.
مِرے مولیٰ! ہمیشہ ہو درود ان پر ، سلام ان پر
تجھے جو سب سے پیارے ہیں ، تِری مخلوق میں بہتر

یہ شب بھر نم نگاہوں سے ستارے گھورتے رہنا
یہ تنہائی میں ان کا نام لینا اور کچھ کہنا

یہ آنسو کیوں ہیں آنکھوں میں؟ یہ لب پر نغمہ کیسا ہے؟
انھی کے نام کا ہر آں زباں پر کلمہ کیسا ہے؟

سنا ہے ایسی کیفیت ہی راہِ عشق و الفت ہے
کسی کی سوچ میں مشغول رہنا ہی محبت ہے

محبت دل سے ساری لذتوں کو توڑ دیتی ہے
محبت دوریوں میں بھی دلوں کو جوڑ دیتی ہے

محبت ہو تو پھر درد و علالت کی نہیں پروا
محبت کرنے والوں کو ملامت کی نہیں پروا

خدا کے دین سے کچھ لوگ ناتا توڑ بیٹھے ہیں
نبی برحق کے بابرکت طریقے چھوڑ بیٹھے ہیں

محمد(ﷺ) کون تھے؟ سن لو وہ سب سے عمدہ انساں تھے
ہمارے پیارے پیغمبر تھے ، امت پر مہرباں تھے

بوقتِ شب نبی خود کو تہجد میں جگاتے تھے
عبادت کرتے کرتے پاؤں ان کے سوج جاتے تھے

بنایا تھا انہیں اللہ نے کل عالم کا پیغمبر
عرب کے بھی وہی سرور ، عجم کے بھی وہی رہبر

جھکے رہتے تھے اس سردار کے چلتے ہوئے کاندھے
انھوں نے بھوک کی شدت میں پتھر پیٹ پر باندھے

نکالا اس جہاں میں انس و جن کو ہر مصیبت سے
قیامت میں بھی کام آئیں گے وہ اپنی شفاعت سے

خدا کی جانب امت کو بلایا ہے محمد{ﷺ}نے
جو دشمن تھے انھیں باہم ملایا ہے محمد{ﷺ}نے

نہیں ہے کوئی ان جیسا نہ سیرت میں ، نہ صورت میں
نہیں ان کے برابر کوئی بھی علم اور سخاوت میں

یہ ناداں لوگ کیا جانیں محمد{ﷺ}کی شرافت کو
ہمیں اللہ بتائے گا مقام ان کا قیامت کو

ہمیں بس علم ہے اتنا کہ وہ انسانِ کامل ہیں
وہ سب مخلوق سے افضل ہیں ، ہر خوبی کے حامل ہیں

محمدمصطفی{ﷺ} دنیا میں جب تشریف لے آئے
دلوں کی سرزمیں پر رُشْد کے بادل چلے آئے

بس اب زائل ہوا باطل ، ہدایت پھیلنے آئی
جہاں بھر میں محمد{ﷺ} کی قیادت پھیلنے آئی

نظامِ کائنات اب منتظر تھا اُن کے آنے کا
چمن کا پتا پتا مضطرب تھا ان کو پانے کا

جمالِ یوسفی ، توحیدِ ابراہیم کا مظہر
دمِ عیسیٰ ، کلامِ موسوی ہونے کو تھا اظہر

چمن میں بلبلِ توحید جوں ہی آیا لہرا کے
گرے اس دم ہی چودہ کنگرے ایوانِ کسریٰ کے

ہدایت کی چلی بادِ صبا اور کھِل اٹھا گلشن
کہ جلتی آگ فارس کی اسی دم بجھ گئی فوراً

اٹھا انسانیت کے دل میں دینِ حق کا انگارہ
وہاں دریائے ساوہ خشک بالکل ہوگیا سارا

نبی کو دے کے بھیجے تھے ہزاروں معْجزے رب نے
مسلماں ہو کہ کافر ہو ، کیے محسوس وہ سب نے

یہ قرآن اور پھر اس کی فصاحت اور بلاغت کا
ہے قائل ہر کوئی بالاتفاق اس کی حلاوت کا

ہوا ہو ، آگ ہو ، پانی ہو ، مٹی ہو ، ہراک عنصر
نبی کے معجزے ظاہر ہوئے ان میں سے ہر اک پر

ہوائیں غزوۂ خندق میں جب کفار پر چھائیں
تو اُلٹی ہانڈیاں ، خیمے سب اکھڑے ، آندھیاں آئیں

مسلسل آگ پر پانی اگرچہ گھٹتا رہتا ہے
مگر جابرؓ کے گھر دعوت میں سالن بٹتا رہتا ہے

وضو کے واسطے کافی ہوا لشکر کو اک لوٹا
حدیبیّہ میں ان کی انگلیوں سے چشمہ جب پھوٹا

بُنا مکڑی نے جالا اور خود چل کر شجر آیا
زوالِ قحْط اور شقُّ القمر اور ابْر کا سایہ

وہ اعلیٰ معجزہ بھی ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے
نبی کے قصۂ معراج سے دل شاد رکھیں گے

کیا جانے لگا پورا محمد{ﷺ}کا دلی ارماں
خدا کی بارگہ سے ہوگیا جبریل کو فرماں

اے جبرائیل! لے جاؤ براق ، ان کو یہاں لاؤ
ٹھہر جاؤ اے سورج! ، چاند ، تارو! آج رک جاؤ

زمین و آسماں حیراں ہیں دونوں ، آج یہ کیا ہے؟
جسے ’’اَسْرٰی‘‘ کہا قرآن میں ، معراج یہ کیا ہے؟

ابھی تو اپنے لوگوں کی بھی تکلیفیں یہ سہتے تھے
انھیں مجنون و ساحر وہ علی الاعلان کہتے تھے

ابھی تو ٹوٹتا رہتا مصائب کا پہاڑ ان پر
ابھی تو ان پہ پھینکے جارہے تھے ظلم کے پتھر

فرشتہ وحی و قرآں لے کر اب تک بار بار آیا
اب اللہ نے براہِ راست اپنے پاس بلوایا

خدا کے حکم سے ابرِ منور شام پر برسا
سواری جارہی ہے اب نبی کی مسجدِ اقصیٰ

زمیں ساری مقدس اب سراج الاتقیاء نے کی
امامت آج نبیوں کی امام الانبیاء نے کی

ترقی یافتہ کیسا عظیم الشاں بشر ہے یہ
زمیں سے عرش تک انسانِ کامل کا سفر ہے یہ

کہا جبریل نے بس اب میں آگے بڑھ نہیں سکتا
مِرا نورانی پاؤں یاں سے آگے چڑھ نہیں سکتا

سلام اے وہ کہ اترا جس پہ ’’سُبْحٰنَ الذی أَسْرٰی‘‘
سلام اے جس کے فاقوں پر نچھاور قیصر و کسریٰ

سلام اے ہادیِ خلقت! ، سلام اے داعیِ عالَم!
سلام اے شافعِ محشر! ، سلام اے محسنِ اعظم!

سلام اے فاتحِ عالَم! ، سلام اے رحمتِ عالَم!
سلام اے باعثِ عالَم! ، سلام اے عظمتِ عالَم!

سلام اے وہ جو دامادِ ابوبکر و عمر بھی ہے!
سلام اے وہ جو عثماں اور حیدر کا سسر بھی ہے!

سلام اے جس کی امت بہتریں سب امتوں سے ہے!
مزین جس کی امت انبیا کی دعوتوں سے ہے!

سلام اے صاحبِ بدر و احُد! ، اے صاحبِ احزاب!
سلام اے ہجرت و نصرت کے حامل جس کے تھے اصحاب!

سلام اے صاحبِ کوثر! ، سلام اے صاحبِ اِسرا!
سلام اے جس کی غربت پر ہے قرباں شاہیِ کسریٰ!

نچھاور کر رہا ہے قلب و جاں اپنا ، غلام ان پر
بلاتعداد ہوں یارب! درود ان پر ، سلام ان پر

قصیدہ بردہ کے انداز میں یہ نعت ہے حاضر
اگرچہ دل کی باتیں سَرسَرؔی نا کرسکا باہر
 
مدیر کی آخری تدوین:

الشفاء

لائبریرین
مِرے مولیٰ! ہمیشہ ہو درود ان پر ، سلام ان پر
تجھے جو سب سے پیارے ہیں ، تِری مخلوق میں بہتر
یہ شب بھر نم نگاہوں سے ستارے گھورتے رہنا
یہ تنہائی میں ان کا نام لینا اور کچھ کہنا
یہ آنسو کیوں ہیں آنکھوں میں؟ یہ لب پر نغمہ کیسا ہے؟
انھی کے نام کا ہر آں زباں پر کلمہ کیسا ہے؟
سنا ہے ایسی کیفیت ہی راہِ عشق و الفت ہے
کسی کی سوچ میں مشغول رہنا ہی محبت ہے

