قسمت کہ جیسے گھومتا پنکھا مئی کا ہے

شوکت پرویز

محفلین
قسمت کہ جیسے گھومتا پنکھا مئی کا ہے
آنکھیں کہ جیسے جون مہینہ کسی کا ہے

ہیں زہر والے گرچہ کئی جانور مگر
جس کا نہیں علاج وہ زہر آدمی کا ہے

میدانِ حشر کا جو سنا، ٹھیک ہے، مگر
خود اس جہان میں بھی نہ کوئی کسی کا ہے

یوں تو سبھی سوال ہوئے زندگی سے حل
لیکن بس اک سوال جو خود زندگی کا ہے

اپنے لئے وبال ہیں دنیا کی رغبتیں
دنیا سے اپنا رشتہ ذرا بے دلی کا ہے

دل کو سنبھالنا کوئی مشکل نہیں مجھے
پشتوں سے میرا کام ہی شیشہ گری کا ہے

دنیا میں گھوم آئی ہے شوکت تِری نظر
شاید یہ اک سبب ہی تِری شاعری کا ہے

شوکت پرویز
24 مئی 2017
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت خوب شوکت پرویز صاحب!

آپ محفل میں کم کم آتے ہیں لیکن جب بھی آتے ہیں کچھ نہ کچھ اچھا ہی شئر کرتے ہیں۔

شاد آباد رہیے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
بہت خوب شوکت پرویز صاحب!

آپ محفل میں کم کم آتے ہیں لیکن جب بھی آتے ہیں کچھ نہ کچھ اچھا ہی شئر کرتے ہیں۔

شاد آباد رہیے۔
جی محمد احمد صاحب!

اب زیادہ آنا نہیں ہو پاتا۔ لیکن میں محفل کو بہت یاد کرتا ہوں۔ کیا دن تھے وہ جب ہر روز طویل حاضری ہوا کرتی تھی ۔۔۔

کوئی لوٹا دے مِرے بیتے ہوئے دن۔۔۔
 
Top