La Alma
لائبریرین
قلم
قلم کیا کیا نہیں جانتا، لوحِ محفوظ پر یہ چلا ، اس نے تقدیر رقم کی، وحی میں اس کا بیان ہوا. اس کی نوک پر صدیوں کے حال کندہ ہیں. ہزاروں داستانیں اس نے رقم کیں. کبھی غمِ دوراں لکھا تو کبھی غمِ جاناں، کبھی کسی دستِ مہربان نے اسے چھوا تو کبھی کسی سیاہ کار کے شر کا یہ گواہ بنا . کتنے ہی احساسات کو اس نے قلم بند کیا ، ہزار ہا خیالوں کو عبارت کیا. یہی غم گسار ، یہی غم خوار، یہی رازدار ٹھہرا.
یہ قلم ہی ہے جو انگلیوں کی پوروں سے سوچوں کے عنوان پڑھ لیتا ہے. ہاتھوں کی لرزش سے دل میں اٹھنے والے مد و جزر بھانپ جاتا ہے. ہر زخم کے ساتھ وہ بھی لہو اگلتا ہے، روشنائی بن کر ورق ورق پھیل جاتا ہے .یہ قلم ہی ہے جو لفظوں کی سلطنت کا بےتاج بادشاہ ہے . روزِ اول سے اس کی حکومت رہی ہے؛ حروف اس کے درباری، معنی و مفہوم اس کے غلام ، وہ بات اور اس کی تاثیر سے آگاہ ہے .
لہٰذا مجھے قلم بطور آلہِ اظہار نہیں چاہیے ، بصورت معاون اور مددگار چاہیے . بس یہ مجھے صدیوں کے اوراق میں سے کچھ لفظ کھنگال کر دے دے. کچھ ایسے لفظ جن کے اثر سے زمانوں کا رخ مڑ گیا ہو، تقدیریں بدل گئی ہوں ، قسمتیں سنور گئی ہوں. صرف چند لفظ ڈھونڈھ دے جو مجھے پوری طرح بیان کر دیں. مجھے صرف ایک جملہ لکھنا ہے، ایک ایسا جملہ جس کے بعد میں لفظوں کی محکومی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل آؤں.
آخری تدوین: