فہیم
لائبریرین
2 دن پہلے یعنی بروزِِ ہفتہ شام کے وقت محفل پر لاگ ان ہوا تو تھوڑی دیر بعد مجھے راہبر (عمار) کی جانب سے ایک ذاتی پیغام موصول ہوا۔
جس میں مجھے اطلاع دی گئی کہ محب علوی صاحب بذاتِ خود کراچی میں تشریف فرما ہیں اور مجھ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔لٰہزا میں اپنا موبائل
نمبر دوں۔
پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ عمار کے پاس میرا موبائل نمبر پہلے سے ہی موجود ہے تو اب پھر دوبارہ کیوں مانگا جارہا ہے۔
پھر معلوم ہوا کہ موصوف اپنی پرانی سم ہاتھ سے گنوا بیٹھے تھے اور اب دوسری ڈپلیکٹ سم پر گزارا کررہے ہیں۔
عمار کے ذریعے ہی مجھے علوی صاحب کا نمبر مل گیا۔
میں نےٹرائی کیا تو پہلے تو کونٹیکٹ نہیں ہوپایا۔
پھر مغرب کے وقت علوی صاحب کی ہی کال میرے پاس آگئی جس میں ایک خبر یہ سننے کو ملی کہ علوی صاحب تو اگلے صبح ہی پرواز کے لیے تیار ہیں۔
یہ سن کر تھوڑا افسوس ہوا کیونکہ میں نے اگلے دن یعنی اتوار کے لیے کافی پروگرام ترتیب دے لیے تھے۔
پھر یہی طے پایا کہ ایک مختصر سی ملاقات تو بہرحال ہونی ہی چاہیے۔
میں نے علوی صاحب نے ان کا جائے قیام معلوم کیا۔
بعد میں عمار سے بات کرکے یہ بتایا اور پوچھا کہ اگر اس نے ساتھ چلنا ہےتو بتاؤ۔ ویسے عمار کی پہلے ہی علوی صاحب سے ملاقات ہوچکی تھی۔
جب میں عمار سے یہ بات کررہا تھا تو اس وقت ٹائم 7:30 کا تھا۔ اور عمار صاحب اسی وقت اپنے دفتر سے گھر پدھارے تھے۔ پھر میں نے خود ہی عمار کو منع
کردیا کہ چلو میں اکیلے ہی مل لیتا ہوں۔
اب ایک بات یہ تھی کہ علوی صاحب کی فلائٹ صبح 8 بجے کی تھی۔ اور انھوں نے صبح 7 بجے اٹھنا بھی تھا۔
تو اگر رات کو جلدی سوتے تو صبح جلدی بیدار ہوتے۔
میں نے تقریباً 3 دفعہ علوی صاحب سے یہ کنفرم کیا کہ وہ ابھی جاگ رہے ہیں۔
اب یہ علوی صاحب کی محبت کہ انھوں نے میری بات کا پاس رکھا اور نیند کی وادی میں جانے کے بجائے میرا انتظار کیا۔
میں نے آفس سے ہی ایک دوست کو کال کرکے اپنے پاس بلایا اور آفس سے ہی علوی صاحب کے پاس جانے کا فیصلہ کرلیا۔
علوی صاحب نے مجھے ملیر کے ایریے کا پتہ دیا تھا۔ جب میں نے اپنے دوست سے کو بتایا تو اس نے مجھے مشورہ دیا کہ اگر ابھی بائیک پر وہاں جائیں تو اس
کا مطلب ہوگا کہ واپسی پر ہاتھ میں بجائے بائیک کے پیپرز کے بجائے ان کا چلان ہوگا۔
اس وقت 9 بجے کا ٹائم ہوا تھا۔
اور ہم دونوں کے ساتھ چلان ہونے کی کافی وجوہات موجود تھیں۔ جن میں سب سے پہلے تو یہی کہ دونوں میں سے کسی کے پاس بھی لائسنس ہی نہیں
ہے۔
پھر یہی طے پایا کہ بائیک پر جانا مناسب نہیں۔
دونوں کی بائیکوں کو آفس کی بلڈنگ میں چھوڑ کر ہم ویسے ہی ملیر جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
