La Alma
لائبریرین
قصّہ گو
طاقِ دل پہ برسوں سےکچھ دیے فروزاں ہیں
فکر کے شبستاں کے یہ چراغِ سحری ہیں
سوچ کے فلک کے یہ مہر و ماہ و انجم ہیں
شرحِ بابِ غم کو ہم
خامہء تخیل سے
لوحِ جاں پہ لکھتے ہیں
مکتبِ غمِ ہستی
سب ہمیں سکھاتا ہے
موجِ درد رک جائے
پھر قلم بھی تھم جائے
دھیان کے افق سے جب
رنگ سب سمٹتے ہوں
ذہن کے گھروندوں سے
حرف جب سرکتے ہوں
من کی رقص گاہوں میں خامشی تھرکتی ہو
چپ کی سرسراہٹ میں اک صدا مچلتی ہو
تب گمان ہوتا ہے
جیسے کوئی ہولے سے
نامہء محبت کو بار بار پڑھتا ہے
پرسشِ وفا کو پھر سوئے یار چلتا ہے
یاد کے خزینوں سے
غم کے آبگینوں سے
چند لفظ چُنتا ہے
داستان بُنتا ہے
آخری تدوین: