راحیل فاروق
محفلین
آپ پوچھیں گے چہار درویش ہی کیوں؟ پنج درویش کیوں نہیں؟ شش؟ ہفت؟ ہشت؟ نُہ؟ دَہ درویش؟
مگر آپ کی فارسی گنتی ختم ہو سکتی ہے لیکن درویشوں کی تعداد چار سے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درویش شروع سے چار ہی ہوتے ہیں۔ پانچ تو پنجتن پاک ہوتے ہیں۔ چھ تو۔۔۔ چھ بھی کچھ ہوتا ہے۔ ہاں، چھ انگلیاں ہوتی ہیں۔ اب آپ پھر بحث کریں گے کہ انگلیاں بھی پانچ ہوتی ہیں۔ بھئی، اگر آپ کی پانچ ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سب کی پانچ ہیں۔ لا حول و لا قوۃ!
ممکن ہے کہ آپ لفظ برقی پر انگلی اٹھائیں اور کہیں کہ بجلی سے چلنے والا درویش تو ابھی تک بنا ہی نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ مذاق کر رہے ہوں مگر بعض احمق سنجیدگی سے بھی ایسے سوال پوچھتے ہیں۔ بہرحال، ہم نہیں چاہتے کہ مضمون کے شروع ہی میں فتنہ پیدا ہو جائے لہٰذا یہ واضح کیا جاتا ہے کہ برقی سے مراد آن لائن درویش ہیں۔
قضیہ کے لفظ پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب ہمارے عجز میں پنہاں ہے۔ دراصل ہم نے کبھی قصے لکھے نہیں۔ قضیے البتہ اکثر پیدا کیے ہیں۔ اور آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے جو اسے آتا ہو۔ جو نہ آتا ہو اس پر اعتراض کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن درویشوں کا یہاں مذکور ہے ان کے قصے ہمیں معلوم ہی نہیں۔ ورنہ ہم انھیں ذاتی طور پر بلیک میل کرتے، یہاں مراسلے نہ لکھتے۔
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ درویشوں کے تذکرے کا گیارھویں سالگرہ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک نکتہ ہے۔ دیکھیے، ہم کسی کو پیدا ہونے سے روک تو نہیں سکتے۔ آپ بھی تو پیدا ہو گئے ہیں۔ کسی نے روکا؟ اگر روکا بھی تو کوئی فرق پڑا؟ سوال کو بھی پیدا ہونے دیجیے۔ اللہ مالک ہے۔
اب جبکہ آپ پوری طرح لاجواب ہو چکے ہیں، ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان چار درویشوں کو ہم نے بڑی گہری نظر سے ایک عرصے تک تاڑنے کے بعد منتخب کیا ہے۔ ان چاروں میں کچھ ایسی خصوصیات اکٹھی پائی جاتی ہیں جو ہم نے محفل کے کسی اور رکن میں نہیں دیکھیں۔
۱۔ یہ کسی سے پنگا نہیں لیتے۔
۲۔ کوئی ان سے پنگا نہیں لیتا۔
۳۔ تمام پنگے بازوں سے نہایت قریبی اور والہانہ مراسم رکھتے ہیں۔
یہ تیسری خصوصیت ہی درحقیقت ولایت کی جڑ ہے۔ورنہ بہت سے مرنجاں مرنج لوگ محفل پر موجود ہیں جو
اس سے پہلے کہ ہم چہار درویش کے مختصر ترین حالات آپ کی خدمت میں پیش کریں، یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ سب کے سب پردہ نشین ہیں۔ ہم ان سے ملے ہیں نہ کسی کی شکل دیکھنی نصیب ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ہم نے اپنے تاثرات میں خطا کھائی ہو۔ لہٰذا معزز و غیر معزز اراکین کو پیشگی مطلع کیا جاتا ہے کہ یہ پورا مضمون محض غلط فہمی پر مبنی بھی ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں کو اپنا وقت عزیز ہے وہ اس کی بجائے درود شریف پڑھ لیں۔
۱۔ جاسمن
بہت سے لوگوں کے مروڑ اٹھیں گے کہ ایک عورت درویش کیونکر ہو گئی۔ وہ بھی پہلی۔ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ کی مرضی۔ دوسرے جواب کے لیے عاصمہ جہانگیر اور ماروی سرمد کو ٹویٹ کی جا سکتی ہے۔ پھر بھی ٹھنڈ نہ پڑے تو وہی پہلا جواب۔
آپا بڑی جامع نگار ہیں۔ مثلاً کل فرمایا: "لاہور آ گیا۔۔۔"
ہم بڑے سراسیمہ ہوئے۔ بھئی، ہم نے بلایا ہی نہیں تو کیوں آ گیا؟ وہ بھی پورا لاہور؟ مینارِ پاکستان سمیت؟ ایسے کیوں کیا؟
کچھ دیر بشدت مغموم رہے۔ مگر جیسا کہ دستور ہے کہ اکثر تسامحات کسی قدر تامل کے بعد روشن ہو جاتے ہیں، ہمیں بھی احساس ہوا کہ یہ معاملہ کوئی اور ہے۔ یعنی لاہور ہمارے یہاں نہیں تشریف لایا بلکہ آپا لاہور چلی گئی ہیں۔ ایسی ناقابلِ بیان مسرت حاصل ہوئی کہ مائے نی میں کنوں آکھاں۔ شکریہ، آپا!
۲۔ یوسف سلطان
یہ خالص اللہ کے ولی ہیں۔ انھیں دنیائے دوں کی ہر شے پسند ہے۔ آپ ہمارا یقین کیجیے کہ آپ خود کو اتنا پسند نہیں کرتے جتنا یہ آپ کو پسند فرماتے ہیں۔
آپ آئن سٹائن کے نظریۂِ اضافت کے رد میں ایک مدلل اور مبسوط مضمون شائع کیجیے۔ گرما گرم بحثیں ہوں گی۔ یار دوست اسے زبردست قرار دیں گے۔ موئے دشمنوں کی جانب سے مضحکہ خیز کی درجہ بندیاں عطا ہوں گی۔ متفق غیرمتفق کا چلن عام ہو گا۔ کچھ علمِ تجوید کے فضلا جو آئن سٹائن کو آئین شٹائین پڑھتے اور بولتے ہیں، آپ کو ناقص املا کا تمغہ بھی دیں گے۔ اس دھما چوکڑی میں دھیرے سے ایک اطلاع نامہ موصول ہو گا:
"یوسف سلطان نے آپ کا مراسلہ پسند کیا۔"
آپ "چوں چوں چوں چوں چا چا۔ گھڑی پہ چوہا ناچا۔ الخ" لکھ کر شائع کیجیے۔ کچھ دیر بعد مطلع کیا جائے گا:
"یوسف سلطان نے آپ کا مراسلہ پسند کیا۔"
آپ لکھیے:
"اوئی!"
اطلاع آئے گی:
"یوسف سلطان نے آپ کا کیفیت نامہ پسند کیا۔"
الغرض، آپ کے سنِ ولادت سے لے کر عالمِ سکرات تک کچھ ایسا نہیں جو جناب یوسف سلطان کو پسند نہ ہو۔ ہمیں تو، خاکم بدہن، یہاں تک بدگمانی ہے کہ یہ آپ کے سسرالیوں کو بھی پسند فرماتے ہیں!
۳۔ یاز
ہم نے زندگی میں جو پہلی کتاب خریدی تھی وہ دیوانِ غالبؔ تھی۔ اور آٹھویں جماعت میں جو پہلا خاکہ کھینچا تھا وہ ایک فلمی حسینہ کا تھا۔
کچھ دن پہلے انھوں نے ہفتے بھر میں ہزار مراسلے تحریر فرمائے۔ باقی محفلین نے حسد کے مارے بددعائیں دیں۔ درویش پر بددعا کا بہت اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا ان دنوں چپکے بیٹھے ہیں۔ قوی امید ہے کہ جب محفلین بھول جائیں گے تو دوبارہ اسی فعلِ شنیع کا ارتکاب کریں گے!
۴۔ نایاب
یہ محفل کے زبدۃ الصوفیا ہیں۔ یعنی درویشوں کا مکھن۔ آپ ان سے کلام کیجیے۔ دل نہ پھسلے تو ہمارا ذمہ!
نایاب بھائی ہر مراسلے کے آخر میں "بہت دعائیں" لکھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے یہ ان کا دستخط ہے۔ پرانے زمانے میں لوگوں کے دستخط اکثر ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔
ہم چونکہ شروع سے ان کے قتیل ہیں اس لیے ایک وقت میں ہم نے بھی ہر کس و ناکس کو "بہت دعائیں" لکھنا شروع کر دیا تھا۔ مگر جلد چھوڑنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ وتیرہ ہم جیسے جذباتی شخص کے لیے تقریباً ناقابلِ عمل ہے۔ مثلاً ہم کسی صاحب کے مراسلے کے جواب میں لکھنا چاہتے ہیں، "لکھ دی لعنت!" تو اس کے بعد "بہت دعائیں" لکھنا کچھ آداب کے منافی سا معلوم ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے؟
ہمارا خیال ہے چار ہو گئے ہیں۔ اور چہار درویش میں ہمیشہ چار ہی درویش ہوتے ہیں۔ کیونکہ پانچ تو پنجتن پاک ہوتے ہیں۔ چھ تو انگلیاں ہوتی ہیں!
مگر آپ کی فارسی گنتی ختم ہو سکتی ہے لیکن درویشوں کی تعداد چار سے نہیں بڑھ سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ درویش شروع سے چار ہی ہوتے ہیں۔ پانچ تو پنجتن پاک ہوتے ہیں۔ چھ تو۔۔۔ چھ بھی کچھ ہوتا ہے۔ ہاں، چھ انگلیاں ہوتی ہیں۔ اب آپ پھر بحث کریں گے کہ انگلیاں بھی پانچ ہوتی ہیں۔ بھئی، اگر آپ کی پانچ ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ سب کی پانچ ہیں۔ لا حول و لا قوۃ!
ممکن ہے کہ آپ لفظ برقی پر انگلی اٹھائیں اور کہیں کہ بجلی سے چلنے والا درویش تو ابھی تک بنا ہی نہیں۔ ہو سکتا ہے آپ مذاق کر رہے ہوں مگر بعض احمق سنجیدگی سے بھی ایسے سوال پوچھتے ہیں۔ بہرحال، ہم نہیں چاہتے کہ مضمون کے شروع ہی میں فتنہ پیدا ہو جائے لہٰذا یہ واضح کیا جاتا ہے کہ برقی سے مراد آن لائن درویش ہیں۔
قضیہ کے لفظ پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے۔ اس کا جواب ہمارے عجز میں پنہاں ہے۔ دراصل ہم نے کبھی قصے لکھے نہیں۔ قضیے البتہ اکثر پیدا کیے ہیں۔ اور آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے جو اسے آتا ہو۔ جو نہ آتا ہو اس پر اعتراض کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن درویشوں کا یہاں مذکور ہے ان کے قصے ہمیں معلوم ہی نہیں۔ ورنہ ہم انھیں ذاتی طور پر بلیک میل کرتے، یہاں مراسلے نہ لکھتے۔
پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ درویشوں کے تذکرے کا گیارھویں سالگرہ سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔ یہاں ایک نکتہ ہے۔ دیکھیے، ہم کسی کو پیدا ہونے سے روک تو نہیں سکتے۔ آپ بھی تو پیدا ہو گئے ہیں۔ کسی نے روکا؟ اگر روکا بھی تو کوئی فرق پڑا؟ سوال کو بھی پیدا ہونے دیجیے۔ اللہ مالک ہے۔
اب جبکہ آپ پوری طرح لاجواب ہو چکے ہیں، ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ ان چار درویشوں کو ہم نے بڑی گہری نظر سے ایک عرصے تک تاڑنے کے بعد منتخب کیا ہے۔ ان چاروں میں کچھ ایسی خصوصیات اکٹھی پائی جاتی ہیں جو ہم نے محفل کے کسی اور رکن میں نہیں دیکھیں۔
۱۔ یہ کسی سے پنگا نہیں لیتے۔
۲۔ کوئی ان سے پنگا نہیں لیتا۔
۳۔ تمام پنگے بازوں سے نہایت قریبی اور والہانہ مراسم رکھتے ہیں۔
یہ تیسری خصوصیت ہی درحقیقت ولایت کی جڑ ہے۔ورنہ بہت سے مرنجاں مرنج لوگ محفل پر موجود ہیں جو
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں، کون دیکھتا ہے؟
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا؟
کی عملی تفسیر ہیں۔ مگر فقیری یہ نہیں ہے۔ اصل فقیری یہ ہے کہ آپ گدھے کی دم کے عین نیچے موجود ہوں اور دولتی کسی اور شریف آدمی کو پڑ جائے۔ میں جب ادھر سے نہ گزروں گا، کون دیکھے گا؟
اس سے پہلے کہ ہم چہار درویش کے مختصر ترین حالات آپ کی خدمت میں پیش کریں، یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ سب کے سب پردہ نشین ہیں۔ ہم ان سے ملے ہیں نہ کسی کی شکل دیکھنی نصیب ہوئی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ہم نے اپنے تاثرات میں خطا کھائی ہو۔ لہٰذا معزز و غیر معزز اراکین کو پیشگی مطلع کیا جاتا ہے کہ یہ پورا مضمون محض غلط فہمی پر مبنی بھی ہو سکتا ہے۔ جن لوگوں کو اپنا وقت عزیز ہے وہ اس کی بجائے درود شریف پڑھ لیں۔
۱۔ جاسمن
بہت سے لوگوں کے مروڑ اٹھیں گے کہ ایک عورت درویش کیونکر ہو گئی۔ وہ بھی پہلی۔ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک تو یہ کہ اللہ کی مرضی۔ دوسرے جواب کے لیے عاصمہ جہانگیر اور ماروی سرمد کو ٹویٹ کی جا سکتی ہے۔ پھر بھی ٹھنڈ نہ پڑے تو وہی پہلا جواب۔
آپا بڑی جامع نگار ہیں۔ مثلاً کل فرمایا: "لاہور آ گیا۔۔۔"
ہم بڑے سراسیمہ ہوئے۔ بھئی، ہم نے بلایا ہی نہیں تو کیوں آ گیا؟ وہ بھی پورا لاہور؟ مینارِ پاکستان سمیت؟ ایسے کیوں کیا؟
کچھ دیر بشدت مغموم رہے۔ مگر جیسا کہ دستور ہے کہ اکثر تسامحات کسی قدر تامل کے بعد روشن ہو جاتے ہیں، ہمیں بھی احساس ہوا کہ یہ معاملہ کوئی اور ہے۔ یعنی لاہور ہمارے یہاں نہیں تشریف لایا بلکہ آپا لاہور چلی گئی ہیں۔ ایسی ناقابلِ بیان مسرت حاصل ہوئی کہ مائے نی میں کنوں آکھاں۔ شکریہ، آپا!
