ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
سالوں پہلے مشی گن کے انتہائی شمالی اور سرد علاقے میں سرما کی چند راتیں ایک کیبن میں گزارنے کا اتفاق ہوا ۔ قطبی روشنیاں دیکھنے اور ویرانے میں کچھ دن گزارنے کا شوق وہاں لے گیا تھا ۔ شمالی مشی گن اور شمالی وسکانسن کا سرما شدید اور طویل ہوتا ہے ۔ یہ نظم اس قیام کی یادگار ہے ۔ اس میں ایک عروضی تجربہ بھی کیا ہے ۔ احباب سے گزارش ہے کہ اپنی رائے سے نوازیں ۔ بہت شکریہ!
قطبی رات
دل کہ اک جزیرہ ہے
گہرے سرد پانی میں
منجمد سفینہ ہے
درد کی روانی میں
برف سارا عالم ہے
سرمئی سے موسم میں
منجمد سے روز و شب
کُہر کے نقابوں سے
چہرہ تکتے رہتے ہیں
اجنبی زبانوں میں
اَن کہی سی کہتے ہیں
اک طرف شمال کی
ہفت رنگ روشنی
آرزو کے پردے پر
رنگ رنگ خوابوں کا
جال بُنتی رہتی ہے
آس لکھتی رہتی ہے
دل میں جھانک کر میرے
چپکے چپکے کہتی ہے
رات پھر بھی رات ہے
رات کی شکا یت تو
ناروا سی بات ہے
گرچہ ناروا ئی میں
ناروے کی رات ہے
وقت ہی تو ہے آخر
وقت بیت جاتا ہے
درد جتنا ظالم ہو
صبر جیت جاتا ہے
بے لحاظ ہے موسم
بے زوال تو نہیں
دوریوں کے ماہ و سال
نوری سال تو نہیں
گردشِ زماں نہیں
گردشِ زمین ہے
صبح کے نکلنے کا
تم کو تو یقین ہے
کچھ ہی روز باقی ہیں
برف کے پگھلنے میں
تیرگی کےپردے سے
نور کے نکلنے میں
رات کا تماشا اب
کچھ ہی دیر ہونا ہے
اس کے بعد ہر طرف
روشنی کا سونا ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸
قطبی رات
دل کہ اک جزیرہ ہے
گہرے سرد پانی میں
منجمد سفینہ ہے
درد کی روانی میں
برف سارا عالم ہے
سرمئی سے موسم میں
منجمد سے روز و شب
کُہر کے نقابوں سے
چہرہ تکتے رہتے ہیں
اجنبی زبانوں میں
اَن کہی سی کہتے ہیں
اک طرف شمال کی
ہفت رنگ روشنی
آرزو کے پردے پر
رنگ رنگ خوابوں کا
جال بُنتی رہتی ہے
آس لکھتی رہتی ہے
دل میں جھانک کر میرے
چپکے چپکے کہتی ہے
رات پھر بھی رات ہے
رات کی شکا یت تو
ناروا سی بات ہے
گرچہ ناروا ئی میں
ناروے کی رات ہے
وقت ہی تو ہے آخر
وقت بیت جاتا ہے
درد جتنا ظالم ہو
صبر جیت جاتا ہے
بے لحاظ ہے موسم
بے زوال تو نہیں
دوریوں کے ماہ و سال
نوری سال تو نہیں
گردشِ زماں نہیں
گردشِ زمین ہے
صبح کے نکلنے کا
تم کو تو یقین ہے
کچھ ہی روز باقی ہیں
برف کے پگھلنے میں
تیرگی کےپردے سے
نور کے نکلنے میں
رات کا تماشا اب
کچھ ہی دیر ہونا ہے
اس کے بعد ہر طرف
روشنی کا سونا ہے
ظہیر احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸
آخری تدوین: