انیس جان
محفلین
یہ میرا شوارما سے آشنائی کا قصہ ہے۔
ہوا یوں کہ ایک دفعہ میں اپنے گھر کے آگے نیم کے درخت کے نیچے چارپائی ڈال کر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دوست آیا اور کہنے لگا "چلو خان صاحب آج آپ کو شوارما کھلاتے ہیں"
میں نے فوراً کہا کہ، اگر تم اپنے پیسے سے زہر بھی لے دو تو میں کھا لوں یہ تو پھر بھی کوئی کھانے کی چیز ہے
الغرض ہم شوارما کھانے روانہ ہوگئے
راستے میں شوارمے کے متعلق میرے ذہن میں مختلف خیالات آ رہے تھے
کبھی سوچتا کہ یہ کوئی موسمی پھل ہوگا جسے انگریزی میں شوارما کہتے ہوں گے اور پھر خود ہی اس کی نفی کردیتا کہ نہیں بلکہ یہ پنجاب کی کوئی خاص سوغات ہوگی
غرض "جتنے قدم اتنے سوچ"
انہی خیالات میں غلطاں ہم شوارمے کی ایک دکان پر پہنچے دکان کے دروازے کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا "پری پیکر شوارما " پری پیکر کا لفظ دیکھ کر میری رگِ عاشقانہ پھڑک اٹھی دل بلیوں اچھلنے لگا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہوگی جسے پری پیکروں کے ہاتھ سے کھانا ہوگا
ہم دکان میں داخل ہو گئے دوست تو ایک میز پر بیٹھ گیا
اور میں کھڑا ہو کر دکان کے کمرہِ خاص میں تانک جھانک کرنے لگا کہ شاید یہاں کہیں پری پیکروں کو بٹھایا گیا ہو لیکن چند "مکروہ الشکل"قسم کے بندوں کے سوا کوئی نظر نہ آیا
تھوڑی دیر کی تانک جھانک کے بعد میں بھی دل کو سنبھالا دے کر دوست کے پاس ہی بیٹھ کر شوارما کا انتظار کرنے لگا
پانچ دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک شخص کفن میں لپٹی ہوئی دو چیزیں لا کر ہمارے آگے رکھ گیا
اور میرے کانوں میں غالب کا یہ مشہور مصرع گونجنے لگا کہ
"ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے"
غالب نے تو کسی چکنی ڈلّی کو دیکھ کر یہ لکھا تھا لیکن مصرع تو بلکل شوارمے کے اوپر پورا اتر رہا تھا
میں کیا میرے "دادا و پردادا" نے بھی شوارما نہیں کھایا ہوگا
بھنے ہوئے سالم بکرے جن کے پیٹ میں چاول اور مرغیاں بھی ہوتی تھی گاؤں میں بارہا کھانے کو ملی تھی
لیکن یہ تو عجیب ہی شے تھی کفن میں لپٹی ہوئی!!!! للعجب۔۔
میں دوبارہ کھڑا ہو کر دکان میں لگے ہوئے پمفلٹ پڑھنے لگا کہ شاید کہیں کسی کاغذ پر اسے کھولنے اور کھول کر کھانے کا طریقہ لکھا ہوا ہو سب کے سب پمفلٹ پڑھ لیے ان میں اسے کھانے کی دعائیں تو تھیں لیکن طریقہ کہیں بھی نہیں لکھا تھا
اب میں بیٹھ کر لوگوں کی طرف دیکھ کے اسے کھانے کا طریقہ سیکھنے کی کوشش کرنے لگا اور زیرِلب ہی یہ مصرع بار بار پڑھ رہا تھا
" کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی"
تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد اسے کھولنے کا طریقہ سیکھ لیا
بس پھر کیا تھا جھٹ سے میں نے بھی اسے کھول لیا
اب کھانے کی باری آ گئی
جب کھانے کیلیے اسے دہن مبارک تک اٹھایا تو اففف !!!!! غضب ہوگیا