۲۔ یوسف سلطان
یہ خالص اللہ کے ولی ہیں۔ انھیں دنیائے دوں کی ہر شے پسند ہے۔ آپ ہمارا یقین کیجیے کہ آپ خود کو اتنا پسند نہیں کرتے جتنا یہ آپ کو پسند فرماتے ہیں۔
آپ آئن سٹائن کے نظریۂِ اضافت کے رد میں ایک مدلل اور مبسوط مضمون شائع کیجیے۔ گرما گرم بحثیں ہوں گی۔ یار دوست اسے زبردست قرار دیں گے۔ موئے دشمنوں کی جانب سے مضحکہ خیز کی درجہ بندیاں عطا ہوں گی۔ متفق غیرمتفق کا چلن عام ہو گا۔ کچھ علمِ تجوید کے فضلا جو آئن سٹائن کو آئین شٹائین پڑھتے اور بولتے ہیں، آپ کو ناقص املا کا تمغہ بھی دیں گے۔ اس دھما چوکڑی میں دھیرے سے ایک اطلاع نامہ موصول ہو گا:
"یوسف سلطان نے آپ کا مراسلہ پسند کیا۔"
آپ "چوں چوں چوں چوں چا چا۔ گھڑی پہ چوہا ناچا۔ الخ" لکھ کر شائع کیجیے۔ کچھ دیر بعد مطلع کیا جائے گا:
"یوسف سلطان نے آپ کا مراسلہ پسند کیا۔"
آپ لکھیے:
"اوئی!"
اطلاع آئے گی:
"یوسف سلطان نے آپ کا کیفیت نامہ پسند کیا۔"
الغرض، آپ کے سنِ ولادت سے لے کر عالمِ سکرات تک کچھ ایسا نہیں جو جناب یوسف سلطان کو پسند نہ ہو۔ ہمیں تو، خاکم بدہن، یہاں تک بدگمانی ہے کہ یہ آپ کے سسرالیوں کو بھی پسند فرماتے ہیں!
۳۔ یاز
ہم نے زندگی میں جو پہلی کتاب خریدی تھی وہ دیوانِ غالبؔ تھی۔ اور آٹھویں جماعت میں جو پہلا خاکہ کھینچا تھا وہ ایک فلمی حسینہ کا تھا۔
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے ! ! !
لیکن ہم درویش نہیں تھے۔ درویش ہیں ہمارے یاز بھائی۔ انھوں نے فوٹو گرافی سیکھی۔ مارے مارے پاکستان بھر میں پھرا کیے۔ تصویریں بنائیں تو بھلا کس کی؟ پہاڑوں کی۔۔۔ پڑھو سبحان اللہ!تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے ! ! !
کچھ دن پہلے انھوں نے ہفتے بھر میں ہزار مراسلے تحریر فرمائے۔ باقی محفلین نے حسد کے مارے بددعائیں دیں۔ درویش پر بددعا کا بہت اثر ہوتا ہے۔ لہٰذا ان دنوں چپکے بیٹھے ہیں۔ قوی امید ہے کہ جب محفلین بھول جائیں گے تو دوبارہ اسی فعلِ شنیع کا ارتکاب کریں گے!
۴۔ نایاب
یہ محفل کے زبدۃ الصوفیا ہیں۔ یعنی درویشوں کا مکھن۔ آپ ان سے کلام کیجیے۔ دل نہ پھسلے تو ہمارا ذمہ!
نایاب بھائی ہر مراسلے کے آخر میں "بہت دعائیں" لکھتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے یہ ان کا دستخط ہے۔ پرانے زمانے میں لوگوں کے دستخط اکثر ایسے ہی ہوا کرتے تھے۔
ہم چونکہ شروع سے ان کے قتیل ہیں اس لیے ایک وقت میں ہم نے بھی ہر کس و ناکس کو "بہت دعائیں" لکھنا شروع کر دیا تھا۔ مگر جلد چھوڑنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ وتیرہ ہم جیسے جذباتی شخص کے لیے تقریباً ناقابلِ عمل ہے۔ مثلاً ہم کسی صاحب کے مراسلے کے جواب میں لکھنا چاہتے ہیں، "لکھ دی لعنت!" تو اس کے بعد "بہت دعائیں" لکھنا کچھ آداب کے منافی سا معلوم ہوتا ہے۔ کیا خیال ہے؟
ہمارا خیال ہے چار ہو گئے ہیں۔ اور چہار درویش میں ہمیشہ چار ہی درویش ہوتے ہیں۔ کیونکہ پانچ تو پنجتن پاک ہوتے ہیں۔ چھ تو انگلیاں ہوتی ہیں!