منصور آفاق
محفلین
قصہ چہار درویش...دیوار پہ دستک … منصور آفاق
ایک اَن تراشیدہ پتھروں کی صدیوں پرانی غار میں آگ جل رہی تھی۔اس کے اردو گرد چار درویش بیٹھے ہوئے تھے ان کے چہروں مٹی کی اتنی موٹی تہیں جم چکی تھیں کہ خدو خال پہچانے نہیں جا رہے تھے۔پٹ سن کا ہاتھ سے بناہوا خاکی لباس ،لباس نہیں لگ رہا تھایوں لگتا ہے جیسے انہوں نے مٹی پہن رکھی ہو۔ہونٹوں کے گرد و نواح میں گری ہوئی مٹی میں باریک دراڑیں بھی موجود تھیں جوشاید ہونٹوں کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہو ئی تھیں۔ان کے قریب ایک کتابھی بیٹھا ہوا تھا ویسی ہی حالت میں ۔۔مٹی کا کتا۔۔کتے کے سانس چلنے کی آواز اگر نہ آ رہی ہوتی تو اسے سنگ تراشی کا شاہکار قرار دیا سکتا تھا ۔ چاروں درویشوں کے ہونٹ ہل رہے تھے مگر ہونٹوں سے آواز باہر نہیں لپک رہی تھی۔ کچھ ہونے والا ہے ہمیں باہر نکلنا ہو گا لوگوں کو بتانے کیلئے کہ کچھ ہونے والا ہے“اور آگ بجھ جاتی ہے غار میں اندھیرا کچھ اور بڑھ جاتا ہے چاروں درویش اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔کتا سب سے آگے ہوتا ہے وہ چند قدم چل کر رک جاتا ہے اور بھونکتا ہے اسے اپنے بائیں طرف انڈوں پر بیٹھی ہوئی ناگن دکھائی دیتی ہے۔کتے کے پیچھے درویش بھی رک جاتے ہیں ۔ناگن کو دیکھ کر شاید ان کے اندر خوف کی لہو دوڑتی ہے مگر ٹھہرنے کے سوا اس کا کوئی اور احساس سامنے نہیں آتامگر ناگن ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی ۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس نے کتے کی بھونک اور درویشوں کے قدموں کی چاپ سنی ہی نہیں۔کتاچل پڑتاہے اور درویش بھی اس کے پیچھے قدم اٹھاتے ہیں۔ وہ غار سے باہر نکل آتے ہیں ۔ باہر بھی تاریکی ہوتی ہے۔ ہوائیں رو رہی ہوتی ہیں درخت بین کررہے ہوتے ہیں۔جیسے رات کے آخری حصے میں قبرستان کا منظر نامہ۔۔۔اس سفر میں انہیں کوئی چرند و پرند کوئی انسان کچھ بھی نہیں دکھائی دیا ہوتا۔وہ ایک چوک پر پہنچتے ہیں جہاں ایک طرف ایک پھلوں کی دکان ہوتی ہے اس میں بلب بھی جل رہا ہوتا ہے اور ایک آدمی بھی درمیان ایک کرسی پربیٹھا ہوا ہے وہ اس طرف بڑھتے ہیں قریب جا کر دیکھتے ہیں وہ ساکت ہوتا ہے ۔ ایک درویش بہت قریب جا کر اسے دیکھتا ہے اور کہتا ہے۔اس پر تو کسی طرح کی موت طاری ہے دوسرا درویش بولتا ہے ۔ آؤ جلدی جلدی کسی زندہ آدمی کو ڈھونڈیں،کوئی ایک زندہ آدمی مل جائے تو وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ سنگ زادوں کو کیسے اس بات کی خبر دی جا سکتی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔“اور پھر چاروں درویش زندہ آدمی کی تلاش میں شہر کو جاتی ہوئی ایک ایک سڑک پر چل پڑتے ہیں۔پہلا درویش جس سڑک پر جا رہا ہوتا ہے اس پر بڑی بڑی عمارتیں ہوتی ہے ۔ایک جگہ اسے تھانے کا بورڈ نظر آتا ہے مگر درویش ادھر جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ اچانک کتا زمیں پر پڑے ہوئے کسی خون آلودہ خنجر کو سونکھنے لگتا ہے اور پھر منہ اوپر کرکے فضا میں کچھ سونگھتا ہے اور ایک طرف بھاگنے لگتا ہے درویش بھی اس کے پیچھے بھاگتا ہے کتا ایک بڑی عمارت میں داخل ہوتا ہے جس کے باہر دانش گاہ کا بورڈ لگا ہوا ہوتا ہے۔