ماشاءاللہ۔۔۔
جزاک اللہ خیراً کثیرا۔ اسامہ بھائی۔۔۔
 

سید زبیر

محفلین
سبحان اللہ
سلام اے صاحبِ کوثر! ، سلام اے صاحبِ اِسرا!
سلام اے جس کی غربت پر ہے قرباں شاہیِ کسریٰ!
نچھاور کر رہا ہے قلب و جاں اپنا ، غلام ان پر
بلاتعداد ہوں یارب! درود ان پر ، سلام ان پر
قصیدہ بردہ کے انداز میں یہ نعت ہے حاضر
اگرچہ دل کی باتیں سَرسَرؔی نا کرسکا باہر
جزاک اللہ​
 
سبحان اللہ
سلام اے صاحبِ کوثر! ، سلام اے صاحبِ اِسرا!
سلام اے جس کی غربت پر ہے قرباں شاہیِ کسریٰ!
نچھاور کر رہا ہے قلب و جاں اپنا ، غلام ان پر
بلاتعداد ہوں یارب! درود ان پر ، سلام ان پر
قصیدہ بردہ کے انداز میں یہ نعت ہے حاضر
اگرچہ دل کی باتیں سَرسَرؔی نا کرسکا باہر

جزاک اللہ​
بہت شکریہ جناب!
 

الف نظامی

لائبریرین
مِرے مولیٰ! ہمیشہ ہو درود ان پر ، سلام ان پر
تجھے جو سب سے پیارے ہیں ، تِری مخلوق میں بہتر

یہ شب بھر نم نگاہوں سے ستارے گھورتے رہنا
یہ تنہائی میں ان کا نام لینا اور کچھ کہنا

یہ آنسو کیوں ہیں آنکھوں میں؟ یہ لب پر نغمہ کیسا ہے؟
انھی کے نام کا ہر آں زباں پر کلمہ کیسا ہے؟

سنا ہے ایسی کیفیت ہی راہِ عشق و الفت ہے
کسی کی سوچ میں مشغول رہنا ہی محبت ہے

محبت دل سے ساری لذتوں کو توڑ دیتی ہے
محبت دوریوں میں بھی دلوں کو جوڑ دیتی ہے

محبت ہو تو پھر درد و علالت کی نہیں پروا
محبت کرنے والوں کو ملامت کی نہیں پروا

خدا کے دین سے کچھ لوگ ناتا توڑ بیٹھے ہیں
نبی برحق کے بابرکت طریقے چھوڑ بیٹھے ہیں

محمد(ﷺ) کون تھے؟ سن لو وہ سب سے عمدہ انساں تھے
ہمارے پیارے پیغمبر تھے ، امت پر مہرباں تھے

بوقتِ شب نبی خود کو تہجد میں جگاتے تھے
عبادت کرتے کرتے پاؤں ان کے سوج جاتے تھے

بنایا تھا انہیں اللہ نے کل عالم کا پیغمبر
عرب کے بھی وہی سرور ، عجم کے بھی وہی رہبر

جھکے رہتے تھے اس سردار کے چلتے ہوئے کاندھے
انھوں نے بھوک کی شدت میں پتھر پیٹ پر باندھے

نکالا اس جہاں میں انس و جن کو ہر مصیبت سے
قیامت میں بھی کام آئیں گے وہ اپنی شفاعت سے

خدا کی جانب امت کو بلایا ہے محمد{ﷺ}نے
جو دشمن تھے انھیں باہم ملایا ہے محمد{ﷺ}نے

نہیں ہے کوئی ان جیسا نہ سیرت میں ، نہ صورت میں
نہیں ان کے برابر کوئی بھی علم اور سخاوت میں

یہ ناداں لوگ کیا جانیں محمد{ﷺ}کی شرافت کو
ہمیں اللہ بتائے گا مقام ان کا قیامت کو

ہمیں بس علم ہے اتنا کہ وہ انسانِ کامل ہیں
وہ سب مخلوق سے افضل ہیں ، ہر خوبی کے حامل ہیں

محمدمصطفی{ﷺ} دنیا میں جب تشریف لے آئے
دلوں کی سرزمیں پر رُشْد کے بادل چلے آئے

بس اب زائل ہوا باطل ، ہدایت پھیلنے آئی
جہاں بھر میں محمد{ﷺ} کی قیادت پھیلنے آئی

نظامِ کائنات اب منتظر تھا اُن کے آنے کا
چمن کا پتا پتا مضطرب تھا ان کو پانے کا

جمالِ یوسفی ، توحیدِ ابراہیم کا مظہر
دمِ عیسیٰ ، کلامِ موسوی ہونے کو تھا اظہر

چمن میں بلبلِ توحید جوں ہی آیا لہرا کے
گرے اس دم ہی چودہ کنگرے ایوانِ کسریٰ کے

ہدایت کی چلی بادِ صبا اور کھِل اٹھا گلشن
کہ جلتی آگ فارس کی اسی دم بجھ گئی فوراً

اٹھا انسانیت کے دل میں دینِ حق کا انگارہ
وہاں دریائے ساوہ خشک بالکل ہوگیا سارا

نبی کو دے کے بھیجے تھے ہزاروں معْجزے رب نے
مسلماں ہو کہ کافر ہو ، کیے محسوس وہ سب نے

