خرم
محفلین
گزشتہ جمعہ کو امریکہ کا یوم آزادی تھا اور امریکی کیونکہ پاکستانیوں کی طرح محنتی اور جفاکش نہیں ہوتے اس لئے یہاں چار جولائی کو چھٹی ہوتی ہے۔ اس برس ہم نے منشور یہ بنایا کہ چار جولائی کو امریکہ کی وسطی ریاستوں کی سیاحت کی جائے۔ آجکل کیونکہ میرا پراجیکٹ آئیووا میں ہے اس لئے تجویز یہ قرار پائی کہ ایک ہفتہ قبل معہ اہل و عیال آئیووا قیام کیا جائے اور پھر چھٹیوں میں آئیووا، میسوری اور کینساس کی ریاستوں کی سیاحت پر نکلا جائے۔ اس لئے حسب پروگرام ہم ہفتہ اٹھائیس جون کو آرلینڈو سے روانہ ہوئے۔ سفر کے لئے ہماری پرواز امریکن ایئرلائنز سے تھی اور ہماری بیگم ان کی سروس کی کچھ زیادہ مداح نہیں ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہمیں سب سے آخری نشستیں ملیں لہٰذا اگرچہ جہاز کا اے سی ٹھنڈ کے بادل نما مرغولے پھینک رہا تھا، ہماری بیگم کا مزاج اتنا ہی سرد تھا جتنا کہ سبی میں جون کا کوئی بھی دن۔ اس پر مستزاد یہ کہ موسم کی وجہ سے پرواز ایک گھنٹہ تاخیر سے روانہ ہوئی ۔ جب جہاز اُڑا تو ہم نے بیگم اور خدیجہ کو آخر سے پہلے والی تین نشستیں پیش کیں اور خود نورالعین کو لے کر پیچھے والی دو نشستوں پر براجمان ہو گئے۔ آہستہ آہستہ جہاز بلند اور بیگم کا غصہ کم ہوتا گیا اور جب رات دس بجے جہاز شکاگو اُترا تو بیگم کا مزاج چند کین جوس اور تین گھنٹے آرام سے سفر کرنے کے بعد معمول پر آچکا تھا۔ اس دوران نورالعین نے بھی جہاز کے ان تمام کل پرزوں کی خوب خبر لی جو اس کی دسترس میں تھے لیکن جہاز بھی اس کے والد کی عمر کا اور تقریبا اتنا ہی ڈھیٹ تھا لہٰذا کوئی وقوعہ نہیں ہوا۔
ایئر پورٹ سے سامان لیکر کرائے کی گاڑی کے لئے کمپنی کے اڈے پر پہنچے۔ اب ہم ایک کار کمپنی کے ممبر ہیں جس کے تحت ہم ان کی کوئی بھی کار کرایہ پر لیں ہمیں کرایہ ایک ہی دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا سینکڑوں گاڑیوں میں سے ایک چننے کے لئے وہی معمول کی بحث
یہ لے لیں؟ "اونہوں بہت بڑی ہے"
یہ لے لیں؟ "اونہوں یہ چھوٹی ہے"
اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ "سامان نہیں آئے گا"
آخر ایک گاڑی نیم پسند آئی اور اس میں اسباب رکھ کر روانہ ہوئے۔ ہوٹل پہنچے، اسباب کمرے میں رکھا اور دوڑے دیوان سٹریٹ کی طرف جو شکاگو کا دیسی کارنر ہے۔ بیگم نے ریستوران والوں سے فون پر ان کے اوقات پوچھے اور انہوں نے کہا کہ رات بارہ بجے تک ریستوران کھلا ہے۔ بارہ بجنے میں تین، چار منٹ باقی تھے جب ریستوران پہنچے مگر جب اندر پہنچے تو انہوں نے کہا کہ کھانا گھر لے جانے کے لئے تو دستیاب ہے لیکن بیٹھ کر کھانے کے لئے نہیں۔ انہیں توجہ دلائی کہ ابھی بارہ بجنے میں دو تین منٹ ہیں اور اخلاقاً وہ ہمیں کھانا کھلانے کے پابند ہیں لیکن انہوں نے اپنی بات پر اصرار کیا۔ بس اس پر ہمارے اندر چھپا بیٹھا راجپوت بیدار ہوا اور نہ صرف بیدار ہوا بلکہ اس بات کو اپنی توہین سمجھ کر بچوں کا ہاتھ پکڑ دروازے سے باہر۔ بیگم بھی حیران پریشان ہمارے پیچھے گاڑی میں آبیٹھیں۔ اب غصہ عقل کا دشمن تو ہوتا ہی ہے، ہمارا غصہ ہمارے پیٹ کا دشمن بھی ثابت ہوا کہ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ کھانے پینے کی تمام دوکانیں بند ہو چکی ہیں۔ بچیوں کے لئے دودھ لیا ایک فارمیسی سے اور غصہ میں بھنکتے ہوئے ہوٹل واپس آدھمکے۔ اب آدھی رات کے بعد ہوٹل کا ریستوران بھی بند ہو چکا تھا اور جو چیزیں رات کے لئے وہاں سے دستیاب تھیں ان میں سے بھی کوئی جی کو نہیں لگتی تھی۔ اب غصہ مزید تیز ہوا اور اس کا نشانہ ریستوران والوں کےعلاوہ مابدولت خود بھی تھے۔ لہٰذا اس اکھڑ راجپوت کے لئے ایک ہی راستہ تھا کہ رات بھوکا رہ کر گزارا کیا جائے سو یہی راستہ اختیار کیا۔ زیادتی صرف یہ ہوئی کہ بیگم کو بھی وہ رات بھوکا سو کر گزارنا پڑی جو بیچاری نے انتہائی صبر سے گزاری۔ اللہ انہیں جزا اور ہمیں عقل دے۔ آمین۔
اگلی صبح تک ہمارا غصہ تو ہوا ہو چکا تھا اور اب اس کی جگہ ندامت نے لے لی تھی۔ بچیوں کو تیار کروایا، بیگم کو منایا اور پھر واپس آدھمکے دیوان سٹریٹ پر ناشتے کے لئے۔ ایک حلوائی کی دوکان میں گھسے ناشتہ کے لئے۔ حلوہ پوری منگوائی گئی اور جو بھی آیا اس میں حلوہ تو کمیاب تھا، پوریاں اور اچار وغیرہ البتہ کافی مقدار میں تھے۔ اب ہم ٹھہرے سیدھے سادھی پنجابی، پوریوں کے ساتھ بھاجی اور اچار کا تعلق ہمارے ذوق کثیف سے کافی اوپر کی چیز ہے لیکن بہرحال ناشتہ تو کرنا تھا سو کیا۔ ناشتہ کر کے مشیگن جھیل پر گئے، وہاں چہل قدمی کی، پھر ہلکی ہلکی پھوار کے دوران اندرون شہر گھومے اور بیگم کو سیئزر ٹاور جو کبھی دنیا کو اور آج امریکہ کی سب سے اونچی عمارت ہے، اس کی سیر کروائی۔ نہ صرف سیر کروائی بلکہ اس کے اوپر بھی لیکر گئے جہاں سے بیگم واہ واہ کرتی رہیں اور ہم ڈر کے مارے کانپتے رہے۔ آپ خود ہی انصاف کیجئے، ایک سو تین منزل کی اونچائی سے جب آپ شیشے کی دیواروں سے نیچے گزرتی ٹریفک اور عمارتوں کے انبار کو دیکھیں، اتنی بلندی کہ نیچے سڑک پر چلتے ٹرک چیونٹیوں جتنے نظر آئیں تو جان ہوا ہوگی کہ لطف آئے گا؟ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ سیئرز ٹاور اپنی جگہ ہی قائم رہا اور ہم بخیر واپس زمین پر واپس آگئے۔
