متلاشی
محفلین
اس دفعہ چھوٹی عید (عید الفطر) کے بعد میرا ٹیکسلا جانا ہوا تو محفل کے دو معروف دوستوں سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔۔ سوچا تھا وقت نکال کر تفصیل سے احوال بیان کروں گا مگر شو مئی قسمت یہ خیال دیارِ دل سے نوکِ قلم تک آنے سے پہلے ہی ذہن سے محو ہو گیا۔
قصہ کوتاہ سب سے پہلے میری ملاقات تنویر قریشی بھائی سے ہوئی وہ واہ کینٹ سے ٹیکسلا آ کر مجھے اپنے گھر لے گئے ۔۔ وہاں انہوں نے ایک خطاط دوست (اشفاق صاحب) کو بھی بلایا ہوا تھا ۔ انکے ساتھ کافی اچھی گپ شپ رہی۔ تنویر بھائی نے ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا ، مگر میری بدقسمتی کے میں نے دوپہر کا کھانا ہی بہت لیٹ کھایا تھا تقریبا شام میں ہی تو اس پرتکلف ضیافت کے مزے اڑانے سے قاصر رہا ۔۔ (امید ہے تنویر بھائی اس کوتاہی سے صرفِ نظر کریں گے ) دعوتِ طعام سے قبل تنویر بھائی نے ہمیں اپنے چڑیا گھر کی سیر بھی کرائی جو انہوں نے بالا خانے میں بنا رکھا ہے اور وہاں نوع نوع کے خوبصورت پرندے پال رکھے ہیں ۔۔ ان کی چہکار سن کر دل بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد تنویر بھائی مجھے واپس ٹیکسلا چھوڑ گئے ۔
دو دن بعد بروز جمعہ میں نے @عبدالمجيد بھائی سے ملاقات کےلیے پشاور کا رختِ سفر باندھا۔ عبدالمجید کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی ، ان کے چھوٹے بھائی نے مجھے اڈے سے رسیو کیا اور عبدالمجید بھائی کی دوکان پر لے گئے ، وہاں میرا پُر تپاک استقبال ہوا ، وہاں عبدالمجید بھائی کے کچھ دوست بھی آئے ہوئے تھے ان سے بھی تعارف ہوا، ان دوستون نے چونکہ افغانستان کےلیے نکلنا تھا اس لیے عبد المجید بھائی پہلے ان کو بھگتانے میں مصروف رہے۔ وہاں قریبا ایک گھنٹہ پشتو میں بھرپور گفتگو ہوتی رہتی مگر میرے پلے ایک لفظ بھی نہ پڑا ، میں ہونقوں کی طرح کبھی عبدالمجید بھائی کو منہ اٹھا کر دیکھ لیتا تو کبھی ان کے دوستوں کو اور پھر مسکرا دیتا، گو کہ عبدالمجید بھائی درمیان میں بار بار میری کلفت ختم کرنے کےلیے کچھ باتوں کا اردو ترجمہ بھی کرتے رہے ، مگر اتنے سارے پٹھانوں کے درمیان ایک بندہ ، میرا مطلب ایک پنجابی آخر کیا کرتا ۔۔ صد شکر اسی دوران عبد المجید کے چھوٹے بھائی پشاوری پلاؤ لے آئے اور ساتھ پشاوری نان بھی۔۔ جب دستر خوان لگ رہا تھا تو میں سمجھا شاید نان کے ساتھ کوئی سالن بھی ہو گا مگر یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہاں نان چاولوں کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے خیر ہم نے پشاور کا مشہور پشاوری پلاؤ کھایا جو واقعی بہت لذیز تھا ۔ اس کے بعد نماز جمعہ کےلیے قریبی مسجد گئے وہاں وضو کے لیے قطار میں کھڑا ہوا، وہاں ایک عجیب بات دیکھی کہ ہر ٹونٹی کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار ہے ، مجھے خیال ہوا کہ شاید ایک دوسرے کو چھینٹوں سے بچانے کےلیے یہ اہتمام کیا گیا ہے، دل سے اس اقدام کےلیے بے ساختہ تحسین نکلی ، مگر اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے وہاں سے آگے والے بندے کو اٹھ کر ازار بند باندھتے دیکھا۔۔۔ تب ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم معاملے کی تہ تک پہنچ گئے ، وہ وضو خانہ نہیں بلکہ استنجا خانہ تھا ۔۔۔ ہم تھوڑا آگے کھسکے تو وضو خانہ بھی نظر آ گیا ، خیر نمازِ جمعہ ادا کی ۔ واپسی پر عبد المجید بھائی نے ہمیں پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کی سیر بھی کروائی۔ اس کے بعد وہ ہمیں اپنا پرنٹنگ پریس دکھانے لے گئے۔ بالا خانے پر نشست گاہ تھی وہاں بیٹھ کر گپ شپ کی پتہ چلا کہ آج کل عبدالمجید بھائی کو آسٹرالوجی کا شوق چڑھا ہوا ہے انہوں نے گھرکی چھت پر ایک دور بین بھی نصب کر رکھی ہے جس پر بقول ان کے وہ روز رات کوستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں جبکہ بقول دیگرے یہ سارا اہتمام وہ چاند پر چرخہ کاٹتی بڑھیا کی بیٹی کے دیدار کےلیے کرتے ہیں یا پھر آسمان سے پرے جنت کی حوریں تلاشتے ہیں اب حقیقتِ حال سے یا تو وہ خود واقف ہیں یا پھر ان کا خدا۔۔ !
