قرۃالعین اعوان
لائبریرین
پہروں بیٹھ کر ڈھونڈتی ہوں اسے
کہاں کھو گئی ہے ذات میری
اجنبی اجنبی سا لگتا ہے اپنا ہی وجود
جانے کیوں بدل گئی ہر بات میری
کوئی نہیں ایسا جس سے درد اپنے کہہ دوں
بس اک تیرا خیال آتے ہی یہ دل بہل جاتا ہے
ہر طرف سے مایوس ہوکر تھک ہار کر بیٹھ جاتی ہوں
تجھے سوچ کر پھر جینے کا سلیقہ آجاتا ہے
تمام کوششیں بیکار گذر جاتی ہیں
دل کی رنجشیں سب حال کہتی جاتی ہیں
کہاں وہ پہلے کی سی بات رہی ان نظروں میں
آپ کی نظریں تو اجنبی پن میں ڈوبی جاتی ہیں
سمندر دل چپ چاپ سب کچھ سہہ کر
رات ہوتے ہی بھڑاس اپنی نکال لیتا ہے
دن بھر تو مگن رہتا ہے دنیا کے کاموں میں
رات ہوتے ہی نئی دنیا اپنی بسا لیتا ہے