ملائی کی طرح کوئی سفید قسم کی چیز میں میرے مونچھ لتھڑے ہوئے تھے
اور وہ چیز میرے ریش مبارک کے اوپر باریک سی دھاری بنا کر میرے کالے رنگ کے کاٹن کے سوٹ کو گندا کرتے ہوئے میری جوتیوں کے اوپر گری ہوئی تھی
اور تنی مرچ ہم پندرہ بہن بھائی دو وقت کی ہانڈی میں نہیں ڈالتے جتنی مرچ اس چھوٹی سی کفن میں لپٹی ہوئی شے کے اندر تھی
مرچوں کی تیزی برداشت سے باہر ہو رہی تھی پسینہ جبین مبارک سے برسات کی طرح یا پھر گنہگار کی آنکھوں سے بوقتِ ندامت بہنے والے آنسوؤں کی طرح بہہ رہا تھا اور میں پانی پر پانی کے گلاس پیے جا رہا تھا
دکان میں میرے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ مجھے دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے
میں نے دوکاندار سے ایک پلیٹ منگوائی اور اس پلیٹ میں شوارمے کو کفن سے نکال کر اس کے لقمے تھوڑ تھوڑ کر کھانے لگا
اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی بھی ایسی غیرمعروف چیز نہیں کھاؤں گا
گو اس حادثے کے بعد بھی کئی بار شوارما کھایا لیکن اس طرح سرِ بازار نہیں بلکہ کمرہ خاص کے اندر خلوت سرا میں جہاں کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی
تو دوستوں یہ تھا میرا شوارمے سے واقف ہونے کا دلچسپ واقعہ
یہ تحریر جب میں نے اپنی ہمشیرہ کو سنائی تو وہ کہنے لگی کہ کس کا واقعہ ہے میں نے جواباً یہ شعر فی البدیہہ سنا دیا کہ
قصّہ شوارمے سے مری آشنائی کا
بہنا ہوا تھا حال عجب تیرے بھائی کا
ہوا یوں کہ ایک دفعہ میں اپنے گھر کے آگے نیم کے درخت کے نیچے چارپائی ڈال کر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دوست آیا اور کہنے لگا "چلو خان صاحب آج آپ کو شوارما کھلاتے ہیں"
میں نے فوراً کہا کہ، اگر تم اپنے پیسے سے زہر بھی لے دو تو میں کھا لوں یہ تو پھر بھی کوئی کھانے کی چیز ہے
الغرض ہم شوارما کھانے روانہ ہوگئے
راستے میں شوارمے کے متعلق میرے ذہن میں مختلف خیالات آ رہے تھے
کبھی سوچتا کہ یہ کوئی موسمی پھل ہوگا جسے انگریزی میں شوارما کہتے ہوں گے اور پھر خود ہی اس کی نفی کردیتا کہ نہیں بلکہ یہ پنجاب کی کوئی خاص سوغات ہوگی
غرض "جتنے قدم اتنے سوچ"
انہی خیالات میں غلطاں ہم شوارمے کی ایک دکان پر پہنچے دکان کے دروازے کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا "پری پیکر شوارما " پری پیکر کا لفظ دیکھ کر میری رگِ عاشقانہ پھڑک اٹھی دل بلیوں اچھلنے لگا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہوگی جسے پری پیکروں کے ہاتھ سے کھانا ہوگا
ہم دکان میں داخل ہو گئے دوست تو ایک میز پر بیٹھ گیا
اور میں کھڑا ہو کر دکان کے کمرہِ خاص میں تانک جھانک کرنے لگا کہ شاید یہاں کہیں پری پیکروں کو بٹھایا گیا ہو لیکن چند "مکروہ الشکل"قسم کے بندوں کے سوا کوئی نظر نہ آیا
تھوڑی دیر کی تانک جھانک کے بعد میں بھی دل کو سنبھالا دے کر دوست کے پاس ہی بیٹھ کر شوارما کا انتظار کرنے لگا