اب پھر وہی مسئلہ درپیش کہ کھانا کہاں کھایا جائے؟ جو اچھی جگہ تھی وہاں تو ہم رات کو لڑ لئے اور باقی جگہوں پر کھانا زہر مار کرنا اپنے اور بیوی بچوں کے ساتھ زیادتی تھا۔ اس لئے اکھڑ راجپوت کو اخلاقیات کا درس دے کر خاموش کروایا اور ایک شاہانہ بے نیازی سے دوبارہ اسی ریستوران میں جادھمکے۔ اللہ کریم کی رحمت ایسے ہوئی کہ ریستوران کے مالک خود موجود تھے۔ اپنی نگرانی میں نشست لگوائی اور کھانے کا آرڈر لیا۔ کھانا رات والے صاحب ہی لیکر آئے۔ موقع غنیمت جان کر ہم نے ان سے شکوہ کیا کہ رات ان کے سلوک سے ہمارا جی بہت دُکھا۔ انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی چاہی اور ہم نے بھی دوستی کر لی کہ اچھے بچے لڑا نہیں کرتے۔ کھانا لذیذ تھا اس لئے کھایا بھی اور ایک ہفتہ کے لئے پیک بھی کروا لیا۔ پیٹ پوجا سے فارغ ہوکر آئیووا کا قصد کیا اور رات کا گجر قریباً ساڑھے گیارہ بجا رہا تھا جب ہم ہوٹل پہنچے۔
جاری ہے ۔۔۔۔
ایئر پورٹ سے سامان لیکر کرائے کی گاڑی کے لئے کمپنی کے اڈے پر پہنچے۔ اب ہم ایک کار کمپنی کے ممبر ہیں جس کے تحت ہم ان کی کوئی بھی کار کرایہ پر لیں ہمیں کرایہ ایک ہی دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا سینکڑوں گاڑیوں میں سے ایک چننے کے لئے وہی معمول کی بحث
یہ لے لیں؟ "اونہوں بہت بڑی ہے"
یہ لے لیں؟ "اونہوں یہ چھوٹی ہے"
اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ "سامان نہیں آئے گا"
آخر ایک گاڑی نیم پسند آئی اور اس میں اسباب رکھ کر روانہ ہوئے۔ ہوٹل پہنچے، اسباب کمرے میں رکھا اور دوڑے دیوان سٹریٹ کی طرف جو شکاگو کا دیسی کارنر ہے۔ بیگم نے ریستوران والوں سے فون پر ان کے اوقات پوچھے اور انہوں نے کہا کہ رات بارہ بجے تک ریستوران کھلا ہے۔ بارہ بجنے میں تین، چار منٹ باقی تھے جب ریستوران پہنچے مگر جب اندر پہنچے تو انہوں نے کہا کہ کھانا گھر لے جانے کے لئے تو دستیاب ہے لیکن بیٹھ کر کھانے کے لئے نہیں۔ انہیں توجہ دلائی کہ ابھی بارہ بجنے میں دو تین منٹ ہیں اور اخلاقاً وہ ہمیں کھانا کھلانے کے پابند ہیں لیکن انہوں نے اپنی بات پر اصرار کیا۔ بس اس پر ہمارے اندر چھپا بیٹھا راجپوت بیدار ہوا اور نہ صرف بیدار ہوا بلکہ اس بات کو اپنی توہین سمجھ کر بچوں کا ہاتھ پکڑ دروازے سے باہر۔ بیگم بھی حیران پریشان ہمارے پیچھے گاڑی میں آبیٹھیں۔ اب غصہ عقل کا دشمن تو ہوتا ہی ہے، ہمارا غصہ ہمارے پیٹ کا دشمن بھی ثابت ہوا کہ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ کھانے پینے کی تمام دوکانیں بند ہو چکی ہیں۔ بچیوں کے لئے دودھ لیا ایک فارمیسی سے اور غصہ میں بھنکتے ہوئے ہوٹل واپس آدھمکے۔ اب آدھی رات کے بعد ہوٹل کا ریستوران بھی بند ہو چکا تھا اور جو چیزیں رات کے لئے وہاں سے دستیاب تھیں ان میں سے بھی کوئی جی کو نہیں لگتی تھی۔ اب غصہ مزید تیز ہوا اور اس کا نشانہ ریستوران والوں کےعلاوہ مابدولت خود بھی تھے۔ لہٰذا اس اکھڑ راجپوت کے لئے ایک ہی راستہ تھا کہ رات بھوکا رہ کر گزارا کیا جائے سو یہی راستہ اختیار کیا۔ زیادتی صرف یہ ہوئی کہ بیگم کو بھی وہ رات بھوکا سو کر گزارنا پڑی جو بیچاری نے انتہائی صبر سے گزاری۔ اللہ انہیں جزا اور ہمیں عقل دے۔ آمین۔
اگلی صبح تک ہمارا غصہ تو ہوا ہو چکا تھا اور اب اس کی جگہ ندامت نے لے لی تھی۔ بچیوں کو تیار کروایا، بیگم کو منایا اور پھر واپس آدھمکے دیوان سٹریٹ پر ناشتے کے لئے۔ ایک حلوائی کی دوکان میں گھسے ناشتہ کے لئے۔ حلوہ پوری منگوائی گئی اور جو بھی آیا اس میں حلوہ تو کمیاب تھا، پوریاں اور اچار وغیرہ البتہ کافی مقدار میں تھے۔ اب ہم ٹھہرے سیدھے سادھی پنجابی، پوریوں کے ساتھ بھاجی اور اچار کا تعلق ہمارے ذوق کثیف سے کافی اوپر کی چیز ہے لیکن بہرحال ناشتہ تو کرنا تھا سو کیا۔ ناشتہ کر کے مشیگن جھیل پر گئے، وہاں چہل قدمی کی، پھر ہلکی ہلکی پھوار کے دوران اندرون شہر گھومے اور بیگم کو سیئزر ٹاور جو کبھی دنیا کو اور آج امریکہ کی سب سے اونچی عمارت ہے، اس کی سیر کروائی۔ نہ صرف سیر کروائی بلکہ اس کے اوپر بھی لیکر گئے جہاں سے بیگم واہ واہ کرتی رہیں اور ہم ڈر کے مارے کانپتے رہے۔ آپ خود ہی انصاف کیجئے، ایک سو تین منزل کی اونچائی سے جب آپ شیشے کی دیواروں سے نیچے گزرتی ٹریفک اور عمارتوں کے انبار کو دیکھیں، اتنی بلندی کہ نیچے سڑک پر چلتے ٹرک چیونٹیوں جتنے نظر آئیں تو جان ہوا ہوگی کہ لطف آئے گا؟ بہرحال خدا کا شکر ہے کہ سیئرز ٹاور اپنی جگہ ہی قائم رہا اور ہم بخیر واپس زمین پر واپس آگئے۔
اب پھر وہی مسئلہ درپیش کہ کھانا کہاں کھایا جائے؟ جو اچھی جگہ تھی وہاں تو ہم رات کو لڑ لئے اور باقی جگہوں پر کھانا زہر مار کرنا اپنے اور بیوی بچوں کے ساتھ زیادتی تھا۔ اس لئے اکھڑ راجپوت کو اخلاقیات کا درس دے کر خاموش کروایا اور ایک شاہانہ بے نیازی سے دوبارہ اسی ریستوران میں جادھمکے۔ اللہ کریم کی رحمت ایسے ہوئی کہ ریستوران کے مالک خود موجود تھے۔ اپنی نگرانی میں نشست لگوائی اور کھانے کا آرڈر لیا۔ کھانا رات والے صاحب ہی لیکر آئے۔ موقع غنیمت جان کر ہم نے ان سے شکوہ کیا کہ رات ان کے سلوک سے ہمارا جی بہت دُکھا۔ انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی چاہی اور ہم نے بھی دوستی کر لی کہ اچھے بچے لڑا نہیں کرتے۔ کھانا لذیذ تھا اس لئے کھایا بھی اور ایک ہفتہ کے لئے پیک بھی کروا لیا۔ پیٹ پوجا سے فارغ ہوکر آئیووا کا قصد کیا اور رات کا گجر قریباً ساڑھے گیارہ بجا رہا تھا جب ہم ہوٹل پہنچے۔
جاری ہے ۔۔۔۔