کاشفی
محفلین
غزل
جوش ملیح آبادی
قسم ہے آپ کے ہر روز روٹھ جانے کی
کہ اب ہوس ہے اَجل کو گلے لگانے کی
وہاں سے ہے مری ہمّت کی ابتدا واللہ
جو انتہا ہے ترے صبر آزمانے کی
پھُنکا ہوا ہے مرے آشیاں کا ہر تِنکا
فلک کو خُو ہے تو ہو بجلیاں گرانے کی
ہزار بار ہوئی گو مآلِ گُل سے دوچار
کلی سے خُو نہ گئی پھر بھی مُسکرانے کی
مرے غُرور کے ماتھے پر آچلی ہے شکن
بدل رہی ہے تو بدلے ہوا زمانے کی
چراغِ دیر و حرم کب کے بجھ گئے اے جوش
ہنوز شمع ہے روشن شراب خانے کی
جوش ملیح آبادی
قسم ہے آپ کے ہر روز روٹھ جانے کی
کہ اب ہوس ہے اَجل کو گلے لگانے کی
وہاں سے ہے مری ہمّت کی ابتدا واللہ
جو انتہا ہے ترے صبر آزمانے کی
پھُنکا ہوا ہے مرے آشیاں کا ہر تِنکا
فلک کو خُو ہے تو ہو بجلیاں گرانے کی
ہزار بار ہوئی گو مآلِ گُل سے دوچار
کلی سے خُو نہ گئی پھر بھی مُسکرانے کی
مرے غُرور کے ماتھے پر آچلی ہے شکن
بدل رہی ہے تو بدلے ہوا زمانے کی
چراغِ دیر و حرم کب کے بجھ گئے اے جوش
ہنوز شمع ہے روشن شراب خانے کی