پانچ دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک شخص کفن میں لپٹی ہوئی دو چیزیں لا کر ہمارے آگے رکھ گیا
اور میرے کانوں میں غالب کا یہ مشہور مصرع گونجنے لگا کہ
"ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا کہیے"
غالب نے تو کسی چکنی ڈلّی کو دیکھ کر یہ لکھا تھا لیکن مصرع تو بلکل شوارمے کے اوپر پورا اتر رہا تھا
میں کیا میرے "دادا و پردادا" نے بھی شوارما نہیں کھایا ہوگا
بھنے ہوئے سالم بکرے جن کے پیٹ میں چاول اور مرغیاں بھی ہوتی تھی گاؤں میں بارہا کھانے کو ملی تھی
لیکن یہ تو عجیب ہی شے تھی کفن میں لپٹی ہوئی!!!! للعجب۔۔
میں دوبارہ کھڑا ہو کر دکان میں لگے ہوئے پمفلٹ پڑھنے لگا کہ شاید کہیں کسی کاغذ پر اسے کھولنے اور کھول کر کھانے کا طریقہ لکھا ہوا ہو سب کے سب پمفلٹ پڑھ لیے ان میں اسے کھانے کی دعائیں تو تھیں لیکن طریقہ کہیں بھی نہیں لکھا تھا
اب میں بیٹھ کر لوگوں کی طرف دیکھ کے اسے کھانے کا طریقہ سیکھنے کی کوشش کرنے لگا اور زیرِلب ہی یہ مصرع بار بار پڑھ رہا تھا
" کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی"
تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد اسے کھولنے کا طریقہ سیکھ لیا
بس پھر کیا تھا جھٹ سے میں نے بھی اسے کھول لیا
اب کھانے کی باری آ گئی
جب کھانے کیلیے اسے دہن مبارک تک اٹھایا تو اففف !!!!! غضب ہوگیا
ملائی کی طرح کوئی سفید قسم کی چیز میں میرے مونچھ لتھڑے ہوئے تھے
اور وہ چیز میرے ریش مبارک کے اوپر باریک سی دھاری بنا کر میرے کالے رنگ کے کاٹن کے سوٹ کو گندا کرتے ہوئے میری جوتیوں کے اوپر گری ہوئی تھی
اور تنی مرچ ہم پندرہ بہن بھائی دو وقت کی ہانڈی میں نہیں ڈالتے جتنی مرچ اس چھوٹی سی کفن میں لپٹی ہوئی شے کے اندر تھی
مرچوں کی تیزی برداشت سے باہر ہو رہی تھی پسینہ جبین مبارک سے برسات کی طرح یا پھر گنہگار کی آنکھوں سے بوقتِ ندامت بہنے والے آنسوؤں کی طرح بہہ رہا تھا اور میں پانی پر پانی کے گلاس پیے جا رہا تھا
دکان میں میرے سامنے بیٹھے ہوئے لوگ مجھے دیکھ کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے
میں نے دوکاندار سے ایک پلیٹ منگوائی اور اس پلیٹ میں شوارمے کو کفن سے نکال کر اس کے لقمے تھوڑ تھوڑ کر کھانے لگا
اور عہد کیا کہ آئندہ کبھی بھی ایسی غیرمعروف چیز نہیں کھاؤں گا
گو اس حادثے کے بعد بھی کئی بار شوارما کھایا لیکن اس طرح سرِ بازار نہیں بلکہ کمرہ خاص کے اندر خلوت سرا میں جہاں کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی
تو دوستوں یہ تھا میرا شوارمے سے واقف ہونے کا دلچسپ واقعہ
یہ تحریر جب میں نے اپنی ہمشیرہ کو سنائی تو وہ کہنے لگی کہ کس کا واقعہ ہے میں نے جواباً یہ شعر فی البدیہہ سنا دیا کہ
قصّہ شوارمے سے مری آشنائی کا
بہنا ہوا تھا حال عجب تیرے بھائی کا
آخری تدوین: