سچی میں کچھ سمجھ نہیں آیا ...تھوڑا سا عقل کا گھوڑا دوڑایا تو منکشف ہوا ...یہ مجازی خدا کو کہا جا رہا ہے جیسے کہتے ہیں تمہے تو الله پوچھے گا ...
جی مجھے احساس ہے واقعی اک ذرا حد سے تجاوز ہے .اللہ اللہ! اب ایسا بھی کیا شکوہ؟ محترمہ! اک ذرا تحمل، اک ذرا ٹھہراؤ! 'اے خدا، تجھ کو تو خدا دیکھے'، سے بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ آپ خدائی معاملات میں دخل نہیں دینا چاہتی ہیں، تاہم لہجے کو کیا ہوا؟ کس کی نظر لگ گئی آپ کے شعری لہجے کو، شاید اسی خاکسار کی؟؟؟ مذہب کو ہر معاملے میں تو نہیں لانا چاہیے تاہم میرا خیال ہے، بطور ایک مسلم، اک ذرا حد سے تجاوز ہے! تاہم، بہرصورت شاید شعر کے اصل مفہوم تک میری رسائی نہ ہوئی ہو! ویسے چونکانے میں تو آپ خاصی حد تک کامیاب رہی ہیں! میں تو یوں بھی خوش گمانی زیادہ ہی رکھتا ہوں، سلامت رہیں!
اور ہاں، یہ لکھنا تو بھول گیا، پہلا شعر تو بہت زبردست ہے!
یہ ترے ہی قلم کی جنبش ہے
درد جو حد سے بھی سوا دیکھے
میرے خیال سے تو ایسا نہیں ..قطعہ کے پہلے مصرعہ میں قافیے کی پابندی کچھ ایسی ضروری نہیں...لیکن حتمی طور پر کچھ کیہ نہیں سکتی .یہ میں نے اس لیے کہا کہ مجھے لگتا ہے قطعے کا پہلا دوسرا اور آخری مصرع ہم فاقیہ ہونے چاہیئیں۔۔۔
قطعہ ایک موضوع پر لکھے چند اشعار ہوتے جس میں مطلع کی قید نہیں ہوتی۔ ہاں رباعی کا پہلا ، تیسرا اور چوتھا یا چاروں مصرعے ہم قافیہ ہونے چاہئیں۔یہ میں نے اس لیے کہا کہ مجھے لگتا ہے قطعے کا پہلا دوسرا اور آخری مصرع ہم فاقیہ ہونے چاہیئیں۔۔۔
قطعہ ایک موضوع پر لکھے چند اشعار ہوتے جس میں مطلع کی قید نہیں ہوتی۔ رباعی کا پہلا ، تیسرا ، چوتھا یا چاروں مصرعے ہم قافیہ ہونے چاہئیں۔
مثال
غالب کا ایک قطعہ
منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے
سو پشت سے ہے پیشہ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے
غالباََ اچھا ہی ہوا ۔۔۔ اب آپ منیر نیازی کی نظم سے لطف اندوز ہوں، "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں"۔لگتا ہے کہ میرے پہنچنے سے پہلے قطعہ منقطع ہو چکا ہے.