے قبر میں آغوشِ یار کی

وحشت یہ کہہ رہی ہے دلِ بے قرار کی
پھر خاک چھاننی ہے ہمیں کوئے یار کی

کوچے میں تیرے دوش صبا پر سوار ہے
کس اوج پر ہے خاک ترے خاکسار کی

دل بھی گیا جگر بھی گیا جان بھی چلی
اچھی گھڑی ہے آرزوئے وصلِ یار کی

در پر جگہ نہ دامنِ دل دار پر قرار
مٹی خراب ہے مری مُشتِ غبار کی

نیرنگئِ زمانہ سے دل سیر ہو گیا
اب غم خزاں کا ہے نہ خوشی ہے بہار کی

عبرت سے شیب و شباب پہ میرے نظر کرو
تصویر ہوں میں گردشِ لیل و نہار کی

لاؤ میں شام ہی سے نہ کچھ کھا کے سو رہوں
دیکھی ہے صبح کس نے شبِ انتظار کی

وہ جیتے جی تو بہرِ عیادت نہ آ سکے
اب آ رہے ہیں خاک اڑانے مزار کی

ناپائدار ہستی ناپائدار ہے
ہستی ہی کیا ہے ہستیِٔ ناپائدار کی

بیدمؔ نہ اپنا نخلِ تمنا ہرا ہوا
آئی بھی اور گزر بھی گئی رت بہار کی

سید بیدمؔ شاہ وارثیؒ
 
Top