اب جس رکشے والے کو ملیر کا نام لو وہ گردن کا منفی جنبش دے اور آگے بڑھ جائے۔ پھر اللہ اللہ کرے ایک رکشے والا جانے پر آمادہ ہوا اور میں نے سکون کا
سانس لیا۔
پھر سفر شروع ہوا۔ اور کوئی 10 سے تھوڑا اوپر میں محب علوی صاحب کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔
میں نے گھر کے باہر سے ہی علوی صاحب کو کال کی اور ان سے کہا کہ بتائیں میں کہاں ہوں۔ انھوں نے یہی سمجھا کہ میں ان کے بتائے ہوئے اسٹاپ پر پہنچ
گیا ہوں۔ لیکن میں تو اسٹاپ کے بجائے دروازے پر موجود تھا۔
یہ سن کر علوی صاحب فوراً دروازے پر آ موجود ہوئے۔
پھر محب علوی صاحب کے ساتھ ساتھ ہمارے محفل کے ایک اور رکن جناب فہد صاحب (ابوشامل) سے بھی ملاقات ہوئی علوی صاحب ان کے پاس ہی مقیم
تھے۔
بس پھر کیا تھا۔ جب مل بیٹھے دیوانے 3 ویسے تو 4 تھے لیکن میرے دوست کا تعلق چونکہ اردو محفل سے نہیں تھا اس لیے اس نے گفتگو میں زیادہ حصہ
نہیں لیا۔
میں علوی صاحب کی سادگی پر حیران تھا۔ میں نے دوران گفتگو اس بات کو کہا بھی کہ محب بھائی آپ کی تو شخصیت ہی آپ کی انٹرنیٹ کی شخصیت
سے بالکل مختلف ہے۔ ایک طرف وہ شوخ انداز اور ایک طرف ایک سادہ اور شفقت بھرا انداز۔
خیر میرے بارے میں محب صاحب اور فہد صاحب نے کیا تاثر لیا یہ تو وہی بتاسکیں گے لیکن میرے لیے یہ ملاقات کافی یادگار رہے گی۔
بس اس بات کا افسوس ہے کہ میں محب بھائی کو اس وقت ملا جب وہ واپس جارہے تھے۔ اور میں انھیں وہ وقت نہیں دے پایا جو میں دینا چاہتا تھا۔
جس میں مجھے اطلاع دی گئی کہ محب علوی صاحب بذاتِ خود کراچی میں تشریف فرما ہیں اور مجھ سے ملاقات کے خواہش مند ہیں۔لٰہزا میں اپنا موبائل
نمبر دوں۔
پہلے تو مجھے حیرت ہوئی کہ عمار کے پاس میرا موبائل نمبر پہلے سے ہی موجود ہے تو اب پھر دوبارہ کیوں مانگا جارہا ہے۔
پھر معلوم ہوا کہ موصوف اپنی پرانی سم ہاتھ سے گنوا بیٹھے تھے اور اب دوسری ڈپلیکٹ سم پر گزارا کررہے ہیں۔
عمار کے ذریعے ہی مجھے علوی صاحب کا نمبر مل گیا۔
میں نےٹرائی کیا تو پہلے تو کونٹیکٹ نہیں ہوپایا۔
پھر مغرب کے وقت علوی صاحب کی ہی کال میرے پاس آگئی جس میں ایک خبر یہ سننے کو ملی کہ علوی صاحب تو اگلے صبح ہی پرواز کے لیے تیار ہیں۔
یہ سن کر تھوڑا افسوس ہوا کیونکہ میں نے اگلے دن یعنی اتوار کے لیے کافی پروگرام ترتیب دے لیے تھے۔
پھر یہی طے پایا کہ ایک مختصر سی ملاقات تو بہرحال ہونی ہی چاہیے۔
میں نے علوی صاحب نے ان کا جائے قیام معلوم کیا۔
بعد میں عمار سے بات کرکے یہ بتایا اور پوچھا کہ اگر اس نے ساتھ چلنا ہےتو بتاؤ۔ ویسے عمار کی پہلے ہی علوی صاحب سے ملاقات ہوچکی تھی۔
جب میں عمار سے یہ بات کررہا تھا تو اس وقت ٹائم 7:30 کا تھا۔ اور عمار صاحب اسی وقت اپنے دفتر سے گھر پدھارے تھے۔ پھر میں نے خود ہی عمار کو منع
