قلندر کی بات ( نئے اشعار اصلاح طلب)

علی معاھد

محفلین
(اہلیان ادب و قلم سے اصلاح کی گزارش ہے امید ہیکہ حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔)
شب گئے لوٹ گیا مجھ سے قلندر کہہ کر
لاکھ اقوال جو اک قول کے اندر کہہ کر

جو گیا موت سے ہر وہ بھی سکندر کیسا؟
دشت میں مر گیا یہ مجھ سے سکندر کہہ کر

یہ تو ممکن ہیکہ ہو سیپ کا قاتل قطرہ۔۔۔!
پر وہ چڑھ سکتا نہیں خود کو سمندر کہہ کر

جس میں ہو ایک خدا، قلب وہی مومن ہے۔
جس میں ہو غیر وہ دل توڑ دے مندر کہہ کر

ان سے تأویل کا فن سیکھا ہے یورپ نے جنہیں
مسخ کرڈالا خداوند نے بندر کہہ کر
 

الف عین

لائبریرین
اپنا تعارف و دیں!!
اچھے اشعار ہیں۔
شب گئے لوٹ گیا مجھ سے قلندر کہہ کر
لاکھ اقوال جو اک قول کے اندر کہہ کر
÷÷دوسرا مصرع واضح نہیں۔ پھر ’شب گئے لوٹ گیا‘ کی معنویت کا پتہ نہیں چلتا

جو گیا موت سے ہر وہ بھی سکندر کیسا؟
دشت میں مر گیا یہ مجھ سے سکندر کہہ کر
سمجھ نہیں سکا۔ شاید مراد ’گیا موت سے ہار‘ ہے۔
یہ تو ممکن ہیکہ ہو سیپ کا قاتل قطرہ۔۔۔!
پر وہ چڑھ سکتا نہیں خود کو سمندر کہہ کر
۔۔کہاں چڑھنے کیا بات ہے یہ؟

جس میں ہو ایک خدا، قلب وہی مومن ہے۔
جس میں ہو غیر وہ دل توڑ دے مندر کہہ کر
÷÷تخاطب کس سے ہے؟
 

علی معاھد

محفلین
شب گئے لوٹ گیا مجھ سے قلندر کہہ کر
لاکھ اقوال جو اک قول کے اندر کہہ کر
÷÷دوسرا مصرع واضح نہیں۔ پھر ’شب گئے لوٹ گیا‘ کی معنویت کا پتہ نہیں چلتا
دونو مصرعوں سے مراد یہ ہیکہ رات کو شاعر کی ایک قلندر سے(فرضی) ملاقات ہوئی اور مجھ سے اس نے ایک ایک بات ایسی کہی جو لاکھوں مضامین کو متضمن تھی،اور پھر وہ لوٹ یعنی واپس چلاگیا۔
’’لاکھ اقوال ۔۔۔‘‘سے ’’لوٹ گیا ‘‘ پر ہی عطف سمجھیں۔
جو گیا موت سے ہر وہ بھی سکندر کیسا؟
دشت میں مر گیا یہ مجھ سے سکندر کہہ کر
سمجھ نہیں سکا۔ شاید مراد ’گیا موت سے ہار‘ ہے۔
جی بالکل موت سے بازی ہارجانا مراد ہے۔ ضرورت شعر سے الف حذف کیا ہے۔ ویسے بھی آج کل لوگ اسے اکثر ایسے استعمال کرتے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے ا س کا شذوذ رفع ہوتا محسوس ہوتاہے ۔آگے جیسے آپ اصلاح فرمادیں۔
یہ تو ممکن ہیکہ ہو سیپ کا قاتل قطرہ۔۔۔!
پر وہ چڑھ سکتا نہیں خود کو سمندر کہہ کر
۔۔کہاں چڑھنے کیا بات ہے یہ؟
سمندر کا چڑھ جانا مراد ہے یعنی کناروں سے اوپر چڑھ جانا یعنی طوفان کا آجانا جو کہ صرف سمندر کی صفت ہے جو کہ قطرہ میں نہیں ہے۔
ان دونوں مصرعوں سے مراد یہ ہیکہ اکیلا آدمی اگرچہ باصلاحیت ہی کیوں نہ ہو مگر جوکام اجتماعیت سے ممکن ہے وہ انفرادیت سے ممکن نہیں۔
جس میں ہو ایک خدا، قلب وہی مومن ہے۔
جس میں ہو غیر وہ دل توڑ دے مندر کہہ کر
÷÷تخاطب کس سے ہے؟

تمام باتوں میں قلندر شاعر سے مخاطب ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
(اہلیان ادب و قلم سے اصلاح کی گزارش ہے امید ہیکہ حوصلہ افزائی فرمائیں گے۔)
شب گئے لوٹ گیا مجھ سے قلندر کہہ کر
لاکھ اقوال جو اک قول کے اندر کہہ کر

جو گیا موت سے ہر وہ بھی سکندر کیسا؟
دشت میں مر گیا یہ مجھ سے سکندر کہہ کر

یہ تو ممکن ہیکہ ہو سیپ کا قاتل قطرہ۔۔۔!
پر وہ چڑھ سکتا نہیں خود کو سمندر کہہ کر

جس میں ہو ایک خدا، قلب وہی مومن ہے۔
جس میں ہو غیر وہ دل توڑ دے مندر کہہ کر

ان سے تأویل کا فن سیکھا ہے یورپ نے جنہیں
مسخ کرڈالا خداوند نے بندر کہہ کر
بہت خوب بھائی ۔۔۔! عمدہ ! عمدہ ! عمدہ !
 
Top