قفسِ رنگ سے نکلےتو کدھر جائیں گے
ہم پریشانِ نظر اور بکھر جائیں گے
٭
شعلہء وقت سے ہر شمع کو ملتی ہے چمک
محفلِ دل کے مقدر بھی سنور جائیں گے
٭
کہیں ملتا ہی نہیں بحرِ جنوں کا ساحل
صورتِ موجِ بلا خیز گذر جائیں گے
٭
وحشتیں خاک بسر دل کے بیابانوں میں
آج کچھ اپنی سی دیوانے بھی کر جائیں گے
٭
آبلہ پائی کوئی پاؤں کی زنجیر نہیں
وادیء خار میں بے خوف اتر جائیں گے
٭
ظلمتِ خواب میں بھٹکے ہوئے راہی آخر
منزلِ نور کے سینے میں اتر جائیں گے
٭
چھیڑ کر دیکھ کبھی ساز ِ تمنائے بہار
دامنِ گوش گلِ نغمہ سے بھر جائیں گے
٭
بے حجاب آئے جو ہم دشت میں چاند اترے گا
خلوتِ یار کے آئینے نکھر جائیں گے
٭
سینہء سنگ کی بے نور فضاؤں میں غزل
مشعلِ شوق سے ہم لے کے شرر جائیں گے
٭
سیدہ سارا غزل ہاشمی