کردیا کہ چلو میں اکیلے ہی مل لیتا ہوں۔
اب ایک بات یہ تھی کہ علوی صاحب کی فلائٹ صبح 8 بجے کی تھی۔ اور انھوں نے صبح 7 بجے اٹھنا بھی تھا۔
تو اگر رات کو جلدی سوتے تو صبح جلدی بیدار ہوتے۔
میں نے تقریباً 3 دفعہ علوی صاحب سے یہ کنفرم کیا کہ وہ ابھی جاگ رہے ہیں۔
اب یہ علوی صاحب کی محبت کہ انھوں نے میری بات کا پاس رکھا اور نیند کی وادی میں جانے کے بجائے میرا انتظار کیا۔
میں نے آفس سے ہی ایک دوست کو کال کرکے اپنے پاس بلایا اور آفس سے ہی علوی صاحب کے پاس جانے کا فیصلہ کرلیا۔
علوی صاحب نے مجھے ملیر کے ایریے کا پتہ دیا تھا۔ جب میں نے اپنے دوست سے کو بتایا تو اس نے مجھے مشورہ دیا کہ اگر ابھی بائیک پر وہاں جائیں تو اس
کا مطلب ہوگا کہ واپسی پر ہاتھ میں بجائے بائیک کے پیپرز کے بجائے ان کا چلان ہوگا۔
اس وقت 9 بجے کا ٹائم ہوا تھا۔
اور ہم دونوں کے ساتھ چلان ہونے کی کافی وجوہات موجود تھیں۔ جن میں سب سے پہلے تو یہی کہ دونوں میں سے کسی کے پاس بھی لائسنس ہی نہیں
ہے۔
پھر یہی طے پایا کہ بائیک پر جانا مناسب نہیں۔
دونوں کی بائیکوں کو آفس کی بلڈنگ میں چھوڑ کر ہم ویسے ہی ملیر جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
اب جس رکشے والے کو ملیر کا نام لو وہ گردن کا منفی جنبش دے اور آگے بڑھ جائے۔ پھر اللہ اللہ کرے ایک رکشے والا جانے پر آمادہ ہوا اور میں نے سکون کا
سانس لیا۔
پھر سفر شروع ہوا۔ اور کوئی 10 سے تھوڑا اوپر میں محب علوی صاحب کے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گیا۔
میں نے گھر کے باہر سے ہی علوی صاحب کو کال کی اور ان سے کہا کہ بتائیں میں کہاں ہوں۔ انھوں نے یہی سمجھا کہ میں ان کے بتائے ہوئے اسٹاپ پر پہنچ
گیا ہوں۔ لیکن میں تو اسٹاپ کے بجائے دروازے پر موجود تھا۔
یہ سن کر علوی صاحب فوراً دروازے پر آ موجود ہوئے۔
پھر محب علوی صاحب کے ساتھ ساتھ ہمارے محفل کے ایک اور رکن جناب فہد صاحب (ابوشامل) سے بھی ملاقات ہوئی علوی صاحب ان کے پاس ہی مقیم
تھے۔
بس پھر کیا تھا۔ جب مل بیٹھے دیوانے 3 ویسے تو 4 تھے لیکن میرے دوست کا تعلق چونکہ اردو محفل سے نہیں تھا اس لیے اس نے گفتگو میں زیادہ حصہ
نہیں لیا۔
میں علوی صاحب کی سادگی پر حیران تھا۔ میں نے دوران گفتگو اس بات کو کہا بھی کہ محب بھائی آپ کی تو شخصیت ہی آپ کی انٹرنیٹ کی شخصیت
سے بالکل مختلف ہے۔ ایک طرف وہ شوخ انداز اور ایک طرف ایک سادہ اور شفقت بھرا انداز۔
خیر میرے بارے میں محب صاحب اور فہد صاحب نے کیا تاثر لیا یہ تو وہی بتاسکیں گے لیکن میرے لیے یہ ملاقات کافی یادگار رہے گی۔
بس اس بات کا افسوس ہے کہ میں محب بھائی کو اس وقت ملا جب وہ واپس جارہے تھے۔ اور میں انھیں وہ وقت نہیں دے پایا جو میں دینا چاہتا تھا۔