سید شہزاد ناصر
محفلین
جس دن گلی سے اس کی پکار سنائی دیتی ” بھانڈے قلعی کرالو ” تو ہم چھوٹا پارٹی کی دوڑ باہر کو لگ جاتی ۔ وہ سائیکل پر اپنی ورکشاپ لیئے گاوں کے وسط میں چوراہے پر پہنچ کر کسی دیوار کے سائے میں تھوڑی سی جگہ صاف کر کے آگ جلانے کے لیئے گڑھا کھودتا اور چمڑے کی دھونکنی فٹ کر کے آگ جلا لیتا ۔ جتنی دیر میں اس کی ورکشاپ جمتی اتنی دیر میں گاوں کی عورتیں اپنے پیتل اور تانبے کے چبے ،کالک بھرے برتن لے کر اس کی پاس پہنچ جاتین اور بھاو تاو شروع ھوتا ۔ قلعی گر برتنوں کو قلعی کرنے کا معاوضہ کسی بھی شکل میں قبول کر لیتا ۔ عوضانے میں روپے پیسے ، کوئی پرانا برتن تول کر ، جنس یعنی گندم ، چنا جوار یا پھر اگلے دورے تک ادھار بھی چل جاتا تھا ۔ ہم بچوں کے لیئے وہ تماشا کسی سائنسدان اور اس کی لیبارٹری سے سے کم نہ تھا ۔
جب سے ہمارے ہاں گاوں دیہاتوں میں سٹین لیس سٹیل کا استعمال شروع ھوا ھے اور نانیوں دادیوں کے جہیز والے پیتل والے برتن بھی نئی نسل کے ہاتھوں بک کر انٹیک شاپس پر پہنچے ہیں تو قلعی گر بھی غائب ھو گیا ھے ۔ لیکن میرے حافظے کے کسی خانے میں بسی قلعی گر کے چولہے سے امونیا کی پھوٹتی مہک اور دھونکنی کے دھونکنے سے پیدا ھونے والی آگ کے شعلوں سے دہکتے لال سرخ انگاروں کی لپک ابھی تک بسی ہوئی ھے ۔قلعی گر کے ہاں پہلے چمڑے کی دھونکنی استعمال ہوتی تھی بعد میں ہاتھ سے چلنے والے پمپ نے اس کی جگہ لے لی ۔ قلعی گر پرانے برتن کو زنبور سے پکڑ کر آگ کی بھٹی پر رکھتا اور شعلوں کو ہوا دیتا حتی کہ برتن حدت سے تپ کر لال سرخ ہو جاتا ۔ اس کے بعد اس پر نوشادر پاوڈر (امونیم کلورئیڈ ) کا چھڑکاو کرتا جس سے وہی مہک پیدا ہوتی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ھے اور کپڑے کی دھجی سے برتن کی میل کچیل صاف کر کے اسے صاف کر دیا جاتا۔ اس کے بعد ٹن کی پتی اس برتن پر پھیری جاتی جو فورا پگھل جاتی اور قلعی گر ایک روئی بھرے کپڑے سے جیسا نانبائی استعمال کرتے ہیں اس پگھلے ٹن کو برتن کی سطح پر مہارت سے پھیلا دیتا ۔ اس کے بعد اس برتن کو پانی سے بھرے ٹب میں ڈبو دیا جاتا ۔ جب برتن پانی سے باہر نکلتا تو اس کی چمک سورج کی روشنی میں آنکھوں کو خیرہ کرتی ۔
یہ وہ گذرا زمانہ تھا جب عورتیں اپنے جہیز کے برتنوں سے اس لیئے محبت کرتی تھیں کہ ہر برتن سے کوئی نہ کوئی ایک یاد وابستہ ہوتی تھی ۔ مثلا میری والدہ مرحومہ جب جمعرات کی نیاز مولوی صاحب کو بھجوانے کے لیئے مجھے پڑچھتی سے منقش ٹرے اتارنے کا کہتیں تو کھانا ڈالتے ہوئے ان کی یادوں کی بارات بھی آ موجود ہوتی ۔ ” یہ برتن تمہارا نانا جب امبر سر ( امرتسر ) گیا تھا تو وہاں سے بازار سے خصوصی آرڈر دے کر اس پر اپنی پسند کے نقش گودوا کر لایا تھا ۔
ایک قلعی گر پرانے برتنوں کو نئی چمک دیتے ہوئے