خیر وہاں پر ہماری *مشترکہ محبوبہ کا ذکر بھی زور و شور سے ہوا اور دیر تک اسی دلربا کے قصے چلتے رہے ۔ باتوں کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور باہر رات ڈھل گئی ، میں نے عبدالمجید بھائی سے رخصت کی اجازت چاہی مگر وہ بضد تھے کہ وہ دو چار دن نہیں تو کام از کم ایک رات تو ان کے ہاں قیام کروں ، مگر ایک تو ہمیں حکامِ بالا کی طرف اجازت نہ تھی اور دوسرا لاک ڈاؤن کا خطرہ تھا کیونکہ ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈاؤن ہوتا اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی تھی ۔ با دلِ نخواستہ انہوں نے رخصت کی اجازت دینے سے پہلے ہمیں پشاور کے ایک معروف ریستوران سے دنبہ کڑاھی کھلائی جو لذت میں واقعی بے مثال تھی ۔ ان کے ایک پبلشر دوست بھی شریکِ طعام تھے۔
رخصت سے پہلے دفعتًا ہمیں یاد آیا کہ ہم پہلی دفعہ نئے دیس میں آئے ہیں تو خاتونِ خانہ کےلیے اس دیس کی کوئی سوغات ہدیہ لے کر چلنا چاہیے ، عبدالمجید بھائی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار سرِ شام ہی بند ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران عبدالمجید بھائی نے اپنی ذاتی تجربہ سے بتایا کہ پشاور کی ایک مشہور سوغات کھانے اور پہننے دونوں کے لیے یکساں مفید ہے یعنی ٹو ان ون اور وہ ہے پشاوری چپل وہ لے جاؤں ۔۔۔ مگر بازار بند تھا۔ خیر ڈرائی فروٹ کی ایک دوکان کھلی ملی وہاں سے کچھ لیا اور پھر عبدالمجید مجھے رات دس بجے کے قریب بس اسٹینڈ پر چھوڑ آئے اور یوں ایک دلچسپ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ۔
* فونٹ سازی
قصہ کوتاہ سب سے پہلے میری ملاقات تنویر قریشی بھائی سے ہوئی وہ واہ کینٹ سے ٹیکسلا آ کر مجھے اپنے گھر لے گئے ۔۔ وہاں انہوں نے ایک خطاط دوست (اشفاق صاحب) کو بھی بلایا ہوا تھا ۔ انکے ساتھ کافی اچھی گپ شپ رہی۔ تنویر بھائی نے ایک پرتکلف عشائیے کا اہتمام بھی کیا ہوا تھا ، مگر میری بدقسمتی کے میں نے دوپہر کا کھانا ہی بہت لیٹ کھایا تھا تقریبا شام میں ہی تو اس پرتکلف ضیافت کے مزے اڑانے سے قاصر رہا ۔۔ (امید ہے تنویر بھائی اس کوتاہی سے صرفِ نظر کریں گے ) دعوتِ طعام سے قبل تنویر بھائی نے ہمیں اپنے چڑیا گھر کی سیر بھی کرائی جو انہوں نے بالا خانے میں بنا رکھا ہے اور وہاں نوع نوع کے خوبصورت پرندے پال رکھے ہیں ۔۔ ان کی چہکار سن کر دل بہت خوش ہوا ۔ اس کے بعد تنویر بھائی مجھے واپس ٹیکسلا چھوڑ گئے ۔
دو دن بعد بروز جمعہ میں نے @عبدالمجيد بھائی سے ملاقات کےلیے پشاور کا رختِ سفر باندھا۔ عبدالمجید کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی تھی ، ان کے چھوٹے بھائی نے مجھے اڈے سے رسیو کیا اور عبدالمجید بھائی کی دوکان پر لے گئے ، وہاں میرا پُر تپاک استقبال ہوا ، وہاں عبدالمجید بھائی کے کچھ دوست بھی آئے ہوئے تھے ان سے بھی تعارف ہوا، ان دوستون نے چونکہ افغانستان کےلیے نکلنا تھا اس لیے عبد المجید بھائی پہلے ان کو بھگتانے میں مصروف رہے۔ وہاں قریبا ایک گھنٹہ پشتو میں بھرپور گفتگو ہوتی رہتی مگر میرے پلے ایک لفظ بھی نہ پڑا ، میں ہونقوں کی طرح کبھی عبدالمجید بھائی کو منہ اٹھا کر دیکھ لیتا تو کبھی ان کے دوستوں کو اور پھر مسکرا دیتا، گو کہ عبدالمجید بھائی درمیان میں بار بار میری کلفت ختم کرنے کےلیے کچھ باتوں کا اردو ترجمہ بھی کرتے رہے ، مگر اتنے سارے پٹھانوں کے درمیان ایک بندہ ، میرا مطلب ایک پنجابی آخر کیا کرتا ۔۔ صد شکر اسی دوران عبد المجید کے چھوٹے بھائی پشاوری پلاؤ لے آئے اور ساتھ پشاوری نان بھی۔۔ جب دستر خوان لگ رہا تھا تو میں سمجھا شاید نان کے ساتھ کوئی سالن بھی ہو گا مگر یہ بعد میں پتہ چلا کہ وہاں نان چاولوں کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے خیر ہم نے پشاور کا مشہور پشاوری پلاؤ کھایا جو واقعی بہت لذیز تھا ۔ اس کے بعد نماز جمعہ کےلیے قریبی مسجد گئے وہاں وضو کے لیے قطار میں کھڑا ہوا، وہاں ایک عجیب بات دیکھی کہ ہر ٹونٹی کے درمیان ایک چھوٹی سی دیوار ہے ، مجھے خیال ہوا کہ شاید ایک دوسرے کو چھینٹوں سے بچانے کےلیے یہ اہتمام کیا گیا ہے، دل سے اس اقدام کےلیے بے ساختہ تحسین نکلی ، مگر اس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ہم نے وہاں سے آگے والے بندے کو اٹھ کر ازار بند باندھتے دیکھا۔۔۔ تب ہمارا ماتھا ٹھنکا اور ہم معاملے کی تہ تک پہنچ گئے ، وہ وضو خانہ نہیں بلکہ استنجا خانہ تھا ۔۔۔ ہم تھوڑا آگے کھسکے تو وضو خانہ بھی نظر آ گیا ، خیر نمازِ جمعہ ادا کی ۔ واپسی پر عبد المجید بھائی نے ہمیں پشاور کے مشہور قصہ خوانی بازار کی سیر بھی کروائی۔ اس کے بعد وہ ہمیں اپنا پرنٹنگ پریس دکھانے لے گئے۔ بالا خانے پر نشست گاہ تھی وہاں بیٹھ کر گپ شپ کی پتہ چلا کہ آج کل عبدالمجید بھائی کو آسٹرالوجی کا شوق چڑھا ہوا ہے انہوں نے گھرکی چھت پر ایک دور بین بھی نصب کر رکھی ہے جس پر بقول ان کے وہ روز رات کوستاروں سے آگے نئے جہانوں کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں جبکہ بقول دیگرے یہ سارا اہتمام وہ چاند پر چرخہ کاٹتی بڑھیا کی بیٹی کے دیدار کےلیے کرتے ہیں یا پھر آسمان سے پرے جنت کی حوریں تلاشتے ہیں اب حقیقتِ حال سے یا تو وہ خود واقف ہیں یا پھر ان کا خدا۔۔ !
خیر وہاں پر ہماری *مشترکہ محبوبہ کا ذکر بھی زور و شور سے ہوا اور دیر تک اسی دلربا کے قصے چلتے رہے ۔ باتوں کے دوران وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا اور باہر رات ڈھل گئی ، میں نے عبدالمجید بھائی سے رخصت کی اجازت چاہی مگر وہ بضد تھے کہ وہ دو چار دن نہیں تو کام از کم ایک رات تو ان کے ہاں قیام کروں ، مگر ایک تو ہمیں حکامِ بالا کی طرف اجازت نہ تھی اور دوسرا لاک ڈاؤن کا خطرہ تھا کیونکہ ہفتہ اور اتوار مکمل لاک ڈاؤن ہوتا اور بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر بھی پابندی تھی ۔ با دلِ نخواستہ انہوں نے رخصت کی اجازت دینے سے پہلے ہمیں پشاور کے ایک معروف ریستوران سے دنبہ کڑاھی کھلائی جو لذت میں واقعی بے مثال تھی ۔ ان کے ایک پبلشر دوست بھی شریکِ طعام تھے۔
رخصت سے پہلے دفعتًا ہمیں یاد آیا کہ ہم پہلی دفعہ نئے دیس میں آئے ہیں تو خاتونِ خانہ کےلیے اس دیس کی کوئی سوغات ہدیہ لے کر چلنا چاہیے ، عبدالمجید بھائی سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازار سرِ شام ہی بند ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران عبدالمجید بھائی نے اپنی ذاتی تجربہ سے بتایا کہ پشاور کی ایک مشہور سوغات کھانے اور پہننے دونوں کے لیے یکساں مفید ہے یعنی ٹو ان ون اور وہ ہے پشاوری چپل وہ لے جاؤں ۔۔۔ مگر بازار بند تھا۔ خیر ڈرائی فروٹ کی ایک دوکان کھلی ملی وہاں سے کچھ لیا اور پھر عبدالمجید مجھے رات دس بجے کے قریب بس اسٹینڈ پر چھوڑ آئے اور یوں ایک دلچسپ ملاقات اختتام پذیر ہوئی ۔
* فونٹ سازی