شوکت پرویز
محفلین
قسمت کہ جیسے گھومتا پنکھا مئی کا ہے
آنکھیں کہ جیسے جون مہینہ کسی کا ہے
ہیں زہر والے گرچہ کئی جانور مگر
جس کا نہیں علاج وہ زہر آدمی کا ہے
میدانِ حشر کا جو سنا، ٹھیک ہے، مگر
خود اس جہان میں بھی نہ کوئی کسی کا ہے
یوں تو سبھی سوال ہوئے زندگی سے حل
لیکن بس اک سوال جو خود زندگی کا ہے
اپنے لئے وبال ہیں دنیا کی رغبتیں
دنیا سے اپنا رشتہ ذرا بے دلی کا ہے
دل کو سنبھالنا کوئی مشکل نہیں مجھے
پشتوں سے میرا کام ہی شیشہ گری کا ہے
دنیا میں گھوم آئی ہے شوکت تِری نظر
شاید یہ اک سبب ہی تِری شاعری کا ہے
شوکت پرویز
24 مئی 2017
آنکھیں کہ جیسے جون مہینہ کسی کا ہے
ہیں زہر والے گرچہ کئی جانور مگر
جس کا نہیں علاج وہ زہر آدمی کا ہے
میدانِ حشر کا جو سنا، ٹھیک ہے، مگر
خود اس جہان میں بھی نہ کوئی کسی کا ہے
یوں تو سبھی سوال ہوئے زندگی سے حل
لیکن بس اک سوال جو خود زندگی کا ہے
اپنے لئے وبال ہیں دنیا کی رغبتیں
دنیا سے اپنا رشتہ ذرا بے دلی کا ہے
دل کو سنبھالنا کوئی مشکل نہیں مجھے
پشتوں سے میرا کام ہی شیشہ گری کا ہے
دنیا میں گھوم آئی ہے شوکت تِری نظر
شاید یہ اک سبب ہی تِری شاعری کا ہے
شوکت پرویز
24 مئی 2017