اس وقت میں بہت چھوٹی عمر کی تھی بس تمہارے جتنی ۔ تمہاری نانی نے اسے میری شادی تک سنبھال کر رکھا تھا حالانکہ فلاں رشتے دار عورت نے مانگا بھی تھی لیکن تمہاری نانی نے کہا کہ بچی کے لیئے اس کا ابا بڑی چاہت سے ہمارے پرانے شہر امبر سر سے اس کے جہیز کے لیئے لایا ھے کیسے دے دوں ؟۔۔۔۔۔۔۔ ” ۔(ہمارے ننھیال نے امرتسر کے قریب ایک گاوں سے ہجرت کی تھی)
کبھی کسی پیتل کے گلاس میں ہماری کسی بے احتیاطی سے چب پڑ جاتا تو وہ پھر اس کی تاریخ بیا ن کرنا شروع کر دیتیں کہ ابا بہشتی جب لاہور گیا تھا تو فلاں بازار سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان کی اس تاریخ بیانی سے ہمیشہ الجھن ہوتی ۔ ہم بھائی بہن نئے زمانے کے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ بھلا ایک معمولی گلاس یا ٹرے بندے کی آنکھوں میں یاد کے اتنے دیپ کیسے روشن کر سکتا ھے اماں بھی بس نا ۔ ہم تو اس مصرعے کے قائل تھے ۔اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا ۔ البتہ اماں اپنے جہیز کے کسی بھی برتن کو اپنے سے جدا نہیں کرتی تھیں ۔ اگر اس میں سوراخ ہو گیا ھے تو ٹانکا لگوا کر پھر سے اسے قابل استعمال بنا لیا جاتا اور قلعی کروانا تو ہر سال چھے مہینے کی روایت تھی ۔ برتن ٹوٹ کر ناقابل استعمال ہو جاتا تو وہ صندوق میں پہنچ جاتا ۔
اب اس زمانے کے برتنوں کا ذکر چل نکلا ھے تو اس بارے بھی کچھ بیان ہو جائے کہ اس زمانے کے برتن ہمارے جیسے شہری بابووں کے نہیں بنے تھے بلکہ گاوں کے گھبرو جوانوں کی تواضع کے لیئے تھے ۔ پیتل کے ایک گلاس کی لمبائی بلا مبالغہ ہماری کہنی تک ہوتی تھی اور میرے جیسے کی ایک گلاس لسی یا دودھ سے ہی سیری ہو جاتی تھی ۔ دیہاتی لوگ زمینوں پر سخت محنت کرتے تھے تو اسی حساب سے کھاتے پیتے تھے ۔ پانی پینے کے لیئے البتہ گلاس کی بجائے بڑا کٹورہ پسند کرتے تھے جس میں گلاس کی بہ نسبت کافی زیادہ پانی آ جاتا جسے وہ جی بھر کے بغیر رکے غٹا غٹ پی جاتے کیونکہ گرمی کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پسینہ خارج ہوتا تھا تو پانی کی طلب بھی اس لحاظ سے زیادہ ہوتی تھی ۔
چلتے چلتے ہمارے گاوں کے ایک دیہاتی کی سادہ لوحی کا ایک واقعہ بھی سُن لیں ۔
ہمارے ننھیال کے گاوں کا سقہ شفیع بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا ۔ اس کی والدہ نے اسے پالا تھا اور لڑکپن میں ہی اس نے مشک سنبھال لی تھی ۔ گھر گھر پینے کا پانی پہنچاتا تھا جس کے عوض فصل اترنے پر اسے اجناس کی صورت میں گذارے لائق معاوضہ مل جاتا تھا ۔ شفیع قدرے کم رُو اور تھوڑا بھولا بھالا بھی تھا ۔ جب اسے کسی بات کے اثبات میں ہاں کہنا ہوتا تو وہ اپنا بڑا سا سر اوپر نیچے ہلانے کے علاوہ پنجابی میں ” ہا ” کی گرجدار آوز بھی نکالتا تھا ۔ اس کی والدہ پریشان رہتی تھی کہ ایسے گنوار کو کون اپنی لڑکی دے گا ۔ خیر ایک قریبی گاوں میں رشتے کی بات چلی تو والدہ شفیع کو بھی ساتھ لے کر گئی اور رستے میں سمجھا دیا کہ گنواروں کی طرح ہر بات کے جواب مین “ہا ” مت کہنا ۔ مہذب افراد کی طرح ” ہاں جی ” کہنا ۔ شفیع نے یہ بات پلے باندھ لی ۔ جب لڑکی والوں کے ہاں پہنچے تو انہوں نے پہنچنے پر حسب روایت میٹھی لسی پیش کی ۔ شفیع کی خدمت میں اسی مذکورہ بالا پیتل کے جناتی گلاس میں لسی پیش کی گئی تو اس نے پی لی ۔ میزبان خاتون نے پوچھا ” شفیع اور لسی پیو گے ؟ ” ۔ ہاں جی شفیع نے رٹا رٹایا جواب دیا ۔ دوسرا گلاس شفیع نے پیا تو اس کا پیٹ پورابھر گیا اور مزید گنجائش نہ رہی۔ میزبان نے پھر مزید لسی کا پوچھا تو شفیع نے پھر حسب تربیت “ہاں جی ” میں جواب دیا ۔ جب چوتھے گلاس کے بعد بھی شفیع کا جواب ہاں جی صورت میں ملا تو میزبان خاتون شفیع کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات دیکھ کر معاملے کو بھانپ گئی اور ہنستے ہوئے کہنے لگی ” بس کر مر جاویں گا ہاں جی دا بچہ ” ۔ خیر شفیع کی شادی تو ہو گئی لیکن اس کے بعد اس کی چھیڑ یہی بن گئی ۔ گلی سے گذرتے ہوئے پانی بھری مشک پیٹھ پر لادے جب شفیع گذرتا تو لڑکیاں کہتیں ” شفیع اور لسی پیو گے ؟ ” تو شفیع بھی مسکراتے کہتا ” ہاں جی ” ۔
جب نئے زمانے کے شیشے اور سٹیل کے برتنوں کا چلن ھوا تو امی کے جہیز کے برتن بھی پڑچھتی سے اتر کر صندوقوں میں پہنچ گئے ۔ جس میں ہر اس شے کو سنبھال کر رکھا ہوا تھا جسے دیکھتے ہی امی پر ماضی کی یادوں کا حملہ ہو جاتا تھا ۔ جب کبھی کبھار امی اس صندوق کو کھولتیں تو مجھے بھی پرانے اشیاء کے حوالے سے اپنی گذشتہ زندگی کے اوراق الٹتے یادوں میں شریک کرتیں ۔ ” یہ دیکھو اس رومال میں تمہارے سر کے وہ بال بندھے ہیں جب بچپن میں نائی نے پہلی دفعہ تمہارے بال استرے سے اتارے تھے ۔ اس پوٹلی میں تمہارے پوتڑے ہیں ” ۔ پوتڑے ؟ لاحول ولا قوۃ کیا میں کبھی پوتڑے بھی استعمال کرتا تھا ؟ یہ دیکھو تمہاری ائر فورس کے زمانے کی پیک کیپ پر لگنے والا ربن بینڈ ۔ اماں کا صندوق ان کا وہ جام جم تھا جس میں جھانک کر وہ اپنی گذشتہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں وقت بسر کرتی تھیں ۔ اپنے والدین ، بچوں اور بہن بھائیوں کی گذشتہ محبتیں خوشبو بن کر ان کا حصار کیئے رکھتی تھیں ۔
مجھے اپنی نسل اور اُن کی نسل کے درمیان فرق کا شدید احساس چند سال قبل ہوا جب میری بیوہ بہن سے ملنے میرے ننہھیال والے سب مل کر ہر محرم کے مہینے ملنے کے لیئے رسم کے مطابق گاوں سے شہر آتے رہے ہیں اور ابھی آتے رہیں گے۔ اس مصروف دور میں وقت نکال کر ، سفر کر کے ان روایتوں کو نبھانا اور ایک دوسرے سے خلوص کے ساتھ جڑے رہنا اسی نسل کا حوصلہ تھا ۔ ان کا اندر اتنا شفاف تھا کہ انہیں کسی قلعی گر سے اپنی ذات پر جھوٹا ملمع چڑھانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ جیسے اندر سے تھے ویسے ہی باہر سے تھے صاف اور شفاف ، صابر اور حوصلہ مند ۔
کاش کوئی ایسا قلعی گر کہیں سے مل جائے جو اپنی تربیت کی بھٹی میں تپا کر میری ذات پر جمع شدہ پرانے ملمع کو اتار کر پھر سے نیا کر دے۔ میرے اصل کو مجھ سے ملا دے ، لیکن میں نئے زمانے کا ایک آزاد فرد ہوں میں نے اپنے وقت کا سودا محبت کی بجائے ایسی قیمتی اشیاء کے عوض کر لیا ھے جنہیں دیکھ کر کسی سچی محبت کی لہر اور یاد دل سے نہیں گذرتی اور میں ان اشیاء میں دفن ہوتا جا رہا ہوں ۔
ربط
http://www.riazshahid.com/2015/01/10/قلعی-گر/
جب سے ہمارے ہاں گاوں دیہاتوں میں سٹین لیس سٹیل کا استعمال شروع ھوا ھے اور نانیوں دادیوں کے جہیز والے پیتل والے برتن بھی نئی نسل کے ہاتھوں بک کر انٹیک شاپس پر پہنچے ہیں تو قلعی گر بھی غائب ھو گیا ھے ۔ لیکن میرے حافظے کے کسی خانے میں بسی قلعی گر کے چولہے سے امونیا کی پھوٹتی مہک اور دھونکنی کے دھونکنے سے پیدا ھونے والی آگ کے شعلوں سے دہکتے لال سرخ انگاروں کی لپک ابھی تک بسی ہوئی ھے ۔قلعی گر کے ہاں پہلے چمڑے کی دھونکنی استعمال ہوتی تھی بعد میں ہاتھ سے چلنے والے پمپ نے اس کی جگہ لے لی ۔ قلعی گر پرانے برتن کو زنبور سے پکڑ کر آگ کی بھٹی پر رکھتا اور شعلوں کو ہوا دیتا حتی کہ برتن حدت سے تپ کر لال سرخ ہو جاتا ۔ اس کے بعد اس پر نوشادر پاوڈر (امونیم کلورئیڈ ) کا چھڑکاو کرتا جس سے وہی مہک پیدا ہوتی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ھے اور کپڑے کی دھجی سے برتن کی میل کچیل صاف کر کے اسے صاف کر دیا جاتا۔ اس کے بعد ٹن کی پتی اس برتن پر پھیری جاتی جو فورا پگھل جاتی اور قلعی گر ایک روئی بھرے کپڑے سے جیسا نانبائی استعمال کرتے ہیں اس پگھلے ٹن کو برتن کی سطح پر مہارت سے پھیلا دیتا ۔ اس کے بعد اس برتن کو پانی سے بھرے ٹب میں ڈبو دیا جاتا ۔ جب برتن پانی سے باہر نکلتا تو اس کی چمک سورج کی روشنی میں آنکھوں کو خیرہ کرتی ۔
یہ وہ گذرا زمانہ تھا جب عورتیں اپنے جہیز کے برتنوں سے اس لیئے محبت کرتی تھیں کہ ہر برتن سے کوئی نہ کوئی ایک یاد وابستہ ہوتی تھی ۔ مثلا میری والدہ مرحومہ جب جمعرات کی نیاز مولوی صاحب کو بھجوانے کے لیئے مجھے پڑچھتی سے منقش ٹرے اتارنے کا کہتیں تو کھانا ڈالتے ہوئے ان کی یادوں کی بارات بھی آ موجود ہوتی ۔ ” یہ برتن تمہارا نانا جب امبر سر ( امرتسر ) گیا تھا تو وہاں سے بازار سے خصوصی آرڈر دے کر اس پر اپنی پسند کے نقش گودوا کر لایا تھا ۔
ایک قلعی گر پرانے برتنوں کو نئی چمک دیتے ہوئے
اس وقت میں بہت چھوٹی عمر کی تھی بس تمہارے جتنی ۔ تمہاری نانی نے اسے میری شادی تک سنبھال کر رکھا تھا حالانکہ فلاں رشتے دار عورت نے مانگا بھی تھی لیکن تمہاری نانی نے کہا کہ بچی کے لیئے اس کا ابا بڑی چاہت سے ہمارے پرانے شہر امبر سر سے اس کے جہیز کے لیئے لایا ھے کیسے دے دوں ؟۔۔۔۔۔۔۔ ” ۔(ہمارے ننھیال نے امرتسر کے قریب ایک گاوں سے ہجرت کی تھی)