یہ قرآن اور پھر اس کی فصاحت اور بلاغت کا
ہے قائل ہر کوئی بالاتفاق اس کی حلاوت کا

ہوا ہو ، آگ ہو ، پانی ہو ، مٹی ہو ، ہراک عنصر
نبی کے معجزے ظاہر ہوئے ان میں سے ہر اک پر

ہوائیں غزوۂ خندق میں جب کفار پر چھائیں
تو اُلٹی ہانڈیاں ، خیمے سب اکھڑے ، آندھیاں آئیں

مسلسل آگ پر پانی اگرچہ گھٹتا رہتا ہے
مگر جابرؓ کے گھر دعوت میں سالن بٹتا رہتا ہے

وضو کے واسطے کافی ہوا لشکر کو اک لوٹا
حدیبیّہ میں ان کی انگلیوں سے چشمہ جب پھوٹا

بُنا مکڑی نے جالا اور خود چل کر شجر آیا
زوالِ قحْط اور شقُّ القمر اور ابْر کا سایہ

وہ اعلیٰ معجزہ بھی ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے
نبی کے قصۂ معراج سے دل شاد رکھیں گے

کیا جانے لگا پورا محمد{ﷺ}کا دلی ارماں
خدا کی بارگہ سے ہوگیا جبریل کو فرماں

اے جبرائیل! لے جاؤ براق ، ان کو یہاں لاؤ
ٹھہر جاؤ اے سورج! ، چاند ، تارو! آج رک جاؤ

زمین و آسماں حیراں ہیں دونوں ، آج یہ کیا ہے؟
جسے ’’اَسْرٰی‘‘ کہا قرآن میں ، معراج یہ کیا ہے؟

ابھی تو اپنے لوگوں کی بھی تکلیفیں یہ سہتے تھے
انھیں مجنون و ساحر وہ علی الاعلان کہتے تھے

ابھی تو ٹوٹتا رہتا مصائب کا پہاڑ ان پر
ابھی تو ان پہ پھینکے جارہے تھے ظلم کے پتھر

فرشتہ وحی و قرآں لے کر اب تک بار بار آیا
اب اللہ نے براہِ راست اپنے پاس بلوایا

خدا کے حکم سے ابرِ منور شام پر برسا
سواری جارہی ہے اب نبی کی مسجدِ اقصیٰ

زمیں ساری مقدس اب سراج الاتقیاء نے کی
امامت آج نبیوں کی امام الانبیاء نے کی

ترقی یافتہ کیسا عظیم الشاں بشر ہے یہ
زمیں سے عرش تک انسانِ کامل کا سفر ہے یہ

کہا جبریل نے بس اب میں آگے بڑھ نہیں سکتا
مِرا نورانی پاؤں یاں سے آگے چڑھ نہیں سکتا

سلام اے وہ کہ اترا جس پہ ’’سُبْحٰنَ الذی أَسْرٰی‘‘
سلام اے جس کے فاقوں پر نچھاور قیصر و کسریٰ

سلام اے ہادیِ خلقت! ، سلام اے داعیِ عالَم!
سلام اے شافعِ محشر! ، سلام اے محسنِ اعظم!

سلام اے فاتحِ عالَم! ، سلام اے رحمتِ عالَم!
سلام اے باعثِ عالَم! ، سلام اے عظمتِ عالَم!

سلام اے وہ جو دامادِ ابوبکر و عمر بھی ہے!
سلام اے وہ جو عثماں اور حیدر کا سسر بھی ہے!

سلام اے جس کی امت بہتریں سب امتوں سے ہے!
مزین جس کی امت انبیا کی دعوتوں سے ہے!

سلام اے صاحبِ بدر و احُد! ، اے صاحبِ احزاب!
سلام اے ہجرت و نصرت کے حامل جس کے تھے اصحاب!

سلام اے صاحبِ کوثر! ، سلام اے صاحبِ اِسرا!
سلام اے جس کی غربت پر ہے قرباں شاہیِ کسریٰ!

نچھاور کر رہا ہے قلب و جاں اپنا ، غلام ان پر
بلاتعداد ہوں یارب! درود ان پر ، سلام ان پر

قصیدہ بردہ کے انداز میں یہ نعت ہے حاضر
اگرچہ دل کی باتیں سَرسَرؔی نا کرسکا باہر
 
Top