عمارت میں کوئی بھی نہیں ہوتا ، کتا عمارت کے اندر درویش کودانش گاہ کے ہال میں لے جاتاہے ۔ایک کرسی پر ایک شخص خون سے لت پت پڑا ہوتا ہے ۔ درویش ،اس کی لاش دیکھ کر بھاگتا ہے اور اس عمارت کے باہر پہنچ جاتا ہے جہاں تھانے کا بورڈ لگا ہوا تھا ایک پولیس والا دروازے کے پاس ایک کرسی پرساکت ہوتا ہے درویش اسے آواز دیتا ہے اور پھر مایوس ہوکر اندر داخل ہو جاتا ہے اندر کئی کمروں میں پولیس اہکار ساکت پڑے ہوتے ہیں حوالات میں قیدی بھی ساکت ہوتے ہیں ۔ درویش کتا سے بڑ بڑا کر کہتا ہے یہ سارے تو پتھر کے ہو چکے ہیں اور باہر نکل آتا ہے ۔
دوسرا درویش جس سڑک پر چل رہا ہوتا ہے اس پرقانون کاروں کی عمارت ہوتی ہے جگہ جگہ کیاریوں میں پھول لگے ہوتے ہیں و ہ عمارت کے اندرداخل ہوجاتا ہے عمارت کے باہرمیں موجود تمام سپاہی ساکت ہوتے ہیں۔وہ راہداریوں سے گزرتے گزرتے ایک بڑے ہال کے اندر پہنچ جاتے ہیں جہاں بہت ساری کرسیاں قطار در قطار لگی ہوئی ہوتی ہیں جن پر لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں مگر ان میں زندگی کا احساس نہیں ہوتا ۔درویش وہاں سے مایوس ہو کر باہر نکلتا ہے اگلی عمارت پر بہت روشنیاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں مگر سامنے کوئی موجود نہیں ہوتا ۔ درویش آگے بڑھتا ہے اس چھوٹے چھوٹے گنبدوں والی ایک عمارت دکھائی دیتی ہے ۔اس عمارت کے با ہردروازوں کے پاس سپاہی بندقوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ان کی آنکھیں بھی کھلی ہوتی ہیں مگر ان میں بھی کوئی حرکت موجود نہیں ہوتی ہے اس کے اندر بہت سی فائلیں کھلی ہوئی پڑی ہوتی ہیں مگر میزوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ ساکن ہوتے ہیں بے حس و حرکت ہوتے ہیں۔درویش وہاں سے بھی باہر باہر نکل آتا ہے۔تیسرا درویش جس سڑک سے گزرتا ہے اس کے ایک طرف ایک جلا ہوا تباہ شدہ سکول دکھائی دیتا ہے ہر طرف بارود کی بو پھیلی ہوئی ہوتی ہے اس سکول کے ملبے کے ساتھ طالب علموں کی لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوتی ہیں وہ جلدی سے اپنا کتے کے ساتھ آگے بڑھ جاتا ہے۔اسے تو زندہ آدمی کی تلاش ہے ۔ وہ کچھ اور آگے جاتا ہے تو ایک مسجد دکھائی دیتی ہے وہ مسجد طرف بڑھتا ہے مسجد میں ایسا آدمی ضرور ہو گا جسے وہ بتا سکے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر مسجد کے باہر ایک بندوق بردار کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے اور ساکت ہوتا ہے ۔مسجد کے دروازے پر ایک بڑا سا تالا بھی لگا ہوا ہوتا ہے وہ وہاں سے مایوس ہو کر آگے بڑھتا ہے۔اس کا ایک طرف بھاگ پڑتا ہے وہ جا کر دیکھتا ہے توایک شخص زمیں پڑا ہوتاہے مگر اسی بے حس و حرکت اس کے قریب شراب کی خالی بوتل بھی پڑی ہوتی ہے اس کی عینک گر کر ٹوٹ چکی ہوتی ہے۔کچھ کاغذ ان کے ہاتھ تلے دبے ہوتے ہیں وہ ان کاغذوں کو اس کے ہاتھ سے نیچے سے نکال کر دیکھتا ہے ۔صرف ایک کاغذ پر کسی نظم کے تین مصرعے لکھے ہوئے ہوتے ہیں انہیں دور قبرستان کی طرف سے کسی کے گانے کی آواز آتی ہے چاروں درویش اسی آواز کی سمت چلنے لگتے ہیں ا چاروں درویش اپنے اپنے سفر کا حال ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں اور اس فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ انہیں دیر ہو گئی ہے جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے ۔شہر پتھر کا ہو چکا ہے مگر اس آواز کی وجہ سے دل میں موہوم سی امید بھی موجودہے۔جب درویش اس آواز کے پاس پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ مزار پرکھڑا ایک ملنگ اپنی مستی میں کچھ گائے جا رہا ہے ۔ملنگ درویشوں کو دیکھ کر چپ ہو جاتا ہے ۔اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتا ہے ۔پہلا درویش کہتا ہے ”ہم نے شہر والوں کو بتانا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ہمیں بتاؤکہ اِن بے حس و حرکت لوگوں کو کیسے زندہ کیا جائے کیسے جگایا جائے ۔وہ مسکراکر کہتا ہے ۔”جو ہونا ہے وہ ہو کر رہنا ہے انہیں جگانے سے کچھ نہیں ہو گایہ اپنے وقت پر یہ جاگ پڑیں گے۔ زندہ ہوجائیں گے“۔دوسرا درویش کہتا ہے ”جو کچھ ہم شہر میں دیکھ کر آرہے ہیں وہ بھی کسی قیامت سے کم نہیں تھا“۔ ملنگ کہتا ہے۔”قیامت کا کیا ہے روز آتی ہے روز چلی جاتی ہے“۔تیسرا درویش اپنے ساتھیوں کہتا ہے ہمارا وقت ختم ہونے والا ہے اس ملنگ سے جو کہنا ہے کہہ لو۔اب چند ساعتیں ہی رہ گئی ہیں اور اُدھرصبح کی اذان ہونے لگتی ہے۔
ایک اَن تراشیدہ پتھروں کی صدیوں پرانی غار میں آگ جل رہی تھی۔اس کے اردو گرد چار درویش بیٹھے ہوئے تھے ان کے چہروں مٹی کی اتنی موٹی تہیں جم چکی تھیں کہ خدو خال پہچانے نہیں جا رہے تھے۔پٹ سن کا ہاتھ سے بناہوا خاکی لباس ،لباس نہیں لگ رہا تھایوں لگتا ہے جیسے انہوں نے مٹی پہن رکھی ہو۔ہونٹوں کے گرد و نواح میں گری ہوئی مٹی میں باریک دراڑیں بھی موجود تھیں جوشاید ہونٹوں کی حرکت کی وجہ سے پیدا ہو ئی تھیں۔ان کے قریب ایک کتابھی بیٹھا ہوا تھا ویسی ہی حالت میں ۔۔مٹی کا کتا۔۔کتے کے سانس چلنے کی آواز اگر نہ آ رہی ہوتی تو اسے سنگ تراشی کا شاہکار قرار دیا سکتا تھا ۔ چاروں درویشوں کے ہونٹ ہل رہے تھے مگر ہونٹوں سے آواز باہر نہیں لپک رہی تھی۔ کچھ ہونے والا ہے ہمیں باہر نکلنا ہو گا لوگوں کو بتانے کیلئے کہ کچھ ہونے والا ہے“اور آگ بجھ جاتی ہے غار میں اندھیرا کچھ اور بڑھ جاتا ہے چاروں درویش اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔کتا سب سے آگے ہوتا ہے وہ چند قدم چل کر رک جاتا ہے اور بھونکتا ہے اسے اپنے بائیں طرف انڈوں پر بیٹھی ہوئی ناگن دکھائی دیتی ہے۔کتے کے پیچھے درویش بھی رک جاتے ہیں ۔ناگن کو دیکھ کر شاید ان کے اندر خوف کی لہو دوڑتی ہے مگر ٹھہرنے کے سوا اس کا کوئی اور احساس سامنے نہیں آتامگر ناگن ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتی ۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس نے کتے کی بھونک اور درویشوں کے قدموں کی چاپ سنی ہی نہیں۔کتاچل پڑتاہے اور درویش بھی اس کے پیچھے قدم اٹھاتے ہیں۔ وہ غار سے باہر نکل آتے ہیں ۔ باہر بھی تاریکی ہوتی ہے۔ ہوائیں رو رہی ہوتی ہیں درخت بین کررہے ہوتے ہیں۔جیسے رات کے آخری حصے میں قبرستان کا منظر نامہ۔۔۔اس سفر میں انہیں کوئی چرند و پرند کوئی انسان کچھ بھی نہیں دکھائی دیا ہوتا۔وہ ایک چوک پر پہنچتے ہیں جہاں ایک طرف ایک پھلوں کی دکان ہوتی ہے اس میں بلب بھی جل رہا ہوتا ہے اور ایک آدمی بھی درمیان ایک کرسی پربیٹھا ہوا ہے وہ اس طرف بڑھتے ہیں قریب جا کر دیکھتے ہیں وہ ساکت ہوتا ہے ۔ ایک درویش بہت قریب جا کر اسے دیکھتا ہے اور کہتا ہے۔اس پر تو کسی طرح کی موت طاری ہے دوسرا درویش بولتا ہے ۔ آؤ جلدی جلدی کسی زندہ آدمی کو ڈھونڈیں،کوئی ایک زندہ آدمی مل جائے تو وہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ سنگ زادوں کو کیسے اس بات کی خبر دی جا سکتی ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔“اور پھر چاروں درویش زندہ آدمی کی تلاش میں شہر کو جاتی ہوئی ایک ایک سڑک پر چل پڑتے ہیں۔پہلا درویش جس سڑک پر جا رہا ہوتا ہے اس پر بڑی بڑی عمارتیں ہوتی ہے ۔ایک جگہ اسے تھانے کا بورڈ نظر آتا ہے مگر درویش ادھر جانا مناسب نہیں سمجھتا۔ اچانک کتا زمیں پر پڑے ہوئے کسی خون آلودہ خنجر کو سونکھنے لگتا ہے اور پھر منہ اوپر کرکے فضا میں کچھ سونگھتا ہے اور ایک طرف بھاگنے لگتا ہے درویش بھی اس کے پیچھے بھاگتا ہے کتا ایک بڑی عمارت میں داخل ہوتا ہے جس کے باہر دانش گاہ کا بورڈ لگا ہوا ہوتا ہے۔عمارت میں کوئی بھی نہیں ہوتا ، کتا عمارت کے اندر درویش کودانش گاہ کے ہال میں لے جاتاہے ۔ایک کرسی پر ایک شخص خون سے لت پت پڑا ہوتا ہے ۔ درویش ،اس کی لاش دیکھ کر بھاگتا ہے اور اس عمارت کے باہر پہنچ جاتا ہے جہاں تھانے کا بورڈ لگا ہوا تھا ایک پولیس والا دروازے کے پاس ایک کرسی پرساکت ہوتا ہے درویش اسے آواز دیتا ہے اور پھر مایوس ہوکر اندر داخل ہو جاتا ہے اندر کئی کمروں میں پولیس اہکار ساکت پڑے ہوتے ہیں حوالات میں قیدی بھی ساکت ہوتے ہیں ۔ درویش کتا سے بڑ بڑا کر کہتا ہے یہ سارے تو پتھر کے ہو چکے ہیں اور باہر نکل آتا ہے ۔
دوسرا درویش جس سڑک پر چل رہا ہوتا ہے اس پرقانون کاروں کی عمارت ہوتی ہے جگہ جگہ کیاریوں میں پھول لگے ہوتے ہیں و ہ عمارت کے اندرداخل ہوجاتا ہے عمارت کے باہرمیں موجود تمام سپاہی ساکت ہوتے ہیں۔وہ راہداریوں سے گزرتے گزرتے ایک بڑے ہال کے اندر پہنچ جاتے ہیں جہاں بہت ساری کرسیاں قطار در قطار لگی ہوئی ہوتی ہیں جن پر لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں مگر ان میں زندگی کا احساس نہیں ہوتا ۔درویش وہاں سے مایوس ہو کر باہر نکلتا ہے اگلی عمارت پر بہت روشنیاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں مگر سامنے کوئی موجود نہیں ہوتا ۔ درویش آگے بڑھتا ہے اس چھوٹے چھوٹے گنبدوں والی ایک عمارت دکھائی دیتی ہے ۔اس عمارت کے با ہردروازوں کے پاس سپاہی بندقوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ان کی آنکھیں بھی کھلی ہوتی ہیں مگر ان میں بھی کوئی حرکت موجود نہیں ہوتی ہے اس کے اندر بہت سی فائلیں کھلی ہوئی پڑی ہوتی ہیں مگر میزوں کے پیچھے بیٹھے ہوئے لوگ ساکن ہوتے ہیں بے حس و حرکت ہوتے ہیں۔درویش وہاں سے بھی باہر باہر نکل آتا ہے۔تیسرا درویش جس سڑک سے گزرتا ہے اس کے ایک طرف ایک جلا ہوا تباہ شدہ سکول دکھائی دیتا ہے ہر طرف بارود کی بو پھیلی ہوئی ہوتی ہے اس سکول کے ملبے کے ساتھ طالب علموں کی لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوتی ہیں وہ جلدی سے اپنا کتے کے ساتھ آگے بڑھ جاتا ہے۔اسے تو زندہ آدمی کی تلاش ہے ۔ وہ کچھ اور آگے جاتا ہے تو ایک مسجد دکھائی دیتی ہے وہ مسجد طرف بڑھتا ہے مسجد میں ایسا آدمی ضرور ہو گا جسے وہ بتا سکے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ مگر مسجد کے باہر ایک بندوق بردار کرسی پر بیٹھا ہوتا ہے اور ساکت ہوتا ہے ۔مسجد کے دروازے پر ایک بڑا سا تالا بھی لگا ہوا ہوتا ہے وہ وہاں سے مایوس ہو کر آگے بڑھتا ہے۔اس کا ایک طرف بھاگ پڑتا ہے وہ جا کر دیکھتا ہے توایک شخص زمیں پڑا ہوتاہے مگر اسی بے حس و حرکت اس کے قریب شراب کی خالی بوتل بھی پڑی ہوتی ہے اس کی عینک گر کر ٹوٹ چکی ہوتی ہے۔کچھ کاغذ ان کے ہاتھ تلے دبے ہوتے ہیں وہ ان کاغذوں کو اس کے ہاتھ سے نیچے سے نکال کر دیکھتا ہے ۔صرف ایک کاغذ پر کسی نظم کے تین مصرعے لکھے ہوئے ہوتے ہیں انہیں دور قبرستان کی طرف سے کسی کے گانے کی آواز آتی ہے چاروں درویش اسی آواز کی سمت چلنے لگتے ہیں ا چاروں درویش اپنے اپنے سفر کا حال ایک دوسرے سے بیان کرتے ہیں اور اس فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ انہیں دیر ہو گئی ہے جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے ۔شہر پتھر کا ہو چکا ہے مگر اس آواز کی وجہ سے دل میں موہوم سی امید بھی موجودہے۔جب درویش اس آواز کے پاس پہنچتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ مزار پرکھڑا ایک ملنگ اپنی مستی میں کچھ گائے جا رہا ہے ۔ملنگ درویشوں کو دیکھ کر چپ ہو جاتا ہے ۔اور سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتا ہے ۔پہلا درویش کہتا ہے ”ہم نے شہر والوں کو بتانا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ہمیں بتاؤکہ اِن بے حس و حرکت لوگوں کو کیسے زندہ کیا جائے کیسے جگایا جائے ۔وہ مسکراکر کہتا ہے ۔”جو ہونا ہے وہ ہو کر رہنا ہے انہیں جگانے سے کچھ نہیں ہو گایہ اپنے وقت پر یہ جاگ پڑیں گے۔ زندہ ہوجائیں گے“۔دوسرا درویش کہتا ہے ”جو کچھ ہم شہر میں دیکھ کر آرہے ہیں وہ بھی کسی قیامت سے کم نہیں تھا“۔ ملنگ کہتا ہے۔”قیامت کا کیا ہے روز آتی ہے روز چلی جاتی ہے“۔تیسرا درویش اپنے ساتھیوں کہتا ہے ہمارا وقت ختم ہونے والا ہے اس ملنگ سے جو کہنا ہے کہہ لو۔اب چند ساعتیں ہی رہ گئی ہیں اور اُدھرصبح کی اذان ہونے لگتی ہے۔