کبھی کسی پیتل کے گلاس میں ہماری کسی بے احتیاطی سے چب پڑ جاتا تو وہ پھر اس کی تاریخ بیا ن کرنا شروع کر دیتیں کہ ابا بہشتی جب لاہور گیا تھا تو فلاں بازار سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ان کی اس تاریخ بیانی سے ہمیشہ الجھن ہوتی ۔ ہم بھائی بہن نئے زمانے کے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ بھلا ایک معمولی گلاس یا ٹرے بندے کی آنکھوں میں یاد کے اتنے دیپ کیسے روشن کر سکتا ھے اماں بھی بس نا ۔ ہم تو اس مصرعے کے قائل تھے ۔اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا ۔ البتہ اماں اپنے جہیز کے کسی بھی برتن کو اپنے سے جدا نہیں کرتی تھیں ۔ اگر اس میں سوراخ ہو گیا ھے تو ٹانکا لگوا کر پھر سے اسے قابل استعمال بنا لیا جاتا اور قلعی کروانا تو ہر سال چھے مہینے کی روایت تھی ۔ برتن ٹوٹ کر ناقابل استعمال ہو جاتا تو وہ صندوق میں پہنچ جاتا ۔
اب اس زمانے کے برتنوں کا ذکر چل نکلا ھے تو اس بارے بھی کچھ بیان ہو جائے کہ اس زمانے کے برتن ہمارے جیسے شہری بابووں کے نہیں بنے تھے بلکہ گاوں کے گھبرو جوانوں کی تواضع کے لیئے تھے ۔ پیتل کے ایک گلاس کی لمبائی بلا مبالغہ ہماری کہنی تک ہوتی تھی اور میرے جیسے کی ایک گلاس لسی یا دودھ سے ہی سیری ہو جاتی تھی ۔ دیہاتی لوگ زمینوں پر سخت محنت کرتے تھے تو اسی حساب سے کھاتے پیتے تھے ۔ پانی پینے کے لیئے البتہ گلاس کی بجائے بڑا کٹورہ پسند کرتے تھے جس میں گلاس کی بہ نسبت کافی زیادہ پانی آ جاتا جسے وہ جی بھر کے بغیر رکے غٹا غٹ پی جاتے کیونکہ گرمی کی وجہ سے جسم سے بہت زیادہ پسینہ خارج ہوتا تھا تو پانی کی طلب بھی اس لحاظ سے زیادہ ہوتی تھی ۔
چلتے چلتے ہمارے گاوں کے ایک دیہاتی کی سادہ لوحی کا ایک واقعہ بھی سُن لیں ۔
ہمارے ننھیال کے گاوں کا سقہ شفیع بچپن میں ہی یتیم ہو گیا تھا ۔ اس کی والدہ نے اسے پالا تھا اور لڑکپن میں ہی اس نے مشک سنبھال لی تھی ۔ گھر گھر پینے کا پانی پہنچاتا تھا جس کے عوض فصل اترنے پر اسے اجناس کی صورت میں گذارے لائق معاوضہ مل جاتا تھا ۔ شفیع قدرے کم رُو اور تھوڑا بھولا بھالا بھی تھا ۔ جب اسے کسی بات کے اثبات میں ہاں کہنا ہوتا تو وہ اپنا بڑا سا سر اوپر نیچے ہلانے کے علاوہ پنجابی میں ” ہا ” کی گرجدار آوز بھی نکالتا تھا ۔ اس کی والدہ پریشان رہتی تھی کہ ایسے گنوار کو کون اپنی لڑکی دے گا ۔ خیر ایک قریبی گاوں میں رشتے کی بات چلی تو والدہ شفیع کو بھی ساتھ لے کر گئی اور رستے میں سمجھا دیا کہ گنواروں کی طرح ہر بات کے جواب مین “ہا ” مت کہنا ۔ مہذب افراد کی طرح ” ہاں جی ” کہنا ۔ شفیع نے یہ بات پلے باندھ لی ۔ جب لڑکی والوں کے ہاں پہنچے تو انہوں نے پہنچنے پر حسب روایت میٹھی لسی پیش کی ۔ شفیع کی خدمت میں اسی مذکورہ بالا پیتل کے جناتی گلاس میں لسی پیش کی گئی تو اس نے پی لی ۔ میزبان خاتون نے پوچھا ” شفیع اور لسی پیو گے ؟ ” ۔ ہاں جی شفیع نے رٹا رٹایا جواب دیا ۔ دوسرا گلاس شفیع نے پیا تو اس کا پیٹ پورابھر گیا اور مزید گنجائش نہ رہی۔ میزبان نے پھر مزید لسی کا پوچھا تو شفیع نے پھر حسب تربیت “ہاں جی ” میں جواب دیا ۔ جب چوتھے گلاس کے بعد بھی شفیع کا جواب ہاں جی صورت میں ملا تو میزبان خاتون شفیع کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات دیکھ کر معاملے کو بھانپ گئی اور ہنستے ہوئے کہنے لگی ” بس کر مر جاویں گا ہاں جی دا بچہ ” ۔ خیر شفیع کی شادی تو ہو گئی لیکن اس کے بعد اس کی چھیڑ یہی بن گئی ۔ گلی سے گذرتے ہوئے پانی بھری مشک پیٹھ پر لادے جب شفیع گذرتا تو لڑکیاں کہتیں ” شفیع اور لسی پیو گے ؟ ” تو شفیع بھی مسکراتے کہتا ” ہاں جی ” ۔
جب نئے زمانے کے شیشے اور سٹیل کے برتنوں کا چلن ھوا تو امی کے جہیز کے برتن بھی پڑچھتی سے اتر کر صندوقوں میں پہنچ گئے ۔ جس میں ہر اس شے کو سنبھال کر رکھا ہوا تھا جسے دیکھتے ہی امی پر ماضی کی یادوں کا حملہ ہو جاتا تھا ۔ جب کبھی کبھار امی اس صندوق کو کھولتیں تو مجھے بھی پرانے اشیاء کے حوالے سے اپنی گذشتہ زندگی کے اوراق الٹتے یادوں میں شریک کرتیں ۔ ” یہ دیکھو اس رومال میں تمہارے سر کے وہ بال بندھے ہیں جب بچپن میں نائی نے پہلی دفعہ تمہارے بال استرے سے اتارے تھے ۔ اس پوٹلی میں تمہارے پوتڑے ہیں ” ۔ پوتڑے ؟ لاحول ولا قوۃ کیا میں کبھی پوتڑے بھی استعمال کرتا تھا ؟ یہ دیکھو تمہاری ائر فورس کے زمانے کی پیک کیپ پر لگنے والا ربن بینڈ ۔ اماں کا صندوق ان کا وہ جام جم تھا جس میں جھانک کر وہ اپنی گذشتہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں وقت بسر کرتی تھیں ۔ اپنے والدین ، بچوں اور بہن بھائیوں کی گذشتہ محبتیں خوشبو بن کر ان کا حصار کیئے رکھتی تھیں ۔
مجھے اپنی نسل اور اُن کی نسل کے درمیان فرق کا شدید احساس چند سال قبل ہوا جب میری بیوہ بہن سے ملنے میرے ننہھیال والے سب مل کر ہر محرم کے مہینے ملنے کے لیئے رسم کے مطابق گاوں سے شہر آتے رہے ہیں اور ابھی آتے رہیں گے۔ اس مصروف دور میں وقت نکال کر ، سفر کر کے ان روایتوں کو نبھانا اور ایک دوسرے سے خلوص کے ساتھ جڑے رہنا اسی نسل کا حوصلہ تھا ۔ ان کا اندر اتنا شفاف تھا کہ انہیں کسی قلعی گر سے اپنی ذات پر جھوٹا ملمع چڑھانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ وہ جیسے اندر سے تھے ویسے ہی باہر سے تھے صاف اور شفاف ، صابر اور حوصلہ مند ۔
کاش کوئی ایسا قلعی گر کہیں سے مل جائے جو اپنی تربیت کی بھٹی میں تپا کر میری ذات پر جمع شدہ پرانے ملمع کو اتار کر پھر سے نیا کر دے۔ میرے اصل کو مجھ سے ملا دے ، لیکن میں نئے زمانے کا ایک آزاد فرد ہوں میں نے اپنے وقت کا سودا محبت کی بجائے ایسی قیمتی اشیاء کے عوض کر لیا ھے جنہیں دیکھ کر کسی سچی محبت کی لہر اور یاد دل سے نہیں گذرتی اور میں ان اشیاء میں دفن ہوتا جا رہا ہوں ۔
ربط
http://www.riazshahid.com/2015/01/10/قلعی-گر/