قطرہ قطرہ ابر سے ٹوٹا ہوں میں

ملنگ جی

محفلین
جفانہیں صبر سے ٹوٹا ہوں میں

قطرہ قطرہ ابر سے ٹوٹا ہوں میں

یوں تو با ہر سے کرخت ہوں مگر

اب کے اندر سے ٹوٹا ہوں میں

لوگ سمجھتے تھےمجھے بلا کا جادوگر

محبوب کے اثر سے ٹوٹا ہوں میں

دل کی کرچیوں کی آوازنہ آئی

ایسے شیشہ گر سےٹوٹا ہوں میں

نہ لہو ہے چاک پر نہ کوئی نشان

نایاب رفوگر سے ٹوٹا ہوں میں

کما ل ہنرمندی سےکیا گھائل

رفتہ رفتہ اندر سے ٹوٹا ہوں میں

وہ مجھےنئے داغوں سے سنوارے

جدھر جدھرسے ٹوٹا ہوں میں

آساں نہ تھا مات دینا تجھ سے پہلے

تیرے بعداکثر سے ٹوٹا ہوں میں

احاب نے کیا جدا جدا استعمال

اِدھر اُدھرسے ٹوٹا ہوں میں

پہاڑ جس حسن سے ہوا ریزہ یزہ

ملنگ اسی جلوہ گر سے ٹوٹا ہوں میں
 

الف عین

لائبریرین
خوش آمدید ملنگ جی۔ اپنا تعارف نہیں دیا ہو تو ضرور دیں۔
خیالات تو اچھے ہیں غزل میں، بس موزونیت کی کمی ہے۔ اس کے لئے کسی معروف غزل جسے گایا گیا ہو، اس طرز پر گنگنا کر دیکھیں۔ اگر درست گنگنایا جا رہا ے تو سمجھیں کہ موزونیت پیدا ہو گئی، یا یون کہیں کہ عروض کی شد بد پیدا ہو گئی۔ (یہ میرا نہیں عزیزی @ خلیل الرحمٰن کا نسخہ ہے، مجھے ان کے کاپی رائٹ کا خیال ہے!!)
اس کے عاوہ مستند شعراء کا کلام خوب پڑھیں۔
اور پہلی غزل کے لئے آسان قافئے ردیف منتخب کریں۔ باہر سے ٹوٹا ہوں یا اندر سے ٹوٹا ہوں قسم کی ردیف میں یوں بھ بہت توڑ پھوڑ کرنی ہوتی ہے۔
 
Top