شاہد رضا خان
محفلین
شاعری سے شغف رکھنے والوں نے بڑے عمدہ عمدہ قصیدے دیکھے ہوں گے ، آج میرے امام سیدی احمد رضاخان فاضل بریلوی کاقصیدہ بہاریہ بھی ملاحظہ کریں ؛ امام نے اسے ماہِ ربیع الاول کی آمدپرلکھا تھا -
قصیدہ بہاریہ
اُودِی اُودِی بَدلیاں گِھرنے لگیں
ننھی ننھی بُوندیاں برساچلیں
ندیاں پھرآنکھیں دکھلانے لگیں
چھوٹی چھوٹی جھیلیں پھرلہراچلیں
جُھومتی آئیں نسیمیں ، نرم نرم
پتلی پتلی ڈالیاں لچکا چلیں
دل کُھلے ، کانوں میں رَس پڑنے لگے
خوش نوا چڑیاں ترانے گاچلیں
تانوں کی بِینوں میں پھرلہرابجا
گیسوؤں کی ناگنیں لہرا چلیں
باغِ دل میں وجدکے جھولے پڑے
آرزوئیں پھر ملاریں گا چلیں
سُرخ ، سبز ، اُودی ، سنہری بدلیاں
دن ڈھلے ، کیا چُنریاں رنگوا چلیں !
پھرنظرمیں گُدگدی ہونے لگی
دھانی دھانی بوٹیاں پھڑکا چلیں
لہلہانا ، کِھلکھلانا ، واہ واہ !
پتیاں ، کلیاں ، قیامت ڈھا چلیں
اُمڈی ، گرجیں ، چمکیں ، کالی بدلیاں
بالوں نادانوں کادل دھڑکا چلیں
پھراُٹھا پودوں کے جوبن میں اُبھار
ننھی ننھی کونپلیں ہریا چلیں
مور کُو کے سینۂ پرداغ کے
یاد گیسو کی گھٹائیں آ چلیں
خُوب برسیں خُوب برسیں ، کُھل گئیں
کھل کے پھرکچھ دیر میں گرما چلیں
ڈیرے ، جھیلیں ، تال ، نہریں ، ندیاں
کچھ کمرتک ، کچھ گلے تک آچلیں
پھول مہکے ، غُنچے چٹکے ، گُل کِھلے
نوبہاریں جابجا اٹھلا چلیں
بجرے چھوٹے ، کشتیاں پڑنے لگیں
نہریں ، لہروں کے مزے دکھلا چلیں
( انتخاب حدائق بخشش ، ڈاکٹر محمدمسعود احمد ، ص 247 تا 249 ،سرہندپبلی کیشنزکراچی ، 1415 ھ )
قصیدہ بہاریہ
اُودِی اُودِی بَدلیاں گِھرنے لگیں
ننھی ننھی بُوندیاں برساچلیں
ندیاں پھرآنکھیں دکھلانے لگیں
چھوٹی چھوٹی جھیلیں پھرلہراچلیں
جُھومتی آئیں نسیمیں ، نرم نرم
پتلی پتلی ڈالیاں لچکا چلیں
دل کُھلے ، کانوں میں رَس پڑنے لگے
خوش نوا چڑیاں ترانے گاچلیں
تانوں کی بِینوں میں پھرلہرابجا
گیسوؤں کی ناگنیں لہرا چلیں
باغِ دل میں وجدکے جھولے پڑے
آرزوئیں پھر ملاریں گا چلیں
سُرخ ، سبز ، اُودی ، سنہری بدلیاں
دن ڈھلے ، کیا چُنریاں رنگوا چلیں !
پھرنظرمیں گُدگدی ہونے لگی
دھانی دھانی بوٹیاں پھڑکا چلیں
لہلہانا ، کِھلکھلانا ، واہ واہ !
پتیاں ، کلیاں ، قیامت ڈھا چلیں
اُمڈی ، گرجیں ، چمکیں ، کالی بدلیاں
بالوں نادانوں کادل دھڑکا چلیں
پھراُٹھا پودوں کے جوبن میں اُبھار
ننھی ننھی کونپلیں ہریا چلیں
مور کُو کے سینۂ پرداغ کے
یاد گیسو کی گھٹائیں آ چلیں
خُوب برسیں خُوب برسیں ، کُھل گئیں
کھل کے پھرکچھ دیر میں گرما چلیں
ڈیرے ، جھیلیں ، تال ، نہریں ، ندیاں
کچھ کمرتک ، کچھ گلے تک آچلیں
پھول مہکے ، غُنچے چٹکے ، گُل کِھلے
نوبہاریں جابجا اٹھلا چلیں
بجرے چھوٹے ، کشتیاں پڑنے لگیں
نہریں ، لہروں کے مزے دکھلا چلیں
( انتخاب حدائق بخشش ، ڈاکٹر محمدمسعود احمد ، ص 247 تا 249 ،سرہندپبلی کیشنزکراچی ، 1415 ھ )